خیبرپختونخوا میں رواں سال 137افراد ڈینگی سے متاثر

خیبرپختونخوا میں رواں سال 137افراد ڈینگی سے متاثر۔ متاثرہ افراد میںسے 119صحت یاب ہوچکے ہیں۔ صوبے میں اس وقت ڈینگی کے فعال کیسز کی تعداد 18ہے، مشیر صحت احتشام علی کیمطا بق امسال صوبے میں ڈینگی سے کسی شخص کی موت واقع نہیں ہوئی۔

IG Khyber Pakhtunkhwa Police visit Mardan

آئی جی خیبر پختونخوا پولیس کا دورہ مردان

آئی جی خیبر پختونخواہ نے مردان میں پولیس اہلکاروں کیلئے رہائشی کوارٹرز کا افتتاح کردیا۔ ڈی آئی جی نجیب الرحمن اور ڈی پی او ظہور بابر بھی آئی جی کے ہمراہ تھے۔ رہائشی کوارٹرز نیچے رینک کے اہلکاروں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے 23 اضلاع میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز بنا چکے ہیں۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز کے قیام سے جرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی آچکی ہے۔ مردان سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈرائیونگ سکولز کھولے جارہے ہیں۔ شہریوں کو ایک ہی چھت کے نیچے گمشدگی ایف آئی آر اور دیگر ضروری شکایات کی اندراج کیلئے خدمت مراکز قائم کررہے ہیں۔ باہر ممالک کے سرمایہ کاروں کی سیکیورٹی الگ فورس بنایا گیا ہے۔

آئی جی خیبر پختونخواہ اختر حیا ت گنڈا پور کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پولیس فورس کو جدید اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ فرنٹ لائن میں لڑتے وقت مخالف سمیت فورس سے جانی نقصان لازمی ہوگی۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کے خطرناک گروپس کے نیٹ ورک کی کمر توڑ دی ہے۔ مردان میں تاریخی مقامات کی سیر و تفریح کیلئے آنے والے باہر ممالک کے ڈیلیگیشنز کی سیکیورٹی کیلئے سپیشل فورس بنایا گیا ہے۔

Wisal Muhammad Khan

افغانستان سے مذاکرات

افغانستان سے مذاکرات

گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنے بیانات کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ افغانستان سے مذاکرات کریں گے۔ انہوں نے پشاور میں ایک افغان سفارتکار سے ملاقات بھی کی جس کا کوئی قابل ذکر اعلامیہ سامنے نہ آسکا۔ اور اس سے کسی نتیجے کی توقع تو ویسے ہی دیوانے کا خواب ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اس سے قبل اسلام آباد جلسے میں خاصا متنازعہ خطاب کرکے لوٹے تھے۔

جلسے کے اختتام پر وہ اچانک آٹھ نو گھنٹوں کیلئے غائب ہوگئے اور منظرعام پر آنے کے بعد دو دن تک چپ کا روزہ رکھ لیا۔ البتہ دیگر پارٹی راہنماؤں نے یہ بیانیہ اپنایا کہ وہ سیکیورٹی اداروں بلکہ عرفان قادر کے مطابق ایجنسیوں سے مذاکرات کرنے گئے تھے۔ ان کی ‘‘گمشدگی’’ کے دوران ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم رہا۔ اس درفطنی کو خاصی قبولیت ملی کہ وہ ‘‘لاپتہ’’ ہوگئے ہیں یا انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔

سنجیدہ حلقوں نے ان افواہوں کو اہمیت نہیں دی کیونکہ کسی وزیراعلیٰ کو نہ ہی لاپتہ کیا جاسکتا ہے اور شاید آئین اسے گرفتاری سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کی گرفتاری یا لاپتہ ہونے کے تاثر کو ان کے متنازعہ خطاب کے سبب پذیرائی ملی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو غیر ضروری طور پر دھونس اور تضحیک کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں کو برے القابات سے نوازا، خواتین کی دل آزاری کے مرتکب ہوئے اور ملکی سلامتی کے ضامن ادارے فوج پر بے جا تنقید کی۔

وزیراعلیٰ سمیت دیگر راہنماؤں کے بڑھک نما اور تیس مار خان قسم کے خطابات اس قابل تھے کہ ان تمام افراد کو گرفتار کیا جاتا اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وفاق میں ایسا ہوا بھی، ممبران قومی اسمبلی کی گرفتاری پر اسپیکر نے ایکشن لیا۔ اگرچہ اسپیکر کے جذبات اور اقدامات کو چند حلقوں میں سراہا گیا مگر سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا قومی اسمبلی کا ممبر قانون سے بالاتر کوئی مخلوق ہے؟

اگر ہاں تو اس لئے ممبر بننے کیلئے کروڑوں بلکہ اب تو اربوں روپے خرچ کرنے کے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی اگر سڑک پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ماں بہن کی گالیوں سے نوازے اور جا کر قومی اسمبلی میں پناہ گزین ہو تو کیا اسے ہاتھ نہیں لگایا جائے گا؟ یہ ملک کی قومی اسمبلی ہے یا مفروروں کی پناہ گاہ؟

بہرحال دو دن چپ کا روزہ رکھنے کے بعد انہوں نے اسے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے بیان پر توڑا۔ افغانستان کے ساتھ مذاکرات اس ملک کے ہر شہری کی خواہش ہے۔ برادر ملک کے ساتھ پاکستان کے مسائل ہیں جو دوطرفہ سفارتی رابطوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جو ریاست پاکستان کر رہی ہے اور کسی بھی ملک کے ساتھ مذاکرات یا تعلقات وفاقی معاملہ ہے۔ صوبہ تو زیادہ سے زیادہ رابطہ یا مذاکرات کرکے وفاق کو سفارشات پیش کر سکتا ہے، اسے منظور یا مسترد کرنا وفاق کی صوابدید ہے۔

اگر علی امین گنڈاپور آٹھ نو گھنٹے تک سیکیورٹی اداروں یا ایجنسیوں سے امن و امان کے حوالے سے رات بھر جاگ کر مذاکرات کرتے رہے تو کیا ان میں یہ طے پایا کہ وہ افغانستان سے مذاکرات کا اعلان کریں گے اور قونصل جنرل سے ملاقات کریں گے؟ اگر ان آٹھ نو گھنٹے میں یہی طے پا چکا ہے تو اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں۔

مگر علی امین گنڈاپور نے مذاکرات کا اعلان اور ملاقات ایسے ماحول میں کئے جیسے وہ آٹھ نو گھنٹے والی ملاقات کے ردعمل میں کئے جا رہے ہیں۔ آٹھ نو گھنٹے قومی سلامتی کے اداروں سے اسی موضوع پر مذاکرات کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا کہ شب بھر کے مذاکرات سے کیا نتیجہ اخذ کیا گیا اور کیا فیصلے کئے گئے؟ بلکہ انہوں نے دو دن خاموشی کے بعد ایک مرتبہ پھر دھمکی آمیز لہجہ اپنایا۔

ان کے قائد اور جرگہ مشیر اسد قیصر نے تو ان کے ساتھ روارکھے جانے والے روئیے کی مذمت بھی کر ڈالی مگر ان کی جانب سے کسی برے روئیے کی شکایت نہیں کی گئی بلکہ ان کی تان افغانستان سے مذاکرات پر ٹوٹی۔ افغانستان سے مذاکرات صوبائی سطح پر محمود خان حکومت بھی کر چکی ہے جس کے نتیجے میں صوبہ ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہوا۔

موجودہ حکومت کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے جس سے مسائل حل ہو جائیں گے اور صوبے کا سلگتا ہوا مسئلہ یعنی دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور ہر طرف امن کا دور دورہ ہوگا۔ اگر وزیراعلیٰ ایک بار پھر اسی طرح کے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو ان کے پیشرو محمود خان اور ان کی کابینہ کے متحرک وزیر بیرسٹر سیف کر چکے ہیں تو ان مذاکرات سے صوبے کا یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے بڑھ چکا ہے۔

