1063aa2a-6e58-440b-923b-ffd11eab5098

بین الاقوامی وفد,گندھارا ہیریٹیج ایکسپرٹ ٹیم کا سوات کا دورہ

بریکوٹ: بین الاقوامی وفد اور گندھارا ہیریٹیج ایکسپرٹ ٹیم کا سوات کے مشہور تاریخی ایکیالوجیکل مقامات بازیرہ سائٹ، شنگردار سٹوپہ، غالیگے بدھا اور سوات میوزیم سیدو شریف کا دورہ۔
اس موقع پر ڈی سی سوات عرفان اللہ وزیر، ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈاپور، اے ڈی سی سوات سہیل خان اور اے سی بریکوٹ بھی ہمراہ موجود تھے۔
بین الاقوامی وفد کا ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی چیئر مین وزیر اعظم ٹاسک فورس آف گندھارا ٹوریزم کے سربراہی میں گندھارا ہیریٹیج ایکسپرٹ ٹیم نے سوات کے مشہور تاریخی ارکیالوجیکل مقامات بازیرہ سائٹ، شنگردار سٹوپہ، غالیگے بدھا اور سوات میوزیم سیدو شریف کا دورہ کیا اور سوات خاص طور پر ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اور میوزیم کے ماہرین آثار قدیمہ کی کوششوں کی تعریف کی ۔گندھار ا ہیریٹیچ ایکسپرٹ ٹیم نے سرزمین سوات کو حکمت اور روشن خیالی کی سرزمین قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ عالمی سطح پر تاریخ رقم کرے گا اور امن کا پیغام پھیلائے گا۔
ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈاپور نے بین الاقوامی وفد اور آرکیالوجیکل ایکسپرٹس کو روایتی سواتی شال اور ٹوپیاں بھی پیش کئیں۔ بین الاقوامی وفد اور گندھارا ہیریٹیج ایکسپرٹ ٹیم نے فل پروف سیکیورٹی اور دیگر انتظامات پر ڈی سی سوات اور ڈی پی او سوات کا شکریہ ادا کیا۔

57ee3e45-47a8-43f8-93af-e2b76308bebf

پشاور: سی پیک ،بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی دسویں سالگرہ  کی تقریب

پشاور میں قائم چینی ثقافتی مرکز چائنہ ونڈو میں سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی دسویں سالگرہ  کی تقریب منعقد۔

اس موقع پرمنعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان تھے۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے چائنہ ونڈو کی مختلف گیلریاں دیکھیں ، فرینڈ شپ وال پر دست خط کئے اور سی پیک کی دسویں سال گرہ کی مناسبت سے کیک کاٹا۔

483d97b2-e5fd-4fe5-9b8f-6516968e2092

لمپی سکن،کانگو وائرس سے بچاو کےاقدامات جاری

حولیاں: عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی خرید و فروخت اور آمد ورفت کے دوران بیماریوں کے پھیلاو کنٹرول کے لیے اقدامات لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ اور ٹی ایم اے حویلیاں کی ٹیمز نے منگل اور بدھ کے دوران حویلیاں مویشی منڈیوں میں جانوروں کا اسپرے مکمل کیا۔لمپی سکن اور کانگو وائرس (چیچڑ سے پھیلنے والی بیماری) سے بچاو کے لیے ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر محکمہ لائیو سٹاک ایبٹ آباد کی جانب سے اقدامات جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں عیدالاضحی کی آمد کے پیش نظر لمپی سکن اور کانگو وائرس کی روک تھام کے حوالے اقدامات جاری ہیں۔ منگل کے روز سجیکوٹ حویلیاں اور بدھ کے روز ایوب پل حویلیاں کو منعقدہ مویشی منڈیوں میں جانوروں کی بیماریوں لمپی سکن، کانگو وائرس کی روک تھام کے لیے لائیو سٹاک اور ٹی ایم اے حویلیاں کی ٹیمز باقاعدگی سے اسپرے کیا۔

شہریوں سے گزارش ہے کہ اپنے جانوروں کی صحت کو برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچاو کے لیے جانوروں کا اسپرےو ادویات کا استعمال یقینی بنائیں تا کہ جانوروں کی جان کی حفاظت اور انسانوں میں ان کی منتقلی کو روکا جائے۔

