Wisal Muhammad Khan

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

خیبرپختونخواکے سیاسی ،انتظامی ،پارلیمانی، حکومتی ،امن وامان کی صورتحال سمیت تمام شعبے ابتری کے شکارہیں۔حکومت نے وفاق کے خلاف اپوزیشن کاکردارسنبھال لیاہے ۔پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں اگرچہ اچھی پوزیشن ہے اوروہ وہاں پراپوزیشن کابھرپوراورتعمیری کردار اداکرنیکی قابل ہے مگرقومی اسمبلی کے ارکان اپناپارلیمانی کرداراداکرنیکی بجائے یہ ذمہ داری صوبائی حکومت نے اٹھائی ہوئی ہے۔ ہفتہ کے سات دن وزیراعلیٰ احتجاج پرہوتے ہیں کبھی وہ پارٹی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کبھی احتجاج کیلئے لوگوں کونکالنے میں مصروف ہوتے ہیں توکبھی جلوس ،پولیس اورمشینری کے ہمراہ پنجاب کی جانب عازم سفرہوتے ہیں ۔وزیراعلیٰ اور کابینہ کی ان مصروفیات سے حکومتی معاملات تعطل کاشکارہوچکے ہیں وزیراعلیٰ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی انقلاب کے اعلانات کرتے رہتے ہیں ۔گزشتہ ہفتے انہوں نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے ملک میں انقلاب برپاکرنے کااعلان فرمادیا۔ایک ویڈیوپیغام میں ان کاکہناتھاکہ ‘‘ ہمارے احتجاج پر گولیاں چلائی گئیں اورشیل برسائے گئے ،اب گولی کاجواب گولی اورشیل کاجواب شیل سے دیاجائیگا،ہمارے پاس انقلاب کے سواکوئی راستہ نہیں ،ادارے سیاست سے دوررہیں سیاسی فیصلے سیاستدانوں کوکرنے دیں ’’۔اس ویڈیوپیغام کوصوبے کے سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کانشانہ بنایاجارہاہے ۔‘‘مولانافضل الرحمان نے اسے صوبے کو صوبے سے لڑانے کے مترداف قراردیکرکہاکہ وزیراعلی کے منصب کواس قسم کے بیانات زیب نہیں دیتے’’دیگرسیاسی قائدین نے بھی اسی سے ملتے جلتے خیالات کااظہارکیاہے وزیراعلیٰ کوحکومتی معاملات پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیوہیں انہیں اپوزیشن لیڈرکے خول سے نکلناہوگا۔احتجاج وفاق کے خلاف ہویا پنجاب کیخلاف ،اس کیلئے پارٹی پلیٹ فارم استعمال کیاجائے حکومتی نہیں۔ پارٹی کی تنظیمیں اپنی ذمہ داری سنبھالیں اوروزیراعلیٰ آئے روز ادھرادھر کے بیانات اوراحتجاجوں کی بجائے حکومتی معاملات پرتوجہ مرکوزکریں تاکہ عوام کوحکومت کی موجودگی کااحساس ہوجواس سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں وزیراعلیٰ صوبے کے انتظامی سربراہ کی بجائے بیک وقت وفاق اورپنجاب دونوں کے اپوزیشن لیڈربنے ہوئے ہیں جبکہ انکی منصبی ذمہ داریاں سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں ۔

صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے حکومت کے خلاف پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیاہے ۔اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 19ارکان صوبائی اسمبلی نے دوسینئروکلاکی توسط سے دائردرخواست میں مؤقف اختیارکیاہے کہ ‘‘اے ڈی پی میں بعض بلاک ،امبریلا سکیمزاورترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں جوقانون کی خلاف ورزی ہے اوراس کے خلاف پشاورہائیکورٹ سمیت سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجودہیں ،ان میں سڑکوں کی تعمیراورملٹی سیکٹوریل ڈویلپمنٹ وغیرہ کے منصوبے شامل کئے گئے ہیں جن کیلئے ایک ہزارملین روپے کی خطیررقم مختص کی گئی ہے ،مذکورہ امبریلاسکیموں کوغیرقانونی طریقے سے منظورکیاگیاہے اوراس کیلئے فنڈزریلیزکاطریقہ کارحکومت کی اپنی فنڈریلیزنگ پالیسی کے بھی خلاف ہے، یہ منصوبے اقرباپروری کی بنیادپرشامل کئے گئے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں 3کروڑسے زائدووٹ حاصل کئے انکے ارکان سے امتیازی سلوک برتاجارہاہے اپوزیشن ارکان کے علاقوں کوان منصوبوں میں دیدہ دلیری سے نظراندازکیاگیاہے جس کے خلاف اپوزیشن ارکان اسمبلی میں بھی آوازاٹھاتے رہے ہیں مگر شنوائی نہ ہونے پرمجبوراً عدالت سے رجوع کرناپڑاہے ’’سماعت کے دوران چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سے استفسارکیاکہ بلاک ایلوکیشن فنڈزتوسپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے ؟جس پرانہوں نے جواب جمع کروانے کیلئے عدالت سے مہلت طلب کی ۔ فاضل بنچ نے تین روزکی مہلت دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کوصوبدیدی فنڈزکے استعمال سے روک دیا ۔سماعت کے بعداپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ کاکہناتھاکہ صوبے کے فنڈزپرتمام اراکین کامساوی حق ہے مگروزیراعلی فنڈزپاس رکھ کرصرف اپنے ارکان کودے رہے ہیں اے ڈی پی میں بلاک فندزوزیراعلی اپنی مرضی سے استعمال کررہے ہیں ۔عدالت نے ہمارے مؤقف کوتسلیم کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کیاہے اب وزیراعلی ٰصوابدیدی فنڈزاستعمال نہیں کرسکیں گے۔
صوبائی حکومت نے گزشتہ نگران دورمیں بھرتی ہونے والے کم وبیش چھ ہزارملازمین فارغ کرنے کافیصلہ کیاہے۔وزیرقانون آفتاب عالم کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی نے چھان بین مکمل کرنے کے بعدملازمین کوفارغ کرنیکی سفارش کی ہے وزیرقانون کے مطابق بھرتیوں کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ نگران حکومت نے بھرتیوں کیلئے الیکشن کمیشن سے این اوسی بھی لیاتھاجبکہ الیکشن کمیشن کے پاس بھرتیوں کیلئے این اوسی جاری کرنے کااختیارہی نہیں نگران دورمیں بھرتیاں الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء،انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق اورآئین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے اسلئے حکومت نے ملازمین کوفارغ کرنے کیلئے ایکٹ لانے کافیصلہ کیاہے۔ پبلک سروس کمیشن اورسن کوٹہ کے ذریعے بھرتی ہونے والے ملازمین کوفارغ نہیں کیاجائیگاجبکہ نگران دورسے قبل انٹرویودینے والے ملازمین بھی ایکٹ سے مبراہونگے۔

پیسکو(پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی)نے بجلی چوری اورنادہندگان کے خلاف کارروائیوں کی ایک سالہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 7ستمر2023ء سے اب تک صوبے بھرمیں آپریشن کے دوران87ہزارسے زائدغیرقانونی بجلی کنکشن پکڑے گئے جبکہ نادہندگان سے 19 ارب31کروڑروپے سے زائدبقایاجات وصول کئے گئے،بجلی چوری کی مدمیں2ارب76کروڑروپے کے جرمانے بھی عائد کئے گئے ۔ڈائرکٹ کنڈے استعمال کرنے پر36ہزار583افرادکے خلاف مقدمات درج کرنے کیساتھ ساتھ 10ہزار 490 افراد کوموقع پرگرفتارکیاگیارپورٹ کے مطابق یہ آپریشن محض عام صارفین تک محدودنہیں رکھاگیابلکہ پیسکوملازمین کوبھی اسکے دائرۂ کارمیں شامل کیاگیا بجلی چوری میں معاونت پر53پیسکوملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ۔اگریہ رپورٹ حقائق پرمبنی ہے اورپیسکوکایہ دعویٰ درست ہے تواس بڑی ریکوری اورایک لاکھ کے قریب غیرقانونی کنکشنزپکڑے جانے کے باوجودصوبے میں بجلی فراہمی کی صورتحال ابتری کاشکارکیوں ہے ؟ یہاں آج شہری علاقوں میں سولہ گھنٹے شیڈول لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس سے چھوٹے کاروبارٹھپ ہوکررہ گئے ہیں ۔ شہریوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہوچکے ہیں۔ ان حالات میں کیامعاشی سرگرمیاں ہونگیں اورکیاصوبہ ترقی کرے گا؟

صوبے میں ڈینگی وائرس کے واربھی جاری ہیں اس مرتبہ حالات گزشتہ برسوں کی طرح سنگین نہیں ہیں مگر پھربھی تشیخص شدہ کیسزکی تعداد 1081تک پہنچ چکی ہے مرنے والوں کی تعداد2ہے۔رپورٹ کے مطابق ایکٹیوکیسزکی تعداد 436ہے جبکہ 643افرادصحتیاب ہوچکے ہیں ۔

وصال محمد خان

Aqeel Yousafzai editorial

درپیش چیلنجز اور صوبائی حکومت کا رویہ

درپیش چیلنجز اور صوبائی حکومت کا رویہ

جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی ہدایت پر خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت صوبے کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں تمام تر سرکاری وسائل سے لیس ہوکر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر چڑھائی کی مہم جوئی پر چل نکلی ہے تاہم وفاقی حکومت نے نہ صرف سختی کے ساتھ نمٹنے کا لائحہ عمل اختیار کیا ہے بلکہ پاک فوج کے دستے بھی حرکت میں آگئے ہیں اور ریاست کی جانب سے واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ ماضی کی طرح کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

وزیر اعلیٰ نے جس طریقے سے صوبے کے سرکاری وسائل کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی حالانکہ ان کے اپنے صوبے کو بدترین دہشتگردی کے علاوہ بیڈ گورننس کا سامنا ہے اور بہت سے حلقے اس صورتحال کے تناظر میں گورنر راج کا مطالبہ کرنے لگے ہیں ۔ اس ضمن میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ایک ملاقات بھی کی۔

اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ مذکورہ پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرکے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ ریاست بھی اب کے بار اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہر دوسرے ہفتے احتجاج کے نام پر ہونے والی ان سرگرمیوں نے ملک کے پورے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو خطرناک قسم کی سیاسی بغاوت کا سامنا ہے جس میں ایک وفاقی یونٹ یعنی خیبرپختونخوا کی حکومت بھی فریق بنی ہوئی ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے حد کرتے ہوئے بھارت تک کو اس صورتحال میں مداخلت کی دعوت دے ڈالی ہے جو کہ محض ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ یہ مذکورہ پارٹی کی پالیسی کا ایک اظہار ہے ۔ اسی طرح کی ایک کوشش یہ سامنے آئی ہے کہ مذکورہ پارٹی افغانستان کی عبوری حکومت اور ٹی ٹی پی تک کو پاکستانی ریاست کے خلاف مداخلت کے لیے رابطے کرچکی ہے اور جاری مزاحمت میں سینکڑوں افغانیوں کی شمولیت کی نہ صرف اطلاعات ہیں بلکہ درجنوں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔

جس روز وزیر اعلیٰ اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے تگ و دو کرتے دیکھے گئے اسی روز شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑے آپریشن میں مصروف عمل تھیں جبکہ سوات میں بھی آپریشن کیا گیا ۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن میں پاک فوج نے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تاہم اس آپریشن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت 5 جوان شہید ہوگئے ۔ اس تمام تر صورتحال میں صوبائی حکومت کے اختیار کردہ مزاحمتی رویہ کو کسی بھی دلیل کی بنیاد پر مناسب نہیں سمجھا جاسکتا مگر مذکورہ پارٹی تمام لائنیں کراس کرنے پر تلی ہوئی ہے جس پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

عقیل یوسفزئی