محکمہ سیاحت کے زیراہتمام ارتقاء مقابلے و نمائش اختتام پذیر

خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی اور غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ارتقاء مقابلے و نمائش اختتام پذیر

جی آئی کے انسٹیٹیوٹ صوابی میں منعقدہ تین روزہ نمائش میں 260 سے زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے۔ نمائش میں 7 مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ فیشن شو، آرٹ، تھیٹر ڈرامہ، مکس میڈیا، ڈیجیٹل آرٹ، اسٹل لائف پینٹنگ، فیشن شو اور جدید فیشن ڈیزائنگ کیٹیگری میں حصہ لے رہے ہیں۔ تین روزہ فیشن و آرٹ شو نقش آرٹ سوسائٹی جی آئی کے انسٹیٹیوٹ کے زیرانتظام منعقد ہوا ہے۔ ارتقاء فیش شو میں طلبہ نے مختلف ڈیزائن کے ملبوسات زیب تن کرکے کیٹ واک کی۔ نمائش کے آخر میں بہترین کارکردگی کرنے والے طلباء و طالبات میں اعزازی شیلڈ اور سرٹیفیکیٹ تقسیم کئے گئے۔

Khyber Pakhtunkhwa

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا وزیراعظم اور صدر کو خط

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کو خط

گورنر کی وزیر اعظم کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام تبدیل کرکے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسلام آباد رکھنے کی درخواست کی۔ 21 جون 2008 کو اُس وقت کے وزیرِاعظم پاکستان نے قومی اسمبلی میں نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم کا یہ اقدام ملک و قوم کیخاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے پر محترمہ بینظیر بھٹو کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔

9 اگست 2008 کو اس وقت کے وزیراعظم کے اعلان پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کیجانب سے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کا نام تبدیل کر کے ینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھنے کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی قومی ہیروز کے نام پر ائیر پورٹ موجود ہیں۔ اسلام ائیر پورٹ کا نام بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھنا شہید محترمہ کی سیاسی، جمہوری و عوامی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیساتھ عوامی مفاد کا اقدام تھا۔

عوام کے شدید مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ متعلقہ حکام کو اس حوالے سے ضروری ہدایات جاری کی جائیں۔ آپکا یہ اقدام ملکی ترقی و خوشحالی اور عوامی و جمہوری جدوجہد کیلئے شہید بینظیر بھٹو کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ثابت ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس پر مثبت ردعمل دیں گے۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی

چیمپیئنزٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی

پاکستان کرکٹ ٹیم چیمپیئنزٹرافی میں مسلسل دوسرامیچ بھی ہارچکی ہے۔ اس سے قبل کراچی میں کھیلے گئے ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو باآسانی شکست دی تھی۔ بدقسمتی سے اس میچ میں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم نے محض 242 رنز اسکور کئے تھے جبکہ دوسرے میچ میں بھارت کے خلاف دبئی کے مقام پر کھیلے گئے میچ میں بھی 241 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ مسلسل دو میچوں میں 240 رنز اسکور کرنے کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ٹیم 50 اوورز کے کھیل میں اتنے ہی رنز بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ حالانکہ جدید کرکٹ میں اس فارمیٹ کے کھیل میں 240 رنز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اب تو ٹیمیں ساڑھے تین سو رنز بناتی ہیں بلکہ اسی ماہ دو میچز میں 350 رنز بھی محفوظ ٹوٹل نہیں رہا۔

تین ملکی ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کے خلاف ساڑھے تین سو رنز اسکور کئے جسے پاکستان جیسی ٹیم کے لیے مشکل ہدف تصور کیا جا رہا تھا مگر پاکستانی ٹیم نے محمد رضوان اور سلمان آغا کی عمدہ بلے بازی کے سبب یہ ہدف باآسانی عبور کیا۔ اسی طرح لاہور میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان چیمپیئنزٹرافی کے میچ میں برطانیہ نے آسٹریلیا کو 352 رنز کا ہدف دیا جسے آسٹریلیا نے باآسانی حاصل کر لیا۔ جس سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ون ڈے کرکٹ میں ساڑھے تین سو رنز بھی محفوظ اسکور نہیں رہا۔ پاکستانی ٹیم ابھی تک 90 کی دہائی والی کرکٹ کھیل رہی ہے جب دو سو رنز محفوظ اسکور تصور ہوتا تھا۔ اب تو ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں اڑھائی سو رنز اسکور ہوتے ہیں جبکہ ون ڈے میں بسا اوقات 400 تک رنز بن جاتے ہیں۔

چیمپیئنزٹرافی میں ٹیم نے جو کارکردگی دکھانی تھی وہ دکھا چکی ہے، اب مستقبل کے لیے نئی صف بندی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ٹیم تینوں فارمیٹس میں اکثر و بیشتر بیٹنگ کی خراب کارکردگی کے سبب میچ ہار جاتی ہے۔ اگرچہ چیمپیئنزٹرافی میں تینوں شعبے شکست کے ذمہ دار ہیں کیونکہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے خلاف نہ بیٹنگ چل سکی، نہ باؤلنگ نے کوئی کمال دکھایا اور نہ ہی فیلڈنگ نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ بھارت کے خلاف شکست میں تین ڈراپ کیچز کی کارفرمائی بھی شامل حال رہی۔

اس ٹورنامنٹ میں اگرچہ فاسٹ باؤلنگ سے آؤٹ اسٹینڈنگ کارکردگی کی توقع نہیں تھی کیونکہ یہاں کے بیشتر پچز بیٹنگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔ تیز باؤلرز بیچارے زور لگا لگا کر تھک جاتے ہیں مگر وکٹ ہاتھ نہیں آتی جبکہ بیٹرز بڑے بڑے شاٹس کھیل کر رنز کے انبار لگا دیتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی باؤلرز کو خراب کارکردگی پر زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا مگر بیٹرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور انگشت نمائی قدرتی امر ہے کیونکہ یہ ان کے اپنے پچز ہیں۔ یہ کھلاڑی انہی پچز پر پی ایس ایل سمیت ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلتے رہتے ہیں، انہیں تو پچز کا مزاج سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے نامور اور نمایاں کھلاڑی اپنی وکٹیں سنبھال نہیں پا رہے۔

بابر اعظم تجربہ کار بیٹسمین ہیں مگر حالیہ ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی خلاف توقع خراب رہی۔ شائقین کرکٹ اور ان کے پرستاروں کو امید تھی کہ ان آسان پچز پر وہ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے نت نئے ریکارڈز قائم کریں گے۔ دنیا کے تمام بڑے بیٹسمین ہوم گراؤنڈز پر ہی ریکارڈز قائم کرتے ہیں، بیرون ملک بہترین کارکردگی کبھی کبھار سامنے آتی ہے مگر بابر اعظم جیسے کھلاڑی نے یا تو دل سے رنز بنانے کی کوشش نہیں کی یا پھر انہیں یقین ہے کہ وہ ٹیم کے مستقل رکن ہیں اس لیے کسی کارکردگی کی ضرورت نہیں۔ رضوان اور فخر زمان بھی توقع کے مطابق رنز نہ بنا سکے۔

دیگر کھلاڑیوں میں سعود شکیل، امام الحق اور سلمان آغا اچھا خاصا تجربہ رکھنے کے باوجود اعتماد پر پورا نہ اترنے میں ناکام رہے۔ طیب طاہر کو بار بار مواقع دیے گئے مگر یا تو وہ ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ اسٹاف پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے طیب طاہر کی خامیوں پر کیا کام کیا؟ ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوئی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ یا جو کھلاڑی اپنی خامیوں پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے انہیں اتنے اہم ٹورنامنٹ میں کیوں کر مسلسل مواقع دیے گئے؟ اسی طرح سلمان آغا، امام الحق اور خوشدل شاہ بھی دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

فیلڈنگ کا معیار بھی انتہائی ناقص رہا۔ جدید کرکٹ میں “کیچز جتوائے، میچز جتوائے” کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔ دیگر ٹیموں کے کھلاڑی کیچ کے آدھے مواقع کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے جبکہ ہمارے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں آئی ہوئی گیندیں چھوٹ جاتی ہیں۔ سست اور ناقص فیلڈنگ کے سبب چالیس پچاس رنز اضافی بن جاتے ہیں اور کسی ہارڈ ہٹر کو چانس ملنے پر وہ باؤلرز کی بھرکس نکال دیتا ہے۔

