آرمی چیف کے نام خط کا ڈرامہ

بقول پی ٹی آئی چیئرمین گوہرخان اور وکیل فیصل چوہدری، عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام ایک مبینہ خط لکھ دیا ہے۔ اس خط کے مندرجات اگرچہ باقاعدہ طور پر جاری نہیں کئے گئے مگر پی ٹی آئی راہنماؤں کے مطابق خط بطورِ سابق وزیراعظم لکھا گیا ہے اور اس میں آرمی چیف سے فوج کی پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ گزشتہ انتخابات اور 26 ویں آئینی ترمیم کو فوج اور عوام کے درمیان خلیج کا سبب قراردیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ہم انتشار نہیں چاہتے، فوج ہماری ہے، حکومتی اقدامات کا نزلہ فوج پر گرتا ہے۔ خط کے حوالے سے دیگر بھی کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ واقعی خط کے مندرجات یہی ہیں جو فیصل چوہدری، گوہر خان یا علیمہ خان بتا رہے ہیں۔

لیکن اگر خط کے مندرجات واقعی وہی ہیں جو بتائے جا رہے ہیں تو فوج کے ساتھ دکھاوے کی جو ہمدردی ظاہر کی گئی ہے یہ اس وقت کیوں یاد نہ آئی جب پاک فوج کے چند اعلیٰ افسران ہیلی کاپٹر حادثے میں شہیدہونے پر شہداء کا مذاق اڑا کر انہیں سوشل میڈیا ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کا مذکورہ خط لکھنے کا مقصد بظاہر تو یہی ایک نظر آ رہا ہے کہ فوج انہیں رہا کرانے میں کردار ادا کرے، گزشتہ انتخابات کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کروائے جائیں یا انہی انتخابات کے نتائج تبدیل کرکے تحریک انصاف کو فاتح قرار دیا جائے اور حکومت ان کے حوالے کی جائے۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کا معاملہ ہے تو فوج کا نصب العین ہی ملکی سرحدوں کا دفاع ہے جس کیلئے اسے جانوں کی قربانی بھی دینی پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتی یعنی فوج اپنے فرائض بخوبی نبھا رہی ہے۔ جب ایک ادارہ اپنے فرائض خلوصِ نیت سے انجام دے رہا ہو، تو اس کے ساتھ عوام کی محبت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی یا فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا نہیں ہوتی۔ پورے ملک میں پی ٹی آئی کے سوا کوئی فرد فوج کے خلاف نہیں۔ کیونکہ قوم بخوبی آگاہ ہے کہ فوج ہی کے سبب ان کی عزتیں، جان اور مال محفوظ ہیں۔ قوم سمجھتی ہے کہ فوج انہی میں سے ہے اور یہ کسی دوسرے سیارے یا ملک سے نہیں آئی۔ قوم کی اپنی فوج سے محبت لازوال ہے اور اس میں عمران خان کی وجہ سے کوئی دراڑ پیدا نہیں ہو سکتی۔

خط لکھا گیا ہے یا یہ صرف میڈیا کیلئے پبلسٹی سٹنٹ ہے؟ کچھ ذرائع کا خیال ہے کہ خط لکھا ہی نہیں گیا بلکہ یہ سوشل میڈیا مہم کا حصہ ہے۔ عمران خان جس آرمی چیف کو کبھی جنرل ڈائر، کبھی جنگل کا بادشاہ اور کبھی ان پر اپنے قتل کا الزام لگا رہے ہیں اور کبھی ان سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی جارہی ہے، اس تمام دھما چوکڑی کا مقصد فوج کو بدنام کرنے اور اسے سیاست زدہ کرنے کے سواکچھ نہیں۔ اس مبینہ خط سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں فوج کے مورال کی بڑی فکر ہے، اس لیے انہیں اس حوالے سے آرمی چیف کو خط لکھنا پڑا ہے۔

ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جب عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا تو ہر سطح پر اس کا خیرمقدم ہوا۔ اگرچہ ان کے تضحیک آمیز بیانات کے بعد مذاکرات ختم ہوگئے مگر حکومت نے جمہوری رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی ڈائیلاگ میں دلچسپی ظاہر کی جسے تحریک انصاف نے یکطرفہ طور پر ملایا میٹ کردیا۔ یعنی مذاکرات اپنے منہ سے مانگے گئے اور خود ہی اس سے انکار کر دیا گیا۔ آرمی چیف کے نام خط بھی انہی غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویوں کی عکاسی ہے۔

