Wisal Muhammad Khan

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

کُرام امن معاہدہ

ضلع کرم میں نئے سال کے پہلے دن متحارب فریقین نے امن معاہدے پر دستخط کردئے ہیں۔ جس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ نوے روزہ خونریزی اور عشروں پر محیط کشیدگی کا خاتمہ ہوگا۔ علاقے میں قیام امن کی خاطر 14 نکات پر مشتمل امن معاہدہ طے پایا ہے جس کو ‘‘تجدید مری معاہدہ، بشمول سابق معاہدات برائے مستقل قیام امن ضلع کرم’’ سے منسوب کیا گیا ہے۔

معاہدے کے مطابق مری معاہدہ جو 2008 میں ہوا تھا اس سمیت سابق تمام علاقائی و اجتماعی معاہدے کاغذات مال، فیصلے اور قبائلی روایات برقرار رہیں گے، جن پر ضلع کرم کے تمام مشران متفق ہیں۔ حکومت سرکاری سڑک پر کسی بھی قسم کی قانونی خلاف ورزی کرنے والے فرد کے خلاف سخت ایکشن لینے کی مجاز ہوگی۔ ویلیج امن کمیٹیاں حکومت اور متعلقہ اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کی پابند ہوں گی۔

شاہراہ پر کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں متعلقہ علاقے کے لوگ کرم رواج اور قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ دہشت گرد اور شرپسند عناصر کو پناہ دینے والے افراد رواج اور قانون کے مطابق مجرم تصور ہوں گے۔ اپنے علاقوں سے بے دخل افراد کی دوبارہ آباد کاری میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔ آباد کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

زمینی تنازعات کو منظور شدہ کمیشن کے ذریعے کاغذاتِ مال، کرم رواج اور قبائلی روایات کے تحت حل کیا جائے گا۔ لینڈ ریونیو کمیشن مخصوص موضع جات میں فوری کام کا آغاز کرے گا۔ ضلعی انتظامیہ، امن کمیٹی اور سیکیورٹی ادارے کمیشن کی مدد کریں گے۔ رکاؤٹ بننے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

حالیہ اور ماضی کے فسادات میں بھاری اسلحہ کے استعمال سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ اسلحہ حالیہ فسادات میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف بھی استعمال ہوا ہے، لہٰذا اسلحہ کی نمائش اور استعمال پر پابندی ہوگی۔ اجتماعی طور پر اسلحہ کی خریداری پر پابندی ہوگی۔ اسلحے کی واپسی کے لیے قبیلے پندرہ روز میں لائحہ عمل دیں گے۔

معاہدہ ہٰذا کے بعد فریقین ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ استعمال نہیں کریں گے، خلاف ورزی کی صورت میں اسلحہ ضبط کیا جائے گا۔ اساتذہ سمیت تمام سرکاری ملازمین اپنے فرائض بلا روک ٹوک ادا کریں گے، ان کے کام میں رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی اور انہیں پختون روایات کے مطابق مہمان کی حیثیت دی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے مواد کی ممانعت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر شرپسند عناصر کی تائید کرنے والے بھی جرم میں برابر کے شریک تصور ہوں گے۔ کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں امن کمیٹیاں، مشران اور انتظامیہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری متحرک ہوں گے۔ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے دہشت گرد تصور ہوں گے۔

تمام بنکرز ختم کیے جائیں گے اور نئے بنکرز کی تعمیر پر پابندی ہوگی۔ بنکرز کے خاتمے پر لشکر کشی کرنے والے فریق کے خلاف حکومت کارروائی کرے گی۔ فائربندی دائمی ہوگی اور ‘‘امن تیگہ’’ برقرار رہے گا۔ خلاف ورزی پر رواج اور قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

جرگہ ارکان نے پر زور سفارش کی کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تاکہ آنیوالی نسلیں ترقی، خوشحالی اور تعلیم سے بہرہ ور ہوں۔ صوبے کے سیاسی اور عوامی حلقوں نے امن معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ توقع ہے کہ معاہدے سے علاقے میں قیام امن کا خواب پورا ہوگا، عوامی مشکلات میں کمی آئے گی اور معمولاتِ زندگی جلد بحال ہوں گے۔

ترجمان صوبائی حکومت نے ہفتے سے شاہراہیں کھولنے کا عندیہ دیا ہے جن پر قافلوں کی صورت میں سفر کیا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومت اپنی بھرپور توجہ حکومتی امور پر مبذول کرے۔ معاہدے پر دستخطوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس پر عمل درآمد اور دیرپا قیام امن حکومت کا اصل امتحان ہوگا۔ حکومت آغازمیں توجہ دیتی تودوسوقیمتی جانوں کا ضیاع روکاجاسکتا تھا۔

بلدیاتی نمائندوں کا احتجاج: صوبائی حکومت کے خلاف دھرنا اور تشدد

بلدیاتی نمائندوں نے یکم جنوری کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ مقررہ روز صوبے بھر سے تحصیل مئیرز اور چیئرمینز، نائبر ہوڈ اور ولیج کونسلز کے چیئرمینز اور دیگر منتخب بلدیاتی نمائندوں نے اسمبلی چوک کے قریب دھرنا دیا اور صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے خیبر روڈ پر ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے آنسو گیس شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا۔ اس صورتحال سے اسمبلی چوک اور جی ٹی روڈ میدانِ کارزار میں تبدیل ہوگئے۔ ان دونوں اہم جگہوں پر صورتحال کشیدہ ہونے سے شہر بھر کی ٹریفک جام ہوگئی۔ ایمبولینس اور دیگر گاڑیاں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہیں۔

آنسو گیس کی شدید شیلنگ، پولیس کی بھاری نفری، قیدیوں کی گاڑیاں اور واٹر کینن پہنچنے پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔ پولیس کے مطابق 4 جبکہ بلدیاتی نمائندوں کے مطابق 14 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بلدیاتی نمائندے گزشتہ تین برسوں سے فنڈز اور آئینی اختیارات نہ ملنے پر نوحہ کناں ہیں۔ ان کی متعدد مرتبہ وزیراعلیٰ کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں مگر کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بلدیاتی نمائندوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ میئر پشاور زبیر علی اور جے یو آئی کے صوبائی قائدین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندے عوامی حقوق کیلئے پرامن احتجاج کر رہے تھے جو ان کا جائز اور قانونی حق ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومت نے حقوق دینے کی بجائے ان کے خلاف طاقت استعمال کی اور لاٹھی چارج کیا جو قابل مذمت اقدام ہے۔

مسلم لیگ ن کے صوبائی ترجمان اختیار ولی نے کہا کہ نہتے بلدیاتی نمائندوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ قابل مذمت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے خلاف احتجاج بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بلدیاتی نمائندوں پر تشدد سے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کو آئینی حقوق دینے ہوں گے، یہ تحریک اب پورے صوبے میں پھیلے گی اور مسلم لیگ اسے بھرپور سپورٹ کرے گی۔ اے این پی کے ترجمان ارسلان ناظم نے بلدیاتی نمائندوں پر تشدد کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے این پی بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ کھڑی ہے اور تمام مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔ جماعت اسلامی نے منتخب نمائندوں پر پولیس تشدد کو فسطائیت قرار دیا۔

ملٹری کورٹس  اور پی ٹی آئی کا مذاکراتی عمل

مردان سے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالسلام آفریدی نے اسمبلی میں ملٹری کورٹس کے فیصلوں کو واپس لینے کی قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کر دیا گیا۔ مگر بعد ازاں مسلم لیگ ن کے جلال خان نے ایک ویڈیو بیان میں اس قرارداد کی حمایت سے انکار کیا اور سپیکر کو خط لکھا کہ ان کے دستخط غلطی سے ہوئے، انہیں قرارداد کے حامیوں میں شمار نہ کیا جائے۔

اس حوالے سے اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کچھ نے اپنی غیر موجودگی کا جواز پیش کیا تو بعض نے اس بارے میں باضابطہ آگاہی نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ قرارداد کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان کی اکثریت ایوان میں موجود نہیں تھی۔ بہرحال منظور ہونے والی قرارداد اب متفقہ نہیں رہی۔

بلدیاتی نمائندوں کے احتجاج پر صوبائی حکومت گزشتہ دس ماہ کے دوران پانچ بار اسلام آباد اور پنجاب میں پرتشدد احتجاج کر چکی ہے۔ ان احتجاجوں کا مقصد بنی پی ٹی آئی کی رہائی ہے، جو احتجاجوں سے تو ممکن نہ ہوسکی، اب مذاکرات سے یہ کوشش کی جارہی ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے صورتحال خاصی حد تک واضح ہوچکی ہوگی۔ گزشتہ پورا سال ٹھکراؤ اور سینگ آزمائی کی نذر ہوگیا، اب نئے سال کے آغاز ہی میں مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے۔

پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی میں وزیراعلیٰ ،علی امین گنڈاپوربھی شامل ہے جواس امیدکااظہارکرچکے ہیں کہ 2025 ء انکے قائدکی رہائی کاسال ہوگا۔گزشتہ برس صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال غیرتسلی بخش رہی اوپرسے دہشت گردی کے پے درپے واقعات رونماہوئے۔ نئے سال کاآغازکرم امن معاہدے، شرپسندوں کے خلاف کامیاب فوجی کارروائیوں اورحکومت اپوزیشن مذاکرات سے ہورہاہے جوملک وقوم کیلئے نیک شگون ہے ۔

وصال محمد خان

فرنٹیئر کور خیبرپختونخواہ کی تعاون سے انٹر ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد

پاک فوج، فرنٹیئر کور خیبرپختونخواہ اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے قبائلی نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی فراہمی جاری ہے۔ اس سلسلہ میں شمالی وزیرستان میں انٹر ڈسٹرکٹ ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ میں خیبر اور باجوڑ کی ٹیموں کو بہترین کارکردگی دکھانے اور ان کی حوصلہ افزائ کرنے کے لئے انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نارتھ میجر جنرل انجم ریاض کی جانب سے خصوصی طور پر قلعہ بالاحصار پشاور مدعو کیا گیا۔ انہوں نے دونوں ٹیموں کو مبارکباد دی اور ان کو انعامات سے نوازا۔

اس موقع پر نوجوان کھلاڑیوں سے بات چیت کرتے ہوئے آئ جی ایف سی نے کہا کہ قبائلی نوجوانوں میں بہت صلاحیت ہے۔ پاک فوج اور فرنٹیئر کور نارتھ کی جانب سے ایسے ٹورنامنٹس کے انعقاد کا مقصد قبائلی نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اجاگر کرنا ہے۔ قبائلی نوجوانوں نے حوصلہ افزائ کرنے پر فرنٹیئر کور نارتھ کے اعلی حکام کا شکریہ ادا کیا اور باجوڑ میں آئی جی ایف سی کرکٹ ٹورنامنٹ 2025 کے انعقاد کی خواہش کا اظہار کیا۔

A Grand Jirga organized by Frontier Corps Khyber Pakhtunkhwa North was held in Fort Balahisar of Peshawar

قلعہ بالاحصار پشاور میں فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام گرینڈ جرگہ

فرنٹیئر کور خیبر پختونخوا نارتھ کی جانب سے قلعہ بالاحصار پشاور میں خصوصی گرینڈ جرگہ منعقد کیا گیا۔ گرینڈ جرگہ میں انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نارتھ میجر جنرل انجم ریاض، کمشنر پشاور، ایڈیشنل سیکریٹری خیبرپختونخواہ (فنانس) سپیشل سیکریٹری ہوم، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، ڈپٹی کمشنر مہمند، ڈی پی او مہمند اور دیگر سول و عسکری حکام سمیت بڑی تعداد میں مہمند سے تعلق رکھنے والے علاقہ مشران نے شرکت کی۔ مقامی عمائدین نے جرگہ کے انعقاد کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جرگہ سے قبائلی عوام، سیکیورٹی فورسز اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امن خراب کرنے والوں کو واضح پیغام جائے گا کہ عوام اور تمام ادارے متحد ہیں۔ ضلع مہمند کے عمائدین نے پاک فوج، فرنٹیئر کور نارتھ اور پولیس کی جانب سے فتنہ الخوارج کے خلاف اقدامات کو سراہا اور کہا کہ وہ امن کے لئے سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس موقع پر شرکاء نے ضلع مہمند میں امن اور ترقی کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ حکام نے علاقہ مشران پر زور دیا کہ وہ عوام میں آگاہی پیدا کریں تاکہ وہ علاقہ میں امن خراب کرنے والوں کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دیں اور فتنہ الخوارج کے پروپیگنڈہ سے آگاہ رہیں۔

مینا خان آفریدی

انٹر زونل/ پرووینشل سپورٹس گالا اجلاس منعقد

صوبائی وزیر مینا خان آفریدی کی زیر صدارت انٹر زونل/ پرووینشل سپورٹس گالا سے متعلق اجلاس منعقد ہوا۔ انٹرکالجیٹ مقابلوں کے فاتح ٹیموں کا انٹر زونل/ صوبائی سطح پر مقابلوں کا انعقاد جنوری کے آخر میں ہوگا۔ صوبائی وزیر مینا خان آفریدی کو گالا سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ انٹرزونل/ پرووینشل مقابلوں میں 8 زونز ہونگے۔ پشاور، کوہاٹ، ڈی آئی خان، بنوں، مردان، ہزارہ، سوات اور ملاکنڈ کے زونز کے کھلاڑی حصہ لینگے۔

