خیبرپختونخوا حکومت کی زیرِ نگرانی پہلی بار سرکاری سکولوں کے طلبہ و طالبات کے لیے تین مراحل پر مشتمل کمپیوٹر بیسڈ ٹیسٹ کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔ اس ٹیسٹ میں 13,000 طلبہ (لڑکے اور لڑکیاں) نے 500 اسکالرشپس کے لئے حصہ لیا۔ 11 سے 13 سال کے بچوں کا کمپیوٹر پر ٹیسٹ لینے کا یہ پہلا تجربہ تھا، جو نہایت کامیاب رہا۔ تمام عمل بغیر کسی تکنیکی پیچیدگی یا شکایت کے مکمل ہوا۔ اس تاریخی اقدام کے لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے کمپیوٹر انفراسٹرکچر کو استعمال کیا گیا، جس سے نہ صرف شفافیت یقینی بنی بلکہ ایک نئی معاشی سرگرمی کا آغاز بھی ہوا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمپیوٹر بیسڈ ٹیسٹنگ سسٹم مکمل طور پر خیبرپختونخوا حکومت کے ان-ہاؤس ماہرین نے تیار کیا، اور اس پر حکومت کے خزانے سے کوئی اضافی خرچ نہیں آیا۔ یہ خیبرپختونخوا حکومت کی تعلیمی اصلاحات کی ایک انقلابی مثال اور قابلِ تحسین کامیابی ہے، جس نے نظامِ تعلیم میں ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی۔
ٹوورڈی پشاور سائکل ریس کا باضابطہ آغاز
ٹوورڈی پشاور سائکل ریس کا باضابطہ آغاز اٹک پل خیر آباد نوشہرہ سے ہوگیا۔ ریس کا افتتاح رکن صوبائی اسمبلی محمد ادریس خٹک نے کیا جنھوں نے جھنڈا لہرا کر سائکلسٹس کو رخصت کیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نوشہرہ، ڈائریکٹر آپریشن محکمہ سپورٹس نعمت اللہ مروت، خیبرپختونخوا سائکلنگ ایسوسی ایشن کے آرگنائزنگ سیکرٹری نثار احمد بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ریس میں 150سے زاید سائکلسٹ حصہ لے رہے ہیں جو پورے پاکستان سے شرکت کررہے ہیں۔ ان میں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، اسلام اباد، گلگت بلتستان، گلگت بلتستان سکاوٹس، سوئی نادرن گیس، سوئی سدرن گیس، واپڈا،پاک آرمی اور تمام محکموں کی ٹیمیں شامل ہیں۔ یہ ریس 70 کلومیٹر پر محیط ہے جو آج چمکنی پولیس اسٹیشن کے سامنے اختتام پذیر ہوگی اور اس کی اختتامی تقریب آج سہ پہر 2.30 بجے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہوگی جسکے مہمان خصوصی خیبر پختونخوا کے وزیر کھیل اور امور نوجوانان سید فخر جہان ہوں گے۔ انکےہمراہ سیکرٹری سپورٹس محمد ضیا الحق اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس عبدالناصر خان بھی موجود ہوں گے۔مہمان خصوصی تقریب کے دوران ریس کے کامیاب سائکلسٹس میں انعامات بھی تقسیم کریں گے۔
خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ
ضلع کرم میں آپریشن کا فیصلہ
بالآخر ضلع کرم میں آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔ گزشتہ ہفتے مال بردار قافلے پر حملے کے نتیجے میں ایک سیکیورٹی اہلکار سمیت چھ ڈرائیور اور اتنے ہی حملہ آور مارے گئے تھے جبکہ گاڑیاں لوٹ کر انہیں نذرِ آتش کیا گیا تھا جس پر شرپسندوں کے خلاف بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ تحصیل بگن اور ملحقہ علاقوں کو خالی کروا کر کلیئرنس آپریشن کا آغاز کر دیا گیا، جس میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور دیگر سیکیورٹی ادارے حصہ لے رہے ہیں۔ آپریشن کے نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا ہے، آپریشن مکمل ہوتے ہی متاثرین کی واپسی کا عمل شروع ہوگا۔ 21 جنوری کو آپریشن کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا گیا، جس کے بعد کومبنگ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ آپریشن کے حوالے سے کمشنر کوہاٹ ڈویژن معتصم باللہ کا کہنا تھا کہ ‘‘کرم میں کارروائی مقامی افراد کے خلاف نہیں بلکہ شرپسندوں کے خلاف ہو رہی ہے، متاثرین کے لیے سینکڑوں ایکڑ اراضی پر خیمہ بستی قائم کی گئی ہے، ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے دہشت گرد پرامن قبائل میں گھس چکے ہیں، جن کی سرکوبی ضروری ہے’’۔
