پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی اور ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اپنی نوعیت کی اہم ترین مشاورت اور ملاقات کے دوران کہا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور امن دشمنوں ، ان کے سہولت کاروں کی ہر کوشش کا بھرپور ، بروقت اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا ۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا سمیت ملک میں کہیں پر بھی کسی دہشت گرد گروپ کا کنٹرول نہیں ہے اس لیے کسی بھی بڑے آپریشن کی بجائے حسب معمول انٹلیجنس بیسڈ آپریشنز جاری رہیں گے اور یہ جنگ پوری شدت اور ہم آہنگی کے ساتھ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو ایک برادر اسلامی ملک سمجھتا ہے اور ہم نے ہر وقت اس کے ساتھ تعاون کی پالیسی اختیار کی ہے تاہم کالعدم ٹی ٹی پی اور بعض دیگر پاکستان مخالف گروپوں کے ہاتھوں افغان سرزمین استعمال کرنے کے سلسلے کے باعث پاکستان کو تشویش ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوگئے ہیں ۔ آرمی چیف نے شرکاء کے بعض تحفظات کے جواب میں کہا کہ غلطیاں ہوتی رہتی ہیں تاہم ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر ماضی میں کسی دہشت گرد گروپ کے ساتھ ہونے والی مذاکراتی عمل سے پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی کو نقصان پہنچا ہے تو اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور مستقبل قریب میں دہشت گرد گروپ مزید نقصان اٹھائیں گے۔
آرمی چیف نے پشاور اجلاس کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ جاری حالات کے تناظر میں پوری قوم اور تمام امن پسند سیاسی قوتوں کی مشترکہ آواز ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ ایمل ولی خان ، سکندر شیرپاو اور گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے نہ صرف اس ایونٹ کو سودمند قرار دیا ہے بلکہ ایمل ولی خان نے دو مختلف انٹرویوز میں یہ بھی کہا ہے کہ اس قسم کی مزید ملاقاتیں اور مشاورتیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے مذکورہ اجلاس میں اپنے اپنے موقف اور تحفظات کا کھل کر اظہار کیا اور ملٹری لیڈر شپ نے سب کو غور سے سنا ۔ ان کے بقول اس ملاقات کے دوران نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو لازمی اور ناگزیر قرار دیتے ہوئے انہوں نے آرمی چیف سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جن لوگوں نے ایک مذاکراتی عمل کے دوران دہشگردوں کو آبادکاری اور سہولت کاری کا ماحول فراہم کیا ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائی کی جائے کیونکہ پلان میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
سکندر خان شیرپاؤ کے بقول یہ ایک فایدہ مند سیشن ثابت ہوا اور تمام شرکاء نے نہ صرف صوبے کی سیکورٹی صورتحال پر اظہار تشویش کیا بلکہ مختلف درپیش چیلنجز کے حل کے لیے تجاویز بھی دیں ۔ ان کے مطابق آرمی چیف نے تمام تجاویز کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے بہت مثبت ردعمل دیا اور اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اس سیشن کے نتیجے میں مختلف اقدامات کی صورت میں مثبت نتائج برآمد ہوں گے ۔ سابق وزیر اعلیٰ حیدر خان ہوتی نے بھی اپنی بات چیت میں اس ملاقات اور مشاورت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے این پی نے امن کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جب بھی ریاستی اور سیاسی سطح پر دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں گے اے این پی غیر مشروط طور پر ایسے اقدامات کی کھل کر حمایت کرے گی کیونکہ امن پشتون سرزمین کی پہلی ضرورت اور خواہش ہے۔
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت موجودہ بدامنی کی براہ راست ذمہ دار ہیں۔ گورنر کے بقول وزیر اعلیٰ اور ان کے حکام سے وزیر اعلیٰ کے اپنے علاقے ( ڈیرہ اسماعیل خان ) کی سیکورٹی صورتحال کنٹرول نہیں ہوپارہی تو ان سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ یہ پورے صوبے کے معاملات چلا پائیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے مزید کہا کہ امن کا قیام یا صوبے کی ترقی اس پارٹی اور حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہیں اس لیے ان پر اعتماد اور انحصار نہیں کیا جاسکتا۔
پشاور میں ہونے والی اس ملاقات اور مشاورتی عمل پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق بیوروکریٹ اور دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ اس اعلیٰ سطحی مشاورت سے صوبے کے عوام کو ایک مثبت پیغام دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وفاقی حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال سے لاتعلق نہیں ہیں ۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر امن کے قیام کے لیے فوج اور وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی اور انتظامی طور پر صوبے میں امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری اور ڈومین ہے۔
اس تلخ حقیقت سے قطع نظر کہ ماضی میں ریاستی اور سیاسی طور پر بہت سی غلطیاں ہوتی رہی ہیں اور آرمی چیف نے ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے امن و استحکام کے قیام کے لیے مستقبل بینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے کیونکہ اس مسودے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہے اور عوام کے علاوہ ماہرین بھی نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردی کے علاوہ شدت پسندی کے خاتمے کا بھی ایک مؤثر فریم ورک سمجھتے ہیں ۔ آرمی چیف نے بھی مذکورہ ملاقات کے دوران نیشنل ایکشن پلان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر کام اور عمل درآمد تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو بھی اپنی پالیسیوں اور رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ حالیہ ملاقات اور مشاورت سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ریاست مزید بہت کچھ کرنے کا عزم لیکر آگے بڑھنے لگی ہے اور اس تمام صورتحال کے تناظر میں آرمی چیف کی ذاتی دلچسپی اور پلاننگ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
عقیل یوسفزئی
مزید پڑھیے: پاکستان مخالف پروپیگنڈا اور اس کے عوامل