COAS

سرحد پار سے ہونے والے حملوں پر آرمی چیف کا اظہارِ تشویش

سرحد پار سے ہونے والے حملوں پر آرمی چیف کا اظہارِ تشویش
عقیل یوسفزئی

14 جولائی 2023 کے روز پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کویٹہ میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کو افغانستان سے ہونے والے ٹی ٹی پی کے حملوں پر شدید تشویش لاحق ہے اور دوحہ معاہدے کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت اس بات کی پابند ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی کے خلاف استعمال نہ ہو. انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے ہونے والے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی افواج کو اس صورت حال پر نہ صرف سخت تشویش لاحق ہے بلکہ پاکستانی افواج آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی.
انہوں نے یہ باتیں صوبہ بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع ایک ملٹری گریرزن پر ہونے والے ایک حملے کے زخمیوں کی عیادت کرتے وقت کہیں. یہ حملہ 12 جولائی جولائی کو کیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری بظاہر ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والے ایک گروپ نے قبول کی تھی. یہ گروپ اس سے قبل 2023 ہی کے دوران بلوچستان کے ایک اور شہر قلعہ سیف اللہ پر بھی اسی طرح کا ایک حملہ کرچکا تھا. دونوں حملے پاک فوج کے مراکز پر کرائے گئے اور فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان دوطرفہ فائرنگ کا سلسلہ کئی کئی گھنٹے تک جاری رہا. دونوں حملوں کی شدت اتنی ذیادہ رہی کہ کور کمانڈر کویٹہ جنرل آصف غفور نے دونوں آپریشنز کی کمانڈ خود کی. 12 جولائی کے حملے میں فورسز کے تقریباً 9 جوان شہید ہوئے جبکہ پانچ چھ حملہ آوروں کو بھی ایک لمبے آپریشن کے نتیجے میں موت کی گھاٹ اتار دیا گیا. اسی دوران بلوچستان کے ایک اور علاقے سبی میں بھی فورسز پر حملہ کیا گیا جبکہ اگلی رات پشاور کے ایک علاقے متنی کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا گیا جس کو ناکام بنایا گیا. حساس اداروں نے جو معلومات فراہم کیں ان کے مطابق حسب سابق ان تمام حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ آرمی چیف نے کویٹہ کے اپنے دورے کے دوران نہ صرف ان حملوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے پہلی دفعہ افغانستان کی حکومت کو بھی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر افغان طالبان (امارت اسلامیہ) کو بھی بہت واضح پیغام دیا. کویٹہ ہی سے وہ ایران کے سرکاری دورے پر چلے گئے جس کو ماہرین نے خطے کی سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں بہت اہم قرار دیا.
اس سے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کررہا اور اس قسم کی اطلاعات میں کوئی صداقت اور حقیقت نہیں ہے.
جس گروپ نے ژوب کے حملے کی ذمہ داری قبول کی اس کے بارے میں حکام اور ماہرین کا موقف رہا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان ہی سے منسلک ایک گروپ ہے اور یہ اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت کو افغان حکومت یا افغان طالبان کے دباؤ سے یہ کہہ کر مبرا رکھا جاسکے کہ ایسے حملوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے. یہی وجہ تھی کہ تحریک طالبان پاکستان نے ژوب حملے کے بعد جو بیان جاری کیا اس میں اس کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا. حملے کے فوراً بعد ٹی ٹی پی ڈی آئی خان کے اہم عہدیدار اسد آفریدی نے باقاعدہ ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ژوب حملہ ٹی ٹی پی نے کیا ہے جس کے ردعمل میں افغانستان میں بھیٹی اعلیٰ قیادت نے نوٹس لیتے ہوئے اسد آفریدی کو اس کے عہدے سے ہٹانے کا بیان جاری کیا.
اس حملے میں ایک نسبتاً نئے گروپ تحریک جہاد پاکستان کے ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی جس نے قلعہ عبداللہ اور 2 دیگر حملوں کی طرح اس حملے کی بھی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ اس کے ترجمان مولانا قاسم نے عین اس وقت میڈیا کو مصدقہ اطلاعات بھی فراہم کی جب یہ حملہ بلکل ابتدائی مرحلے میں تھا.
پاکستان کے سیکورٹی ماہرین تحریک جہاد پاکستان نامی اس گروپ کو ٹی ٹی پی ہی کی ایسی ایک ونگ قرار دیتے رہے جیسا کہ سال 2013.14 کے دوران ایک اور گروپ جماعت الاحرار کو قرار دیا جاتا رہا جس نے ایک مذاکراتی عمل کے دوران ٹی ٹی پی سے بظاہر بغاوت کا تاثر دیکر پشاور سمیت متعدد دوسرے شہروں میں کئی خطرناک خودکش حملے کئے جن میں پشاور کے علاقے گنج میں ایک چرچ پر ہونے والا بدترین خودکش حملہ بھی شامل تھا.
ماہرین اس نئے گروپ کو اسی طرز کا تجربہ قرار دیتے ہوئے کہتے رہے کہ یہ ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کی مرضی اور پلاننگ کے تحت بننے والا ایک گروپ ہے جس کے قیام کا مقصد افغانستان کی طالبان حکومت کے مبینہ یا مجوزہ دباؤ کو کاونٹر کرنا تھا.
قبل ازیں ٹی ٹی پی نے ماہ جون کے دوران پاکستان میں 64 حملوں کی تفصیلات جاری کیں جبکہ اگلے مرحلے میں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی نے 2023 کے ابتدائی چھ مہینوں میں پاکستان میں 350 حملے کئے. اگر چہ بعض دعووں میں غلط بیانی یا پروپیگنڈا سے کام لیا گیا تاہم تلخ حقیقت یہ رہی کہ سال 2023 کے دوران ریکارڈ حملے کئے گئے جن کی پلاننگ افغانستان میں کی جاتی رہی اور اسی پس منظر میں آرمی چیف نے کویٹہ میں کھل کر افغان حکومت کو بھی اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جس سے سیکورٹی ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شاید اب پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کاونٹر سٹریٹجی پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی اور دہشت گردی کے معاملے پر جنرل عاصم منیر کا موقف نہ صرف بلکل واضح رہا ہے بلکہ ان کا طرز عمل کافی جارحانہ بھی ثابت ہوتا رہا. اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے چارج سنبھال لینے کے بعد جہاں ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مجوزہ مذاکراتی عمل کو بلکل ختم کیا گیا بلکہ ملک بھر میں لاتعداد کارروائیاں شروع کی گئیں جس کے باعث ہزاروں حملہ آوروں کو نشانہ بنایا گیا. افغان حکومت سے پاکستان نے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ بوجوہ نہ صرف یہ کہ ان توقعات پر پوری نہیں اتری بلکہ افغانستان کی حکومت دوحہ معاہدے میں شامل اس وعدے پر بھی عمل نہ کرسکی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی.