عالمی پراکسیز، ریاستی صف بندی اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت

صوبہ خیبرپختونخوا ایک بار پھر سیاسی، ریاستی اور علاقائی سرگرمیوں اور پراکسیز کا ” میدان ” بنا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی روایتی میڈیا کی شہ سرخیوں سے زیادہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا سمیت پوری پشتون اور بلوچ بیلٹ میں سیکورٹی فورسز اور ریاست مخالف گروپوں کی سرگرمیوں میں اصافہ ہوا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی خیبرپختونخوا حکومت کی شکل میں موجود اپنے سیاسی ” مورچے ” میں جاری تجربات کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ اسی طرح خطے میں رونما ہونے والی بعض متوقع علاقائی تبدیلیوں اور پراکسیز کے ڈانڈے بھی اسی بیلٹ ہی سے ملائے جارہے ہیں ۔ اس تمام صورتحال نے اس صوبے کے مستقبل کو سوالیہ نشان بناکر رکھ دیا ہے اور ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہاں ایک بار پھر مختلف عالمی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسیز کا ” جنگی تھیٹر” سجنے یا سجانے والا ہے۔

جہاں تک صوبے کی سیکورٹی صورتحال کا تعلق ہے جاری کارروائیوں میں گزشتہ دو برسوں کی طرح جنوری 2025 کے پہلے مہینے یعنی جنوری میں بھی ریکارڈ تعداد میں کارروائیاں کی گئیں اور امن و امان کی بحالی کا کام ہی سب سے بڑا چیلنج بنا رہا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف جنوری کے آخری ہفتے کے دوران سیکورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع میں آپریشن کیے جس کے نتیجے میں کالعدم گروپوں کے 3 اہم کمانڈروں سمیت تقریباً 38 حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک درجن کے لگ بھگ کو زخمی یا گرفتار کرلیا گیا ۔ ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان کے تین مختلف پشتون علاقوں میں کی گئیں جہاں افغانستان سے دراندازی کرنے والے دو گروپوں سمیت دو مزید کارروائیوں کے نتیجے میں جنوری کے مہینے میں تقریباً 40 حملہ آوروں ( دہشت گردوں ) کو ہلاک کردیا گیا ۔ دوسری جانب کالعدم گروپس ٹی ٹی پی ، لشکر اسلام ، جماعت الاحرار اور حافظ گل بہادر گروپ نے نہ صرف یہ کہ اس مہینے فورسز خصوصاً خیبرپختونخوا پولیس اور سرکاری ملازمین کو ریکارڈ تعداد میں نشانہ بنایا اور مختلف علاقوں میں باقاعدہ ناکہ بندیاں کرتے ہوئے لوگوں ، گاڑیوں کی تلاشیاں لیں بلکہ متعدد اہم لوگوں کو اغواء بھی کیا جن میں جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران لکی مروت سے اغواء ہونے والے وہ سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جن کو تادم تحریر بازیاب نہیں کرایا جاسکا ۔ اس دوطرفہ کارروائیوں سے ہٹ کر فریقین نے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کمپینز پر بھی کافی توجہ مرکوز رکھی اور کوشش کی گئی کہ بعض واقعات کو اصل حقائق سے ہٹ کر پیش کیا جائے ۔ دیگر ریاست مخالف گروپوں نے اس ” کمپین” میں حسب معمول فورسز کی مخالفت کی پالیسی اختیار کی اور ان میں صوبے کی برس اقتدار جماعت پی ٹی آئی بھی شامل رہی۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کے امن کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس قوت ( افغان حکومت ) کے ساتھ جنگ لڑرہی ہیں جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قیدی نمبر 804 اور نام نہاد مذاکراتی عمل کی گہما گہمی میں پاکستان کے سیاسی قائدین اور میڈیا نے مذکورہ بیان یا بیانیہ کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی حالانکہ اس پر ایک سنجیدہ بحث کی اشد ضرورت تھی کیونکہ عالمی اور علاقائی میڈیا یہ اطلاعات فراہم کرتا رہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی ، ٹی ٹی پی ، پی ٹی ایم اور ان کی پشت پر کھڑی افغان عبوری حکومت ریاست کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہیں ۔ بھارتی میڈیا نے تو اس پس منظر میں باقاعدہ ایک میڈیا کمپین ڈیزائن کرکے خصوصی رپورٹس اور تجزیے پیش کیے ۔ پاکستان کے میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات اور اعلانات پر بھی توجہ نہیں دی جن میں خطے خصوصاً افغانستان سے متعلق خطرناک اور غیر مروجہ اقدامات کی دھمکیاں دی گئی تھیں ۔ اس ضمن میں دو اعلانات کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ ایک میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان میں انخلاء کے وقت رہ جانیوالے اسلحہ کو واپس لائے گا اور یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو دی جانیوالی امداد بند کی جارہی ہے ۔ دوسرا نئے سیکرٹری خارجہ کا وہ بیان جس میں کہا گیا کہ اگر افغان طالبان اور ان کی حکومت نے وہاں قید امریکیوں کو رہا نہیں کیا تو امریکہ ان کے لیڈروں کے سروں کی قیمت لگادے گا اور یہ کہ یہ قیمت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی قیمت سے زیادہ ہوسکتی ہے ۔ یہ دھمکی نئے امریکی سیکریٹری خارجہ نے 26 جنوری کو دے دی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے خلاف توقع جنگ زدہ صوبے کے اپنے” مورچے” کو مزید طاقتور بنانے کے لیے جنوری کے آخری ایام میں متعدد نئی تبدیلیاں کیں جو کہ اس جانب اس جانب اشارہ سمجھا گیا کہ 8 فروری کو اعلان کردہ احتجاج کا مرکز ایک بار پھر جنگ زدہ خیبرپختونخوا ہی رہے گا ۔ عمران خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے پارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ واپس لیتے ہوئے یہ عہدہ نسبتاً غیر فعال لیڈر جنید اکبر خان کو دے دیا اور عین اسی دوران موصوف کو غیر متوقع طور پر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے بھی نوازا گیا ۔ ماہرین اور تجزیہ کاروں نے ان دونوں اقدامات پر حیرت کا اظہار کیا کیونکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کے دیگر لیڈروں کے ساتھ لاکھ کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ۔ ان میں گروپ لیڈر عاطف خان بھی شامل تھے جن کے بارے میں مذکورہ ” تبدیلیوں” کے بعد یہاں تک کہا جانے لگا کہ وہ اگلے مرحلے کے دوران علی امین گنڈاپور کی جگہ وزیر اعلیٰ بھی بنائے جاسکتے ہیں ۔ تجزیہ کار اس تمام ڈرامہ نما تبدیلی کو علی امین گنڈاپور اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر کے خلاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مشاورت اور ” مہم جوئی ” کا نتیجہ قرار دیتے رہے جو کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پاچکی ہیں اور عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس سزا میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا ہاتھ ہے حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی عمران خان کے وہ دو ” کھلاڑی ” تھے جن کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سزاؤں سے قبل وہ اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور ڈپلومیسی یا ڈیلنگ چلاتے آرہے تھے۔

اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کو سیکورٹی چیلنجز اور بیڈ گورننس کے چیلنجر کا سامنا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے اس حساسی ترین صوبے کو پی ٹی آئی نے اپنے ریاست مخالف مورچے کا سٹیٹس بھی دے رکھا ہے ۔ اس کے منفی اثرات مستقبل قریب میں صوبے کے سیکورٹی حالات اور معاشی ، سماجی تبدیلیوں پر کس انداز میں اثر انداز ہوں گے اس کا انحصار ریاستی صف بندی پر ہے تاہم ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مختلف اندرونی اور بیرونی قوتوں کے لیے خیبرپختونخوا اب بھی ایک بہترین ” تجربہ گاہ ” کی حیثیت رکھتا ہے جہاں کوئی بھی تجربہ کیا جاسکتا ہے۔
عقیل یوسفزئی

Polio campaign started in Bannu

بنوں: انسداد پولیو مہم کا آغاز

بنوں مؤثر سیکیورٹی انتظامات میں انسداد پولیو مہم کا آغازہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق ضلع بنوں میں 05 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ڈی پی او بنوں ضیاء الدین احمد کی زیرنگرانی ضلع بھر میں سیکیورٹی کے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں۔  ضلع بھر میں 2500 سے زائد پولیس اہلکاران، انسداد پولیو ٹیموں کے ساتھ تعینات کیے گئے ہیں۔ کیو آر ایف سکواڈز ، ابابیل فورس کیساتھ ساتھ تمام تھانہ جات کے موبائل گاڑیاں اپنے اپنے سرکلز میں گشت کررہے ہیں۔ تمام ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز نے تمام بی ایچ یوز کے دورے کرکے سیکیورٹی اہلکاروں کو تفصیلی بریفنگ دی ۔ انسداد پولیو مہم کی ٹیموں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ضلع بھر کے داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندیاں کرکے مؤثر چیکنگ بھی جاری ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بنوں نے ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ بدوران ڈیوٹی انتہائی چوکس رہیں، ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت بھی یقینی بنائیں، مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھیں اور دوران ڈیوٹی بلٹ پروف ہیلمٹ جیکٹ کا استعمال لازمی کریں۔

Anti-polio campaign started in 27 districts of the province from todayپولیو مہم

خیبر پختونخوا میں رواں سال کا پہلا انسداد پولیو کمپین آج سے شروع

Feature Photo

افغانستان، امریکہ اور پاکستان

نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر کئی ممالک سمیت افغانستان کو دی جانے والی امداد بھی بند کر دی ہے۔ جس سے افغان عبوری حکومت معاشی مشکلات کا شکار ہونے لگی ہے۔ اگست 2021ء میں امریکہ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ اس دوران طالبان کا حامی ایک طبقہ یہ ڈھنڈورا پیٹتا رہا ہے کہ طالبان کی پالیسیوں سے وہاں نہ صرف امن بحال ہوا ہے بلکہ افغانستان معاشی طور پر بھی مستحکم ہوا ہے اور وہاں مہنگائی کا نام و نشان نہیں۔ مگر اب امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں طالبان کو تین ارب ڈالرز کی امداد دی گئی ہے اور یہ امداد اس معاہدے کے نتیجے میں دی جا چکی ہے جس کے تحت امریکہ افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے واپس جا چکا ہے۔ افغانستان کو دی جانے والی امداد سے ظاہر ہے کہ امریکہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے مگر افغان طالبان کا کردار اس حوالے سے مایوس کن ہے۔ ان کے ہاتھ لگنے والا امریکی اسلحہ ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دھڑلے سے استعمال ہو رہی ہے، افغان طالبان ساڑھے تین سالہ دور میں اقتدار منتقلی کی بجائے مستقلی کے لیے کوشاں رہے اور افغانستان میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال یا خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے معاملات طالبان-امریکہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ چاہے وہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کی افغان آرمی کو دیا گیا تھا، امریکی فوج نے جاتے وقت افغانستان کے مختلف علاقوں میں چھپا کر رکھا تھا یا امریکی فوجیوں سے چھینا گیا تھا، اس اسلحے کا بیشتر حصہ اب غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ افغان آرمی جس کی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ بتائی جا رہی تھی، امریکہ کے نکلتے ہی یہ آرمی تتر بتر ہو گئی۔ کچھ کو طالبان نے گرفتار کیا، باقی ناک کی سیدھ میں بھاگ کر کہیں نہ کہیں پناہ گزیں ہو گئے۔ اگر چار لاکھ افغان آرمی کے ہر فوجی کے پاس ایک ایک گن بھی تصور کیا جائے تو چار لاکھ جدید امریکی گنز اب کہاں ہیں اور کس کے قبضے میں ہیں؟ فوجیوں نے یا تو طالبان کے ہاتھ پر بیعت کر لی یا پھر “شرافت کی زندگی” گزارنے کا عہد کر لیا مگر ان کا اسلحہ کس کے ہاتھ لگا ہے یہ افغان حکومت اور امریکہ سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔

امریکہ نے افغانستان میں اسلحے کے جو انبار چھوڑے تھے، مبینہ طور پر یہ اسلحہ مشرقِ وسطیٰ سمیت پورے ایشیا میں پھیل چکا ہے جن میں ایران، بھارت، ترکی، روس اور دیگر کئی ممالک کی حکومتیں اس کی خریدار رہی ہیں مگر ان میں بہت سا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگا ہے جو اس جدید اسلحے سے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے کر رہے ہیں۔ بنوں، لکی مروت اور ڈی آئی خان میں پولیس پر کیے گئے بعض حملے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے سے کیے گئے، تاریکی میں اپنے ہدف پر وار کرنے والا اسلحہ بھی اس میں شامل ہے۔ امریکی اسلحہ افغانستان میں کوڑیوں کے مول بک چکا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے کہ جس اسلحے کے بل بوتے پر وہ دنیا کا واحد سپر پاور ہے، وہی اسلحہ اب افغانستان کے گلی کوچوں میں باآسانی دستیاب ہے جہاں خریدار کے لیے واحد معیار پیسہ ہے۔

امریکہ جو بزعمِ خود دنیا میں اسلحے کے عدم پھیلاؤ کا سب سے بڑا چیمپیئن ہے، اس کے اسلحے کا حال یہ ہے کہ یہ افغانستان کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے جہاں سے دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیمیں اسے خرید کر دنیا میں پھیلا رہی ہیں یا پھیلا چکی ہیں۔ امریکہ نے افغانستان سے جاتے وقت یہ ذمہ داری طالبان کے سپرد کی تھی کہ وہ یہ اسلحہ غلط ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے مگر افغان طالبان نے اس سلسلے میں اپنے فرائض پورے نہیں کیے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان آئے روز دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن رہا ہے مگر پاکستان نے جب بھی افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی تو افغان طالبان نے ہمیشہ یہی مشورہ دیا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے مسائل خود حل کرے۔

افغان عبوری حکومت کی خواہش پر پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات بھی کیے مگر ٹی ٹی پی کے نامعقول مطالبات تسلیم کرنا اس کے سامنے سرنڈر کے مترادف ہوگا۔ جبکہ پاکستان ان مٹھی بھر شرپسند عناصر کی سرکوبی کے لیے پرعزم ہے۔ اگر افغان طالبان ان کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ پاکستان پر حملہ کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔ اب امریکہ نے بھی اپنے اسلحے اور طالبان کے ہاں موجود امریکی یرغمالیوں کے معاملے پر افغانستان کو ہر ہفتے لاکھوں ڈالرز کی ادائیگی بند کر دی ہے جس سے افغانستان میں مہنگائی بھی محسوس ہونے لگی ہے اور افغان کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ جس سے طالبان پالیسیوں کے حامی بھی گنگ ہو چکے ہیں اور نقد امریکی رقم کے سہارے چلنے والی معیشت کو بھی دھچکا لگا ہے۔

امریکہ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ افغان قیادت کے سروں کی قیمت بھی مقرر کر سکتی ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے سروں کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ طالبان قیادت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ افغان طالبان برسرِ اقتدار تو آئے ہیں مگر اب ملک کو سنبھالنا شاید ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ساری دنیا سے پنگے لے کر، دشمنیاں اور عداوتیں پال کر افغانستان یا اس کے عوام کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔

افغان قیادت اگر ملک کو دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر شناخت دینے کے خواہاں ہوں تو انہیں امریکی اسلحہ اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ فتنہ الخوارج کو پناہ دینے اور اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا سلسلہ بھی بند کرنا ہوگا۔ آپ خود بین الاقوامی معاہدوں کا احترام اور پاسداری کریں گے تو دوسروں سے بھی یہی توقع کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ افغان قیادت کو دانش و تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ افغانستان کے ان گنت مفادات وابستہ ہیں جنہیں موجودہ غلط پالیسیوں سے زک پہنچنے کا قوی خدشہ ہے۔

وصال محمد خان