شناخت کا تصادم اور پاک افغان تعلقات

شناخت کا تصادم اور پاک افغان تعلقات
عقیل یوسفزئی

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بوجوہ کھبی کچھ زیادہ مثالی اور قابل تقلید نہیں رہے حالانکہ دونوں ممالک مختلف نوعیت کے مشترکہ مذہبی، لسانی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں.
1947 کو جب پاکستان آزاد ہوا تو جہاں ایک طرف افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے ایشو کی بنیاد پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی وہاں عین آزادی کی تیاری یا انتقال اقتدار کے دوران بعض قوم پرست حلقوں نے پختونستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تلخیوں میں مزید اضافے کا راستہ ہموار کردیا اور یہ تلخیاں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں.
ماہ جون کے اوائل میں فرانس کے ایک شہر میں ایک افغان شہری کے ہاتھوں پاکستان کے ایک سابق عسکری شخصیت کی ویڈیو بنانے اور بعد میں اس پر انتہائی نازیبا اوورلیپنگ کو بعض حلقوں نےپاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ایک بہت بڑا “کارنامہ” قرار دیا حالانکہ بلااجازت کسی کی ویڈیو بنانا اور اس پر غیراخلاقی الفاظ کے استعمال جیسی حرکت کو پشتون روایات تو ایک طرف کسی بھی معاشرے میں مناسب اور درست قرار نہیں دیا جاسکتا. اپر سے بیرون ملک بھیٹے مخصوص ذہنیت کے کی بورڈ واریررز نے مختلف خودساختہ دلائل کے ذریعے اس حرکت کا جس طریقے سے دفاع کیا وہ بھی بہت عجیب طرزِ عمل تھا.
اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان ہر دور میں نہ صرف پراکسیز کا مرکز رہا اور یہاں کھبی سیاسی استحکام نہیں رہا زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ مختلف ادوار میں جہاں پاکستان اس کے لاکھوں شہریوں کا مسکن رہا اور ہزاروں یہاں کاروبار کرتے رہے بلکہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی رہی کہ جب ناین الیون کے بعد افغانستان میں ایک جمہوری عمل اور سیاسی، معاشی استحکام، ترقی کا عمل شروع ہوا تب بھی پاکستان میں قیام پذیر تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں میں سے 20 برسوں کے طویل عرصے میں محض 4.3 فی صد لوگ اپنے ملک واپس چلے گئے حالانکہ واپس جانے والوں کے لئے خصوصی پیکجز کے اعلانات بھی کرائے گئے تھے.
اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں پاکستان کی افغان پالیسی کیسی رہی اور خود پاکستان کے اندر مختلف ادوار میں پاکستان کی پالیسیوں پر کتنی تنقید ہوتی رہی سچ بات تو یہ ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں اور بعض قوم پرست حلقوں نے کھبی پاکستان کو اپنا دوست نہیں سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلتا رہا کہ پاکستان اپنے اس پڑوسی ملک کے بارے میں غیر معمولی حساسیت کا شکار رہا.
حال ہی میں ناروے میں مقیم نامور پشتون سکالر، ریسرچر اور تجزیہ کار ڈاکٹر فرحت تاج نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر “شناخت کا تصادم یا ٹکراؤ” کے عنوان سے اپنی نوعیت کا ایک جامع تحقیقاتی مقالہ یا ریسرچ پیپر مکمل کیا ہے جس میں تاریخی حوالوں کے علاوہ معتبر حوالہ جات اور ڈیٹا کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کیسے ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے آئے ہیں اور پاکستان میں موجود کروڑوں پشتونوں کا موقف اور رویہ کیا رہا ہے.
