یوم سیاہ ایک لاحاصل پریکٹس ؟
پاکستان تحریک انصاف 8 فروری کو اپنے دعوؤں کے برعکس ایک بار پھر اس کے باوجود صوابی میں کوئی قابل ذکر پاور شو کرانے میں ناکام رہی کہ صوبے میں اس کی حکومت ہے اور چند ہفتے قبل پارٹی کی صوبائی قیادت میں بھی تبدیلی لائی گئی تھی دوسری جانب پارٹی کے بانی عمران خان نے پہلے خط کا کوئی رسپانس نہ ملنے کے باوجود آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دوسرا کھلا خط بھی لکھ کر اسے پبلک کیا ہے ۔
صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی اکثر تجزیہ کاروں نے صوابی میں ہونے والے جلسہ عام کو پارٹی کے دعوؤں کے برخلاف ایک ناکام اجتماع کا نام دیا ہے اور اکثر کا خیال ہے کہ اس میں 20 سے 30 ہزار کے لگ بھگ کارکن شریک ہوئے حالانکہ اگر صرف صوابی سے پارٹی کو ملنے والے 2024 کے انتخابات کے دوران ملنے والے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پارٹی کو تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ووٹ ملے تھے ۔ اگر ان ساڑھے چھ لاکھ میں سے ساڑھے پانچ لاکھ کو عام لوگ اور ووٹرز قرار دیکر باہر کیا جائے تو بھی ایک لاکھ ہارڈ کور ورکرز رہ جاتے ہیں مگر وہ تو ایک طرف پارٹی پورے صوبے سے ایک لاکھ کا مجمع کرانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکی حالانکہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر نوشہرہ ، مردان اور بعض دیگر وہ بڑے شہر بھی واقع تھے جہاں پی ٹی آئی کو 2025 کے الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی ۔
اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے تقریباً 100 ممبران اسمبلی ہیں جبکہ صوبے سے منتخب قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 40 کی لگ بھگ ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھی شریک لوگوں کی تعداد بہت کم رہی ۔ اگر چہ بعض لیڈروں اور ممبران اسمبلی نے اس ایونٹ میں متوقع طور پر تین سے سات لاکھ تک کے لوگوں کی شمولیت کے آن دی ریکارڈ دعوے کئے تھے مگر حسب معمول یہ دعوے غلط ثابت ہوگئے اور یہ معمول کی ایک سرگرمی ثابت ہوگئی ہے ۔ دوسروں کے علاوہ پی ٹی آئی کے بیرون ملک بیٹھے ہوئے ” یوٹیوبرز ” نے بھی شرکاء کی تعداد پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور صوبائی حکومت کے اندر جاری کھینچا تانی کے باعث پارٹی صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور وہاں بھی یہ صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی قابل ذکر کراؤڈ دکھانے کا مظاہرہ نہیں کر پائی ۔
پنجاب کے دور دراز کے شہر اور علاقے تو دور کی بات صوابی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع علاقوں کے پی ٹی آئی کے عہدے دار اور کارکن اس جلسے سے لاتعلق دکھائی دیئے ۔
جنید اکبر خان ، سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر گوہر نے کافی معتدل تقاریر کیں اور ان کا مجموعی رویہ سنجیدہ اور سیاسی رہا تاہم خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے نہ صرف یہ کہ مخالفین اور حکومت میں شامل اتحادیوں کے خلاف انتہائی غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی الفاظ استعمال کیے بلکہ انہوں نے بعض ایسے نعرے بھی لگائے جو کہ کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ تو درکنار کسی عام کارکن کو بھی زیب نہیں دیتے ۔ اسی نوعیت کا طرزِ عمل پشاور کے ” پروٹوکول ” سے مزے اڑانے والے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے بھی اختیار کیا ۔
دوسری جانب اسی روز پارٹی کے بانی عمران خان نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایک اور کھلا خط پبلک کیا جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ غیر جمہوری رویہ اختیار کیا گیا ہے اور یہ کہ اس رویے کے باعث پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے ۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اس خلیج کے باعث ملک کی سلامتی اور استحکام کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اس لیے فوج ان کے بقول سیاسی معاملات میں دخل دینے سے گریز کریں ۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق پہلے والے خط پر ملٹری لیڈر شپ نے جو ” رسپانس” دیا تھا اس کے بعد اس دوسری کوشش کی کوئی لاجک نظر نہیں آتی تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سابق وزیراعظم ان خطوط سے یہ پیغام پبلکلی دے رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ براہ راست کوئی مذاکرات یا مفاہمت کریں جو کہ فی الحال ممکن دکھائی نہیں دے رہا ۔ ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کے اہم لیڈرز فرسٹریشن کا شکار ہوگئے ہیں اور مذاکراتی عمل سے باہر نکل کر ان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث اب ” کھلے خطوط ” کا عجیب وغریب فارمولا استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ عمران خان ماضی قریب میں نہ صرف آرمی چیف بلکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مختلف القابات سے نوازتے رہے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کے بقول ملٹری اسٹبلشمنٹ کی یہ پالیسی عمران خان اور ان کی پارٹی کو بہت ” کھٹکتی ” ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے کوئی مذاکرات وغیرہ کرنے ہیں تو وہ سیاسی حکومت اور سیاست دانوں سے کریں ۔
عقیل یوسفزئی
خیبر پختونخوا حکومت کا بڑےگیمزشروع کرنے کا اعلان
گورنر خیبرپختونخوا نے ”ملازمین برطرفی قانون 2025“ مسترد کر دیا
گورنر خیبرپختونخوا نے “ملازمین برطرفی قانون 2025” مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں بل پراعتراض۔ صوبائی حکومت کا بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
گورنر فیصل کنڈی کاکہنا تھا کہ غیر قانونی بھرتیوں کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ الیکشن کمیشن کی اجازت سے بھرتی ملازمین کو بل سے نکالا جائے۔ ملازمین کو اپیل کے حق سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 10A کی خلاف ورزی ہے۔ ماضی میں کی گئی قانونی بھرتیوں کو کالعدم قرار دینا غیر آئینی ہے۔ صوبائی حکومت بل پر نظرثانی کرے ورنہ عدالتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا کا شفافیت اور انصاف کے لیے بل میں ترامیم کا مطالبہ صرف ملازمین نہیں، بھرتی کرنے والے افسران بھی جوابدہ ہوں گے۔
ریاست کو گالیاں؟
آٹھ فروری کو گزشتہ عام انتخابات کا ایک سال پورا ہونے پر پی ٹی آئی نے یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارٹی کا مؤقف ہے کہ گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابات میں اس کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔ گزشتہ پورا سال پی ٹی آئی قائدین اور پیڈ سوشل میڈیا بریگیڈ نے فارم 45 اور 47 کی گردان اور پروپیگنڈے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھی کہ پنجاب اور کراچی میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں شدت پیدا کرنے کیلئے رواں ماہ کی 8 تاریخ کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے تحت پورے ملک میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور عوام نے احتجاج کرنا تھا۔ مگر صد افسوس کہ یہ یوم سیاہ پورے ملک میں نظر نہیں آیا۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں اور کراچی سے جیت کا دعویٰ شدت سے کیا جاتا ہے، مگر ان علاقوں پر یوم سیاہ کے کوئی اثرات مرتب نہ ہوسکے اور عام شہری معمول کے مطابق اپنے روزمرہ کے امور انجام دینے میں مصروف رہے۔
پی ٹی آئی قیادت بھی اب جان چکی ہے کہ عوام کو ان کی ذاتی مفادات پر مبنی احتجاجی اور پرتشدد سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عام شہریوں نے یوم سیاہ پر کان دھرنا ضروری نہیں سمجھا۔ عمران خان اور پارٹی کے دیگر قائدین اگرچہ برملا اظہار نہیں کرتے اور مقبولیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں، مگر اندرونِ خانہ وہ بھی جان چکے ہیں کہ قوم ان کی طرزِ سیاست سے دلبرداشتہ ہو رہی ہے۔
عمران خان اگر اقتدار کی سنگھاسن تک پہنچے تو انہوں نے خود نمائی، شعلہ بیاں ترجمانوں کے پروپیگنڈے، عزیز و اقارب کی بدعنوانی سے چشم پوشی اور سیاسی مخالفین کو ہٹلر طرز پر ختم کرنے کی خواہش اور کوشش کے سوا عوامی فلاح و بہبود یا ملکی ترقی کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اسی طرح سابقہ اور موجودہ صوبائی حکومتوں نے بھی سیاسی محاذ آرائی اور بلند بانگ دعوؤں کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ اپوزیشن میں آنے کے بعد تو پی ٹی آئی نامی سیاسی جماعت عوامی مسائل سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ پارٹی قائدین نے اپوزیشن کا مقصد ہمہ وقت تنقید، برا بھلا کہنا، میں نہ مانوں کی رِٹ اور بے معنی الزامات سمجھ لیا ہے۔
اسی سبب پارٹی قائدین بخوبی جانتے تھے کہ ملک کے دیگر حصوں سے یوم سیاہ کو اہمیت نہیں ملے گی، اس لیے یوم سیاہ پر مرکزی احتجاجی جلسہ صوابی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امر باعث حیرت یہ ہے کہ اس صوبے سے تحریک انصاف نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، جس پر دیگر جماعتیں معترض ہیں اور وہ دھاندلی الزامات لگا رہی ہیں، جن کی تصدیق اب حکمران جماعت کے راہنما بھی کر رہے ہیں۔ یہاں پارٹی کی ایک مستحکم حکومت قائم ہے اور اس کے ساتھ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دیگر جماعتیں فریاد کناں ہیں کہ تحریک انصاف کے حق میں دھاندلی ہوئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں یوم سیاہ کے مرکزی اجتماع کا انعقاد شدید مایوسی کی عکاس ہے، جس سے یہی آشکارا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف حکومتی وسائل کے بغیر ایک جلسہ تک کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔ جلسوں پر چونکہ کروڑوں روپے کی رقم خرچ ہوتی ہے، جس کا انتظام اس سے قبل پرویز خٹک، محمود خان کرتے تھے، اب علی امین گنڈا پور کر رہے ہیں۔ لاہور میں جلسے کیلئے ایک بادل نخواستہ کوشش ہوئی، جسے حکومت نے بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کے سبب مسترد کیا۔ مگر پنجاب یا ملک کے دیگر کسی حصے سے کارکنوں نے صوابی جلسے میں شرکت گوارا نہیں کی، جس کا یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں میں پی ٹی آئی اور اس کے قائد کی مقبولیت بتدریج کم یا ختم ہو رہی ہے۔
ایک سبب یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کو اجاگر کرتے رہتے ہیں، انہیں حکومتی وسائل بھی میسر ہیں اور پروپیگنڈہ محاذ پر بھی وہ پی ٹی آئی کو اگرچہ پچھاڑ تو نہ سکیں مگر مقابلہ خوب کر رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ف) اور اے این پی اپوزیشن پارٹیاں سمجھی جا رہی ہیں، مگر یہ سوشل میڈیا اور پروپیگنڈہ محاذ پر تحریک انصاف سے خاصی کمزور ہیں۔
اس لیے اس صوبے میں اگرچہ پی ٹی آئی کی مقبولیت وہ نہیں رہی جو گزشتہ انتخابات کے دوران تھی کیونکہ حال ہی میں اے این پی نے اپنے بانی راہنما باچا خان اور رہبر تحریک عبدالولی خان کی برسیوں پر تقریباً ہر ضلعے میں عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا، جس میں عوام کی شرکت متاثر کن رہی۔ اسی طرح جے یو آئی بھی جب کسی عوامی اجتماع کا انعقاد کرتی ہے تو کارکنوں سمیت عام لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے۔
مگر ایک تو ان جماعتوں کے ارکان صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، جو ان جماعتوں کا خاصہ رہا ہے اور دوسرے قومی اور سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کی متاثر کن موجودگی نظر نہیں آ رہی۔ ورنہ علی امین گنڈا پور کی گزشتہ ایک برس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، وہ پورا سال احتجاجوں اور پنجاب و اسلام آباد پر چڑھائیوں اور دھاوا بولنے میں مصروف رہے۔
پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومتیں بھی عوامی فلاح و بہبود کا کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکیں اور موجودہ حکومت کا دامن بھی تاحال خالی نظر آ رہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدارت سے ہٹانے پر پارٹی کے اندر گروہ بندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی گروہ کی آرزو ہے کہ عمران خان کی رہائی عمل میں آئے تاکہ ان کا بوجھ ہلکا ہو، تو کسی کی خواہش ہے کہ وہ جیل میں رہیں تاکہ ان کی چوہدراہٹ قائم رہے۔
یوم سیاہ کے موقع پر صوابی جلسے میں کئی ممتاز راہنماؤں نے شرکت گوارا نہیں کی۔ جلسے میں حاضرین کی تعداد متاثر کن نہیں رہی۔ علی امین گنڈا پور سمیت دیگر قائدین نے قابل اعتراض زبان کا استعمال کیا۔ وزیر اعلیٰ کو اس قسم کی زبان زیب نہیں دیتی، وہ چار کروڑ باشندوں پر مشتمل ملک کے تیسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ شاید وہ دنیا کے واحد وزیر اعلیٰ ہیں جو اپنی ریاست پر تھوک رہے ہیں۔
ناقدین کا مؤقف قرین قیاس ہے کہ دیگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس دن اپنی کارکردگی اجاگر کی، جبکہ علی امین کا دامن کارکردگی سے خالی ہے، اس لیے وہ عمران خان کی خوشنودی کیلئے ریاست کو گالیاں دے رہے ہیں۔ یہ طرز عمل کسی صورت سیاسی، جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ اور آبرومندانہ نہیں بلکہ یہ بچگانہ رویے اور فرسٹریشن کی علامت ہے۔ وزیر اعلیٰ کو اپنی حیثیت کے پیش نظر ان رویوں سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔
وصال محمد خان
امریکا سے تعلق رکھنے والے سکھ کمیونٹی وفد کا جمرود فورٹ کا دورہ
امریکہ سے تعلق رکھنے والے 34 رکنی سکھ کمیونٹی کے وفد کا تاریخی جمرود فورٹ اور گردوارا بھائ جوگا سنگھ پشاور کا دورہ۔ ۔ پشاور اور ضلع خیبر آمد پر وفد نے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور دورے کے انعقاد پر حکومت پاکستان اور پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔ وفد کو ضلع خیبر میں واقع جمرود فورٹ کی تاریخ اور ہری سنگھ نلوا کے دور حکومت کے دوران اس کی اہمیت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ ۔ وفد نے جمرود فورٹ میں موجود سکھ دور کی یادگار کا دورہ کیا۔ اور اس کی حفاظت کے لئے جاری تزین و آرائش پر خوشی کا اظہار کیا۔ ۔ وفد نے گردوارا بھائ جوگا سنگھ پشاور کا بھی دورہ کیا۔ اور مذہبی رسومات ادا کیں۔ وفد میں شامل شرکاء نے پاک فوج، فرنٹیئر کور نارتھ اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سکھ دور کے تاریخی مقامات کی دعوت دینا ان کے لئے باعث فخر ہے اور کہا کہ ان کی خصوصی طور پر مہمان نوازی بھی کی گئ۔
ایشین سائیکلنگ چیمپئن شپ: پاکستانی ایتھلیٹس نے مزید 2 میڈلز اپنے نام کرلیے
تھائی لینڈ میں ہونے والی ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی ایتھلیٹس نے مزید2 میڈلز اپنے نام کرلیے۔ تھائی لینڈ میں ہونے والی ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ کی ویمن کی اوپن ماسٹرز کیٹیگری میں پاکستان کی زیب رضوان نے 40 سے 44 سال ایج گروپ میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ پاکستان کی دوسری سائیکلسٹ رابعہ غریب نے 50 سال اور زائد ایج گروپ کی کیٹیگری میں سلور میڈل حاصل کیا، انہوں نے مقررہ فاصلہ 18 منٹ 44 سیکنڈز میں طےکیا۔ اس سے قبل ایشین سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستان کے علی الیاس نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے ماسٹرز اوپن کیٹیگری میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔ تھائی لینڈ میں جاری ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں علی الیاس ماسٹرز اوپن کیٹیگری میں 35 سے 39 کے ایج گروپ کے مقابلوں میں شریک ہوئے اور اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔ زینب نے 10 اعشاریہ 7 کلومیٹر کا فاصلہ 17 منٹ اور 32 سیکنڈز میں طےکیا۔
خیبرپختونخواراؤنڈاَپ
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار کے نئے سلسلے نے جنم لیا ہے۔ نئے صدر جنید اکبر نے روایتی دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ انہیں قومی میڈیا چینلز پر بھی مدعو کیا جانے لگا ہے جہاں وہ حکومت، فوج، صدر اور وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت حکومت کی جانب سے 75 کروڑ روپے آفر کا دعویٰ بھی کیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد ہمارے کارکنوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے وہ حکومت میں آ کر اس کا بدلہ لیں گے۔
8 فروری کو یوم سیاہ قرار دے کر صوابی میں جلسہ منعقد کیا گیا جس کے بارے میں حسب سابق پارٹی راہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ یہ جلسہ ملکی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ اوپر سے عمران خان نے آرمی چیف کے نام خط جاری کیا ہے۔ یہ خط اگرچہ آرمی چیف کو ملا نہیں مگر صوبے سمیت پورے ملک میں کئی روز سے اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ خط محض کمپنی کی مشہوری کے لیے میڈیا میں لایا گیا ہے، برسرزمین اس کا کوئی وجود نہیں۔ پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت بھی اٹھتے بیٹھتے خط میں اٹھائے گئے نکات پر بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہے۔
وزیراعلیٰ نے ایک انٹرویو میں 99 فیصد معاملات طے پانے کا دعویٰ کیا، جبکہ آرمی چیف کے نام خط اس دعوے کی واضح تردید ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی تضاد بیانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے پارٹی راہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ایک انٹرویو میں نیا پنڈورا باکس کھولتے ہوئے فرمایا کہ ان کی پارٹی کے 35 ارکان حلف نامے جمع کروا کر اسمبلیوں تک پہنچے ہیں۔ انہیں خود بھی حلف نامہ جمع کروانے کے لیے کہا گیا تھا مگر انہوں نے شکست کو قبول کیا۔
اس پر اے این پی کا مؤقف ہے کہ جو باتیں شوکت یوسفزئی آج کر رہے ہیں یہی ایمل ولی خان 8 فروری 2024ء کے بعد تسلسل سے کر رہے ہیں۔ شوکت یوسفزئی کے بیان سے ایمل ولی کے مؤقف کی تائید ہو رہی ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہمارا مینڈیٹ نہ صرف گزشتہ بلکہ ان سے پچھلے دو انتخابات 2013ء اور 2018ء میں بھی چرایا گیا ہے۔ عاطف خان اور عون چوہدری کے درمیان ملاقات کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس پر پارٹی کے اندرونی ذرائع خاصے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔
ابھی اس ملاقات پر تبصروں کا سلسلہ جاری تھا کہ عاطف خان نے ایک نیا پنڈورا باکس کھولتے ہوئے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے انہیں اور اسد قیصر کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس جاری نہیں کیے گئے، جبکہ تیمور سلیم جھگڑا اور شوکت یوسفزئی کو جان بوجھ کر صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے ہرایا گیا تاکہ علی امین گنڈا پور کی راہ صاف ہو۔
پی ٹی آئی راہنماؤں کی جانب سے اس قسم کے بیانات سے نہ صرف ایمل ولی خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر راہنماؤں کی الیکشن میں دھاندلی الزامات کو تقویت ملتی ہے بلکہ صوبے سے تحریک انصاف کی طوفانی کامیابی پر بھی شکوک و شبہات کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے حوالے سے اس قسم کے بیانات مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان تسلسل سے جاری کر رہے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چرا کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا ہے، مگر اب یہی باتیں پی ٹی آئی کے اندر سے سامنے آ رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ، علی امین گنڈا پور اور صوبائی حکومت گورنر کے اختیارات چھیننے میں مصروف ہیں۔ پہلے ان سے یونیورسٹیوں کے چانسلر کے اختیارات لے کر وزیراعلیٰ کو سونپ دیے گئے، اب انہیں آئی ایم سائنسز کے بورڈ آف گورنرز کے عہدے سے بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے کچھ ہو نہ ہو، گورنر کو دہائیوں سے حاصل اختیارات چھیننے سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔
اس سے قبل کے پی ہاؤس اسلام آباد میں گورنر انیکسی بھی ان سے چھین لی گئی تھی، جس کے بعد اسلام آباد احتجاج کے دوران کے پی ہاؤس پر پولیس نے چھاپے مارے اور وزیراعلیٰ کو وہاں سے خفیہ طور پر فرار ہونا پڑا۔ حکومت کو اپنی توانائیاں گورنر کے اختیارات چھیننے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر صوبے کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی پارٹی قیادت میں تبدیلی کے بعد وزیراعلیٰ کے اختیارات پر قدغن لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ مبینہ طور پر گڈ گورننس کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ صوبے میں تقرر و تبادلوں کا اختیار محکموں کے سیکرٹریز یا پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہونا چاہئے تاکہ محکموں اور اداروں میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند ہو۔ ایک جانب وزیراعلیٰ گورنر کے اختیارات چھین کر اپنی ذات میں منتقل کر رہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعلیٰ کے اختیارات پر بھی قدغن کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، یعنی تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے اختیارات کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہے۔
گزشتہ دو حکومتیں وفاق سے محاذ آرائی کے سوا کوئی کام نہ کر سکیں، جبکہ موجودہ حکومت گورنر کے اختیارات کم کرنے کے بعد اب وزیراعلیٰ کے پر کاٹنے پر توجہ مرکوز کر چکی ہے، جس کا صوبے کے باشندوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنا بلکہ حکومتی اور انتظامی امور متاثر ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ نئے آئی جی پولیس کی تعیناتی پر بھی عمران خان وزیراعلیٰ سے خوش نہیں۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی منظوری کے بعد پشاور ہائیکورٹ میں نو تعینات ایک خاتون سمیت 10 ایڈیشنل ججوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے، جس سے عدالت عالیہ میں ججز کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔ نئے تعینات ہونے والے ججز میں آٹھ وکلا جبکہ دو کیڈر ججز شامل ہیں۔ چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے تمام ججز سے حلف لیا۔ نو تعینات ججز میں دو ڈسٹرکٹ ججز فرح جمشید اور انعام اللہ شامل ہیں جو جج کیڈر سے ہیں۔ ان کے علاوہ جسٹس طارق آفریدی سول اور کریمنل امور، جسٹس جواد احسان سول کیسز، کارپوریٹ لاء اور آئینی امور، جسٹس مدثر امیر کارپوریٹ لاز کے علاوہ احتساب، جسٹس ثابت اللہ خان آئینی امور اور سول کیسز، جسٹس صلاح الدین سول و کریمنل کیسز، جسٹس عبد الفیاض کریمنل کیسز، جسٹس اورنگزیب کریمنل و سول کیسز جبکہ جسٹس صادق علی سول کیسز کے ماہر ہیں اور خیبر پختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں۔ نو تعینات ججز بطور وکیل مختلف محکموں کے لیگل ایڈوائزرز بھی رہ چکے ہیں۔
