پی ٹی آئی کا میڈیا مخالف رویہ

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت صحافی اور پشاور پریس کلب کے نایب صدر عرفان خان کے خلاف یکطرفہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرادی ہے جس پر سینئر صحافیوں ، اپوزیشن جماعتوں اور صحافیوں کی منتخب باڈیز نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ پی ٹی آئی ایک جانب تو اظہار رائے کی آڑ میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پیکا ایکٹ کی مخالفت کررہی ہے جبکہ اس پارٹی کے اپنے وزراء اور حکومت کرپشن کی نشاندھی کرنے والے جرات مند اور پروفیشنل صحافیوں کے خلاف منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ عرفان خان نے ایک وی لاگ اور رپورٹ میں بعض صوبائی وزراء کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کے انکشافات کیے تھے جس کی وضاحت کی بجائے صوبائی وزیر قانون نے ان کے خلاف خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرادی۔

اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس نے موقف اختیار کیا ہے کہ عرفان خان نہ صرف یہ کہ پشاور پریس کلب کے منتخب نایب صدر ہیں بلکہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ایک ذمہ دار صحافی بھی ہیں اس لیے وزیر قانون نے یکطرفہ طور پر نامناسب اور غیر جمہوری اقدام اٹھایا ہے جس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔

اس سے قبل وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بھائی اور رکن قومی اسمبلی فیصل امین گنڈاپور نے اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ” ایف ایم سنو پختونخوا ” کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز ، ایک نامور اینکر پرسن اور ایک مہمان کو ایک پروگرام میں ایک دہشت گرد گروپ کے ذکر پر نہ صرف یہ کہ 10 کروڑ کے ہرجانے کا نوٹس جاری کیا تھا بلکہ یہ مقدمہ عدالت میں چل بھی رہا ہے حالانکہ ” سنو پختونخوا ” کی منیجمنٹ نے آن دی ریکارڈ فیصل امین گنڈاپور کو ان کا موقف پیش کرنے کی پیشکش بھی کی تھی ۔ اسی طرح مذکورہ ایم این نے جیو نیوز اور بعض دیگر اداروں کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو بھی عدالتوں سے ہتک عزت کے نوٹسز جاری کیے ہیں۔

قبل ازیں محمود خان کے گزشتہ دور حکومت میں پارٹی لیڈروں اور وزراء نے نہ صرف بعض نامور صحافیوں کو دھمکیاں دیں بلکہ ان کے اداروں پر اشتہارات بند کرکے ان کو دبانے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے ان میں سینئر رہنما عاطف خان سرفہرت رہے ہیں ۔ یہ لیڈر متعدد بار عدالتی نوٹسز کے علاوہ فون کالز یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر نامور صحافیوں کو کھلے عام دھمکیاں دیتے پایے گئے مگر کسی نے ان حرکتوں کا نوٹس نہیں لیا۔

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر کاشف الدین سید نے اس ضمن میں گزشتہ روز ” سنو پختونخوا ” سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ پشاور اور صوبے کے صحافی اور میڈیا کے ادارے اپنے صوبے کی بیڈ گورننس ، بدامنی اور جاری کرپشن پر خاموش نہیں رہ سکتے اور ان معاملات پر ہم اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں ہر قیمت پر پوری کرتے رہیں گے ۔ کاشف الدین سید کے مطابق صوبائی حکومت کی میڈیا پالیسی اور کارکردگی کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا حالانکہ ہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ صوبے کے حقوق کی حصول اور مسائل کے حل پر حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔

عقیل یوسفزئی

پی ٹی آئی میں تبدیلیاں

خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی صوبائی کابینہ میں صدر سمیت کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور، جو پارٹی کے صوبائی صدر بھی تھے، ان سے یہ عہدہ لے کر این اے 9 ملاکنڈ سے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو سونپ دیا گیا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معمول کی تبدیلی ہے اور کسی اندرونی اختلاف کا نتیجہ نہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خیبرپختونخوا میں جب سے تحریک انصاف کو پذیرائی ملنی شروع ہوئی ہے، تب سے ہر دور میں پارٹی کے اندر دو سے زیادہ گروپس سرگرم عمل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ خود کو نظریاتی کہلوانے پر بضد ہے اور دوسرا گروپ اقتدار کے مزے لوٹنے والا گروپ کہلاتا تھا یا اب بھی ہے۔ ابتدا میں پرویز خٹک کے خلاف پارٹی کے اندر محاذ گرم رہتا تھا۔ عاطف خان، اسد قیصر وغیرہ خود کو نظریاتی سمجھتے تھے اور پرویز خٹک کو چڑھتے سورج کا بجاری قرار دیا جاتا تھا۔ اس لیے پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر نظریاتی کارکنوں نے بنی گالہ میں احتجاج کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ پرویز خٹک کو پارٹی میں شامل نہ کیا جائے۔ اگر شمولیت ضروری ہو تو انہیں پارٹی عہدہ نہ دیا جائے۔ مگر عمران خان نے نہ صرف پرویز خٹک کو شامل کیا بلکہ انہیں صوبائی صدارت کے انتخاب میں اسد قیصر سے شکست ہوئی تو مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ دے دیا گیا۔ عمران خان حکومت کی رخصتی پر انہیں صوبائی صدارت عطا کی گئی۔