یہ خط چونکہ آرمی چیف کو نہیں ملا، اس لئے میڈیا میں زیر گردش خط کے مندرجات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ یہ خط آرمی چیف کے نام تو ہے مگر خط در حقیقت بھیجا یا لکھا ہی نہیں گیا بلکہ یہ محض میڈیا پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔ جس آرمی چیف کو تحریک انصاف کی پوری قیادت الٹے سیدھے ناموں سے پکار رہی ہے، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کے آرمی چیف جو کہ ایک پکے مسلمان اور حافظ قرآن ہیں، انہیں جنرل ڈائر سے تشبیہ دی جا رہی ہے جس نے جلیانوالہ باغ میں تین سو سے زائد بے گناہ اور نہتے شہریوں پر گولیاں برسائیں اور بعد ازاں انہیں ایک سکھ نے برطانیہ جا کر قتل کیا۔

ایک جانب آرمی چیف کو الٹے سیدھے ناموں سے یاد کیا جا رہا ہے۔ انہیں ظالم ثابت کرنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے تو دوسری جانب ان کے نام خط جاری کیا جاتا ہے کہ سیاست میں مداخلت کر کے عمران خان کو رہائی دلوائیں اور انہیں حکومت دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آرمی چیف نرمی اور غیر سیاسی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ورنہ انہیں جن غلط سلط ناموں سے پکارا جا رہا ہے اور انہیں جن غاصب انگریز جنرلز سے تشبیہ دی جا رہی ہے، اس کے خلاف وہ قانونی کارروائی میں حق بجانب ہوں گے۔ اگر انہوں نے ایسی کوئی کارروائی کی تو پی ٹی آئی قائدین کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔

اس خط کا ایک مقصد بیرونی دنیا میں یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستانی فوج سیاست میں ملوث ہے اور یہاں حکومتیں فوجی مرضی کی محتاج ہوتی ہیں۔ حالانکہ پاک فوج سیاست میں عدم مداخلت کا واضح اعلان کر چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے قائدین سیاسی رویوں کا مظاہرہ کریں، فوج کو اپنی سیاست کیلئے جتنا استعمال کرنا تھا وہ کر چکے ہیں، ملکی اور قومی سلامتی کے ضامن ادارے کو مزید تماشا نہ بنایا جائے۔ اپنے رویوں پر غور اور نظر ثانی کی جائے۔ فوج کی پالیسیاں فوج نے بنانی ہیں، کسی کے نادیدہ خط سے نہ ہی ان پالیسیوں میں تبدیلی ممکن ہے اور نہ ہی منی لانڈرنگ میں ملوث اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کے میڈیا بیانات سے انہیں کوئی فائدہ ملنے کی امید ہے۔ لہٰذا بہتری یہی ہوگی کہ تحریک انصاف منفی کی بجائے مثبت سیاست کو فروغ دے۔ عقل و فہم، دانش و تدبر کا مظاہرہ کرے اور فوج کو سیاست کے نام پر مزید بلیک میل کرنے سے گریز کرے۔ کسی سیاستدان نے خط ہی لکھنا ہے تو صدر یا وزیراعظم کو لکھ دیں۔ آرمی چیف کے نام خط کا ڈرامہ ایک غیر سنجیدہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس قسم کی سیاسی نوٹنکیوں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔

وصال محمد خان

آئی سی سی چیمپینز ٹرافی کا پاکستان میں سفر

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 کا پاکستان ٹور شیخوپورہ کے تاریخی ہرن مینار کمپلیکس سے شروع ہوا۔ اس سفر میں ٹرافی کو 14 دنوں میں پاکستان کے دس مختلف شہروں میں لے جایا جائے گا۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 سے قبل ٹرافی کا عالمی سفر پاکستان میں 16 نومبر کو شروع ہوا تھا جس کے بعد ٹرافی کو 26 نومبر سے 26 جنوری تک شریک دیگر سات ممالک میں لے جایا گیا۔ اس دوسرے مرحلے میں شیخوپورہ کے علاوہ ٹرافی کو بہاولپور، فیصل آباد، حیدرآباد، اسلام آباد، کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور کوئٹہ لے جایا جائے گا۔

ٹرافی 8 فروری کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سہ ملکی سیریز کے افتتاحی میچ کے دوران نئے اپ گریڈڈ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں بھی نظر آئے گی۔ ان 14 دنوں کے دوران جن اہم مقامات پر ٹرافی کو لے جایا جائے گا ان میں ملتان کا قلعہ، بہاولپور کا نور محل، پشاور کا ارباب نیاز اسٹیڈیم، کراچی کا نیشنل بینک اسٹیڈیم، حیدرآباد کا نیاز اسٹیڈیم اور فیصل آباد کا اقبال اسٹیڈیم شامل ہیں۔ یہ ٹرافی ٹور 14 فروری کو کراچی میں اختتام پذیر ہوگا۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کا افتتاحی میچ میزبان پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 19 فروری کو ہونا ہے۔