WhatsApp Image 2025-03-12 at 14.38.19_97e26ed6

سنٹرل جیل پشاور میں خواتین قیدیوں کو حصول انصاف تک رسائی و آگاہی پروگرام کا انعقاد

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے یو این وومن پاکستان کی جانب سے سنٹرل جیل پشاور میں خواتین قیدیوں کو حصول انصاف تک رسائی اور انکے لیے کئے گئے اصلاحات کے حوالے سے آگاہی پروگرام کا انعقاد کیا گیا. پروگرام کی مہمان خصوصی ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ثریا بی بی تھی. انکے علاوہ شہلا بانو ایم پی اے, عائشہ بانوسابقہ ایم پی اے, یو این وومن کے نمایندے, عثمان محسود آئی جی جیل خانہ جات, پشاور ہائی کورٹ کے وکلاء, نغمانہ ایڈیشنل سیکرٹری ھوم, اراکین نگران کمیٹی برائے جیل و انسانی حقوق اور خواتین قیدیوں نے شرکت کی. شرکاء و مقررین نے جیل میں خواتین قیدیوں کے حوالے سے اصلاحات, انکو حصول انصاف تک آسان رسائی و دیگر اصلاحی اقدامات پر روشنی ڈالی. ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ثریا بی بی نے اختتامی کلمات میں خواتین قیدیوں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور اصلاحات کو قابل ستائش قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس طرح کے اقدامات و اصلاحات صوبے کے تمام جیلوں میں اٹھائے جاییں تو انشاء اللہ ہماری جیلیں مثال قائم کرینگی جہاں قیدیوں کو اس طرح کا ماحول فراہم کیا جائے کہ کل کو وہ آزاد ہو تو زندگی کو مثبت اور مفید انداز سے گذار سکیں. بعد ازاں انہوں نے جیل میں قید خواتین و بچوں سے ملاقات کی, ان میں تحائف بانٹے اور جیل سٹاف و خواتین قیدیوں کے ساتھ روزہ افطار کیا.

وزیر اعلی ہاوس میں نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان مشاورتی سیمنار کا انعقاد

وزیر اعلی ہاوس میں نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان مشاورتی سیمنار کا انعقاد

وزیر اعلیٰ ہاؤس میں نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان 29-2025 “اڑان پاکستان” کے مشاورتی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، صوبائی کابینہ اراکین، پارلیمنٹیرینز، اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ “اڑان پاکستان” ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ایکسپورٹس، ایکویٹی، ای پاکستان، انرجی و انفراسٹرکچر، اور انوائرمنٹ و کلائمیٹ چینج جیسے پانچ اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے خطاب میں کہا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود خیبر پختونخوا حکومت ملک کی معاشی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور مالی نظم و ضبط، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کی استعداد، اور سماجی مساوات کے ذریعے پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 169 ارب روپے کے بجٹ سرپلس، 70 ارب روپے کے ڈیٹ مینجمنٹ فنڈ، اور صنعتی زونز کے لیے 15 ارب روپے کی نجی سرمایہ کاری کے حصول کا ذکر کیا۔ انصاف روزگار اسکیم کے تحت 20 کروڑ روپے کے قرضے جاری کیے گئے، جس سے ایک لاکھ 37 ہزار افراد کو روزگار ملا، جبکہ خواتین کی قیادت میں چلنے والے 50 ہزار کاروباروں کو بلاسود قرضے فراہم کیے گئے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور اور مردان میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس قائم کیے، معدنیات کی نیلامی سے 5 ارب روپے کی آمدنی حاصل کی، اور 81 ہزار نوجوانوں کو ڈیجیٹل و تکنیکی تربیت فراہم کی۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات کے تحت پانچ لاکھ طلبہ کو تعلیم کارڈ فراہم کیا گیا، صحت کارڈ پلس کے تحت ایک کروڑ خاندانوں کو 30.4 ارب روپے کی مفت طبی سہولیات دی گئیں، اور دو لاکھ سے زائد گھروں کی تعمیر میں حکومتی مدد فراہم کی گئی۔ ای گورننس کے فروغ کے لیے پامیر ڈیجیٹل پیمنٹ گیٹ وے، ای-ڈومیسائل سسٹم، اور ڈیجیٹل ٹیکس کولیکشن سسٹم متعارف کرایا گیا۔ توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کرتے ہوئے ڈھائی لاکھ گھروں، ایک ہزار اسکولوں، اور چار ہزار مساجد کو سولر سسٹم فراہم کیا گیا، جبکہ مزید آٹھ ہزار اسکولوں اور آٹھ ہزار مساجد کی سولرائزیشن کا منصوبہ ہے۔ خیبر پختونخوا فارسٹیشن پروگرام کے تحت جنگلات کے رقبے میں 12 فیصد اضافہ کیا گیا، جبکہ 25 ارب روپے کی لاگت سے فوڈ سیکیورٹی سپورٹ پراجیکٹس پر عمل درآمد کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے وفاقی حکومت سے خیبر پختونخوا کو اس کے آئینی حقوق دینے، پی ایس ڈی پی میں فنڈز کی مناسب تقسیم، اور ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے بقیہ فنڈز فوری جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے چشمہ رائٹ بینک کینال منصوبے کے لیے مناسب فنڈنگ نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنے وسائل سے 60 ارب روپے فراہم کرے گی، جبکہ وفاقی حکومت نے 17.5 ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر صرف 2.5 ارب روپے رکھے گئے، جو تاحال جاری نہیں کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا “اڑان پاکستان” کے ترقیاتی ایجنڈے کی مکمل حمایت کرتا ہے، لیکن صوبے کے ساتھ مساوی سرمایہ کاری اور فنڈنگ یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔

KMU and PIC decide to collaborate in the health sector

کے ایم یو اور پی آئی سی کے درمیان صحت کے شعبے میں اشتراک کا فیصلہ

کے ایم یو جنرل ہسپتال اور پشاورانسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے درمیان صحت کے شعبے میں اشتراک کا فیصلہ
خیبرمیڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) جنرل ہسپتال اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پشاور نے صحت کے شعبے میں ایک اہم پیشرفت کے تحت اپنے ڈیٹا سسٹمز کو ہیلتھ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم (HIMS) کے ذریعے منسلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد مریضوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنا اور دونوں سرکاری اداروں کے درمیان خدمات کے تبادلے کو بہتر بنانا ہے۔ وائس چانسلر کے ایم یوپروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے اس اشتراک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں اداروں کے درمیان تعاون نہ صرف ان کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ مریضوں کو معیاری طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ کے ایم یو تعلیمی اور تحقیقی میدان میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے اور اب کلینیکل خدمات کو بھی شامل کرکے تحقیق اور علاج کو یکجا کرنے کی طرف ایک اہم قدم اٹھا رہا ہے۔

کے ایم یو جنرل ہسپتال میں ذیابیطس، آنکولوجی ،گیسٹرو انٹالوجی اور بحالی کے شعبوں میں خصوصی خدمات انجام دے گا اور مستقبل میں کے ایم یو جنرل اسپتال کو اس خطے کاایک اعلیٰ معیار کا طبی مرکز بنانے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے مزید کہا کہ PIC اور کے ایم یو جنرل اسپتال مشترکہ طور پر ایک کامیاب ہیلتھ کیئر ماڈل تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس اشتراک کے مالی ماڈل کو PIC کے کامیاب نظام سے رہنمائی حاصل ہوگی ۔PIC کی سول ورک،تکنیکی ،کلینیکل،مالیاتی ،ایچ آر اورڈائیگناسٹک مہارتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئےکے ایم یو اسپتال اپنی خدمات کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے۔

