ایبٹ آباددی رائٹ سکول سپورٹس گالا سرور کیمپس سرور آباد میں شروع ہوگیا جس کے مہمان خصوصی سابق ڈی جی سپورٹس طارق محمود نے فیتہ کاٹ کر ایونٹ کا افتتاح کیا اس موقع پر ایم ڈی دی رائٹ سکول شوکت خان تنولی نے مہمان خصوصی کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہی اور انہوں نے اپنے سٹاف کی تعریف کی کہ انتہائی کم وقت میں انیوں نے بچوں کو ایونٹ کے لئے تیار کیا اگر اسی طرح انکی کوششیں جاری رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ادارہ ایک بہترین مثالی درسگاہ ثابت ہوگا اس موقع پر بچوں نے مختلف میں حصہ لیا اور نمایاں پوزیشن جاصل کی اس موقع پر طارق محمود کا کہنا تھا کہ آج کے بچے کل کے قوم کے معمار ہیں اور انہی نونہالوں نے قوم کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے اور تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ بچوں کو کھیل جیسی مثبت سرگرمی فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ کھیلوں کے انعقاد سے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے انہوں نے دی رائٹ سکول کے سٹاف کی تعریف کہ انتہائی کم وقت میں بہترین فنکشن آرگنائز کیا۔
پشاور: خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے زیر اہتمام اناٹومی نمائش کا انعقاد
خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ سائنسزپشاور کے زیر اہتمام اناٹومی پر مبنی ایک انٹرایکٹو تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں اناٹومی ماڈلز کےاسٹالز کے ذریعے طلبہ کی عملی تعلیم اور شمولیت کو فروغ دینے کےلئے اقدامات کیے گئے۔ اس اقدام کا مقصد نرسنگ کے طلبہ کو تخلیقی اور تعلیمی انداز میں اناٹومی کی سمجھ بوجھ پیش کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار انعام اللہ خان وزیر اور انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ سائنسزکی ڈائریکٹر ڈاکٹر نجمہ ناز نے اسٹالز کا افتتاح اوردورہ کیا اور طلبہ کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ کی مہارت، اعتماد اور مجموعی تعلیمی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس موقع پر رجسٹرارکے ایم یو انعام اللہ خان وزیر نے تجرباتی تعلیم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے طلبہ میں تخلیقی صلاحیت اور گہری سمجھ کو پروان چڑھانے کے لیے اسی طرح کی مزید سرگرمیوں کے انعقاد کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اصل مسئلہ انہیں مواقع فراہم کرنے کاہے۔انہوں نے کہا کہ طلباء نے آج کی نمائش میں جن تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے اس سے ان کی محنت اور لگن کا پتہ چلتاہے جو ہم سب کے لیئے قابل فخر ہے۔ڈاکٹر نجمہ ناز نے بھی طلبہ کی محنت کو سراہتے ہوئے مستقبل میں مزید انٹرایکٹو تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ان سرگرمیوں کا مقصد طلباء کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر انہیں پیشہ ورانہ اور عملی چیلنجز کے لیئے عملاً تیار کرنا ہے ۔اناٹومی اسٹالز میں ماڈلز، چارٹس اور عملی مظاہرے شامل تھے، جنہیں طلبہ اور اساتذہ دونوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔ یہ تقریب نرسنگ اور اتحادی صحت کے شعبے میں تعلیمی جدت کو فروغ دینے کے لیے کے ایم یو کے عزم کا مظہر ثابت ہوئی۔
پشاور: افراد باہم معذوری کے عالمی دن کی مناسبت سےایک روزہ تقریب