کل 2172 میل، فیمیل کھلاڑی اور آفیشلز حصہ لے رہے ہیں۔ ایونٹ میں 952 میل پلئیرز جبکہ 892 فی میل پلیئرز حصہ لینگے۔ میل مقابلوں میں کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، باسکٹ بال ، تھرو بال، چک بال، ہینڈ بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، سکواش، اور ایشین سٹائل کبڈی ہونگے۔ فیمیل مقابلوں میں کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، ولی بال، نیٹ بال، باسکٹ بال ، چک بال، ہینڈ بال، تھرو بال، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس شامل ہے پر ڈاکٹر محمد عمران خان نے بریفنگ دی۔

انٹر پرووینشل مقابلے پشاور، چارسدہ، نوشہرہ اور مردان میں منعقد ہونگے۔ صوبائی وزیر مینا خان آفریدی نے کہا کہ سپورٹس گالا کو کامیاب اور بہتر طریقے سے منعقد کرنے کیلیے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی فوکس ہے۔

Important meeting of Apex Committee in Islamabad

اسلام آباد میں اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس اور 19 پی ٹی آئی کارکنوں کو معافی

2 جنوری 2025 کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وزراء اعلیٰ اور متعلقہ وفاقی وزراء کے علاوہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ اجلاس میں سرمایہ کاری اور گورننس سے متعلق مختلف امور کے علاوہ ملک میں جاری دہشت گردی اور شرپسندی کا بھی تفصیل کے ساتھ جایزہ لیا گیا اور اس بات پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ امن کے قیام کے لیے کسی مصلحت کے بغیر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو کچلے بغیر آگے بڑھ کر ترقی ، استحکام کی خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا اس لیے لازمی ہے کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کو قومی اتفاق رائے سے سختی کے ساتھ کچلا جائے اور اس ضمن میں سیکورٹی فورسز جو کارروائیاں کرتے ہوئے قربانیاں دے رہی ہیں اس کا نہ صرف اعتراف اور احترام کیا جائے بلکہ فورسز کے ساتھ ہر ممکن تعاون بھی کیا جائے ۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ سیکورٹی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ایک طرف افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے تو دوسری جانب افغان حکومت اور پاکستان کی ایک سابق حکومت ( پی ٹی آئی حکومت ) نے سینکڑوں ، ہزاروں دہشت گرد رہا کئے جس سے دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھانا شروع کردیا تاہم پورے عزم کے ساتھ اس ناسور سے نمٹا جائے گا ۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نہ صرف یہ کہ اپیکس کمیٹی کو سیکورٹی معاملات پر یقین دھانی کرائی کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس ضمن میں پوری عزم کے ساتھ لڑرہی ہیں بلکہ انہوں نے حکومت کے معاشی اصلاحات اور اقدامات کی ضمن میں پاک فوج کی جانب سے ہر درکار تعاون کا یقین بھی دلایا۔

جس روز یہ اجلاس منعقد ہوا اسی دن 9 مئی کے واقعات میں ملٹری کورٹس سے سزائیں پانے والوں میں سے 19 مجرموں کو رحم کی اپیلیں کرنے کے تناظر میں رہا کرنے کا اقدام اٹھایا گیا جس کو سنجیدہ حلقوں نے کافی سراہا اور اس اعلان یا اقدام کو سیاسی کشیدگی کم کرنے کے موقع کے علاوہ عسکری قیادت کی رحم دلی کا مظاہرہ قرار دے دیا تاہم عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوگئی جب رہائی پانے والوں میں سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بعض کارکنوں کو ایک پلاننگ کے تحت سی ایم ہاوس پشاور بلاکر ان کو وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر نہ صرف یہ کہ ہار پہنائے گئے بلکہ ان میں سے بعض سے یہ بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے کہ 9 مئی کے واقعات عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف ایک سازش تھی ۔ حالانکہ آئی ایس پی آر اور مین اسٹریم میڈیا پر رہائی پانے والے ان تمام مجرموں کی رحم کی اپیلوں پر مشتمل درخواستیں جاری کی گئی تھیں ۔ اسی روز وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اسلام آباد میں مذاکراتی عمل کا ایک سیشن بھی ہوا تھا اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس سیشن کے علاوہ اپیکس کمیٹی کے مذکورہ اجلاس میں شرکت بھی کی تھی ۔ ماہرین نے مجرموں کو رعایتیں دینے کے اس اقدام کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی پی ٹی آئی کی مہم جوئی پر جہاں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت حسب معمول مزاحمت اور پروپیگنڈا مہم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہاں یہ بھی کہا جانے لگا کہ جاری مذاکراتی عمل کا اس رویے کے ہوتے ہوئے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔

اس ضمن میں آئی ایس پی آر نے جو تفصیلات فراہم کیں اس کے مطابق رہائی کی اپیلیں دائر کرنے والوں کی تعداد 67 تھی تاہم ان میں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 19 کو معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
عقیل یوسفزئی