ڈاکٹر فرحت تاج کے تفصیلی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جتنے بھی مسائل ہیں ان کی بنیاد شناخت کی ٹکراؤ کی تھیوری سے جڑی ہوئی ہے. ان کے مطابق پاکستان کی شناخت ایک اسلامی ریاست کی ہے جبکہ افغانستان کی شناخت نسلی اور لسانی بنیادوں پر قائم ہے جس میں پاکستان میں موجود کروڑوں پشتون باشندوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اس بنیادی اہمیت میں افغانستان کے ایک بادشاہ امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے درمیان ہونے والے ڈیورنڈ لائن معاہدے کی “آفٹر شاکس” ایک اہم فیکٹر رہی ہیں جس کو لیکر پاکستان کے قوم پرست، شاعر اور انٹیلی جنشیا پر مشتمل حلقےافغانستان کے اس موقف پر مختلف ادوار میں اس ایشو کو اٹھاتے رہے ہیں کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد نہیں مانتا اور پاکستان اسے ایک انٹر نیشنل بارڈر سمجھتا ہے.
ریسرچ کے مطابق مختلف ادوار میں افغانستان نے اس ایشو کو علاقائی فورمز پر اٹھانے کی کوشش کی مگر اس مسئلے کو کوئی موثر شنوائی نہیں ملی اگر چہ دوسروں کے علاوہ پاکستان کے حامی افغان طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر نہیں سمجھتے.
ریسرچ کے مطابق پاکستان مختلف مواقع پر اس لیے افغانستان کے اندر جھادی قوتوں کی حمایت کرتا رہا کہ کابل میں جو حکومت بیٹھی ہو پاکستان دوست ہو اور اس کوشش یا خواہش کو پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ بقول فرحت تاج ہندوستان کی تقسیم یا آزادی کے وقت پاکستان کے قیام کا مقدمہ ایک اسلامی ریاست کی تھیوری پر قائم تھا.
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مختلف ادوار میں جو کشیدگی اور بدامنی رہی اس کے پیچھے بھی ایسے ہی اسباب اور عوامل کارفرما تھے اور یہ سلسلہ اس ریجن میں پاکستان کے قیام سے پہلے بھی موجود تھا. یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قوم پرستوں کا طرزِ عمل عملی طور پر جذبات پر منحصر رہا ہے اور یہ کہ افغانستان کےقوم پرستوں کے مقابلے میں مدارس سے فارغ التحصیل “سٹوڈنٹس” زیادہ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں.مقالے میں انہوں نے پاکستان میں پشتونوں کی حیثیت کو بھی زیر بحث بنایا ہے جس کی پنچ لائن یہ ہے کہ پشتون نہ صرف پاکستان کا دوسرا بڑا لسانی گروپ ہے بلکہ ایک اہم اسٹیک ہولڈر بھی ہے.
ڈاکٹر فرحت تاج کی پروفایل، کام اور پورے خطے پر ان کی مہارت کو مدنظر رکھ کر ان کی اس تحقیقی مقالے اور اس میں موجود دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کے اس کام سے نہ صرف بہت سے درپیش مسائل کی بنیادوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ جاری کشیدگی کو کم کرنے کے امکانات بھی ڈھونڈے جاسکتے ہیں. اگر چہ جاری علاقائی کشیدگی میں عالمی اور علاقائی پراکسیز کا بھی بنیادی کردار ہے اس کے باوجود بعض تاریخی تلخیوں کو کم کرنے اور نام نہاد سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پر مبنی پروپیگنڈا کو کم کرنے کے امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں پڑوسی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور جنگ ذدہ مگر قدرتی وسائل سے مالا مال پشتون بیلٹ میں مستقل امن کو یقینی بنایا جائے.