اس سے قبل امن معاہدے کے تحت بنکرز کی مسماری کا عمل جاری تھا کہ اس دوران بگن میں مال بردار قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آپریشن کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت کرم میں امن و امان اور آپریشن کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ‘‘بگن کے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون سے مشروط ہوگی، بنکرز کی مسماری کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا، امن معاہدے کے دستخط کنندگان کا جرگہ بلا کر ان کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا جائے گا، کرم کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لیے فریقین جلد لائحہ عمل بنا کر حکومت کو پیش کریں گے، رواں ماہ کرم کے لیے اشیائے ضروریہ پر مشتمل چار قافلے بھیجے جائیں گے، دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی عمل میں لائی جائے گی، ایف آئی آرز میں نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا، اس عمل میں پولیس اور سول انتظامیہ لیڈنگ رول ادا کرے گی جبکہ ان کی مدد کے لیے سیکیورٹی فورسز موجود ہوں گی، کرم کے معاملے پر میڈیا کے لیے یکساں بیانیہ دیا جائے گا، منفی پروپیگنڈے کا مؤثر اور بروقت تدارک کیا جائے گا، علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جائے گی، کرم روڈ کی سیکیورٹی کے لیے خصوصی دستے تعینات کیے جائیں گے، بگن بازار کی بحالی، تزئین و مرمت کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے، امن عمل اور متاثرین کی بحالی کے لیے سیاسی قیادت اور منتخب عوامی نمائندوں کا تعاون حاصل کیا جائے گا’’۔
انتظامیہ آپریشن متاثرین کے لیے ٹل میں عارضی کیمپس قائم کر چکی ہے جس میں متاثرین اپنے مال مویشیوں سمیت مقیم ہیں۔ حکام نے آپریشن کے نتائج اور متاثرین کے لیے کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ خیبرپختونخوا ایپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے کے لیے سپیشل پروٹیکشن فورس کی بھرتی کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے جو رواں ماہ کے آخر تک مکمل کیا جائے گا۔ سپیشل پروٹیکشن فورس کے لیے 399 اہلکار بھرتی کیے جائیں گے جن میں 350 سپاہی اور 45 حوالدار شامل ہوں گے۔ مذکورہ بھرتیاں ایکس سروس مینز سے ہوں گی جس کے لیے عمر کی حد 45 سال مقرر کی گئی ہے۔ فورس کو جدید اسلحہ فراہم کیا جائے گا جس کی ذمہ داری کرم روڈ پر امن و امان کا قیام اور مسافروں کا تحفظ ہوگا۔
سیاسی مذاکرات اور تحریک انصاف کے موقف کا اثر
سیاسی میدان پر نظر دوڑائی جائے تو تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ ان مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا ہے جو اس نے ازخود شروع کیے اور کروائے تھے۔ بانی پی ٹی آئی نے جیل سے ازخود ایک کمیٹی بنا دی اور کہا گیا کہ یہ کمیٹی حکومت سے مذاکرات کرے گی۔ حکومت نے بھی کمیٹی قائم کرکے مذاکرات کا آغاز کر دیا جس سے عوامی حلقوں کو خاصی امیدیں وابستہ تھیں مگر ‘اے بسا آرزو کہ خاک شد’۔ آرمی چیف کی پشاور میں سیاسی قیادت سے ہونے والی ملاقات قومی سطح پر موضوعِ بحث رہی۔ بیرسٹر گوہر پہلے تو ملاقات میں شرکت سے انکاری رہے بعد میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے جیسے ان کی ملاقات نتیجہ خیز رہی ہے۔ اس ملاقات یا رابطوں کی تصدیق پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کئی دروازوں سے مذاکرات نہ کرے۔
