وصال محمدخان
سانحہ 9 مئی اور ملٹری کورٹ
دنیاکے وہ ممالک اوراقوام تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جن کے ہاں شہریوں کو انصاف میسرہو اوریہ ہرخاص وعام کی دسترس میں ہو۔بدقسمتی سے وطن عزیزمیں صورتحال اسکے برعکس ہے بھلاہوتاج ِبرطانیہ کاجس نے برصغیرکوانصاف کاایک سسٹم دیامگرہم نے اپنی نااہلی سے اس کاحلیہ بگاڑکررکھ دیایہی سسٹم برطانیہ اوردنیاکے کئی دیگرممالک میں بخوبی ڈیلیورکررہاہے ان ممالک میں انصاف کابول بالاہے اور انصاف ہرشہری کے دسترس میں بھی ہے ایک ہی نظام ایک ہی وقت میں متضادنتائج دے رہاہے جس سے یہی ظاہرہورہا ہے کہ دیگرممالک میں سسٹم کوچلانے والے افراد اپنے فرائض بااحسن نبھا رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگ یاتوسسٹم چلانے سے قاصرہیں یا پھریہ مصلحتوں کاشکارہوجاتے ہیں دیگرشعبوں میں ہماری ناقص کارکردگی کے پیش نظربلاترددکہاجاسکتاہے کہ یہ شعبہ بھی ہم نے تباہی سے دوچارکردیاہے اگرہم اسے حکومتوں کی کوتاہی قراردیں تویہ بھی خاصی حدتک درست ہے مگراس خرابی کااغلب دارومدارعدلیہ سے متعلق افرا د پرہے یہاں ججز سیاست میں ملوث ہوجاتے ہیں، فیورٹ ازم کاشکارہوجاتے ہیں،انکی فیملیزسیاستدانوں کے فینزبن جاتی ہیں اوروہ دباؤیالالچ میں آ کر فیصلے صادرکردیتے ہیں جس شخص نے بھی یہ نظام قریب سے دیکھاہے یااسکے متاثرین میں شامل ہے وہ بخوبی بتاسکتاہے کہ ہم تنزلی کی آخری حدودکوکیوں چھورہے ہیں اورہماری عدلیہ دنیامیں آخری نمبروں پرکیوں ہیں؟اس ملک وقوم کی بدقسمتی ہے کہ عدلیہ سے متعلق افراد نظام انصاف کودرست خطوط پراستوارکرنے کی بجائے سیاست میں ملوث ہوچکے ہیں،ملک میں کچھ سیاسی راہنما فیورٹ ازم انجوائے کر رہے ہیں جبکہ کچھ راہنماخوامخواہ کی عداوت بھگت رہے ہیں ماضی قریب میں جسٹس ثاقب نثاراورجسٹس افتخارچوہدری نے اپنے مقام و مرتبے کاواضح طورپردرست استعمال نہیں کیا انکے کچھ فیصلے توملک کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں افتخارچوہدری کی جانب سے ریکوڈک منصوبے کے خلاف حکم جاری کرنے سے نہ صرف دنیامیں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ سرمایہ کاروں کااعتمادبھی مجروح ہوااورملک پرچھ ارب ڈالرزکاجرمانہ الگ ہوا،اسی طرح جسٹس ثاقب نثارنے نوازشریف کے خلاف پانامہ کیس میں اسقدرکمزوربنیادپر فیصلہ دیاجس کادفاع دنیاکے کسی بھی ماہرقانون کیلئے ممکن نہیں مضحکہ خیزطورپر عدالت میں ٹرالیاں بھربھرکرفائلیں، کاغذات اورصندوق لاکرقارون کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں پرلادنے کاریکارڈتوڑنے کی کوشش کی گئی مگرجس بنیادپرفیصلہ سناکرنواز شریف کوتاحیات نااہل کیاگیا وہ بیحد کمزور ہے جس پرنوازشریف کے کٹر مخالف عمران خان کوبھی کہناپڑاکہ سزا کمزوربنیادپردی گئی یہی عدلیہ کبھی کسی وزیراعظم کوہائی جیکرقرار دے دیتی ہے کبھی کسی کوپھانسی کے پھندے پرلٹکادیتی ہے اورکبھی اپنے فیصلے کو بیلنس کرنے کیلئے ایک اورشخص کو تاحیات نااہل قراردے دیتی ہے اس قسم کے فیصلے نہ صرف جگ ہنسائی کامؤجب بنتے ہیں بلکہ نظام انصاف پربھی سوالیہ نشان ثبت کردیتے ہیں مزیدبدقستی یہ ہے کہ یہاں ججوں پردباؤ ڈالاجاتاہے اورجج بھی آسانی سے دباؤکاشکارہوجاتے ہیں حالیہ ایام میں موجودہ چیف جسٹس اورکچھ ججز کی جانب سے چندایسے فیصلے سامنے