پشاور میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے زیر اہتمام افراد باہم معذوری کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک روزہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا عنوان خصوصی افراد میں موجود قیادت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ پائیدار اور جامع مستقبل کے لیے منصوبہ بندی رکھا گیا ۔تقریب میں باہم معذور افراد کی جانب سے مختلف سٹالز لگائے گئے جس میں اپنے کام کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس پاکستان کے سربراہ نیکولس لمبرٹ نے کہا کہ آئی سی آر سی گزشتہ پانچ دہائیوں سےباہم معذور افراد کی جسمانی بحالی کے ساتھ ساتھ اپنے شراکت داروں کی مدد سے مختلف شعبہ جات میں تعاون فراہم کررہی ہے۔ جس میں مواقع فراہم کرکے انہیں معاشی طور پر مستحقم کرنا، ٹیکنکل ایجوکیشن فراہم کرنا سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2012 سے اب تک ہرسال انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس باہم افراد معذوری کے عالمی دن پر تقریبات کا اہتمام کرتی ہے تاکہ معاشرے معذورافراد کی سماجی شمولیت اور انہیں درپیش چیلنجز کو اجاگر کرکے حل ڈھونڈنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف سال 2024 میں ہم نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ ملکر 7 ہزار معذور افراد کی جسمانی بحالئ میں مدد فراہم کئ ہے۔ دوسری جانب تقریب میں مہمانان خصوصی صدر خیبرپختونخوا چیمبر آف کامراس فضل مقیم خان، چئیرمین پاکستان ہلال احمر قبائلی اضلاع ایڈووکیٹ عمران وزیر، مینجنگ بورڈ ممبر پاکستان ہلال احمر خیبرپختونخوا ایڈووکیٹ لاجبر خان اور وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی ڈاکٹر علی محمد خان یوسفزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب ملکر کہیں نہ کہیں اپنے اداروں کے زریعے افراد باہم معذوری کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم یہ اقدامات مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جس معذور افراد کے کوٹہ میں اضافہ، سود سے پاک بینک قرض، اور انہیں قومی اور بین الاقوامی مارکیٹوں سے جوڑنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر کام شروع کرنا چاہیے۔ معذور افراد معاشرے کے مساوی رکن ہیں اور ہر ایک کی طرح مکمل زندگی گزارنے کے یکساں مواقع کے مستحق ہیں۔تقریب کے شرکاء نے معاشرے کے ہر پہلو میں معذور افراد کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت کا اعادہ کرتا ہے۔ ایونٹ کے اختتام پر اس ایک روزہ سپورٹس فیسٹیول کے کھلاڑیوں اور آفیشلز میں انعامات تقسیم کیے گئے۔
سیکورٹی فورسز کا لکی مروت میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن
4 دسمبر 2024 کو، سیکورٹی فورسز نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع لکی مروت میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران اپنے ہی دستوں نے خوارج کے ٹھکانے کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ خوارج جہنم واصل ہوئے جبکہ دو خوارج زخمی بھی ہوئے۔ علاقے میں پائے جانے والے کسی اور خارجی کو ختم کرنے کے لیے سینی ٹائزیشن آپریشن کیا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
کُرم امن و امان کے قیام کیلئےگرینڈ جرگہ، امن کمیٹی کا اہم فیصلہ
کمشنر کوہاٹ نے ہنگو میں گرینڈ جرگہ کے ممبران، ارکان امن کمیٹی سے ملاقات کی جس میں فیصلہ ہوا کہ کُرم کے مسئلے پر ہنگو، کوہاٹ اور اورکزئی میں کسی قسم کے جلسے یا جلوس نہیں ہوں گے اور ٹل کوہاٹ روڈ پر آئندہ کوئی بھی احتجاج نہیں کیا جائےگا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے احکامات کی روشنی میں کمشنر کوہاٹ ڈویژن نے ہنگو اور اورکزئی کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کے ہمراہ ہنگو میں گرینڈ جرگہ کے ممبران اور کوہاٹ ڈویژن امن کمیٹی کے اراکین کے ساتھ تفصیلی ملاقات اور مشاورت کی۔ مشترکہ اجلاس میں ٹل کوہاٹ روڈ پر آئندہ کوئی بھی احتجاج نہ کرنےکا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ خلاف ورزی پر پولیس قانون شکنوں کیخلاف کاروائی کرے گی۔فیصلے کے مطابق کُرم کے مسئلے پر ہنگو، کوہاٹ اور اورکزئی میں کسی قسم کے جلسے یا جلوس نہیں ہوں گے۔گرینڈ جرگہ کرُم کے دونوں فریقوں سے رابطے میں ہے، جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کرُم کے دونوں فریق اور گرینڈ جرگہ عنقریب کوہاٹ میں معقول جنگ بندی پر معاہدہ کریں گے اور افہام و تفہیم سے مسئلےکا مستقل حل نکالیں گے۔
گورنر ہاؤس پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس شروع
کانفرنس کی صدارت و میزبانی گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کر رہے ہیں۔ اے پی سی میں آفتاب شیر پاؤ، میاں افتخار حسین، انجنیئر امیر مقام، مولانا لطف الرحمان، پروفیسر ابراہیم، محمد علی شاہ باچا، محسن ڈاور، سکندر شیر پاؤسمیت دیگر صوبائی قیادت کی شرکت۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور قومی ترانہ سے کیا گیا۔ تمام سیاسی قیادت کو گورنر ہاؤس آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ صوبہ کے امن و مسائل، حقوق کیلئے آج سیاسی قیادت یہاں موجود ہے۔ آج کانفرنس میں سیاسی قائدین کی موجودگی نے ثابت کیا کہ صوبہ کے مسائل و حقوق پر ہم سب یکجا ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ وزیر اعلی جو حکمران جماعت کے صوبائی صدر بھی ہیں وہ اس کانفرنس کا انعقاد کرتے۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ صوبائی اسمبلی میں ارکان اسمبلی پیش کریں گے۔ کانفرنس کا اعلامیہ و تجاویز وفاقی حکومت کو ارسال کی جایئں گی۔
خیبرپختونخوا پولیس ایکٹ 2017ء میں ترمیم
موجودہ متمدن دنیامیں پولیس امن عامہ اورشہریوں کی جان ومال کے تحفظ کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے ۔ پاکستان کے تمام صوبوں اوروفاق میں پولیس فورس موجودہے اور ہرصوبہ اس سے اپنی استطاعت کے مطابق کام لیتاہے ۔دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوامیں بھی پولیس سے عوام کوان گنت شکایات رہتی ہیں جن کے ازالے کیلئے یہاں پبلک سیفٹی کمیشن موجودتھاجسے ختم کرکے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاہے جس پر حسب معمول حکومتی حلقے شاداں وفرحاں نظر آ رہے ہیں جیسے انہوں نے ہمالیہ سرکیاہو جبکہ اپوزیشن حلقے اور پولیس کے بیشترسابقہ وموجودہ افسران اسے سات سال میں کھڑے کئے گئے ڈھانچے کیساتھ چھیڑچھاڑقراردے رہے ہیں۔
ایک سینئرصحافی کی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد پولیس افسران اس نئی قانون سازی سے نالاں ہیں جبکہ کچھ ریٹائرڈ افسران اسکے حامی ہیں۔ صوبائی اسمبلی نے پولیس ایکٹ2017 میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے ۔ پولیس پہلی باربلدیاتی نمائندوں ،ریٹائرڈججز، ریٹائرڈ بیورو کریٹس، سول سوسائٹی اورممبران صوبائی اسمبلی کوبذریعہ پبلک کمپلینٹ اتھارٹی جوابدہ ہوگی۔ وزیرقانون آفتاب عالم کے مطابق پولیس کو دئے گئے اختیارات پر کوئی چیک اینڈبیلنس موجودنہیں تھاجس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اسلئے احتسا ب اورشفافیت کی خاطر پولیس ایکٹ میں ترامیم کی گئی ہیں۔اب پولیس براہ راست عوامی نمائندوں اور وزیر اعلیٰ کو جوابدہ ہوگی۔ گریڈ 18 سے اوپرایڈیشنل آئی جی اورڈی آئی جی کی ٹرانسفرپوسٹنگ کا اختیار وزیر اعلیٰ کوحاصل ہوگا جبکہ پولیس سے پوچھ گچھ کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن کوختم کرکے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاہے اتھارٹی ضلعی اور صوبائی سطح پرکام کریگی۔
