آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے واضح اور مضبوط الفاظ میں پاکستان کے دشمنوں کو پیغام دیا ہے کہ دہشتگردی کی اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں، یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاک فوج امن و سلامتی کے دشمنوں کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے اور ملک کے استحکام کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا، دشمن عناصر جو نفرت اور فساد کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی، پاکستان ایک پرامن ملک ہے، اور یہاں کے عوام نے ہمیشہ اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابیاں دنیا کے لیے ایک مثال ہیں، جنرل سید عاصم منیر نے یقین دلایا ہے کہ امن خراب کرنے کی ہر کوشش کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، یہ پیغام دہشتگردوں اور ان کے حمایتیوں کے لیے واضح ہے کہ ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے جائیں گے، پاک فوج اور عوام مل کر ہر سازش کا جواب دیں گے چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا پاک فوج کا مشن ہے اور اس کے لیے قربانیوں کی ایک طویل داستان رقم کی جا چکی ہے، اس جنگ میں ہزاروں سپاہیوں اور شہریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اور یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، پاکستان کا ہر شہری اس مشن کا حصہ ہے، اور ہم سب مل کر اس جنگ کو کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچائیں گے، پاک فوج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ یہ قوم کی ڈھال اور محافظ ہے، جنرل سید عاصم منیر جیسے قائدین کی قیادت میں پاکستان مزید مضبوط ہوگا اور دہشتگردی کا خاتمہ یقینی ہوگا۔
خیبرپختونخواراؤنڈاَپ
ہفتہء گزشتہ کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے پشاورکادورہ کیااوریہاں کے تمام قابل ذکرسیاسی راہنماؤں کیساتھ نہ صرف ملاقات کی بلکہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بھی اعتمادمیں لیا۔ ملاقات میں نہ صرف صوبے کے چارسابق وزرائے اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ، امیرحیدرہوتی، پرویزخٹک اورمحمودخان موجودتھے بلکہ موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپوراورگورنرفیصل کریم کنڈی بھی شریک ہوئے۔ جے یوآئی کی نمائندگی مولاناعطاء الحق، پی ٹی آئی جبکہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیرحافظ نعیم سمیت صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم بھی ملاقات کاحصہ تھے۔
صوبے کی تاریخ کے اس اہم اجلاس یاملاقات کے حوالے سے جو چیدہ چیدہ باتیں سامنے آئیں انکے مطابق گورنرفیصل کریم کنڈی اوروزیراعلیٰ گنڈاپورکے درمیان اچھی خاصی جھڑپ ہوئی گورنرنے آرمی چیف سے کہاکہ وفاق کی جانب سے صوبے کودہشت گردی کی مدمیں دئے گئے پانچ سوارب روپے حکمران جماعت نے سیاسی سرگرمیوں پرخرچ کردئے اگراس رقم سے سی ٹی ڈی اورپولیس کی ضروریا ت پوری کی جاتیں توصوبہ آج دہشت گردی کامقابلہ کرنیکی صلاحیت سے مالامال ہوتا۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے گورنرکوترکی بہ ترکی جواب دیاجس پرگورنرنے بھی حکومت کی کان کھنچائی ضروری سمجھی تلخی بڑھنے پروزیراعلیٰ اجلاس سے اٹھ کرباہرچلے گئے مگربعدمیں وہ ازخودواپس چلے آئے۔
جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم نے کراچی کامعاملہ اٹھادیا جس پر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدرایمل ولی خان نے انہیں ٹوکااورکہاکہ یہ اجلاس صوبے کے حوالے سے ہے اوریہ صوبہ دہشت گردی کے جس آگ میں جل رہاہے اس میں جماعت اسلامی کاکرداربھی ناقابل فراموش ہے اسی جماعت نے یہاں جہادکو فروغ دیا اور انکے بنائے گئے جہادی صوبائی باشندوں کوماررہے ہیں ایمل ولی خان نے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تحریک انصاف کے سابقہ حکومتوں کوبھی دہشتگر دی کاذمہ دارقراردیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایمل ولی خان سب سے زیادہ بولے اوردہشت گردی کے حوالے سے دیگرجماعتوں اور حکومتوں کی پالیسیوں کوتنقیدکانشانہ بنایاانہوں نے وزیراعلیٰ کے مشیربیرسٹرسیف کوبھی دہشت گردوں کاساتھی قراردیا اور کہا کہ وہ افغان جنگ میں شرکت کااعتراف کرچکے ہیں اگر صوبائی کابینہ میں دہشت گردشامل ہونگے توحکومت دہشت گردی کاخاتمہ کیونکر کرسکتی ہے؟ یہی مشیرمحمودخان حکومت میں افغانستان جاکرطالبان سے مذاکرات کرچکے ہیں اورانہیں یہاں لاکرآبادکروانے میں ان کاہاتھ ہے۔
