c30d4387-46ec-42b9-8dff-d8ab7be9357c

اورکزئی: کانگو وائرس کی روک تھام کیلئے مہم شروع کر دی گئی

اورکزئی: ضلع بھر میں کانگو وائرس کے روک تھام کیلئے مہم شروع کر دی گئی ہے اورکزئی کے داخلی راستوں پر اور مال مویشی منڈیوں کے لیئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ عید الضحی تک مہم جاری رہے گی۔

اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر خالد یونس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر لائیوسٹاک ڈاکٹر عالمزیب خان کے خصوصی احکامات پر ضلع بھر میں کانگو وائرس سپرے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہمہ وقت عملے کے60 اہلکار اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

اورکزئی کے داخلی راستوں زیڑہ بویا، یخ کنڈاؤ اور شاہو چیک پوسٹوں پر ٹیمیں تعینات ہیں جو اورکزئی میں داخل ہونے والے مال مویشیوں پر کانگو سپرے کررہے ہیں اس کے ساتھ اورکزئی کے مختلف علاقوں کلایا مشتی میلہ فیروزخیل غلجو ڈبوری و دیگر علاقوں میں مال مویشی منڈیوں میں بھی کانگو وائرس سے بچاؤ کیلئے سپرے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نےکہا کہ اورکزئی لائیوسٹاک کے تمام عملے کو الرٹ کیا ہے عید الضحی تک یہ مہم جاری رہے گی۔

a67145b7-f174-48a5-98b1-764741806df4

بنوں میں دو روزہ کتاب میلے کا افتتاح

بنوں: بنوں میں دو روزہ بک میلہ کا افتتاح۔

ڈپٹی کمشنر بنوں منظور احمد آفریدی نے بنوں میں دو روزہ بک میلہ کا افتتاح کردیا، اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر بنوں سید ابرار علی شاہ بھی موجود تھے۔

ڈپٹی کمشنر بنوں نے کتابوں کے سٹالز کا معائنہ، اس موقع پر ڈپٹی کمشنر بنوں نے کہا کہ ہمیشہ تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور عصرحاضر میں بھی کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔

کتاب میلہ آج 6 جون کو مردوں کے لیئے جبکہ کل 7 جون خواتین کے لیئے سجے گاجہاں ادب، تعلیم، ناول، کہانیوں اور جنرل نالج کے متعلق 15 سے 50 فیصد خصوصی ڈسکاؤنٹس پر کتابیں دستیاب ہوں گی۔

یہ میلہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے ضلعی انتظامیہ بنوں کے تعاؤن سے لائبرئیری ہال نزد فضل قادر شہید پارک میں سجایا گیا ہے جسکا مقصد عوام میں کتابوں سے محبت اور اہمیت اجاگر کرنا ہے۔

AP

یہ کون لوگ ہیں؟

یہ کون لوگ ہیں؟
عقیل یوسفزئی

یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں بعض سیاسی اور جہادی قوتوں کی جانب سے برداشت پر مشتمل ماضی کی ہماری شاندار روایات کے برعکس عدم برداشت، تشدد اور بد زبانی پر مبنی رویوں کو فروغ دیا گیا اور آج حالت یہ ہوگئ ہے کوئی بھی دوسرے کی بات یا دلیل ماننے کو تیار نہیں ہے. اس پر ستم یہ کہ مختلف سیاسی قوتیں نئی نسل کو ریاست، سیاست اور مثبت سوچ سے متنفر کرکے منفی اور مزاحمتی راستہ دکھانے کی شعوری کوششیں کررہی ہیں.
پاکستان کے اس جنگ ذدہ خطے کو عالمی پراکسیز اور بدامنی کے علاوہ سماجی اور اقتصادی بدحالی کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے. اپر سے رہی سہی کسر ایک پڑوسی اسلامی ملک کے بعض قوم پرست حلقے پوری کررہے ہیں اور اس کی ایک نئی مثال ہم نے فرانس میں پاکستان کی ایک سابق عسکری شخصیت کے ساتھ ایک “شخص” کی عجیب و غریب گفتگو کی صورت میں دیکھ لی جس پر شدید تنقید اور ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے.
9 مئ کو پختون خوا میں ایک مخصوص پارٹی نے جس طریقے سے توڑ پھوڑ کرکے قومی تنصیبات کو نشانہ بنایا اس سے زیادہ بدترین مثال اس صوبے میں اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی مگر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ ان واقعات کی بھی کھل کر مذمت نہیں کررہے اور “اگر مگر” سے کام لے رہے ہیں. دوسری جانب کوشش کی جارہی ہے کہ تشدد پر مبنی سیاسی رویوں کا دفاع کیا جائے اور منفی پروپیگنڈا کے ذریعے نئی نسل کو نفرت کی راہ پر گامزن کیا جائے.
اس صوبے کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں 1947 میں آزادی کے حتمی مراحل کے دوران جب پورا برصغیر ہنگاموں اور لوٹ مار کی لپیٹ میں آگیا تو پشاور کے مسلم باسیوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے گھروں اور املاک کی چوکیداری کی. دہشتگردی کے ادوار میں بھی قومی شناخت کے حامل مراکز کو اس طریقے سے نشانہ نہیں بنایا گیا جس طرح 9 اور 10 مئ کے دوران نشانہ بنایا گیا.
جہاں تک ایک پڑوسی اسلامی ملک کے بعض سیاسی حلقوں کے اجتماعی رویہ کا تعلق ہے وہ کوئی نئی بات نہیں تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس بات کا یہ حلقے اب بھی اعتراف نہیں کرتے کہ سیاسی اور ریاستی تعلقات اور گلے شکوے سے قطع نظر اس ملک کے لوگوں پر جب بھی تکلیف آئی پاکستان نے نہ صرف ڈٹ کر تعاون کیا اور لاکھوں باشندوں کو پناہ دی بلکہ ان کے تقریباً ہر قابل ذکر لیڈر یا مشر کو پاکستان میں گھر بنانے اور کاروبار کرنے کی سہولیات بھی دیں.
افغانستان میں امریکی انخلاء اور نئی عبوری حکومت کے قیام کے بعد جس ایک ملک میں سب سے ذیادہ افغان آئے وہ پاکستان تھا. یو این او کی ایک رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 9 لاکھ افغان پاکستان منتقل ہوگئے ہیں. اس کے باوجود اگر عام افغانیوں کے مسائل سے بے خبر اور لاتعلق باہر بھیٹے بعض عناصر سیاسی منافرت میں پاکستان کے خلاف اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں تو اس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے.