FC-Corps.jpg

!پاکستان میں دہشت گردی اور افغان طالبان

شہزاد مسعود رومی

 پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پڑوسی اور برادر ملک کے طور پر افغانستان کے تعاون کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔

وفاقی وزیر نے یہ بیان ژوب میں پاک فوج  کی چھاونی کے علاقے میں ایک بڑے دہشت گرد حملے کے بعد دیا جس میں افغانستان میں موجود   دہشت گرد تنظیموں  ٹی ٹی پی  کے دہشت گردوں نے جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر مقامی دہشت گردوں کی نشاہدی پر یہ حملہ کیا جس میں پاک فوج کے 9 جوانوں کی شہادت ہوئی، درجن بھر سے زائد زخمی ہوئے۔ حملے میں ملوث تمام دہشت گردوں کو بعد ازاں  پاک فوج کی ایس ایس جی کمانڈوز نے  واصل جہنم  کر دیا۔  اس حملے نے  جہاں ملک کے اندر دہشت گرد حملوں کے متعلق بحث کو  از سر نو جنم دیا ہے وہیں پہلی بار حکومت پاکستان نے کھل کر افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دنیا سے کیے گئے اس وعدے کی پاسداری کرے جس میں افغان عبوری حکومت نے دنیا کو باور کروایا تھا کہ افغان سر زمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

خواجہ آصف نے  اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان نے کئی دہائیوں سے 50 سے 60 ملین افغان شہریوں کو پناہ اور حقوق فراہم کیے ہیں لیکن پاکستانی سرزمین پر حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ملتی ہیں۔ یہ کوئی الزام نہیں ہے، اب یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ  پاکستان میں ہونے والی تقریبا  تمام تر دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں کیونکہ اب تک افغان حکومت ان تنظیموں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس کا کوئی ایسا ارادہ نظر آتا ہے۔ اور یہ وہ صورت حال ہے  جس پر نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ سیکورٹی ادارے بھی افغان حکومت کے طرز عمل پرنالاں ہیں اور اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اس سے دونوں برادار ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 اسی وجہ سے پاکستان نے دوٹوک انداز میں خبردار کیا ہے کہ اس صورتحال کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل اور طاقت کو بروئے کار لائے گا۔ ژوب واقعے کے بعد حکومت کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے بھی اپنے کوئٹہ گیریژن کے دورے کے دوران اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جیسا کہ وزیر دفاع کی جانب سے سامنے آئے۔ وہاں انہوں نے ژوب میں زخمی ہونے والے جوانوں کی تیماداری  کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر اور اس میں افغان سر زمین سے متعلق اپنے بیان میں افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی اور آزادانہ دہشت گردانہ سرگرمیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔

پاکستان اس حقیقت سے بخوبی  آگاہ ہے کہ پاکستان میں قیام امن  افغانستان میں سیاسی استحکام اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی کے پیش نظر پاکستان اب تک افغان حکومت  کی جانب سے  اس توقع پر انحصار کرتا آیا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دینے کا اپنا وعدہ نبھائے  گی  ۔  حالیہ واقعات ، ان میں افغان باشندوں کی باقاعدہ شمولیت اور افغان عبوری حکومت کے رویے نے پاکستان کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اپنے تحفظات کا اعلی ترین سطح پر کھل کر اظہار کرے۔ اس سلسلے میں آرمی چیف نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے معاملے پر بھی توجہ دلائی اور اس تشویش کو دور کرنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔

دوحہ معاہدے میں افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا عہد بھی شامل ہے۔طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے طالبان کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔انہوں نے افغانستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے علاقائی استحکام اور امن کی اہمیت پر زور دیا جس کا مقصد اسے علاقائی تجارت اور ترقی کا مرکز بنانا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے مطالبے پر افغان طالبان کے نمائندے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ دوحہ معائدہ دراصل امریکہ کے ساتھ کیا گیا تھا، پاکستان کے ساتھ نہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ بیان خاصہ مایوس کن ہے۔

