19 فروری کو پاکستان کی میزبانی میں چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز ہو رہا ہے۔ ورلڈکپ 1996ء کے بعد شاید پاکستان میں منعقد ہونے والا یہ پہلا بڑا ٹورنامنٹ ہے جو یقیناً پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔ بدقسمتی سے ایک وقت ایسا تھا کہ کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان آ کر کھیلنے پر تیار نہیں تھی، مگر خدا کا شکر ہے کہ اب یہاں آئی سی سی کا ایک بڑا ٹورنامنٹ منعقد ہو رہا ہے، جس سے یقیناً پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر ہوگا اور شائقین کرکٹ کو بہترین کھیل کی صورت میں صحت مند تفریح میسر آئے گی۔ اس ٹورنامنٹ کو ملتوی یا منتقل کروانے کے لیے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اس کی مذموم تحریک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
![gaddafi stadium 2025](https://voiceofkp.org/wp-content/uploads/2025/02/396229.6-1.webp)
جہاں تک ٹورنامنٹ میں ٹیموں کی کارکردگی کا معاملہ ہے تو کرکٹ کے کسی بھی فارمیٹ کے لیے یہ پیش گوئی مشکل ہو جاتی ہے کہ اس کا فاتح کون ہوگا؟ مگر ٹیموں کے کمبی نیشن اور سابقہ کارکردگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ کون سی ٹیم اعلیٰ کارکردگی کی حامل ہے اور کس ٹیم کے کون سے شعبے ایسے ہیں جن پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم چونکہ تین ملکی ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ سے شکست کھا چکی ہے اور اس میچ سے ٹیم آفیشلز کو کھلاڑیوں کی کمزوریوں کا علم ہو چکا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ٹیم پاکستان کی کارکردگی آئندہ میچوں میں عمدہ ہوگی اور شائقین کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ٹیم کی فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ اگرچہ ورلڈکلاس اور بہترین ہے مگر حسب سابق بیٹنگ میں ان گنت خامیاں اور کمزوریاں سامنے نظر آ رہی ہیں۔
![gaddafi stadium 2025](https://voiceofkp.org/wp-content/uploads/2025/02/Express-Tribune-News-Desk-9173.webp)
قذافی اسٹیڈیم، جو پاکستان ٹیم کا ہوم گراؤنڈ ہے، ہمیشہ سے بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتا ہے، اس بار بھی پچ سے یہی توقع کی جا رہی ہے اور یہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان میچ سے واضح بھی ہو چکا ہے۔ نیوزی لینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے بڑے آرام سے 330 کا ٹوٹل اسکور بورڈ پر سجا دیا۔ پاکستانی باؤلنگ کا جائزہ لیا جائے تو اگرچہ ٹیم کے پاس ورلڈکلاس فاسٹ باؤلرز موجود ہیں مگر یہ باؤلرز آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کی وکٹوں پر آؤٹ سٹینڈنگ کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اس قسم کی ڈیڈ پچوں پر ان سے اعلیٰ معیار کی کارکردگی کی توقع عبث ہوگی۔
نیوزی لینڈ کی جانب سے اس باؤلنگ کے خلاف 330 کا ٹوٹل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فاسٹ باؤلنگ چیمپئنز ٹرافی میں زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ بہتر ہوتا اگر ہمارے کرتا دھرتا اسپن باؤلنگ کو مضبوط کرنے پر توجہ دیتے اور ٹیم میں کم از کم دو ریگولر اسپن باؤلرز شامل کیے جاتے تو یقیناً نتائج مختلف ہو سکتے تھے کیونکہ گورے بیٹرز کو اسپن کے جال میں آسانی سے پھنسایا جا سکتا ہے۔ مگر ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ناکامی نے شاید پاکستانی آفیشلز کو مایوس کیا، اس لیے انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کے لیے اسپن اٹیک کو مضبوط کرنے کی بجائے فاسٹ اٹیک کو مستحکم کرنے پر زور دیا، جس کا ایک نتیجہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں سامنے آ چکا ہے جہاں کیوی بیٹرز نے پاکستانی فاسٹ باؤلرز کو خاطر میں لائے بغیر کھل کر شاٹس کھیلیں اور ایک بڑا ٹوٹل اسکور بورڈ پر سجانے میں کامیابی حاصل کی۔
فاسٹ باؤلنگ کی بجائے اسپن اٹیک مستحکم ہوتا تو کیویز اس طرح کھل کر کھیلنے کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوتے اور اتنا بڑا ٹوٹل بھی نہ بنتا۔ فاسٹ باؤلرز تو ان وکٹوں پر زور لگاتے ہیں مگر نہ ہی انہیں وکٹ ملتی ہے اور نہ ہی وہ رنز روک پاتے ہیں۔
پاکستانی بیٹنگ لائن بھی مسائل کا شکار ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے میچ میں فخر زمان کے سوا کوئی کھلاڑی آؤٹ سٹینڈنگ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ جو ٹیم منتخب کی گئی تھی اس میں بابر اعظم، رضوان اور فخر زمان کے سوا ایسا کوئی بیٹسمین نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے اور جس سے میچ وننگ کارکردگی کی توقع کی جا سکے۔ بابر اعظم اور رضوان کے جلد آؤٹ ہونے پر طیب طاہر اور سلمان علی آغا سے توقعات وابستہ کی گئیں، جس پر وہ پورا نہ اتر سکے۔
نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ اور برطانیہ کی ٹیمیں کوالٹی کرکٹ کھیلتی ہیں، انہیں برصغیر میں ہمیشہ اسپن کے جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ بھارت نے بھی ان ٹیموں کے خلاف ہمیشہ اسپن اٹیک کا استعمال کرکے اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ گورے کھلاڑی اسپن باؤلنگ کے سامنے بجھے بجھے نظر آتے ہیں مگر ان وکٹوں پر اگر ان کے سامنے فاسٹ باؤلرز ہوں تو ان کی کارکردگی نکھر جاتی ہے۔
پاکستان کی اوپننگ بھی کوئی خاص تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی۔ بابر اعظم سے اوپننگ کروائی گئی مگر وہ ناکامی سے دوچار ہوئے، اسی طرح رضوان بھی جلد آؤٹ ہوئے۔ صائم ایوب ایک اچھا اوپنر ملا ہے مگر بدقسمتی سے وہ ان فٹ ہو کر چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہو گئے۔ اگر وہ ٹیم کا حصہ ہوتے تو اوپننگ کا مسئلہ خاصی حد تک حل ہو چکا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں اچھا کمبی نیشن بننا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
اوپر سے گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی ٹیم تسلسل سے ون ڈے کی نسبت ٹیسٹ کرکٹ زیادہ کھیلتی آ رہی ہے، جس سے ون ڈے کا ٹیمپرامنٹ نہ بن سکا۔ حالیہ کارکردگی کے پیش نظر پاکستان ٹیم سے زیادہ بہتر کارکردگی کی توقع نہیں کی جا رہی کیونکہ ٹیم کے تینوں شعبوں، باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ میں ان گنت مسائل ہیں۔
سلیکشن کمیٹی کی جانب سے منتخب کی گئی ٹیم میں گہرائی نظر نہیں آ رہی۔ طویل عرصے سے ٹیم اوپننگ مسائل کا شکار چلی آ رہی ہے مگر ہماری سلیکشن کمیٹیاں ہمیشہ اسی عطّار کے لونڈے سے دوا لینے چلی جاتی ہیں جس کی دوائی سے بیماری پیدا ہوئی ہے۔ نہ ہی نئے ٹیلنٹ کی تلاش پر کام ہوا اور نہ ہی اسپن اٹیک کو مضبوط کرنے پر توجہ دی گئی۔
بہرحال ون ڈے کرکٹ میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بگڑا، اگر ٹیم میں اسپن اٹیک مضبوط ہو اور اوپننگ کے لیے تیز بیٹرز شامل کیے جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ ٹیم بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔
وصال محمد خان