مذید یہ کہ دونوں اداروں کے درمیان علم، مہارت،تحقیق اور وسائل کے تبادلے سے مریضوں کے علاج میں نمایاں بہتری آئے گی۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اگلے مرحلے میں کے ایم یو کے نو دور دراز کیمپسز کو بھی کے ایم یو جنرل اسپتال کے ساتھ منسلک کیا جائے گاجس سے صوبے کے دوردراز علاقوں تک بھی کے ایم یو جنرل ہسپتال کی طبی خدمات ان کی دہلیزپر دستیاب ہو سکیں گی ۔ اس موقع پر ڈین پی آئی سی ڈاکٹر شہکاراحمد نے پی آئی سی اور کے ایم یو جنرل ہسپتال کے اشتراک کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے دروازے ہر قسم کے تعاون اور راہنمائی کے لیے کھلے ہیں۔ اگر کے ایم یو جنرل ہسپتال کو ایک جدید سٹیٹ آف دی آرٹ ٹرشی کیئر ہسپتال بنانے کے لیئے قلیل، وسط اور طویل المدتی حکمت عملی تشکیل دی جائے تو کے ایم یو جنرل ہسپتال اور پی آئی سی اپنے مشترکہ مقاصد کو مؤثر طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد نے تجویز دی کہ کے ایم یو جنرل اسپتال اور PIC کے باہمی اشتراک سے ایک ماڈل میڈیکل کالج کے قیام کے بھی وسیع امکانات موجود ہیں جس کے لیئے دونوں ادارے مل کر 500 بستروں پر مشتمل جدید تدریسی اسپتال کی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر فیصلہ کیاگیاکہ اس اشتراک کو مؤثر بنانے کے لیے تین مشترکہ ورکنگ گروپس تشکیل دیے جائیں گے جو سول ورک ، مالیات اور کلینیکل وڈائیگناسٹک سروسز پر کام کرتے ہوئے قابل عمل سفارشات مرتب کریں گے جن کی روشنی میں بعد ازاں دونوں ادارے مل کر ایک مشترکہ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کریں گے جب کہ اس امر کی منظوری دونوں اداروں کے مجاز اداروں کے ایم یو سینڈیکیٹ اور پی آئی سی کے بورڈ آف گورنرز سے لی جائے گی۔آخر میں توقع ظاہر کی گئی کہ یہ اشتراک عمل صحت کے شعبے میں ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا جو مریضوں کو اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور کے ایم یو اور PIC کی مشترکہ مہارت سے استفادہ کرتے ہوئے صحت عامہ میں نمایاں بہتری کو یقینی بنائے گا۔قبل ازیں یونیورسٹی پہنچنے پر پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد کی سربراہی میں پی آئی سی وفد کا وی سی پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ استقبال کیا اور کے ایم یو جنرل ہسپتال کے مختلف شعبوں کا تفصیلی دورہ کیااور ہسپتال میں فراہم کی جانے والی مجوزہ سہولیات پراطمینان کااظہار کیا۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک اور بڑی کارروائی

خیبرپختونخوا اور بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے بعض سیاسی حلقے ریاست دشمنی کی آڑ میں ان دہشت گرد گروپوں کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے باعث دہشت گردوں کو حوصلہ ملتا ہے اور فورسز کی حوصلہ شکنی کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے ۔
گزشتہ روز کویٹہ سے پشاور انیوالی جعفر ایکسپریس کو کالعدم بی ایل اے کے درجنوں حملہ آوروں نے نہ صرف یہ کہ اڑانے کی کوشش کی بلکہ سینکڑوں مسافروں کو ڈھال بناکر یرغمال بھی بنایا ۔ سیکورٹی فورسز نے اس نازک صورتحال کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے لمبا ترین اور خطرناک آپریشن لانچ کیا جس کے نتیجے میں کئی گھنٹوں کی کارروائیوں کے بعد دو درجن سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا اور تادم تحریر مزید اقدامات جاری ہیں ۔ 150 مسافروں کو رہائی دلائی گئی جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی طرح پاکستان تحریک انصاف اور دیگر ریاست مخالف حلقوں نے اس نازک صورتحال پر بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے اس کھلی دہشتگردی کو ریاست مخالف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرنے کی روش اپنائی جس کے باعث کنفیوژن پھیلانے کا راستہ ہموار کیا گیا اور معاملے کی حساسیت کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذمت یا واضح مخالفت کی بجائے اس واقعے کو سیکورٹی فورسز کی ناکامی کا نام دیا گیا حالانکہ خیبرپختونخوا کو جس بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اس کی روک تھام میں اس پارٹی کی صوبائی حکومت مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوتی آرہی ہے اور عوام کو سخت تشویش لاحق ہے ۔ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی کوششوں میں یہ پارٹی کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آتی ہے اور اس تمام صورتحال کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت دہشت گرد گروپوں کو سیاسی سرپرستی فراہم کرتی آرہی ہے جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ناقابل برداشت جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔
جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حالیہ حملے میں سب سے زیادہ جو مسافر متاثر ہوئے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے کیونکہ اس ریل گاڑی نے پشاور آنا تھا ۔ اس سے قبل نومبر 2024 میں بھی اس گاڑی کے سواریوں کو گاڑی کی روانگی سے قبل کویٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں درجنوں افراد شہید ہوگئے تھے ۔ بی ایل اے نہ صرف یہ کہ فورسز کو نشانہ بناتی آرہی ہے بلکہ عوام کو بھی مسلسل کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے جو کہ ایک تشویش ناک اور قابل مذمت عمل ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے ” شوق” میں عوام کو نشانہ بنانے والے گروپوں کی سرپرستی اور وکالت چھوڑ کر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال پر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر آکر معاملات کی سنگینی اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور منفی رویوں اور پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے ۔
عقیل یوسفزئی