Shahid Khan's expression of regret for propaganda against state institutions

ریاستی اداروں کیخلاف پروپیگنڈہ‘ شاہد خان کا افسوس کا اظہار

ریاستی اداروں کیخلاف پروپیگنڈہ‘ شاہد خان کا افسوس کا اظہار

پاک فوج میں سپاہی سے لیکر لیفٹیننٹ جنرل تک کے عہدیدار نے اس مٹی کیلئے قربانی دی ہے, سوشل میڈیا پر بلا کسی تحقیق کے الزام تراشی کسی صورت قبول نہیں ہے‘ صدر تاجر انصاف کا خطاب

صدر تاجر انصاف شاہد خان نے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کسی صورت قبول نہیں ہے کیونکہ افواج پاکستان نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی حفاظت کی ہے اور سپاہی سے لیکر لیفٹیننٹ جنرل تک کے عہدیدار نے اس مٹی کیلئے قربانی دی ہے جس پر ہم شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جبکہ ملک کیلئے لڑنے والے غازیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز تاجر انصاف چیمبر میں منعقدہ تاجروں کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مختلف بازاروں کے صدور اور جنرل سیکرٹریز بھی موجود تھے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر تاجر انصاف شاہد خان نے کہا کہ پاک فوج کے سپاہی سے لیکر اعلیٰ افسران تک ہمارے ہیروز ہیں جو اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بلا کسی تحقیق کے الزام تراشی کسی صورت قبول نہیں ہے موجودہ صورتحال میں قوم کو ریاستی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں تاجر برادری ایک پلیٹ فارم پر ہے اور ریاستی اداروں کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد ریاستی اداروں کے حق میں ایک بہت بڑی ریلی نکالی جائے گی جس کی قیادت وہ خود کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنیوالوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ نہ کرے۔

Aqeel Yousafzai editorial

کھوئے تھے تم کہاں ۔۔۔؟

کھوئے تھے تم کہاں ۔۔۔؟

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اعلی امین گنڈاپور سلام آباد سے گزشتہ روز پراسرار طریقے سے ” گمشدہ ” ہونے کے بعد اتوار کی شام کو انتہائی فلمی انداز میں صوبائی اسمبلی میں نمودار ہوئے جہاں انہوں نے خلاف حقائق بہت دھواں دار تقریر کرتے ہوئے اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے ان کو کسی نے اغوا یا گرفتار کرلیا تھا اور کوئی بڑا ” معرکہ ” سر کرکے پشاور پہنچے ہو۔

یہ بات متعلقہ تمام باخبر حلقوں کو معلوم ہوچکی ہے کہ وزیر اعلیٰ بوجوہ اپنے کارکنوں کو بیچ چوراہے چھوڑ کر اسلام آباد کے پختونخوا ہاؤس چلے گئے تھے جہاں کچھ گھنٹے گزارنے کے بعد ایک پچھلے دروازے سے وہ انتہائی پراسرار طریقے سے پشاور واپس آگئے تھے تاہم اس دوران انہوں نے اپنی قیادت کو بھی اس غیر متوقع ” منتقلی ” سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی لیڈر شپ اور حکومت نے حسب روایت پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ان کو ” مسنگ ” قرار دیتے ہوئے ریاستی اداروں پر مختلف نوعیت کے الزامات لگانے کی مہم شروع کردی اور اس گہما گہمی میں چھٹی کے دن یعنی اتوار کو صوبائی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا جس کے دوران صوبے کی پارلیمانی روایات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سینکڑوں مشتعل کارکنوں کو بغیر کسی اجازت نامے یا چیکنگ کے اندر گھسنے دیا گیا۔

اسمبلی میں ایک عجیب و غریب قسم کی قرارداد منظور کی گئی جس میں صوبے کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایوان کو وزیر اعلیٰ کی گمشدگی کے بارے میں بریفنگ دیں۔

اجلاس کی ہنگامہ خیزیاں جاری تھی کہ وزیر اعلیٰ نے انتہائی فلمی انداز میں ” انٹری ” مارتے ہوئے سب کو حیران ، پریشان کرکے رکھ دیا۔

وزیر اعلیٰ نے جو تقریر کی اور ایوان میں جو ” تفصیلات ” پیش کیں وہ نہ صرف یہ کہ ناقابل یقین ہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اس کے فوراً بعد چند نیوز چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے واضح انداز میں اس پوری پراسیس کو ” خودساختہ گمشدگی ” کی واردات قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اس دوران جو کچھ کیا اس کی ان سے جواب طلبی کی جائے گی۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں جس طریقے سے صوبے کی حکمران جماعت اور اس کی حکومت نے وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں پر جس نوعیت کے الزامات لگائے اس تمام عمل کی انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک جدید ریاست کا مذاق اڑانے والا وہ عمل تھا جس نے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

عقیل یوسفزئی