اجلاس یاملاقات کامقصدافغانستان اورفتنہ الخوارج کے حوالے سے صوبے کی سیاسی قیادت کواعتمادمیں لیناتھااس موقع پرآرمی چیف کا کہنا تھاکہ ‘‘افغانستان کیساتھ ہمارے صرف یہی اختلافات ہیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کوپناہ دئے ہوئے ہے اوراسکے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، ریاست ہے توسیاست ہے خدانخواستہ ریاست نہیں رہی توکچھ بھی نہیں،ہماری پالیسی صرف اورصرف پاکستان ہے، افغا نستان ہماراپڑوسی اسلامی ملک ہے اورپاکستان ہمیشہ افغانستان کیساتھ بہترتعلقات کاخواہاں رہاہے، افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی وہاں موجودگی اورسرحدپارسے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پراختلاف ہے اوراس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس معاملے پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، خیبرپختونخوامیں بڑے پیمانے پرکوئی آپریشن نہیں ہورہااورنہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے پرعملداری ہے، صرف انٹیلی جنس بنیادپرٹارگٹڈکارروائی کی جاتی ہے،ہم سب کوبلاتفریق فسادفی الارض اور دہشت گردی کے خلاف یکجاہوناپڑیگا،ہم اتحادواتفاق کامظاہرہ کرینگے توصورتحال بہت جلد تبدیل ہوجائیگی،انسان خطاکاپتلاہے ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن غلطیوں کونہ ماننااوران سے سبق نہ سیکھنااس سے بھی بڑی غلطی ہے،عوام اورفوج کے درمیان ایک خاس رشتہ ہے اس رشتے میں خلیج کیلئے جھوٹابیانیہ گھڑنابنیادی طورپربیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ہے نیشنل ایکشن پلان پرتمام سیاسی جماعتوں کا اتفا ق حوصلہ افزاہے اس پرتیزی سے کام کرناہوگا’’۔
صوبے کے سنجیدہ وفہمیدہ حلقوں نے آرمی چیف کی جانب سے سیاسی قیادت کواعتمادمیں لینے کا اقدام سراہاہے۔ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکاعزم خوش آئندہے صوبے سے تعلق رکھنے والی بیشترسیاسی جماعتوں خصوصاًاے این پی کامطالبہ رہاہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکیاجائے۔ مذکورہ نشست میں عزم استحکام کے حوالے سے بھی گفتگوہوئی کچھ سیاسی جماعتوں خاص طورپر تحریک انصاف نے صوبے میں ایک مکمل فوجی آپریشن کاتاثرقائم کیاتھااوراسکے خلاف باقاعدہ بیان بازی بھی کی گئی مگر آرمی چیف نے کسی بڑے فوجی آپریشن کے امکان کومستردکرتے ہوئے کہاکہ انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کی جاتی ہیں جس کے خاطرخواہ نتائج برآمدہوئے ہیں۔ فتنہ الخوارج کے حوالے سے سیاسی قیادت نے پاک فوج کے اقدامات پراعتمادکااظہار کیا۔ سیاسی قیادت اورپاک فوج کی معاملہ فہمی اوراتحادواتفاق کایہی جذبہ رہاتوکوئی بعیدنہیں کہ ملک وقوم کودہشت گردی کی لعنت سے جلد نجات ملے۔
گزشتہ ماہ خیبرپختونخوامیں دس ارب روپے کی گندم خراب ہونے کاجوسکینڈل منظرعام پرآیاتھااس کے حوالے سے خوش کن خبریہ ہے کہ صوبہ دس ارب روپے کے ایک بڑے مالی نقصان سے بال بال بچاہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈجین ٹیکل انجینئرنگ فیصل آبادنے گندم کوانسانی صحت کیلئے تسلی بخش قراردیاہے اس سے قبل دو لیبارٹریوں کوگندم کے نمونے بھیجے گئے تھے پی سی ایس آئی آر نے گندم میں افلاٹوکسین کی مقدارزیادہ قراردیکراسے مضرصحت قرار دیاتھا۔ جبکہ نجی لیبارٹری قرشی نے اسے درست قراردیاتھا۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے محکمہ خوراک نے ماہرین پرمشتمل ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی جس نے نمونے فیصل آبادبھجوائے جہاں سے اسے درست قراردیاگیا۔ مگریہ گندم مارچ سے پہلے استعمال کرنیکی سفارش بھی کی گئی ہے۔
