Alia Ahmad (Shaheed Female Police officer)

Alia Ahmad (Shaheed Female Police officer):

A number of brave police officers from Khyber Pukhtunkhwa have rendered sacrifices for the protection of the motherland, and have lost their lives during the War on Terror (Wot).

Among them, one brave female police officer is Alia Ahmad, who sacrificed her life in the line of duty in 2008.

Hailing from Mingora, Swat, Alia was part of the KP police force at a time when many police officers were quitting their jobs because of the fear of being targeted by terrorists.

Despite the dangerous work environment, Alia stood by her professional commitment and fulfilled the oath that she took at the time of her appointment.

On November 23, 2008, when Alia returned home from work, she was abducted by the Taliban along with her younger brother, Mukhtarul Haq.

After a day, the Taliban set her brother free but kept Alia in their captivity. Later, they mercilessly killed her and dumped her body at Mingora’s Green Chowk.

When many of her colleagues went on long leaves from work due to militancy, she refused to bow down to the extremists.

During captivity the militants repeatedly asked her to quit her job, even tried to negotiate a deal with her and promised to set her free if she agreed to leave the police force, however, she refused to give up.

حکومت اپوزیشن مذاکرات اورتوقعات

حکومت اپوزیشن مذاکرات اورتوقعات

خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوئی۔ اس سے قبل حکومت ان گنت مرتبہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کرچکی ہے جسے وہ پایہء حقارت سے ٹھکراتی آرہی ہے۔ پارٹی قائد بضد تھے کہ وہ مذاکرات صرف فوج سے کریں گے۔ یہ بیانیہ کسی صورت سیاسی رویوں کا عکاس نہیں تھا کیونکہ جمہوریت میں مذاکرات یا معاہدے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ہوتے ہیں اور جہاں فوج کی ضرورت پڑتی ہے وہ وہاں سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔

مگر پی ٹی آئی کا روزِ اول سے ہی مؤقف تھا کہ وہ حکومت کو مذاکرات کے قابل نہیں سمجھتی بلکہ وہ صرف فوج سے مذاکرات کرے گی اور اسی سے ہی اپنے شرائط منوائے گی۔ یہ ایک بے وزن مؤقف تھا۔ ایک تو فوج کا کام کسی سیاسی جماعت یا اس کے قائدین سے مذاکرات کرنا نہیں، دوسرے پی ٹی آئی کے تمام مسائل حکومت سے وابستہ ہیں۔ فوج کو تو پی ٹی آئی خوامخواہ سیاست میں گھسیٹ رہی ہے اور اسے سیاسی بیان بازیوں کا محور بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ کبھی یکطرفہ طور پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے تو کبھی مذاکرات کا اعلان کردیا جاتا ہے حالانکہ فوج نے کبھی نہیں کہا کہ وہ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مذاکرات یا گفتگو کی خواہشمند ہے۔

یہ روش بذات خود ناپسندیدہ قرار دیا جارہا تھا جس کا احساس اگرچہ پی ٹی آئی قیادت کو دیر سے ہوا، مگر ہوا ضرور کہ مذاکرات سیاسی اور جمہوری حکومت سے ہوسکتے ہیں۔ یہ احساس ہونے پر بانی پی ٹی آئی نے جیل سے ایک کمیٹی بنا دی جس نے الٹی میٹم دینے شروع کر دیے کہ اگر اتوار تک مذاکرات نہ ہوئے تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی جائے گی۔

حکومت میں چونکہ زیرک سیاستدان اور تجربہ کار پارلیمنٹیرینز موجود ہیں، حکومتی کمیٹی کی ہیئت ترکیبی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدہ ہے۔ حکومت کی سنجیدگی اس سے آشکارا ہو جاتی ہے کہ اسپیکر ایاز صادق نے پہلی فرصت میں دونوں کمیٹیوں کی ملاقات کروادی۔ جس میں پی ٹی آئی کمیٹی کو مذاکرات کے طور طریقے سمجھائے گئے اور تحریری مطالبات مانگے گئے۔

مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کی منشا تو پہلے سے معلوم ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی، سانحہ 9 مئی 2023ء اور گزشتہ 26 نومبر ڈی چوک پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ مطالبات یقیناً معقول نہیں کیونکہ ایک تو 9 مئی کو اس جماعت نے جتھہ بندی کے ذریعے فوجی تنصیبات پر حملے کروائے، پرتشدد احتجاج کیا، شرکاء نے جلاؤ گھیراؤ اور شرانگیزی کی جس کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔ تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی۔

اب پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ گرفتار کارکنوں کو غیرمشروط طور پر رہا کیا جائے اور ان واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ دوسرا مطالبہ گزشتہ 26 نومبر کو ڈی چوک میں پرتشدد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن ہے جس میں پی ٹی آئی مؤقف کے مطابق درجنوں کارکن جاں بحق جبکہ ہزاروں لاپتہ ہوگئے ہیں۔ یہاں بھی گرفتار کارکنوں کی رہائی اور جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ دہرایا جارہا ہے۔

کسی بھی واقعے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے میں کوئی حرج نہیں مگر اس کمیشن کے پیش نظر محض کارکنوں کی گرفتاری نہ ہو بلکہ نجی، قومی اور فوجی تنصیبات و املاک پر حملہ کرنے والوں اور اس امر کے لیے اکسانے والوں کا تعین بھی ہو۔ ڈی چوک تحقیقات میں یہ بھی پیش نظر ہونا چاہئے کہ سرکاری رکاوٹیں کس نے ہٹائیں اور دفعہ 144 کے باوجود ڈی چوک یعنی ریڈزون میں پرتشدد احتجاج پر کون بضد تھا؟

رہی عمران خان کی رہائی تو بظاہر یہ بہت مشکل اس لیے نظر آرہا ہے کہ وہ عدالتی احکامات کے تحت گرفتار ہیں اور انہیں حکومت رہا کروانے کی پوزیشن میں نہیں۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لیے منظور کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہیں۔

اس کے باوجود سنجیدہ و فہمیدہ حلقے ان مذاکرات سے پرامید ہیں کہ اس کے نتیجے میں سیاسی استحکام آسکتا ہے اور موجودہ بین الاقوامی حالات کے پیش نظر اتحاد و یکجہتی کی ایک فضا قائم ہوسکتی ہے۔ گفت و شنید اور مذاکرات جمہوریت کا حسن اور ضرورت ہے اور جمہوریت کو اسی لئے پذیرائی حاصل ہے کہ اس میں گفتگو کے ذریعے مسائل کا حل نکل آتا ہے۔ اگر فریقین دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ تناؤ میں کمی واقع ہو اور دونوں فریق کچھ لو، کچھ دو کے اصولوں پر دو قدم پیچھے ہٹ جائیں جس کے نتیجے میں فائدہ ملک و قوم کا ہے۔

فریقین کو ضد انا اور ہٹ دھرمی سے گریز کا رویہ اپنا کر حب الوطنی کے جذبے سے مذاکرات میں حصہ لینا ہوگا، “میں” اور “ہم” کی ضد چھوڑنا ہوگی۔ مقام شکر ہے کہ فریقین کو ذمہ داری کا احساس ہوچکا ہے اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ توپ و تفنگ اور تیراندازی کے مظاہروں سے مسائل حل نہیں بلکہ الجھتے ہیں۔

جہاں تک مذاکرات میں فوج کی درپردہ شمولیت یا اس کی آشیرباد کا تعلق ہے تو فوج یقیناً ہر اس اقدام کی حمایت کرے گی جس سے ملک میں استحکام آتا ہو، بے جا محاذ آرائی کا خاتمہ ہو اور مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کیا جائے۔ فوج پہلے ہی افہام و تفہیم اور استحکام کی خواہاں ہے۔

اپنے ملک اور قوم کے ساتھ لڑنا فوج کا مطمح نظر کبھی نہیں رہا۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی نامی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین فوج کے ساتھ خودساختہ طور پر لڑائی میں جت چکے ہیں حالانکہ انہیں اتنی عقل ہونی چاہئے کہ فوج کا کام لڑنا ہوتا ہے جبکہ سیاستدان کا کام مذاکرات، گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکالنا ہوتا ہے۔

انہوں نے از خود مسلح فورس کے ساتھ سینگ آزمائی کی اور اب جبکہ سینگ ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا ہوا تو مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ مذاکرات سے یقیناً مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی قوی توقع ہے اگر فریقین خصوصاً پی ٹی آئی قائدین دانشمندی کا ثبوت دیں اور خود کو اس ملک کے ذمہ دار شہری سمجھیں۔

پرتشدد احتجاج، قومی املاک پر حملے اور ریڈزون میں دھرنے پر اصرار سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ فوج، حکومت اور اپوزیشن تینوں نے اسی ملک میں رہنا ہے۔ یہ ترقی یافتہ ہوگا، یہاں امن ہوگا، سکون ہوگا تو اسی ملک کے باسیوں کو فائدہ ہوگا۔ قوم کو حکومت اور اپوزیشن مذاکرات سے نیک توقعات وابستہ ہیں۔ خدا کرے سیاسی قیادت تدبر، بالغ نظری اور دانشمندی کا ثبوت دے کر ان توقعات پر پوری اترے۔

وصال محمد خان

This year, 1,433 intelligence-based operations were conducted against terrorists

جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں خوارج کیخلاف کامیاب آپریشن

جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں خوارج کیخلاف سیکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کیا۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا 13خوارج کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ دہشتگردوں کے خاتمہ کیلئے سیکیورٹی فورسز کا بلند عزم اور بہادری قابل تحسین ہے۔ پوری قوم کو اپنی مسلح افواج پر فخر ہے۔ پرامن خیبر پختونخوا کیلئے سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں اور پیشہ ورانہ خدمات قابل تعریف ہیں۔ دہشتگردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