15 رکنی پبلک کمپلینٹ اتھارٹی میں4 حکومتی اور 3اپوزیشن ایم پی ایز ہونگے ۔دیگرارکان ریٹائرڈججز، بیورو کریٹس ،سول سوسائٹی کے افراد اوربلدیاتی نمائندے ہونگے جبکہ ضلعی کمپلینٹ اتھارٹی میں تین حکومتی اور دواپوزیشن ممبران ہونگے۔ کانسٹیبل سے اعلیٰ افسر تک کی شکایت اتھارٹی کے پاس آئیگی،اتھارٹی سزا کے حوالے سے کابینہ کو سفارش کریگی جبکہ سزاکاآخری اختیار وزیراعلیٰ اورکابینہ کوحاصل ہوگا۔ جیساکہ اوپرعرض کیا گیا ہے پولیس ایکٹ میں ترمیم پرپولیس افسران کو شدید تحفظات ہیں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پرکام کرنے والی خیبرپختونخواکی پولیس فورس نئی قانون سازی سے مطمئن نہیں ، ایک سینئرپولیس افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ ‘‘پولیس ایکٹ 2017ء تین سالہ محنت کے بعد بنایا گیا تھاجسے موجودہ حکومت نے 24 گھنٹوں میں بے اثرکردیا،جلدبازی میں کئے گئے فیصلے سے عوام پربرااثرپڑیگا، پولیس پہلے سے موجودپبلک سروس کمیشن کوجوابدہ تھی، جس کے چیئرمین چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ، ممبران میں چیئرمین پبلک سروس کمیشن اور احتساب کمشنرسمیت دیگر تھے، حکومت نے سات برسوں میں اس کمیشن کومحکمہ داخلہ میں دفتر فراہم کیااورنہ ہی اتھارٹی کیلئے مجاز آفیسرتعینات کئے کمیشن کوفعال کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی غیرفعال کمیشن کوختم کرنادرست نہیں،اب ایک کونسلرپولیس آفیسرکی انکوائری کریگاپولیس افسران سیاسی انکوائریوں میں پھنسے رہینگے تو سیکیورٹی کی ذمہ داری کون پوری کریگا؟پختونخواپولیس فورس 1لاکھ 15 ہزار افرادپرمشتمل ہے، ڈی ایس پیزکی ڈائرکٹ تقرری کا اختیار صوبائی حکومت کودینے سے 600 انسپکٹرزکی ترقی کا عمل بھی رک جائیگا، جبکہ دیگرپولیس اہلکاروں کی ترقی بھی متاثرہونے کا یقینی خدشہ ہے ’’۔
حالیہ ترمیم کے بعد ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرکسی بھی ضلع میں تبادلے کے بعد دوسال تک وہاں دیوٹی دینے کاپابند ہوگا۔ سابق آئی جی پولیس اخترعلی شاہ نے ایک انٹرویومیں کہاکہ پولیس اپنی تفتیش اوراینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت کارکردگی بہتربنانے پرتوجہ دے،اختیارات وزیر اعلیٰ کودینے میں کوئی حرج نہیں،پولیس ایکٹ 2017ء سے قبل پولیس آرڈر2002ء کے تحت بھی 18سے 21 گریڈتک افسران کا تبادلہ سیکشن افسرہی کرتاتھا،اورٹرانسفرپوسٹنگ حکومتی احکامات کے مطابق ہوتی تھی ،پولیس ایکٹ 2017ء میں وزیراعلیٰ کے تمام اختیارات آئی جی کوتفویض کئے گئے تھے لیکن کیااس سے پولیسنگ میں بہتری آئی ؟سٹریٹ کرائمز پرقابوپالیاگیا؟امن وامان کی صورتحال بہترہوئی ؟پولیس روئیے میں تبدیلی آئی ؟ پولیس کوچونکہ بجٹ حکومت دیتی ہے ، حکومت اوراسمبلی عوام کوجوابدہ ہے تواس میں کوئی قباحت نہیں کہ اختیارات وزیراعلیٰ کودئے جائیں ۔ سابق آئی جی موٹروے وسابق آئی جی سندھ افتخاررشیدکے مطابق ‘‘ماتحت آفیسرجب پولیس سربراہ کوجوابدہ نہیں ہوگاتوادارہ تباہ ہوجائیگا۔ 2021ء میں بھی حکومت نے پولیس ایکٹ میں ترمیم کی کوشش کی تھی لیکن سابق آئی جیز فورم نے وزیراعظم عمران خان ،وزیراعلیٰ اور ہوم سیکرٹری کوخط لکھ کرخدشات کااظہارکیا تھا جس پرترمیم سے یوٹرن لیاگیالیکن اب دوبارہ یونیفا ر م فورس سے اختیارات لیکرحکومت کو دیناسمجھ سے بالاترہے دوہراا ختیارکیسے چل سکتا ہے؟پولیس سے اختیارات واپس لینے کے خلاف عدالت سے رجوع کیاجائیگا۔
یادرہے پرویزخٹک نے پولیس کومثالی بنانے کے بڑے دعوے کئے تھے عمران خان اورپرویزخٹک پولیس ایکٹ2017ء کوتحریک انصاف کاکارنامہ قرار دیتے تھے جس کے نتیجے میں پرویزخٹک ترقی پا کر وفاقی وزیر دفاع بنے تھے جبکہ پولیس کو مثالی بنانے والے آئی جی پی ناصردرانی کووفاق میں اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں جوبعدمیں انہوں نے چھوڑدیں۔ اسی پولیس ایکٹ 2017ء میں اب ترامیم کرکے ریورس گیئرلگادیاگیا ہے ۔ اگرایکٹ میں ترمیم ضروری تھی تو اعلیٰ پولیس افسران سے مشاورت کی جاتی ۔ ایک جانب خیبرپختونخواپولیس دہشت گردوں سے برسر پیکارہے،اسے آئے روزحملوں کانشانہ بنایاجارہاہے ،جوان وافسران شہیدہورہے ہیں تودوسری جانب اسکے ڈھانچے کوچھیڑاجارہاہے ۔ یکطرفہ ترامیم پرنظرثانی اورایسے ترامیم لانے کی ضرورت ہے جس سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہونے کی بجائے اَپ ہواورکارکردگی میں مثبت تبدیلی آئے۔
وصال محمد خان