اب پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع خاصے مطمئن ہیں کہ پشاور کی ملاقات سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا غیرسیاسی فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیاسی قوتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔ سیاست نام ہے مذاکرات اور گفت و شنید سے مسائل کرنے کا۔ بہرحال پی ٹی آئی کی جانب سے ایک بار پھر احتجاج کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔ آٹھ فروری کو پشاور میں جلسہ عام کا اعلان کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس میں دیگر صوبوں سے بھی کارکن شریک ہوں گے اور یہ ایک بڑا جلسہ ہوگا۔ 26 نومبر کے بعد تحریک انصاف دیگر امور میں مصروف ہو گئی تھی اس لیے احتجاج کا سلسلہ معطل تھا جسے اب پنجاب یا اسلام آباد کی بجائے پشاور سے دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ کا تنازعہ
صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے یونیورسٹیوں کے چانسلر کے اختیارات گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو تفویض کر دیے تھے، ایکٹ منظوری کے لیے گورنر کو بھجوایا گیا جس پر گورنر نے اعتراض لگا کر واپس کر دیا۔ حکومت نے گورنر کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے گزٹڈ اعلامیہ جاری کر دیا۔ وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مینا خان آفریدی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ‘‘ایکٹ اسمبلی سے منظوری کے بعد گورنر کو بھیجا گیا تھا چونکہ اس میں وائس چانسلرز کی تنخواہیں اور مدت ملازمت شامل ہے اس لیے یہ منی بل ہے، قانونی طور پر گورنر دس روز کے اندر دستخط کرنے کے پابند ہیں مگر انہوں نے اسے واپس بھیج دیا، منی بل پر اے جی آفس اور قانونی رائے لینے کے بعد اس کا گزٹڈ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے اب وزیراعلیٰ یونیورسٹیوں کے چانسلر بن چکے ہیں’’۔
صوبائی حکومت کے اس اقدام کا مقصد یقیناً گورنر کو نیچا دکھانا ہے۔ ورنہ وزیراعلیٰ کون سے علامہ ہیں جو یونیورسٹیوں کا چانسلر بن کر انقلاب برپا کر دیں گے۔ ذاتی انا کی تسکین کے لیے ہونے والی قانون سازی وقت اور وسائل کا ضیاع ہے۔ حکومت اسمبلی میں اکثریت کو محاذ آرائی کی بجائے مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد اجلاس میں شرکت گوارا نہیں کرتی۔ رواں اجلاس 19 جولائی سے جاری ہے جو اکثر و بیشتر کورم پورا نہ ہونے کے سبب ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ اپوزیشن کی دلچسپی بھی برائے نام ہے، اس کی جانب سے کوئی روک ٹوک یا مؤثر مخالفت موجود نہیں۔ جس کے سبب حکومت من پسند قانون سازی کر رہی ہے۔ 33 ارکان کی رکنیت گوشوارے جمع نہ کروانے کے باعث معطل ہے۔ ایسے میں دستیاب ارکان کی معمولی اکثریت سے قانون سازی ہو رہی ہے۔ بحث و تمحیص کے بغیر ہونے والی قانون سازی کو غیر آئینی تو نہیں مگر غیر معیاری ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔
وصال محمد خان