عقیل یوسفزئی
پاکستان کے آرمی چیف اپنی اعلیٰ سطحی ٹیم کے ہمراہ گزشتہ ایک ہفتے سے امریکہ کے اہم دورے پر ہیں. آرمی چیف کا چارج سھنبالنے کے بعد ان کا یہ پہلا امریکی دورہ ہے جس کو عالمی میڈیا، تجزیہ کار اور سفارت کار بہت اہمیت دے رہے ہیں. آرمی چیف نے اس دورے کے دوران جہاں امریکہ کے اعلیٰ سطحی عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ان سے خطے کو درپیش سیکورٹی چیلنجز اور پاکستان کی کاونٹر ٹیررازم پالیسی پر تبادلہ خیال کیا وہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن سے بھی اہم معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ان کو پاکستان کے موقف اور ترجیحات سے آگاہ کیا. امریکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف کے اس اہم دورے کو ساوتھ ایشیا میں جاری کشیدگی کے علاوہ افغانستان میں جاری صورتحال کے تناظر میں بہت اہمیت دی جارہی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے ایک بہتر دور کا آغاز ہونے والا ہے. امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تین مختلف بریفینگز میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ کو عالمی اور علاقائی امن کے قیام کے لئے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے اس لیے امریکہ پاکستان کے استحکام، ترقی اور سیکورٹی کو بہت اہمیت دے رہا ہے.
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جہاں واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں وہاں انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر عالمی اداروں کے سربراہان سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں. سیکرٹری جنرل کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران انہوں نے اگر ایک طرف پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا تو دوسری جانب انہوں نے کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں بھارتی اور اسرائیلی حکومتوں کی یکطرفہ کارروائیوں اور ان کے تباہ کن اثرات سے بھی ان کو تفصیل کے ساتھ پاکستان کے موقف اور تشویش سے آگاہ کیا.
انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ بھی ایک نشست رکھ کر پاکستان کی ترجمانی کرنے اور ملک کی اقتصادی ترقی کی مد میں ان کی حصہ داری کو نہ صرف یہ کہ سراہا بلکہ ان کو یقین دلایا کہ پاکستان میں ان سمیت غیرملکی سرمایہ کاروں کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا اور ان کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا.
ان کے دورہ امریکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار انیس فاروقی نے کہا کہ آرمی چیف کا دورہ بہت سے لوگوں اور حلقوں کی توقعات اور اندازوں سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس دورے کا فریم ورک اور روڈ میپ بہت وسیع ہے. ان کے مطابق اس دورے کے نتیجے میں پورے خطے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں متوقع ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاملات سے باخبر حلقے اس دورے کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں.