ضلع مردان میں بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کی مہم شروع

ضلع مردان میں بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کی مہم شروع

ضلع مردان میں بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کی مہم شروع کردی گئی۔اسکولوں کی بنیاد پر شروع کیے جانے والے والے بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کے پروگرام کا مقصد9 لاکھ 83 ہزارسے زائد بچوں کا سرکاری،دینی مدارس اور نجی اسکولوں میں مفت علاج کی فراہمی ہے،علاج کی سہولت پہلی سے دسویں جماعت تک کے 5 سے14سال کی عمر کے اسکول جانے اور نہ جانے والے بچوں کو فراہم کی جائے گی۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر2 ہوتی مردان میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل سعید اللہ جان نے طالبہ کو ڈی ورمنگ کی گولی کھلا کر اس مہم کا باقاعدہ آغاز کیا۔اس موقع پر ریجنل منیجر ڈی ورمنگ پروگرام یاسر خان،اے ڈی سی ایل ایچ ڈبلیو پروگرام مہرین بی بی، غزل،ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فوزیہ اور ڈسٹرکٹ کوارڈنیٹر ڈی ورمنگ پروگرام امجد خٹک اور سکول کی پرنسپل بھی موجود تھے، ڈی ورمنگ مہم 04 نومبر سے 08 نومبر تک جاری رہے گی۔ اس پروگرام کے تحت سکولز میں بچوں کو پیٹ کے کیڑوں کی دوا کھلائی جائے گی۔ اس مہم میں تمام سرکاری سکول، پرائیویٹ سکول اور مدارس حصہ لیں گے۔ تربیت یافتہ اساتذہ بچوں کو سکولز میں دوا کھلائیں گے اور محکمہ صحت کے ڈاکٹرز کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہیں گے۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل سعید اللہ جان نے کہا کہ بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ڈی ورمنگ انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس سے بچوں کی صحت اور تعلیمی سرگرمیوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل سعید اللہ جان نے کہا کہ سالانہ بڑے پیمانے پر بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کی مہم بچوں کی جسمانی اور علمی نشونما کے لیے اہمیت کی حامل ہے اس سے بچوں کے جسم میں انفیکشن کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگی،بچوں کی اسکول کی کارکردگی بہتر ہوگی،حکومت پاکستان کی صحت کی اولین ترجیحات میں غذائیت اور خون کی کمی کا خاتمہ شامل ہے، جس کے لیے ڈی ورمنگ تیز، آسان اور محفوظ ترین طریقہ علاج ہے،انہوں نے والدین اور اساتذہ سے کہاہے کہ وہ مہم کو کامیاب بنانے کیلئے محکمہ صحت کے عملے کے ساتھ تعاون کریں۔

DGISPR jamia ashrafia Lahore

ڈی جی ISPR کی جامعہ اشرفیہ لاہور کے علماء، فضلاء اور طلباء سے خصوصی نشست

پاک فوج کے خلاف جو بھی منفی پراپیگینڈہ بنا تحقیق کے پھیلایا جاتا رہا آج اس حوالے سے تمام ابہام اور شکوک و شبہات دور ہوگئے۔ ‏DG ISPR نے جس وسیع القلبی سے ہمارے سوالات کے مدلل جواب دیے وہ انتہائی خوش آئیند اور حوصلہ افزاء ہیں۔ پاک فوج ہماری آن اور شان ہے اور پوری قوم سمیت دینی مکاتبِ فکر بھی اپنی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔

Aqeel Yousafzai editorial

جاری کشیدگی پر رہنماؤں اور ماہرین کی آراء

ملک میں مختلف مثبت اشاریوں اور اقدامات کے باوجود ایک مخصوص پارٹی کے منفی اور جارحانہ طرزِ عمل میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آرہی اور اب اس پارٹی نے 9 نومبر کو ایک بار پھر صوابی میں اجتماع کا اعلان کردیا ہے ۔ اگر چہ مذکورہ پارٹی کو بدترین نوعیت کے اندورنی اختلافات کا سامنا ہے اور اس کی قیادت کے پاس ” کارڈز ” تقریباً ختم ہوچکے ہیں اس کے باوجود کشیدگی جاری ہے اور اس ٹینشن کو ہوا دینے میں پاکستان کی مین سٹریم میڈیا اور کی بورڈ واریئرز کا بنیادی ہاتھ ہے ۔ حکومت نے بعد از خرابی بسیار کے مصداق 1997 کی ٹیررسٹ ایکٹ میں ترامیم کا بل پیش کردیا ہے جس کے تحت دہشت گردی اور شرپسندی میں ملوث عناصر کے خلاف موثر کارروائی ممکن ہوسکے گی مگر بعض حلقوں کی آراء ہیں کہ جاری صورتحال کو دیکھتے ہوئے بعض عناصر کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرانے کا راستہ ہموار کرنا لازمی ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا کا قبلہ بھی چین ، یو اے ای اور اب بھارت کی طرح سخت اقدامات کے ذریعے درست کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

ملٹری کورٹس کی اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے بھی اسی تناظر میں حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ قومی اداروں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں ان کے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک ہونا چاہیے ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خیبرپختونخوا بدترین دہشت گردی اور بد انتظامی کی لپیٹ میں ہے مگر وزیر اعلیٰ اور ان کی پارٹی کو کوئی احساس نہیں ہے اور وہ ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی پلاننگ کررہے ہیں حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ موصوف وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے آرہے ہیں ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے نیویارک میں گفتگو کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ پی ٹی آئی عوام کو یہ بتائے کہ اس پارٹی نے گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا کے لیے کیا کچھ کیا ہے اور صوبے کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں۔

سینئر صحافی فہمیدہ یوسفی کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں مگر خیبرپختونخوا کی حکومت عملاً ہمیں کچھ خاص اقدامات سے لاتعلق نظر آتی ہے اور یہ لوگ محاذ آرائی کی پالیسی پر عین اسی طرح گامزن ہیں جیسے کہ 2013 میں مشہور زمانہ دھرنے کے دوران تھے اگر چہ ان کو اس وقت بھی ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا اور اب بھی ان کو اس طرزِ عمل کے ساتھ کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔ تجزیہ کار عرفان خان کے بقول صوبے کو بدترین قسم کی دہشتگردی کے علاوہ بدانتظامی اور کرپشن کا سامنا ہے مگر حکومت کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے چیف منسٹر ، گورنر اور انسپکٹر جنرل پولیس اپنے آبائی علاقے میں یا تو جانے کی ہمت نہیں رکھتے یا ان کو قبائلی اور جنوبی اضلاع کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

سابق وزیر اجمل وزیر کے بقول موجودہ صوبائی حکومت نہ صرف یہ کہ قبائلی اضلاع کے مسائل سے بلکل لاتعلق ہے بلکہ وفاقی حکومت ، گورنر اور صوبے کی اپوزیشن کا کردار بھی محض بیانات تک محدود ہے جس کے باعث عوام میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔ ان کے مطابق ان لوگوں سے اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی کہ جاری صورتحال کے تناظر میں ایپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا جائے اور معاملات کا اعلیٰ سطحی جایزہ لیا جائے ۔ اجمل وزیر کے مطابق اس تمام منظر نامے میں جتنی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے اتنی ذمہ داری وفاقی حکومت پر بھی ڈالی جاسکتی ہے جس نے صوبے کو محض صوبائی حکومت کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

دوسری جانب نامور تجزیہ کاروں عارف یوسفزئی اور فرزانہ علی نے فیک نیوز اور سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور جاری کشیدگی میں ان دو عوامل کا بھی بنیادی کردار ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئی بھی اس صورتحال کا کوئی سنجیدہ نوٹس لیتا دکھائی نہیں دیتا اور پورا معاشرہ بدترین قسم کی افواہوں اور منفی پروپیگنڈا کی زد میں ہے۔

عقیل یوسفزئی

جسٹس فائزعیسیٰ کیساتھ بدتمیزی

تحریک انصاف کے کارکنوں نے لندن میں پاکستان کی اہم شخصیت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی رسوائی کا سامان کیا۔ اس جماعت کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ کہیں بھی اعلیٰ ملکی شخصیات کیساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، غل غپاڑہ کرتے ہیں اور اپنے اس کارنامے کی ویڈیوز وائرل کرکے اس پر بغلیں بجاتے ہیں اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے وہ سابق چیف جسٹس ہیں جن کے بارے میں کوئی دشمن بھی دعوے سے نہیں کہہ سکتاکہ انہوں نے کبھی آئین کی خلاف ورزی کی ہو، ماورائے آئین کوئی فیصلہ دیا ہو یا کوئی قدم لیا ہو۔ عمران خان نے دوران اقتدار ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو صدارتی ریفرنس بھجوا دیا جو بالکل غلط اور بہتان تراشی پر مبنی اور بے بنیاد ثابت ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنا بھرپور دفاع کیا اور سپریم کورٹ کے پاس ان کی بریت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا۔ وہ پاکستانی تاریخ کے واحد چیف جسٹس تھے جو سپریم کورٹ سے کلیئر ہوکر عہدے پر فائز ہوئے، ان کے کریڈٹ پر ڈھونڈے سے بھی کوئی غیر آئینی اقدام یا آئین سے ماور کوئی فیصلہ نہیں ملتا۔

پی ٹی آئی اور اس کے قائدین نے پہلے تو ان کے خلاف ریفرنس بھجوا کر انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی، پھر انہیں چیف جسٹس بننے سے روکنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا اور اب جبکہ وہ ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے چیف جسٹس بن گئے اور اپنا سنہرا دور گزار کر باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہو گئے تو پی ٹی آئی کو نجانے ان سے کونسی دشمنی یاد آگئی کہ بیرون ملک ان کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔

ان کی قانونی مہارت اور فرض سے لگن کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے معزز قانونی درسگاہ نے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں اپنے ہاں ایک اہم عہدے کیلئے منتخب کیا جو پی ٹی آئی سے برداشت نہ ہوسکا۔ برطانیہ میں ملک کا تماشا بنادیا نہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تضحیک کی گئی بلکہ سفارتخانے کی گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا۔

تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے یہ بدتمیزی اور ہلڑبازی کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل بھی وہ بیرون ملک کئی اہم شخصیات کیساتھ یہ سب کر چکے ہیں۔ مسجد نبویؐ کے احاطے میں سابق وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف بھی اسی قسم کی کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے جس کا کوئی فیض تو نہیں ملا۔ سعودی حکومت نے ہلڑبازی میں ملوث کارکنوں کو گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی۔ ان میں سے متعدد کارکن ایسے بھی تھے جو اپنی ماں بہن اور بیوی کا زیور فروخت کرکے مزدوری کی غرض سے سعودی عرب میں مقیم تھے۔ ان حرکات کے باعث نہ صرف انہیں سزا دی گئی بلکہ ان کا روزگار بھی چھن گیا۔

ان کی تھوڑی سی بیوقوفی اور تحریک انصاف قیادت کی جانب سے دی گئی تربیت کے نتیجے میں کئی افراد کی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی، مگر پارٹی قیادت کو کسی کی زندگی اور موت سے کیا لینا؟ ان کا کام تو خبروں کی زینت بننا اور دوسروں کی ہتک پر بغلیں بجانا ہے۔ برطانیہ میں ان مذموم حرکات کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزا ملنے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان نے ملوث افراد کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ انتہائی مستحسن اقدام ہے۔

ملوث افراد کے نہ صرف پاسپورٹس منسوخ ہونے چاہئیں بلکہ انہیں پاکستان میں بلیک لسٹ کیا جائے اور یہ جب بھی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں انہیں گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو شعور کے نام پر بے شعوری اور احمقانہ اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں نمایاں نظر آنے والے ذلفی بخاری اور ملیکہ وغیرہ کو ان اوچھی حرکتوں سے باز رکھنا ضروری ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ ایک ایسے جج تھے اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کا مجسمہ بنا کر چوک میں نصب کیا جاتا۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں کبھی قانون سے ماور کوئی اقدام نہیں لیا، ہمیشہ آئین و قانون کی پاسداری کی۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف نے اپنی دور حکومت میں ان کے ساتھ بہت برا کیا، انہیں تماشا بنا دیا، انہیں ان کی بیوی سمیت عدالتوں کے چکر لگوائے اور ان کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی، مگر چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا۔

ورنہ وہ 9 مئی واقعات کا از خود نوٹس لے کر تحریک انصاف کی کشتی ڈبونے کی طاقت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس جماعت کے خلاف جو انتخابی نشان والا فیصلہ دیا اس کی براہ راست کوریج کروائی اور ایک ایک لمحہ عوام کے سامنے لایا گیا۔ اور ایک ایک نقطے کی ایسی وضاحت کروائی کہ عام آدمی بھی کیس کو سمجھ گیا اور اس میں کوئی ابہام باقی نہ رہا۔ علاوہ ازیں بے پناہ مواقع ایسے آئے کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چاہتے تو تحریک انصاف کے ساتھ تمام حساب بے باق کر سکتے تھے، مگر انہوں نے آبرومندانہ، دانشمندانہ اور مدبرانہ طرز عمل اپنایا اور تحریک انصاف قیادت کی طرح اپنے عہدے کو ذاتی عناد کیلئے استعمال نہیں کیا۔

آئین و قانون کی سربلندی کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی خدمات کو تا ابد یاد رکھا جائے گا، ان کی خدمات قابل رشک ہیں اور کوئی بودے سے بودا شخص بھی ان کی خدمات کو رد نہیں کر سکتا۔ حکومت پاکستان نے ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لے کر اچھا قدم لیا ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک اہم شخصیات کی یوں بے عزتی ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ یہ جماعت اور اس کے قائدین شاید خود کو کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ یہ دوسروں کو بے ایمان اور چور قرار دیتے ہیں مگر خود سب سے بڑے بے ایمان اور چور نکل آتے ہیں۔

انہوں نے تو شہ خانہ کی گھڑیاں اور برتن تک نہیں چھوڑے مگر دوسروں کے خلاف چور چور کے نعرے لگاکر اور لگوا کر خود پاک دامن بنے رہے۔ اس مصنوعی پاک دامنی کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک و قوم کیلئے بے لوث خدمات انجام دینے والی شخصیات کے ساتھ اگر تسلسل سے یہی کچھ ہوتا رہا تو اس ملک اور آئین و قانون سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو ہوگا۔

لندن واقعے میں ملوث افراد کو اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ معاف بھی کر دیں تو ریاست کو معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ کڑی سے کڑی سزا دلوا کر انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کسی کو اہم شخصیات کیساتھ بدتمیزی اور ان کی یوں بے توقیری کرنے کی جرات نہ ہو۔

وصال محمد خان

Organized a three-day national conference under the auspices of the Department of Criminology, University of Peshawar

پشاور یونیورسٹی کے زیراہتمام تین روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد

جامعہ پشاور کے شعبہ کریمنالوجی کے زیراہتمام تین روزہ قومی کانفرنس پیر سے شروع ہوگٸی. پیر سے شروع ہونے والی کانفرنس میں پٍچاس سے زاٸد مقالے پیش کٸے جاٸیں گے۔ تین روزہ کانفرنس میں قانون کے نفاز میں بدلتے رجحانات, تقاضے اور درپیش چیلنجز کا موضوع سخن زیر بحث ہوگا۔ پیر کی صبح صوباٸی وزیر براۓ اعلی تعلیم مینا خان آفریدی مہمان خصوصی ہونگے جبکہ واٸس چانسلر جامعہ پشاور پروفیسرمحمد نعیم قاضی , انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات محمد محسود خان ,وفاقی شریعت عدالت کے جسٹس پروفیسر قبلہ ایاز ,أٸی سی آر سی کی زرتاشہ قیصر خان افتتاحی سیشن میں خطاب کریں گے۔

جامعہ پشاور کے شعبہ کریمنالوجی کے زیر اہتمام تین روزہ قومی کانفرنس سر صاحبزادہ عبدالقیوم تھیٹر ہال میں شروع ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں اب تک تین درجن سے زاٸد جامعات کے مندوبین پچاس سے زاٸد مقالے منگل کے روز پیش کریں گے کانفرنس کا عنوان ”قانون کے نفاز میں بدلتے رجحانات, تقاضے اور درپیش چیلنجز” ہوگا جس میں مندوبین ملکی سطح پر جاری تحقیق کو پیش کریں گے جس میں بہترین مقالہ جات کو کتابی شکل دی جاۓ گی ۔ کانفرنس کے سیکرٹری ڈاکٹر ابرار خان اور چیف آرگناٸزر پروفیسر بشارت حسین کے مطابق ,خیبر پختونخواہ کے اولین تدریسی شعبہ کی حیثیت سے ان کا شعبہ اپنی زمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنی تاسیس سے اب تک تیسری کانفرنس کے انعقاد سے ملکی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محقیقین کے درمیان ایک موثر رابطہ کاری کا فروغ اور ملکی سالمیت کو مستحکم کرنا شامل ہے۔

Pakistan's Amjad Ali won the Istanbul Marathon

استنبول میراتھون پاکستان کے امجد علی نے جیت اپنے نام کرلی

ترکیہ میں ہونیوالی استنبول میراتھون میں پاکستان کے امجد علی نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور وہ اس ایونٹ میں پاکستان کے تیز ترین رنر رہے۔ ترکیہ کے شہر استنبول میں منعقد ہونے والی گولڈ کیٹیگری کی استنبول میراتھون میں پاکستانی رنرز نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے امجد علی نے میراتھون کو 2 گھنٹے 49 منٹ اور 29 سیکنڈ میں مکمل کرتے ہوئے اسنتبول میراتھون کے تیز ترین پاکستانی رنر کا اعزاز حاصل کیا اور مجموعی طور پر 47 ویں پوزیشن پر رہے۔

ایتھوپیا کے دیجینا دیبیلا نے 2:11:40 کی ٹائمنگ کے ساتھ میراتھون میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ہزاروں رنرز کی موجودگی میں پاکستان کے دیگر ایتھلیٹس نے بھی بہترین نمایاں کا مظاہرہ کیا۔ مزمل خان نیازی نے 3:13:45 اور بلال عمر نے 3:45:58 کی ٹائمنگ کے ساتھ میراتھون مکمل کی۔ پاکستانی رنرز علی خورشید، روحیل احمد، اسد تنگیکر اور محمد عدنان نے بھی چار گھنٹے سے کم وقت میں میراتھون مکمل کی۔