یادرہے دس ارب روپے سے زائدمالیت کا77ہزار 762میٹرک ٹن گندم سال2022-23میں نگران حکومت نے پاسکوسے خریدی تھی۔ انہی صفحات پرپہلے بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ حکومت کے پاس گندم یاکوئی بھی خوردنی جنس مضرصحت ہونے سے قبل استعمال میں لانے کا نظام ہوناچاہئے بڑی مقدارمیں گندم خراب ہونے کی اطلاعات پر وزار ت خوراک نے ماہرین پرمشتمل جو ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی اسکی سفارشات کے مطابق اشیائے خوردونوش کیلئے قائم کردہ پروٹوکول کے تحت گندم سمیت دیگرغذائی اجناس ذخیرہ کرنے کامعیاری طریقہ (فرسٹ اِن، فرسٹ آؤٹ) یعنی پہلے خریدی گئی جنس،پہلے نکالناضروری ہے۔ جبکہ زیربحث معاملے میں ایسانہیں کیاگیا۔ ٹیکنیکل کمیٹی اورتین لیبارٹریو ں کی رپورٹس بھی آچکی ہیں مگرایک بڑی مقدارکی گندم ڈیڑھ ماہ کے اندراستعمال میں لانے کی سفارش کی گئی ہے یہ ممکن نظرنہیں آتاکیونکہ آئندہ ڈیڑھ ماہ کی ضروریات سے یہ گندم بہت زیادہ ہے۔ وزارت خوراک کویہ پہلوبھی مدنظررکھنی ہوگی کہ اسکے پاس روزانہ1555میٹرک ٹن گندم ٹھکانے لگانے کی صلاحیت موجودہے؟ بظاہرتوایک بڑانقصان عارضی طورپرٹل چکاہے مگرنقصان کم سے کم ہونے کاانحصارحکومتی اقدامات پر ہے۔
وصال محمد خان
کرم میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز
بعد از خرابی بسیار حکومت شورش زدہ کرم میں فوجی آپریشن پر مجبور ہوگئی ہے اور اتوار کے روز متاثرہ علاقے بگن میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ اس ضمن میں اعلیٰ حکومتی حکام نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران آپریشن سے متعلق معاملات پر میڈیا اور عوام کو بریفنگ دے دی اور بتایا کہ حکومت نے معاہدے کے باوجود جاری حملوں کی روک تھام کو ممکن بنانے کے لیے باامر مجبوری آپریشن کا فیصلہ کیا کیونکہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا کوئی آپشن باقی نہیں رہا ہے ۔ حکام کے مطابق کوشش کی گئی کہ عام لوگوں کی معمولات زندگی زیادہ متاثر نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں آپریشن ہورہےہیں وہاں کے متاثرین کو کسی نقصان سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی کیمپس قائم کیے گئے ہیں جن کی تعداد 4 ہے ۔ حکام کے مطابق ریاستی رٹ کے قیام کے لیے بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی اور کسی قسم کی رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا ۔ ان کے بقول معاہدے کو کامیاب بنانے کےلئے حکومت نے صبر وتحمل کا ہر ممکن مظاہرہ کیا مگر شرپسند عناصر نے کھلی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک امدادی قافلے کو بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایا جس کے بعد اعلیٰ سطحی فیصلہ کیا گیا کہ مزید رعایت یا مفاہمت کا امکان باقی نہیں رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرم کے معاملات نے بہت طوالت اختیار کی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں پرامن عوام کو نہ صرف اس کشیدگی کی آڑ میں یرغمال بنادیا گیا بلکہ تین سو کی لگ بھگ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
صوبائی حکومت نے ابتداء ہی سے اس مسئلے کے حل پر پوری توجہ دی ہوتی تو اتنے نقصان اور اب فوجی آپریشن کی نوبت نہیں آئی ہوتی مگر سول حکومت نے معاملات کو ڈیل کرنے میں درکار دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے باعث پوری دنیا میں پاکستان کے ریاستی رٹ پر سوالات اٹھائے گئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر سخت کارروائی کی جائے اور ملوث گروپوں کو نشانہ عبرت بنادیا جائے کیونکہ مزید کسی رعایت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے ۔ اس ضمن میں سول اداروں کے علاوہ سیاسی قائدین ، علماء اور میڈیا کو بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دینی ہوگی تاکہ دہشتگردی اور شرپسندی کا خاتمہ کردیا جائے۔
عقیل یوسفزئی