وصال محمد خان
دنیامیں ان ممالک نے نام پیداکیاہے اورخوشحال ممالک کے صف میں شامل ہوئے ہیں جہاں کے باسیوں کوروزگارکے بہترین مواقع میسرہوں روزگارکے مواقع مہیاکرناچونکہ حکومت کاکام ہوتاہے لہٰذاہمارے ہاں لوگوں نے سرکاری نوکری کوہی روزگارسمجھ لیاہے حالانکہ روزگارصرف سرکاری نوکری بلکہ دیگرمدات میں خدمات سرانجام دینے سے بھی روزگارکمایاجاسکتاہے وطن عزیزپاکستان میں اگرچہ روزگار کے مواقع کثرت سے دستیاب ہیں مگریہ مواقع حکومت نے مہیانہیں کئے بلکہ یہ نجی روزگارہیں دنیاکے بہت سے ممالک میں اس قسم کے روزگارکرناممنوع ہے جس قسم کے روزگاروں سے ہمارے ہاں خاندان کے خاندان پل رہے ہیں پاکستان میں رکشہ چلاکرلوگ آسانی سے چالیس پچاس ہزارروپے ماہانہ کمالیتے ہیں،سڑک پرفروٹ،سبزی،کھلونوں یادیگرضروریات زندگی کی ریڑھی سجاکران گنت لوگ اپنے خاندان کیلئے رزق حلال کمارہے ہیں مگرچونکہ سرکاری نوکریوں کی کمی ہے اس لئے یہاں بیروزگاری کارونارویاجا رہاہے۔ہمارے ملک کی آبادی چونکہ تیزی سے بڑھ رہی ہے اوراس میں ہونے والااضافہ خطے کے ممالک سمیت دنیاکے کئی ممالک سے زیادہ ہے اس لئے یہاں غربت میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے بدقسمتی سے یہاں مکان بنانے کیلئے کوئی قاعدہ قانون یاتوموجودنہیں اگرموجودہے تواسے فالو نہیں کیاجارہاجس کے سبب زرعی زمینیں رہائشی مقاصدکیلئے استعمال میں لائی جارہی ہیں آج سے چندسال قبل جن علاقوں میں کھیت کھلیان لہلہارہے تھے اب انکی جگہ مکانات اوربازاروں نے لے لی ہے ہم عقل سے عاری وہ لوگ ہیں جواس زمین کوتیزی سے ختم کررہے ہیں جس سے ہمیں رزق مل رہاہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہم اپنی ضروریات سے زیادہ اجناس پیداکررہے تھے مگرآج وہی اجناس ہم درآمدکرنے پرمجبورہیں گندم کی ضروریات بڑھ رہی ہیں جبکہ اس کیلئے کاشت کی زمین سکڑرہی ہے، چینی ہم شائددنیامیں سب سے زیادہ استعمال کرنے والی قوم ہیں مگرگنے کی کاشت مسلسل کم ہورہی ہے چقندرجوکہ گنے کامتبادل تھااسکی کاشت تقریباًختم ہوچکی ہے مردان پریمئر شوگرملزجوکسی زمانے میں ایشیاکاسب سے بڑاشوگرملز تھااوریہ ساراسال چلتا رہتاتھاسردیوں میں اسے گنے سے فرصت نہیں ملتی تھی اورگرمیو ں میں چقندرسے،مگراب یہ مل سال میں بمشکل ایک مہینہ چلتاہے اس کیلئے بھی گنادیگراضلاع سے آتاہے ایک تواس علاقے میں زرعی زمین آبادیاں ہڑپ کررہی ہیں اورزیادہ ترختم ہوچکی ہیں دوسرے لوگ مِل کوگنادینے کی بجائے گڑبنانے کوترجیح دیتے ہیں اتنابڑاکارخانہ بندہونے سے نہ صرف سینکڑوں کارکن بیروزگارہوئے ہیں بلکہ اس سے بالواسطہ اوربلاواسطہ جن لوگوں کاروزگاروابستہ تھاوہ بھی روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اسی طرح تخت بھائی اورچارسدہ شوگرملزبھی بندپڑے ہیں حکومت کواتنی فرصت نہیں کہ وہ اس قومی سرمائے کویوں زنگ آلود ہونے سے بچائے پرویزخٹک دورمیں بڑے طمطراق سے دعوے ہوتے تھے کہ بندصنعتی یونٹس کوبحال کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں مگرشومئی قسمت کہ اس حکومت کے دوران 1ہزارصنعتی یونٹس بند تھے محمودخان حکومت آنے تک یہ تعدادبارہ سوسے تجاوزکرگئی ان حالات میں خیبرپختونخواجہاں کبھی بڑے بڑے کارخانے موجودتھے اب صنعتی قبرستان میں تبدیل ہوچکاہے نوشہرہ میں جوانڈسٹریل سٹیٹ تھاوہ رہائشی سکیموں میں تبدیل ہوچکاہے کئی بڑے کارخانے جن کی صرف زمین اربوں کی تھی ان کے مالکان نے انہیں اونے پونے داموں بیچ کراپنی رقم کھری کی اورجس نے یہ زمینیں خریدی اس نے رہائشی سکیم یاکالونی بنادی اس طرح کی مثالیں آپکو مردان،چارسدہ اورپشاورمیں بھی ملیں گی۔گزشتہ تیس برس کے دوران ماربل کی صنعت نے بے پناہ ترقی کی ہے مردان،رسالپور،بونیراورمہمندمیں ماربل فیکٹریاں برساتی کھمبیوں کی طرح اگ آئی ہیں ان فیکٹریوں کابڑانقصان یہ ہے کہ اس سے قیمتی پتھرضائع ہورہاہے نوشہرہ میں پیرسباق اورکھنڈرکے علاقوں میں بڑے بڑے پہاڑ تھے وہ اب تقریباًختم ہوچکے ہیں یاختم ہونے کے قریب ہیں ان کے ٹھیکے کرپٹ حکومتوں نے منظورنظرافرادکو”اندھابنانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ کر اپنوں کودے“ کے مصداق انتہائی کم قیمت میں دے دئے جنہوں نے رات دن ایک کرکے یہ قیمتی پہاڑ لوٹ لئے،اب خیبرپختونخوامیں ایک ماربل کی صنعت ایسی رہ گئی ہے جس سے ہزاروں خاندانوں کوروزگارمیسرہے مگریہ روزگار بھی شوگرملزکی طرح ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ جوہیوی مشینری پہاڑتوڑ نے کیلئے استعمال ہورہی ہے یہ بہت جلدان پہاڑوں کاخاتمہ کردے گی ان ہیوی مشینری اوربارودی دھماکوں سے ان پہاڑوں کابہت سامال مائننگ کے دوران ضائع ہورہاہے زیادہ سے زیادہ آئندہ پندرہ بیس برسوں کے دوران یہ پہاڑبھی ختم ہوجائینگے جس سے وابستہ کم ازکم پانچ لاکھ لوگ بیروزگارہونے کاخدشہ نظراندازنہیں کیاجاسکتا یعنی مستقبل میں جب ہمیں دس بیس لاکھ لوگوں کوروزگاردینے کی ضرورت ہوگی ہمارے ہاں پانچ دس لاکھ لوگ بیروزگارہوجائیں گے۔یہ حقائق نہ صرف چشم کشاہیں بلکہ ہوشربابھی ہیں ہماری آنے والی حکومتوں کوماربل انڈسٹری پرٹیکس لگانے کی بجائے اسے سہولیات مہیاکرنی ہونگی،بجلی کاٹیرف کم کرناہوگا، بندصنعتی یونٹس کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادو ں پراقدامات کرناہونگے،صنعت کاروں کوموافق ماحول مہیاکرناہو گا،اورانہیں راغب کرنے کیلئے سہولیات اورآسانیاں پیداکرنی ہونگی، امن وامان کی صورتحال پرتوجہ مرکوزکرناہوگی اورسب سے بڑھکربیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے پرآمادہ کرناہوگاورنہ یہاں کے باسی یاتوایک دوسرے کے گلے کاٹ کرخوراک حاصل کرینگے یایہاں سے نقل مکانی پرمجبورہونگے خیبرپختونخواکا زرخیزخطہ بیروزگار ی کے ہاتھوں تباہ ہورہاہے تیزی سے بڑھتی آبادی مزید تباہی کاباعث بن سکتی ہے۔اب یہاں کے باسیوں کوہوائی قلعے تعمیرکرنے والی جماعتوں کے جھانسے میں آنے سے بچناہوگا آمدہ انتخابات میں عوام سوچ سمجھ کرٹھوس پروگرام اورمنشور رکھنے والی جماعت کوووٹ دیں تاکہ وہ نہ صرف زرعی زمینوں کی رہائشی استعمال روکے بلکہ صنعت وحرفت کوترقی دیکرروزگارکے مزید مواقعے پیداکرے۔