تحریک انصاف کا چونکہ یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ صدائیں تو جمہوریت کی لگاتی ہے مگر پارٹی کے اندر جمہوریت نام کی چیز قابل برداشت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات نامزدگیوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ 2022ء میں عمران خان حکومت کی رخصتی پر پرویز خٹک کو صوبائی صدر نامزد کیا گیا جس سے ان کی دیرینہ آرزو کی تکمیل ہوئی۔ پرویز خٹک ابتدا سے ہی صوبائی صدارت کے خواہشمند تھے مگر 9 مئی 2023ء کے پرتشدد واقعات کے بعد پرویز خٹک نے پارٹی سے راہیں جدا کیں تو علی امین گنڈاپور کو صوبائی صدر نامزد کیا گیا۔ 2024ء انتخابات میں کامیابی کے بعد انہیں وزارت اعلیٰ کا تاج بھی پہنا دیا گیا۔ تقریباً ایک برس سے علی امین گنڈاپور صوبائی صدارت اور وزارت اعلیٰ دونوں عہدے پاس رکھے ہوئے تھے۔ دونوں عہدوں سے انصاف کرنا چونکہ ممکن نہ تھا، انہیں سیاسی اور احتجاجوں سمیت وزارت اعلیٰ کی دوہری ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو رہا تھا۔ اگر کام بانٹنے کی نیت سے انہیں ہٹایا جاتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سنجیدہ و فہمیدہ حلقے خاصی دیر سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ علی امین کو حکومتی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر پارٹی قیادت چونکہ من مانی پر بضد رہتی ہے، اس لیے یہ صائب مشورہ قبول نہیں کیا گیا۔ اب اچانک صوبائی صدارت ان سے لے کر جنید اکبر کو دے دی گئی ہے۔

جنید اکبر پارٹی کے نظریاتی کارکن اور راہنما سمجھے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل صوبائی وزیر شکیل خان نے صوبائی وزرا اور حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے تو علی امین نے انہیں وزارت سے ہٹا دیا جس پر عاطف خان اور جنید اکبر نے شکیل خان کے حق میں آواز بلند کی اور کہا کہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے کو ہی وزارت سے ہٹانا قرین انصاف نہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ پارٹی کا ایک بڑا دھڑا وزیراعلیٰ کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ مگر چونکہ علی امین کی عمران خان تک رسائی آسان تھی اور وہ ان کی منشا کے مطابق چل رہے تھے، اس لیے انہیں دونوں عہدوں پر فائز رکھا گیا تھا۔ مگر جب بشریٰ بی بی نے رہائی کے بعد پشاور میں رہائش اختیار کی اور 26 نومبر کو اسلام آباد ڈی چوک کا پروگرام بنا دیا تو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ بشریٰ بی بی ڈی چوک میں احتجاج پر بضد تھیں جبکہ گنڈاپور ریڈ زون میں داخلے کے خلاف تھے۔ اس دوران وہاں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پرتشدد احتجاجیوں کے خلاف کارروائی کی گئی جہاں سے حیرت انگیز طور پر بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور رات کی تاریکی میں مانسہرہ پہنچ گئے۔ بعدازاں بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ رات بارہ بجے تک ڈی چوک میں موجود رہیں مگر علی امین کے مطابق انہیں نو دس بجے وہاں سے نکال کر بعدازاں مانسہرہ پہنچا دیا گیا تھا۔

26 نومبر احتجاج کی تیاریوں کے دوران پارٹی کے نظریاتی گروپ نے بشریٰ بی بی سے رابطے استوار کیے۔ اسلام آباد احتجاج کے لیے بشریٰ بی بی نے مارچ کی قیادت عاطف خان اور اسد قیصر کے سپرد کی تھی اور انہوں نے عاطف خان سے کئی ملاقاتیں بھی کیں جس سے چہ مہ گوئیاں شروع ہوئیں کہ نہ صرف صوبائی قیادت بلکہ حکومتی عہدوں میں بھی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ مگر عارضی اقدامات کے تحت اس شورش کو دبایا جاتا رہا۔ اب جبکہ بشریٰ بی بی کو بھی 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، بعض معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بشریٰ بی بی کی خواہش پر عمل میں آئی ہیں اور عین ممکن ہے کہ علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ اگرچہ عاطف خان قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور وہ وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں، مگر پارٹی ذرائع کے مطابق انہیں کسی صوبائی حلقے سے منتخب کروا کر وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپا جا سکتا ہے۔