Pervez Khattak

گھاگ سیاستدان

وصال محمد خان
گھاگ سیاستدان
پاکستان تحریک انصاف نے کل ملاکرخیبرپختونخوا میں 9سال اور5ماہ تک حکومت کی2013 ء انتخابات کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کوساتھ ملاکر پرویزخٹک جیسے”گھاگ اورتجربہ کارسیاستدان“ کی نگرانی میں حکومت قائم کی گئی پرویزخٹک جنہوں نے آج تک سیاست میں نہ ہی کوئی ہمالیہ سرکیاہے اورنہ ہی کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے ہیں بس جوڑتوڑکے ماہرسمجھے جاتے ہیں جوڑتوڑمیں بھی انکے کریڈٹ پرکوئی بڑی ڈیل موجودنہیں وہ آفتاب شیرپاؤکی ماتحتی میں کام کرچکے ہیں اورآفتاب شیرپاؤنے 1988ء میں آئی جے آئی کے درجن بھرارکان توڑکر اس وقت اپنی حکومت بچالی جب اے این پی نے وعدے پورے نہ ہونے پرصوبائی حکومت چھوڑدی تھی،دوسری مرتبہ1993ء میں آفتاب شیرپاؤنے بے نظیربھٹوکی وفاقی حکومت کے تعاون سے اے این پی اورن لیگ کے دوچار ارکان توڑکرپیرصابر شاہ کی حکومت کاخاتمہ کیاان دونوں واردات کے دوران پرویزخٹک پیپلزپارٹی کاحصہ اورآفتاب شیرپاؤکے ساتھی تھے انہوں نے اس جوڑ توڑمیں شائدہی کوئی کرداراداکیاہوکیونکہ اس وقت انکی سیاست نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے اوروزار ت حاصل کرنے تک محدودتھی 2002ء کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے نوشہرہ کی نظامت اعلیٰ حاصل کی اس دورران جب قاف لیگ اورجنرل مشرف کا سورج نصف النہارپرتھاانہوں نے پیپلزپارٹی کوچھوڑکرآفتاب شیرپاؤکیساتھ پینگیں بڑھالیں 2008ء کاالیکشن انہوں نے آفتاب شیرپاؤکے نشان پرلڑکرکامیابی حاصل کی اورآصف زرداری کوتعاون کی یقین دہانی کرواکرحیدرہوتی حکومت میں ایری گیشن کی وزارت حاصل کی اس وزارت میں انہیں نجانے کیاچارم نظرآ تاہے کہ انہوں نے محمودخان حکومت میں بھی اپنے بھائی لیاقت خٹک کیلئے یہی محکمہ منتخب کیا2011ء میں مینارپاکستان جلسہ کے بعدجب دنیاجہاں کے سیاسی خانہ بدوش تحریک انصاف کارخ کررہے تھے توپرویز خٹک نے بھی وزارت سے مستعفی ہوکرشمولیت اختیارکی اسلام آبادمیں شمولیت کے موقع پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے شدیداحتجاج کیایہاں تک کہ ان پرپتھراؤ بھی کیاگیامگرانہوں نے ڈھیٹ بنکرشمولیت اختیارکرلی۔ 2012ء میں تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن میں وہ صوبائی صدارت کے امیدواربنے اور اپنے وووٹرزکوچاردن تک پشاورکے ایک نجی ہوٹل میں ٹھہرایا تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن اسدقیصرکوصوبائی صدر دیکھناچاہتے تھے اس موقع پراعظم سواتی نے ان کاراستہ روکااوراپنی تجوریوں کے منہ کھول کراسدقیصرکیلئے ووٹ خریدے جس کے نتیجے میں اسدقیصرنے میدان مارلیا۔پرویزخٹک نے عمران خان کے سامنے احتجاج کیاجس پرانہیں مرکزی جنرل سیکرٹری نامزدکیاگیا۔2013ء انتخابات میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوامیں کامیابی حاصل کی تووزارت اعلیٰ کی ہماانکے سربیٹھ گئی انہوں نے اپنی حکومت کے دوران دوکام دل لگاکرانجام دئے اول تحریک انصاف کی قومی سیاست کیلئے خیبرپختونخواکاپیسہ پانی کی طرح بہایا126دن والے دھرنے کیلئے پٹرول،ڈیزل اورخوراک فراہم کرنے کابیڑاانہوں نے اٹھایااشیائے خوردنی اورتیل سے بھری گاڑیوں کی ویڈیوزسوشل میڈیاپروائرل ہوئیں۔