آئے جنہیں بجاطورتنقیدکانشانہ بنایاجارہاہے القادرٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کوبیک جنبش قلم ریورس کرنااوردورانِ ریمانڈنہ صرف ضمانت دیکررہاکروانابلکہ انہیں بطورسپیشل گیسٹ سہولیات فراہم کرنے کے احکامات صادرفرماناایسا فیصلہ ہے جس کی نظیرپاکستانی تاریخ میں تونہیں ملتی شائدموجودہ متمدن دنیاکے کسی دوسرے ملک میں بھی اسکی مثال ملنامشکل ہے ایک ملزم سیاسی لیڈرکوجس طرح عدالت میں ٹریٹ کیاگیااورانہیں ”گڈٹوسی یو“ اور”وش یوگڈلک“ جیسے الفاظ سے نوازاگیاحالانکہ وہ ایک ملزم تھے اور انہیں احتساب کے قومی ادارے نے گرفتارکیاتھااورجس معاملے میں وہ گرفتارہوئے تھے وہ قوم کے 60ارب روپے کی خطیررقم کے خردبرد کامعاملہ تھا،آڈیولیکس کمیشن کوبیک جنبش قلم کام سے روکنا،پارلیمنٹ کی اس قانون سازی کوغیرمؤثر قراردیناجس پرابھی صدرکے دستخط بھی نہیں ہوئے،اپنے ہی سینئرترین ججزکیساتھ مشاورت سے گریزاوردوسینئروکلاسے ملاقات کے بعدبنچ کاتشکیل متعددسوالات کوجنم دے رہا ہے اوریہ روش مس کنڈیکٹ کے زمرے میں آتاہے 9مئی واقعات کے ملزمان کاٹرائل ملٹری کورٹس میں کروانااس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں عدالت میں ملزم کوریمانڈکیلئے پیش کیاجاتا ہے اورعدالت اسے بری کردیتی ہے ابھی توٹرائل ہوانہیں وکلانے بحث ومباحثے میں حصہ لیانہیں نجانے عدالت کوکہاں سے ملزم کی بے گناہی کے ایسے ٹھوس ثبوت مل گئے کہ اسے بری ہی کردیاگیایہاں عام لوگ تو107 کی ضمانت کیلئے خوارہوتے رہتے ہیں مگردوسری جانب عدالتیں سنگین الزامات میں ملزموں کوبغیرٹرائل کے بری کردیتی ہیں اس روش کے ردعمل میں متوازی عدالتوں کی ضرورت کااحساس ہی اجاگرہوگا9مئی کوایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ببانگ دہل فوجی تنصیبات پرحملے کئے،توڑپھوڑکی،جلاؤگھیراؤکے مرتکب ہوئے انہیں فوجی عدالتوں سے ہی سزامل سکتی ہے اگرسول عدالتیں اپناکام ذمہ داری سے انجام دیتیں توملٹری کورٹس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی حالیہ عدالتی فیصلوں سے ہی ملٹری کورٹس کی ضرورت محسوس ہوئی ملٹری کورٹس میں اگر کسی ملزم کوسزاہوتی ہے تواسکے پاس اپیل کاحق موجودہے اسکے باوجود جلدبازی میں ملٹری کورٹس کے خلاف محاذبنایاگیا۔حالیہ چندفیصلوں اوراقدامات سے واضح طورپرمحسوس ہورہاہے کہ عدالتیں جانبداری کھوچکی ہیں، سیاست میں ملوث ہوچکی ہیں اوریہ فیورٹ ازم کاشکارہیں اگرعدالتیں دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دیتیں توفوج کے پاس کرنے کیلئے اوربھی بہت سے کام ہیں اسے عدالتیں لگانے کاکوئی شوق تونہیں 9مئی کاسانحہ کوئی معمولی بات نہیں جسے بھلاکرآگے بڑھاجا ئے اسکے ذمہ داروں کوقرارواقعی سزاملنی چاہئے اگراس دن کوبھلا کرآگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تویہ ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کے مترادف ہوگا ملٹری کورٹس بھی کوئی غیرآئینی نہیں بلکہ یہ عین آئین کے مطابق ہیں جنہیں اپنے جرم کایقین ہے وہ یقیناًاس سے خوفزدہ ہونگے اوروہ سزاسے بچنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کاسہارالینے کے متمنی ہیں انکے مذموم مقاصدکیلئے عدلیہ کواپناکندھاپیش کرنے سے اجتناب برتناہوگاورنہ نظام انصاف سے لوگوں کارہاسہااعتمادبھی اٹھ جائے گا۔