ایسا ہونے کی صورت میں پارٹی مزید کئی گروپس میں بٹ سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کے بل بوتے صوبے میں کوئی ضمنی الیکشن جیتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ باجوڑ کی صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب اے این پی جیت چکی ہے۔ ان حالات میں کسی نشست سے عاطف خان کو کامیاب کروانا انتہائی مشکل کام ہوگا، خصوصاً اس صورت میں جب وزیراعلیٰ گنڈاپور بھی عہدے پر فائز ہوں۔ عاطف خان 2018ء میں بھی پرویز خٹک کی مخالفت کے باعث وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انہیں محمود خان کابینہ میں سینئر وزارت پر ٹرخایا گیا تھا مگر پرویز خٹک کی سازشوں کے نتیجے میں انہیں شکیل خان اور شہرام ترکئی سمیت وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔ اب ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کی ہما ان کے سر بیٹھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ کسی دیگر فرد کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ صوبائی صدارت کی تبدیلی کو نائب کپتان کی تبدیلی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اب دیکھیں، پی ٹی آئی میں کی گئی تبدیلیاں پارٹی کے لیے سودمند ثابت ہوتی ہیں یا پھر اندرونی گروپ بندی میں اضافے کا موجب بنتی ہیں۔ اس کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیتے ہیں۔

وصال محمد خان

اقوام متحدہ کے تعاون سے ضلع کرم کے لیے امدادی سامان روانہ

اقوام متحدہ کے تعاون سے ضلع کرم کے لیے امدادی سامان روانہ

 این ڈی ایم اے پاکستان نے اقوام متحدہ کے اداروں کے تعاون سے ضلع کرم کے لیے امدادی سامان روانہ کیا ہے۔ یہ امدادی سامان 11 ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلے کے ذریعے روانہ کیا گیا، جو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں بشمول یونیسیف، یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے۔ امدادی سامان میں حفظان صحت اور خواتین کے لیے ضروری سامان پر مشتمل کٹس، ایمرجنسی کٹس، کچن سیٹ، کمبل، بستر، جیری کین اور ترپال شامل ہیں۔ ان امدادی اشیاء کی تقسیم پاک فوج، سول انتظامیہ اور اقوام متحدہ کے اداروں کے نمائندگان کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جائے گی۔

Official inauguration of ESSI digitization

ای ایس ایس آئی کی ڈیجیٹائزیشن کا باضابطہ افتتاح

صوبائی وزیر محنت فضل شگورخان نے ای ایس ایس آئی کی ڈیجیٹائزیشن کا باضابطہ افتتاح کردیا۔ صوبائی وزیر محنت کو ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن افتتاح کے بعد ڈیجیٹائزیشن پر تفصیلی بریفنگ دی۔ صوبائی وزیر نے ای ایس ایس آئی ہسپتال پشاور میں ڈیجیٹائزیشن عمل کا خود معائنہ کیا۔ ای ایس ایس آئی کی ڈیجیٹائزیشن سے ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات آسانی سے میسرہونگے، ڈیجیٹائزیشن کے عمل سے تمام ڈیٹا ایک کلک پر دستیاب ہوگا۔ محکمہ محنت میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلیے انقلابی اصلاحات کاسلسلہ جاری رہےگا۔ ای ایس ایس آئی ہسپتالوں میں موجود میڈیسن کاریکارڈ آن لائن دستیاب ہوگا۔ بہت جلد مزدور کارڈ کو بھی صوبے میں متعارف کررہے ہیں۔

Karam: A convoy of 120 vehicles from Til to Parachinar reached Karam

کرم: ٹل سے اشیائے خورونوش لیکر 120 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ کرم پہنچ گیا

ہنگو کی تحصیل ٹل سے اشیائے خورونوش لیکر 120 چھوٹی گاڑیوں کا قافلہ ضلع کرم پہنچ گیا۔ ضلعی انتظامیہ کیمطابق مال بردار گاڑیوں میں اشیائے خورونوش، پھل، سبزیاں، ادویات اور دیگر سامان موجود ہے۔ ضلعی انتظامیہ کرم کا کہنا ہے کہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مزید اقدامات کیے جارہے ہیں۔