مجموعی طور پر جاری بڑے اور اہم ٹورنامنٹ میں تینوں شعبے ناکام رہے۔ اس بری کارکردگی پر تبصروں کا سلسلہ تادیر جاری رہے گا مگر کوچنگ اسٹاف کی کارکردگی پر بھی سوال تو بنتے ہیں۔ سابق عظیم کھلاڑی ٹی وی اسکرینوں پر تبصروں کے دوران ارسطو اور افلاطون بنے رہتے ہیں مگر جب انہیں کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو نہ صرف چپ لگ جاتی ہے بلکہ ٹیم کی کارکردگی روبہ زوال اور تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔

لوکل کوچز کی بدترین کارکردگی کے پیش نظر غیر ملکی کوچ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ ملکی کوچز میں ٹیم کی کارکردگی نکھارنے کی صلاحیت موجود نہیں، یہ تجربات بارہا ہو چکے ہیں۔ پاکستانی ٹیم نے بسا اوقات غیر ملکی کوچز کی نگرانی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس لیے ٹیم کے لیے مستقل غیر ملکی کوچ کا بندوبست ہونا چاہیے جسے سال دو سال نہیں کم از کم پانچ سال کے لیے تعینات کیا جائے۔ اس طرح نئے بیٹسمین اور باؤلرز بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

سینئر کھلاڑی اسٹارز بن چکے ہیں، ان کی توجہ کھیل سے زیادہ اشتہارات پر ہے۔ حالیہ کارکردگی سے شائقین کرکٹ کے دل ٹوٹ چکے ہیں اور وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ دیکھتے ہیں بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ٹیم کیا گل کھلاتی ہے۔

وصال محمد خان

Monkey Pox Virus

خیبر پختونخوا میں منکی پاکس (M-Pox) کا پہلا مقامی کیس رپورٹ

خیبر پختونخوا میں منکی پاکس (M-Pox) کا پہلا مقامی کیس رپورٹ، مشیر صحت احتشام علی کی تصدیق

مشیر صحت خیبر پختونخوا احتشام علی نے صوبے میں منکی پاکس (M-Pox) کے ایک اور کیس کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کے مطابق یہ خیبر پختونخوا میں پہلا مقامی منتقلی (کمیونٹی ٹرانسمیشن) کا کیس ہے، اس سے قبل جتنے بھی کیس رپورٹ ہوئے تھے وہ بیرون ملک سفر سے واپسی پر سامنے آئے تھے۔

مشیر صحت نے مزید بتایا کہ متاثرہ خاتون کے شوہر حال ہی میں ایک خلیجی ملک سے وطن واپس آئے تھے، جن میں ابتدائی طور پر کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، تاہم بعد ازاں ان میں بھی منکی پاکس کی تصدیق ہو گئی تھی۔
ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر فضل مجید کے مطابق مریضہ کو 18 فروری 2025 کو بخار اور جسم میں درد کی شکایت پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ 19 فروری کو ان کے جسم اور منہ میں دانے (رَش) نمودار ہوئے، جس پر پبلک ہیلتھ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد عامر خان نے کیس رپورٹ کیا۔ 20 فروری کو تحقیقاتی ٹیم نے مریضہ کے نمونے حاصل کر کے خیبر میڈیکل یونیورسٹی، پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری، پشاور بھجوائے، جہاں 21 فروری کو منکی پاکس کی تصدیق ہوئی۔

ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ نے مریضہ کے شوہر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی وطن واپسی کے وقت کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں، تاہم 5 فروری کو انھیں بخار اور جسم میں درد محسوس ہوا، اور 6 فروری کو ان کے جسم اور منہ میں دانے نمودار ہو گئے۔ تاہم، انہوں نے طبی سہولیات حاصل کرنے کے بجائے 10 سے 15 دن تک گھر پر ہی قیام کیا۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبر پختونخوا کی ہدایت پر پبلک ہیلتھ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر محمد عامر خان اور ڈاکٹر فوزیہ آفریدی کی سربراہی میں ریپڈ رسپانس ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے 22 فروری 2025 کو مریضہ کی طبی ہسٹری حاصل کی۔ متاثرہ خاندان اور ان کے قریبی افراد کی اسکریننگ کی گئی، اور مریضہ کے شوہر سمیت تمام قریبی افراد کو گھریلو آئسولیشن کی ہدایت دی گئی ہے۔

ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر فضل مجید نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ منکی پاکس کی علامات سے آگاہ رہیں اور کسی بھی مشتبہ علامت کی صورت میں فوری طور پر قریبی مرکز صحت سے رجوع کریں۔

rainy-day

خیبرپختونخوا میں منگل کے روز سے بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان

صوبہ خیبرپختونخوا کے بالائی اضلاع میں منگل کے روز سے گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برفباری کا امکان ہے۔ بارشوں و برفباری کا یہ سلسلہ 25 فروری سے 02 مارچ تک جاری رہنے کی پیشگوئی ہے۔
اس دوران چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مالاکنڈ، بونیر، باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، وزیرستان، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، بنوں، کرک اور کوہاٹ میں گرج چمک کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش/ پہاڑوں پر برفباری کا بھی امکان ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے تمام ضلعی انتظامیہ کو بارش/برفباری کے باعث کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے پیشگی نمٹنے کے لیے مراسلہ جاری کیا گیا۔

کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے پیشگی نمٹنے کے لئے ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی بڑی مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی۔ بارشوں کے دوران عوام بجلی کی تاروں، بوسیدہ عمارتوں و تعمیرات، سایئن بورڈز اور بل بورڈز سے دور رہے۔ کسان حضرات موسمیاتی پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معمولات ترتیب دیں۔ ۔حساس بالائی علاقوں میں سیاحوں اور مقامی آبادی کو موسمی حالات سے باخبر رہنے کے لیے احتیاتی تدابیر اپنانے کی ہدایت کی گئی۔ ۔حساس اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کو مقامی آبادی تک پیغامات مقامی زبانوں میں پہنچائے جائیں۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں تمام متعلقہ ادارے روڈ لنکس کی بحالی میں چوکس رہیں اور سڑک کی بندش کی صورت میں ٹریفک کے لئے متبادل راستے فراہم کئے جائیں۔

سیاح موسمی صورتحال اور سڑکوں کی بندش کے پیش نظر سیاحتی مقامات کا رخ کرنے سے پہلے پی ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔ پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سنٹر مکمل طور پر فعال ہے عوام کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی اطلاع پی ڈی ایم اے کی فری ہیلپ لاءین 1700 پر دیں۔

ڈی آئی خان ، کرک اور کرم میں فورسز کی کارروائیاں

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں اور گزشتہ تین دنوں کے دوران 13 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 50 سے زائد شرپسندوں کو گرفتار کرلیا گیا جن میں کرم سے تعلق رکھنے والا ایک اہم کمانڈر بھی شامل ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق فورسز نے اتوار کے روز ڈیرہ اسماعیل خان کے دو مختلف علاقوں میں انٹلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جس کے نتیجے میں 7 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ اس سے ایک روز قبل کرک میں بھی ایک آپریشن کیا گیا جس میں متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

دوسری جانب شورش زدہ علاقے کرم میں بھی فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ تین چار شورش زدہ علاقوں میں فورسز ، پولیس ، ایف سی اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد شرپسندوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ چند دنوں کے دوران کرم میں تقریباً 50 شرپسند عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں ایک مقامی کمانڈر بھی شامل ہیں۔ اسی طرح مورچوں ( بنکرز) کی مسماری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

جن علاقوں میں کارروائیاں جاری ہیں ان میں بگن ، ڈڈکمر ، اوچت اور مندوری شامل ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ روز پشاور میں چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں متعلقہ اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں جاری کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ریاستی اقدامات پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اور متعدد فیصلے کئے گئے۔ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق سیکرٹری داخلہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ دہشتگردی اور شرپسندی پر قابو پانے کے لئے دیگر اقدامات کے علاوہ انٹلیجنس اداروں کی فعالیت اور کوارڈینیشن بہت ضروری ہے۔ اسی طرح متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی بہت لازمی ہے تاکہ جوائنٹ افرٹس کے ذریعے بدامنی پر قابو پایا جاسکے۔ ان کے بقول افغانستان کی عبوری حکومت یا ٹی ٹی پی وغیرہ کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کا انعقاد صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اگر صوبائی حکومت اس طرح کی کوئی کوشش کر رہی ہے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ ان کے بقول ماضی میں بھی اس طرح کے مذاکرات وغیرہ ہوتے رہے ہیں مگر ان تمام کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور انتہا پسند گروپوں کی قوتوں میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوا اس لیے ماضی کے ان تجربات کو سامنے رکھ کر اقدامات کیے جائیں۔
عقیل یوسفزئی