ان کادوسراعظیم کارنامہ یہ ہے کہ اپنے خاندان کے دستیاب ہرخاص وعام کوایم پی اے،ایم این اے بنوایا انکے داماد اوربھانجے نوشہرہ سے قومی اسمبلی کے دومرتبہ رکن بنے،بھتیجے احدخٹک تحصیل ناظم نوشہرہ،بیٹے ابراہیم خٹک ممبرصوبائی اسمبلی،دوسرے صاحبزادے اسحاق خٹک تحصیل ناظم نوشہرہ،بھائی لیاقت خٹک کوپہلے ضلعی ناظم نوشہرہ اوربعدازاں ایم پی اے بنوایا،خاندان کی خواتین میں سے ایک بھتیجی کوایم پی اے اورزوجہ محترمہ،بھابی کی ہمشیرہ کوایم این اے بنوایاسوات اورلاہور والی شریک حیات کے بھتیجوں کوبالترتیب ڈی سی نوشہرہ تعینات کیااورچار،چارسال تک وہ اس اہم عہدے پرتعینات رہے موروثیت کے خلاف گلا پھاڑنے والے عمران خان کی ناک کے نیچے اقرباپروری کی بدترین مثالیں قائم ہوئیں بے جامداخلت سے محکمانہ کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ایک ڈی پی او نے واشگاف الفاظ میں انکی سیاسی مداخلت کے سبب چارج سنبھالنے سے معذ رت کرلی انکے دورِوزارت اعلیٰ میں سونا می ٹری،مالم جبہ،ہیلی کاپٹرکاغیرقانونی استعمال اوربی آرٹی میں کرپشن جیسے بڑے سکینڈلزسامنے آئے،نوشہرہ میں دریائے کابل کے پشتوں میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں اور رولزاینڈریگولیشنزکی سنگین خلاف ورزیاں پائی گئیں خیبربینک سکینڈل سامنے آیاجسے بھونڈے اندازمیں دبادیاگیا۔احتساب کمیشن کے قیام اورسٹرکچرمیکنگ پر30ارب روپے خرچ ہوئے مگراسے حکومتی ارکان پرہاتھ ڈالنے کے جرم میں سرے سے ختم ہی کردیاگیااور مرتب شدہ ریکارڈکوبھی تلف کردیاگیاانکے خلاف اگرصرف تین معاملات میں شفاف انکوائری ہو یعنی نوشہرہ دریائے کابل کے پشتوں (تخمینہ لاگت 36ارب روپے)احتساب کمیشن(30ارب روپے) اوربی آرٹی (تخمینہ لاگت نامعلوم کیونکہ اسکے حوالے سے 58ارب،70ارب اورکبھی 100ارب کی باتیں سامنے آرہی ہیں)توچشم کشاحقائق سے پردہ اٹھنے کی قوی توقع ہے۔انکی وزارت اعلیٰ کے دران سینیٹ الیکشن میں 22 ارکان سلپ ہوئے جن میں سے چارنے الزام لگایاکہ انہیں سی ایم نے رقم وصول کرنے کوکہا انہیں 22دن بعدیادآیاہے کہ 9مئی کوتحریک انصاف کی طرف سے قابل مذمت کرداراداکیاگیا نجانے اتنے دن یہ کہاں مراقبہ فرمارہے تھے اورپھرانہوں نے صرف عہدہ چھوڑاہے اسدقیصرجوپارٹی میں انکے حلیف تصورکئے جاتے ہیں وہ بھی اس موقع پرمہربا لب تشریف فرما تھے انکی سیاست بندگلی سے دوچار ہوچکی ہے۔وہ کہاں  جائیں، کیاکریں اورگومگوکی کیفیت میں مبتلاہیں اگرانکے قائدجیل جاتے ہیں یانا اہل ہوتے ہیں توانہیں ڈرائیونگ سیٹ اوراہم پوزیشن مل سکتی ہے مگرکسی اورجماعت میں انہیں مختار کل والی پوزیشن ملنامشکل ہے کچھ تجزیہ کارانہیں پیپلزپارٹی کی جانب پلٹتا ہوادیکھ رہے ہیں انکی سیاست موقع پرستی سے عبارت ہے اگرموقع پرست کوگھاگ سیاستدان کہتے ہیں تویقیناًوہ گھاگ سیاستدان ہیں۔انکی طرزِسیاست اورحکومت نے ساڑھے نوسال میں صوبے کی معیشت،معاشرت،سیاست اورطرزِ حکومت پربدنما نقوش چھوڑے ہیں جس کے سبب 2013ء میں صرف سوارب روپے کاقرضدارصوبہ اب تقریباًایک ہزارارب روپے کاقرضدارہوچکا ہے اب وہ کبھی جہانگیرترین سے خفیہ رابطے کررہے ہیں توکبھی قوم پرستی کالبادہ اوڑھنے کی خبریں آرہی ہیں درحقیقت گھاگ سیاستدان اِن ٹربل ہیں اورنئے سیاسی ٹھکانے کی تلاش میں ہیں