مقامِ افسوس ہے کہ اس بات کے باوجود کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف2 دہائیوں سے زائد عرصے  تک جاری رہنے امریکی جنگ کے دوران شدیدمتاثر ہونے کے باوجود امن، مصالحت، تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ،   اس پورے عرصے  میں واشنگٹن کی طرف سے ”ڈومور‘‘کے تقاضوں میں کوئی کمی  نہیں آئی۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات سے لے کر طالبان حکومت کے قیام‘ اسے تسلیم کرانے‘ سلامتی کونسل میں اس کے حق میں راہ ہموار کرنے میں گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ امریکہ میں اس کے منجمد اثا ثوں کی بحالی کیلئے بھی بھرپور کو ششیں کی ہیں۔ اس کے باوجود افغان حکومت پر بھارت اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سوچ غالب آ چکی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کیلئے محفوظ کیوں نہیں ؟  کیا افغان طالبان اپنی خدمات ہر اس ریاست یا گروہ کے لیے پیش کریں گے جو انہیں مالی معاونت فراہم کریں گے۔ بظاہر افغان عبوری حکومت کی جانب سے اپنائے گئے طرز عمل سے اس مفروضے کو خاصی تقویت مل رہی ہے۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بحران سے دو چار قومیں ہی سلامتی کے بحران کا سامنا کرتی ہیں۔ سوویت روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ معاشی عدم استحکام اورسوویت فوج کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت کے ٹوٹنے کا باعث بنی۔  پاکستان آج  سیاسی، معاشی اور سیکورٹی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ہماری اندرونی کمزوریوں نے ہمارے روایتی حریف کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کی مغربی سرحد سے بھی پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ کر سکے ۔ اس حکمت عملی سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست پاکستان اپنے اندرونی سیاسی خلفشار پر اب قابو پائے، ایک نئی حکومت کا قیام عوامی طاقت کے ذریعے عمل میں لایا جائے اور خارجہ محاذ پر دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستان ایک حد سے زیادہ کسی کو بھی اپنی عوام اور افواج پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دے گا  اور اس سلسلے میں اگر افغان حکومت بے بس ہے تو پھر پاکستان اپنی سلامتی و بقاء کے لیے تمام ضروری آپشنز پر غور کرنے میں حق بجانب ہو گا!

g1

ریگی میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کردی گئی

پشاور : گزشتہ شب تھانہ ریگی ماڈل ٹاون کے علاقہ میں نامعلوم شدت پسندوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں واجد اور فرمان کی نماز جنازہ ملک سعد شہید پولیس لائنز میں پورے سرکاری اعزاز کیساتھ ادا کردی گئی

نماز جنازہ میں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی، آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان ، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری، سی سی پی او پشاور سید اشفاق انور، ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید خان، سول و عسکری حکام، ڈپٹی کمشنر پشاور شاہ فہد اور شہداء کے لواحقین نے شرکت کی

پولیس کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی ، شہداء کے جسدِ خاکی پر پھول چڑھائی اور شہداء کے بلند درجات کیلئے اجتماعی دعا کی گئی

Bara

باڑہ تحصیل کمپاونڈ میں خودکش حملہ: دو افراد جاں بحق، 10 افراد زخمی

پشاور: ‏باڑہ تحصیل کمپاونڈ  میں  خودکش حملے میں دو پولیس اہلکار جاں بحق اور 10 افراد زخمی ہوئے ۔

پولیس کاکہنا ہےکہ دھماکا باڑہ تحصیل کمپاونڈ کے مرکزی گیٹ پر تلاشی کے دوران ہوا جس میں ایک اہلکار شہید ہوگیا۔ پولیس کے مطابق دو خود کش بمباروں نے باڑہ کمپلیس میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس کے روکنے پرحملہ آوروں نے خود کو اڑا دیا۔ دھماکے کے بعد علاقے میں شدید فائرنگ بھی کی گئی۔

 پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور ریسکیو اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور زخمی کو فوری طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال منتقل کیا۔
پولیس کے مطابق کمپاؤنڈ کے اندر باڑہ تھانہ، سرکاری اور دیگر اہم دفاتر ہیں جب کہ تھانے کے اندر سی ٹی ڈی سیل بھی ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی انتظامیہ کے مطابق اسپتال میں ایک لاش اور تین پولیس اہلکاروں سمیت چار زخمی لائے گئے۔ بعد ازاں ایک اور زخمی جابحق ہوگیا جس سے جاںبحق افراد کی تعداد دوہوگئی۔

Shandur

Shandur Polo Festival 2023

By Aman Noreen

Shandur polo ground is located in the Gilgit-Baltistan region of Pakistan, at an altitude of 3,700 meters above sea level. It is the world’s highest polo ground and the venue of the annual Shandur Polo Festival.