پہلے اگر دہشت گرد اکا دکا کارروائی کرتے تھے تو ان کی حکومت میں آنے کے بعد اور محمود خان حکومت میں یہ کارروائیاں تیز ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے اقدامات اور حرکات و سکنات سے ظاہر ہو رہا ہے جیسے وہ شدید فرسٹریشن میں ہوں اور ان کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ ملک سے الگ ہونے کا اعلان فرماتے۔

افغانستان کے ساتھ مسئلہ اگر وہ اپنے طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں یا ان کے پاس کوئی قابل عمل فارمولا موجود ہے تو انہیں یہ فارمولا نہ صرف آٹھ نو گھنٹے طویل ملاقات میں رکھ دینا چاہئے تھا بلکہ ذمہ دار افراد کو اپنے مؤقف پر قائل کر لیتے۔ یا اگر ان کے پیش کردہ فارمولا کو مسترد کیا جا چکا ہے تو وہ یہ فارمولا عوام کے سامنے رکھتے۔

افغانستان سے مسائل اگر علی امین گنڈاپور حل کرسکتے ہیں یا ان کے مذاکرات اتنے بابرکت ہیں کہ صوبے کو دہشت گردی سے نجات مل سکتی ہے تو پھر دیر کس بات کی، بسم اللہ کریں اور آگے بڑھیں۔ اگر ان کا فارمولا قابل عمل اور قابل قبول ہونے کے باوجود ریاست یا سیکیورٹی ادارے قبول نہیں کرتے تو یہ سب پر عیاں ہو جائے گا اور قوم کو یہ جاننے کا موقع مل جائے گا کہ صوبے میں امن کس کی خواہش ہے اور کون یہاں لگی آگ کو پھونکیں مار رہا ہے؟

وزیراعلیٰ کے حالیہ اقدامات اور حرکات و سکنات کسی صورت دانشمندانہ نہیں لگتے اور یہ ایک وزیر اعلیٰ کے شایان شان نہیں۔ اسلام آباد جلسے میں کی گئی تقریر کی عمران خان نے جیل سے پذیرائی کی جبکہ ایک دن بعد صحافیوں کے حوالے سے ان کی اول فول کو مسترد کیا۔ بانی پی ٹی آئی چونکہ جان چکے ہیں کہ ان کی جلد گلو خلاصی ممکن نہیں اس لئے وہ پارٹی میں سے کسی کراؤڈ فلر کی تلاش میں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جو بھی کراؤڈ فلر بننے کی سعی کرتا ہے، وہ الٹا پڑ جاتا ہے۔

کسی فرد میں جب بڑا لیڈر بننے کی صلاحیت نہ ہو تو اسے زبردستی با صلاحیت نہیں بنایا جاسکتا۔ عمران خان کے غلط بیانی پر مبنی بیانئے میں کوئی جان نہیں اس لئے اس کی جگہ بھی کسی دوسرے کیلئے لینا ممکن نہیں۔ یہ پارٹی الٹی سیدھی حرکات سے خاصا نقصان اٹھا چکی ہے۔ اگر اب بھی ہوشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا مشکل تر ہو جائے گا۔

افغانستان سے مذاکرات جس کا کام اسی کو ساجھے۔ صوبائی حکومت کو عوام کے مسائل پر توجہ دینی چاہئے جو اسے تیسری مرتبہ اقتدار سونپ کر مایوسی کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔

وصال محمد خان

The government increased the prices of petrol and diesel

وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دیدی

وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر کمی کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے 6 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے۔ جبکہ مٹی کا تیل 11 روپے 15 پیسے فی لیٹر سستا کردیاگیا ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے کمی کی گئی ہے۔

Peshawar: Lady Reading Hospital has announced an increase in the slip feeلیڈی ریڈنگ ہسپتال

پشاور: لیڈی ریڈنگ ہسپتال پرچی فیس میں اضافے کا اعلان

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) میں ایمرجنسی اور او پی ڈی کے لیے پرچی فیس میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق نئی پرچی فیس 30 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کی منظوری بورڈ آف گورنرز نے دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، اور یہ وقت کا تقاضہ تھا۔ اس فیصلے کے پیچھے ہسپتال کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مشینری اور آلات کی خریداری پر روک لگا دی گئی ہے اور اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب ہسپتال کو اپنے وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور مالی استحکام کی ضرورت ہے۔