مردان گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول خیر آباد میں منشیات خصوصاً آئس کے خلاف آگاہی مہم کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں ایس ایچ او تھانہ رستم داؤد خان نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئس اور دیگر منشیات نوجوان نسل کے مستقبل کیلئے زہر قاتل ہیں۔ انہوں نے طلبہ کو اس لعنت سے دور رہنے اور اپنی تعلیم و مثبت سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی تلقین کی۔ پولیس افسران نے شرکاء کو آئس کے نقصانات اور اس کے خلاف حکومتی اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ اسکول انتظامیہ، اساتذہ، طلبہ اور سول سوسائٹی کے افراد نے اس مہم کو سراہتے ہوئے پولیس کے کردار کی تعریف کی۔
پشاورایکسائز پولیس کا منشیات فروشوں کے خلاف گرینڈ آپریشن
پشاورایکسائز انٹیلیجنس بیورو خیبرپختونخوا کی بڑی کارروائی، آئس اور ہیروئن مکسنگ کارخانہ پکڑا گیا۔ پراوینشل انچارج انٹیلیجنس بیورو سعود خان گنڈا پور کو خفیہ اطلاع ملی تھی۔ 10,142 گرام آئس، 17,556 گرام ہیروئن اور مکسنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکلز برآمد کر لی گئی۔ منشیات کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینیں، برتن اور دیگر آلات قبضے میں لے لیے گئے۔ کارخانہ کے مالک عزت اللہ افغانی باشندہ ہے۔ ملزم کا پاسپورٹ اور سیٹیزن کارڈ برآمد، تفتیش اور قانونی کاروائی کیلئے مقدمہ درجکر لیا گیا۔ وزیراعلیٰ علی کی منشیات کے خلاف ایمرجنسی کے تحت کارروائیاں تیز کر دی گئی ہے۔ ایکسائز پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی۔
پی ٹی آئی کے ایونٹ کے لیے ایک بار پھر خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کا استعمال؟
پاکستان تحریک انصاف اپنے بانی چیئرمین کی ہدایت پر 8 فروری کو یوم سیاہ منانے کے معاملے پر شدید نوعیت کی ابہامی کیفیت سے دوچار ہے اور ابھی تک پارٹی کی مجوزہ ” روڈ میپ ” کا کوئی واضح خاکہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ اب کے بار بھی لگ یہ رہا ہے کہ اس پاور شو کے انعقاد کا تمام بوجھ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اور اس کی صوبائی حکومت کے کاندھوں پر ہے اور پاور گیم کے مرکز یعنی پنجاب اس بار بھی لاتعلقی پر مبنی رویہ یا پالیسی پر عمل پیرا نظر آئے گا تاہم پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا کا ” مورچہ ” بھی بوجوہ پہلے کے برعکس خالی نظر آرہا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ پشاور میں عملاً کوئی سرگرمی یا گہما گہمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہیں۔
پارٹی کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے گزشتہ روز پشاور کا پہلا دورہ کیا جہاں انہوں نے یوم سیاہ کے حوالے سے مشاورت کرنی تھی یا ہدایات دینی تھیں مگر ان کے طب کردہ اجلاس میں خلاف توقع مرکزی یا صوبائی سطح کے کسی بھی خاص لیڈر نے شرکت نہیں کی ۔ اس اجلاس سے صوبائی وزراء اور ممبران اسمبلی بھی لاتعلق اور غیر حاضر رہے ۔ جنید اکبر خان اور ان کی نئی ٹیم کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب ” گروپ لیڈر ” عاطف خان کے ساتھ پارٹی کے منحرف رہنما عون چودھری کی ایک تازہ تصویر کو پی ٹی آئی ہی نے وائرل کردیا جس پر وزیر اعلیٰ اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر لیڈروں نے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور پارٹی لیڈر شپ کے آفیشل واٹس ایپ گروپ میں تصویر بنوانے کے معاملے پر سابق گورنر شاہ فرمان اور عاطف خان کے درمیان سخت جملوں اور الزامات کا تبادلہ بھی ہوا ۔ اسی تلخ کلامی کی سکرین شاٹس لیکر بعض شرکاء نے میڈیا پرسنز کو فارورڈ کردیں جس کے باعث کارکنوں کی نظر میں عاطف خان قاید سے ” بے وفائی” کے مرتکب قرار پائے اور ان کی وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا جس کا براہ راست اثر جنید اکبر خان کی صدارت پر پڑنے لگا کیونکہ عاطف خان آن دی ریکارڈ ان کی صدارت کا کریڈٹ خود کو دیتے رہے ۔ ایک اہم رہنما نے اس ضمن میں ” وی نیوز ” کو بتایا کہ جنید اکبر خان یوم سیاہ کی تیاریوں کے سلسلے میں جب جب پارٹی رہنماؤں اور دیرینہ کارکنوں سے رابطے کرتے رہے دوسری جانب سے عون چودھری کے ساتھ عاطف خان کی تصویر کا معاملہ اور مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ۔ علی امین گنڈاپور کے گروپ نے اس معاملے کو نئے صوبائی صدر جنید اکبر اور گروپ لیڈر عاطف خان کے خلاف زبردست طریقے سے اچھالا حالانکہ عاطف خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی عون چودھری کے ساتھ کوئی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی تھی بلکہ اسلام آباد کلب میں واک کے دوران دونوں کی علیک سلیک ہوئی تھی تاہم پیچھے سے کسی نے تصویر بناکر وائرل کردی۔
تصویر والے معاملے کو اتنا بڑا مسئلہ اس لیے بنایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو شدید نوعیت کے اختلافات اور گروپ بندی کا سامنا ہے اور صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور دوسرے گروپس کے خلاف کھل کر میدان میں نکل آئے ہیں ۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی اور بعض دیگر لیڈروں کے ہمراہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہے تاہم ان کے بقول وہ یہ سب کچھ بانی چیئرمین کی ہدایت پر ان کی مرضی کے مطابق کررہے تھے ۔ انہوں نے پارٹی کے ایک گروپ کے ساتھ سی ایم ہاوس میں کی گئی بات چیت کے دوران یہ بھی کہا کہ وہ ماضی کی طرح اب کے بار اس ایونٹ کے لیے صوبائی حکومت کی ” سہولت کاری ” کا فریضہ انجام نہیں دیں گے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سرگرم عمل ہیں اور دونوں بڑے گروپوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے انہوں نے کافی رابطے کیے تاہم صورتحال نے اس وقت بہت عجیب شکل اختیار کرلی جب عاطف خان گروپ کی جانب سے بیرسٹر گوہر کو یہ کہہ کر تعاون کرنے سے انکار کردیا گیا کہ وہ علی امین گروپ کے حامی ہیں اور اسی طرح اسد قیصر پر پہلے والے گروپ نے عاطف خان اور جنید اکبر کی حمایت اور سرپرستی کا الزام لگایا گیا ۔ اس صورتحال کو بظاہر مضحکہ خیز اور انتہائی غیر سنجیدہ طرز عمل کا نام دیا جاسکتا ہے تاہم یہ پی ٹی آئی کا پولیٹیکل کلچر رہا ہے اور کارکن بھی اسی کلچر سے متاثر ہوکر بیانیہ تشکیل دیتے ہیں ۔ اب تک کا جو منظر نامہ سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور تاحال مضبوط وکٹ اور پوزیشن پر ہیں کیونکہ وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں جبکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کو وہ پذیرائی نہیں مل پارہی جس کی ان کو ضرورت ہے ۔ حالت تو یہ ہے کہ جنید اکبر کے بعض قریبی ساتھی بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان نے جنید اکبر کی تعیناتی کے فوراً بعد یا اس سے قبل اس یوم سیاہ کی کال دے کر نئے صوبائی صدر کو کڑے آزمائش میں ڈال دیا ہے اور یہ کہ اگر علی امین گنڈاپور نے واقعتاً صوبائی وسائل کی عدم فراہمی اور اپنی عدم دلچسپی کے اعلان پر عمل کیا تو یہ ” ایونٹ ” بری طرح ناکامی سے دوچار ہوجایے گا ۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ ان حالات میں عمران خان کے کسی فیصلے سے حکم عدولی کا رسک نہیں لے سکتے اور وہ یوم سیاہ سے لاتعلق نہیں رہیں گے تاہم یہ تو واضح ہے کہ ان کی دلچسپی پہلے کی نسبت بہت کم دکھائی دے گی۔
اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق 8 فروری کو خیبرپختونخوا ہی کے علاقے صوابی کی حدود میں ایک اجتماع کا احتجاج کا انعقاد کیا جائے گا تاہم اس ضمن میں تجزیہ کار اور مخالفین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اپنے ہی صوبائی حکومت کی موجودگی میں اسی صوبے کی حدود میں اس ایونٹ کے انعقاد کا آخر مطلب کیا ہے ؟ اس ضمن میں پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے رابطے پر بتایا کہ اسی اجتماع میں اسلام آباد اور پنجاب کی طرف مارچ کرنے کا اعلان متوقع ہے اور اس ایونٹ میں نہ صرف یہ کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے شرائط رکھی جائیں گی بلکہ وفاقی حکومت کو ایک نئی ڈیٹ لاین بھی دی جائے گی کہ اگر متوقع مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو ” فلاں ” تاریخ کو اسلام آباد اور پنجاب کی طرف مارچ کیا جائے گا ۔ اگر ایسا ہی کیا جارہا ہے تو اس سے کارکنوں میں مزید مایوسی پھیلے گی کیونکہ کارکنوں کی بڑی تعداد نے نئے صوبائی صدر سے حسب عادت بہت توقعات وابستہ کی ہیں اور وہ یہ سمجھ بھیٹے ہیں کہ ” کمپرومایزڈ سی ایم ” کے مقابلے میں نئے صوبائی صدر کوئی نیا پلان دیکر کچھ خاص ڈیلیور کردیں گے۔
اس سلسلے میں جب وفاقی حکومت کے بعض متعلقہ افراد یا حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے حالات کو ” پرسکون ” قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ ماضی کے برعکس اب کے بار وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو کوئی تشویش لاحق نہیں ہے اور پی ٹی آئی اب کچھ بھی کرنے کی خاص پوزیشن میں نہیں ہے ۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اگر پی ٹی آئی نے اسلام آباد یا پنجاب کی طرف انتشار پھیلانے کے لیے کوئی حرکت کی تو اس کے ساتھ حسب سابق سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جنگ زدہ صوبے کو اپنی باغیانہ سرگرمیوں اور سرگرمیوں کے لیے مورچے میں تبدیل کردیا ہے اور یہ طرزِ سیاست 2014 کے بعد جاری ہے تاہم اب یہ سرگرمیاں ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور وفاقی حکومت کسی کو ریاست مخالف سرگرمیوں اور پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کے لیے جنگ زدہ صوبے کے سرکاری وسائل کو جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اب کے بار بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جائے گا مگر عوام اس پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے صوبے کے مسائل حل کرنے پر کتی توجہ دی ؟
تجزیہ کار بھی اس ایونٹ کو محض پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا ایک روایتی حربہ قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس نہ صرف یہ کہ ” پولیٹیکل کارڈز ” تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو فرسٹریشن کا بھی سامنا ہے ۔ باصلاحیت صحافی عرفان خان نے اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی کابینہ شدید اختلافات سے دوچار ہیں اور اس وقت آن دی ریکارڈ مختلف گروپوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف مہم جاری ہے ایسے میں کارکن اور پارٹی عہدے دار بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں اور ان میں یہ تاثر بہت عام ہے کہ بانی چیئرمین کی رہائی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ۔ عرفان خان کے بقول وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف دوسرے گروپ کی جانب سے کھلے عام پروپیگنڈا کیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ صوبائی صدارت سے فارغ ہونے کے بعد ان کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے بھی ہٹایا جاسکتا ہے ۔ اس مہم کو نہ صرف یہ کہ وزیر اعلیٰ نے ذاتیات پر مبنی رویہ سمجھا بلکہ وہ کافی ناراض اور مشتعل بھی ہیں اور اس تمام منظر نامے کے نتیجے میں 8 فروری کا مجوزہ ایونٹ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
عقیل یوسفزئی