 

The festival is a cultural event that showcases the traditional sport of free-style mountain polo, which is played without umpires and with minimal rules. The festival dates back to 1930, when a British administrator named Colonel Evelyn Hey Cobb asked the local rulers of Chitral and Gilgit to construct a polo ground in Shandur. The festival is held every year from 7 to 9 July and attracts teams from Chitral and Gilgit-Baltistan, as well as tourists and spectators from around the world.

 

The festival also features folk music, dancing, camping and other activities that celebrate the rich heritage and diversity of the region. The Shandur Polo Festival is a unique opportunity to witness the thrilling sport of polo in its purest form, while enjoying the breathtaking scenery of the Himalayas.

Polo is an ancient game that originated in Central Asia, possibly in China and Persia, between the 6th century BC and the 1st century AD. The name may come from the Tibetan word “pholo” meaning “ball” or “ballgame”1. Polo was initially a training game for cavalry units or nomadic warriors, and was often played by the elite of society, such as kings, princes, and queens.

 

The game was brought to Europe by British soldiers from India in the late 1800s, and became more modernized. The game is played by two teams of four players each, who use mallets with long, flexible handles to hit a small hard ball through the opposing team’s goal. The game usually lasts one to two hours, divided into periods called chukkas or “chukkers”.

Polo has been called “the sport of kings”2, and has become a spectator sport for equestrians and high society, often supported by sponsorship. It is now popular around the world, with well over 100 member countries in the Federation of International Polo, played professionally in 16 countries, and was an Olympic sport from 1900 to 19362.

The Shandur Polo festival 2023 featured traditional rival teams from Gilgit-Baltistan and Chitral, who, like every year,  competed for the coveted trophy in a fierce rivalry that dates back to decades. The final match began at 09:00 am in the morning on July 9.

Promising young Polo player of Chitral, Ilyas’s two timely goals and a goal scored by their star player Miraj led to a comfortable 7-5 victory over arch rival Gilgit to claim Shandur Polo Festival-2023 title in a thrilling free style game.

Shandur polo festival holds cultural, historic, and regional significance which is echoed globally and attracts foreign and local tourists to this area in great number during its season. Apart from tourists, both national and international media cover this festival every year. Positive media coverage helps improve the country’s image and perception, leading to an increase in tourist interest.

The festival brings together people from different regions and cultures within Pakistan and even international visitors. This event fosters cultural exchange, allowing tourists to interact with local communities, understand their way of life, and experience their hospitality.

Pakistani government and KP tourism authorities actively promote the Shandur Polo Festival to domestic and international audiences. They use various media channels, social media, and tourism campaigns to highlight the event’s uniqueness and encourage travelers to visit the country during this time. Once arrived, the rugged beauty of the Shandur Pass and the thrilling polo matches create an unforgettable experience for visitors.

The influx of tourists during the festival brings economic benefits to the local communities and businesses. Tourists spend money on accommodation, food, transportation, handicrafts, and other services, contributing to the local economy.

The region’s breathtaking landscape, with snow-capped mountains, lush green meadows, and pristine lakes, attracts nature lovers and photographers. The Shandur Pass itself offers panoramic views that are ideal for photography and capturing memories.

Besides polo, visitors can engage in various outdoor activities in the region, such as trekking, hiking, and camping, making it an attractive destination for adventure seekers.

Despite all these natural attractions, there are many areas where government must invest in order to improve the services to foreign tourists to Shandur.

Infrastructure Development: Improve road networks, transportation options, and accommodation facilities in and around the Shandur Pass. This will make it easier for international tourists to access the festival site and stay comfortably during their visit.

Travel Advisory and Safety Measures: The government and tourism authorities should provide up-to-date travel advisories and safety guidelines for international visitors. This includes information on the festival, local customs, and any security considerations in the region.

Visa and Entry Procedures: Simplify visa procedures for tourists coming to attend the Shandur Polo Festival. Implement an efficient visa application process and offer visa-on-arrival or e-visa options, if possible, to attract more travelers.

Language Support: Provide language support, such as English-speaking guides and interpreters, to assist international tourists in communicating with local communities and understanding the cultural nuances.

Promotion and Marketing: Promote the Shandur Polo Festival on international platforms, tourism websites, and social media to attract a global audience. Collaborate with international travel agencies and tour operators to include the festival in their itineraries.

Signage and Information: Install clear signage and information boards in multiple languages at key locations and tourist sites, providing directions, safety information, and historical context about the festival and the region.

Once implemented, these improvements will enhance the experience of tourists to this beautiful part of the planet and it will also contribute towards soft national power by promoting the country as sports loving nation full of zeal and eager to host everyone.