پشاور کا واحد بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یاد رہے اس سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا کام 2018ء میں محمود خان حکومت نے شروع کیا تھا جو تاحال مکمل نہ ہو سکا۔ گزشتہ ہفتے پی سی بی حکام نے سٹیڈیم کا دورہ کیا۔ وفد کو بتایا گیا کہ بقیہ کام چند ہفتوں میں مکمل کیا جائے گا جس کے بعد سٹیڈیم پی ایس ایل یا بین الاقوامی میچز کے لیے تیار ہوگا۔ خیبر پختونخوا پولیس نے پی ایس ایل میچز کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے جس سے امید کی جا رہی ہے کہ پی ایس ایل دسویں ایڈیشن کے کچھ میچز پشاور میں منعقد ہوں گے۔
صوبے کی بدقسمتی ہے کہ کرکٹ سے عروج پانے والی پارٹی کی تیسری حکومت ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے صوبے میں کسی بین الاقوامی میچ کا انعقاد نہ ہو سکا۔ 8 اپریل سے شروع ہونے والے پی ایس ایل 10th کے کم از کم دو میچز پشاور میں منعقد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، جس سے شائقین کرکٹ کے چہرے کھل اٹھے ہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔ یہاں بین الاقوامی میچوں کا انعقاد بھی پی سی بی کے زیر غور ہے جو خوش آئند امر ہے، مگر پی ایس ایل کے صرف دو میچز کم ہیں، پشاور کو میزبانی کا زیادہ موقع ملنا چاہئے۔
وصال محمد خان
ڈیرہ اسماعیل خان ریسلنگ ایسوسی ایشن کی نئی کابینہ کا انتخاب مکمل
آج 9 فروری 2025 بروز اتوار تاریخی و مرکزی ڈیرہ یوتھ ریسلنگ اکیڈمی حق نواز پارک میں علاقے کے تمام کلبز کے انچارج پہلوانوں نے اجلاس میں شرکت کی واضح رہے کہ KPK ریسلنگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کی ہدایت کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان ریسلنگ ایسوسی ایشن کی تشکیل نوکی گئی۔ کیونکہ سابقہ ریسلنگ ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری تقریبا 14 سال سے ان عہدوں پر براجمان تھے لیکن ان کی کارکردگی سے ان علاقوں کے ریسلنگ کلب نہ خوش تھے جس کی وجہ سے خیبر پختون خواہ ریسلنگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کے حکم پر نئی کابینہ کی متفقہ طور پر 16 ریسلنگ کلبز کے عہدے داران کی موجودگی اور رضامندی سے کر دی گئی ہے جس کے مطابق اگلے 4 سال کے لئے نئی کابینہ کے عہدے داران نام یہ ہیں۔ سرپرست اعلی ڈپٹی کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان، سرپرست زاہد محب اللہ خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، صدر محمد رضوان، سینیئر نائب صدر گوہر زمان اوورسیر، نائب صدر اول نواب قیوم نواز اعوان ،نائب صدر دوئم محمد عمار پہلوان، سیکرٹری جنرل محمد حماد پہلوان، جوائنٹ سیکرٹری محمد جمشید المعروف اچھی پہلوان، پریس سیکرٹری استاد عبدالغفور پہلوان گولڈ میڈلسٹ جبکہ ایگزیکٹو باڈی ممبران میں ربنواز پہلوان، جمعہ پہلوان، اسلم پہلوان، گلا پہلوان مقیم شاہ، ثنا اللہ پہلوان جاڑا پہاڑپور، رستم پہلوان، احمد حسین پہلوان یارک اور نزیر پہلوان بگوانی کے نام شامل ہیں۔
طلباء و طالبات میں مصنوعی ذہانت بارے آگاہی
خیبر پختونخوا حکومت کا طلبا ءو طالبات میں مصنوعی ذہانت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ محکمہ اعلی تعلیم خیبر پختونخوا نے آگاہی پلان مرتب کرنے کیلئے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دیدی۔ کمیٹی مصنوعی ذہانت کی نجی اور سرکاری جامعات اور کالجز میں آگاہی کیلئے آگاہی پلان مرتب کریگی۔ کمیٹی کے کنوینئر مشیر کوالٹی اشورنس سیل محکمہ اعلی تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن ہونگے۔ دنیا بھر میں بیشتر کام اب مصنوعی ذہانت کی مدد سے کئے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے طلباء و طالبات میں بھی مصنوعی ذہانت کی آگاہی لازمی ہے۔ کمیٹی ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی سفارشات اور آگاہی پلان جمع کردے گی۔ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آگاہی پلان پر عمل درآمد کی منصوبہ بندی کی جائیگی۔