وصال محمد خان
بدقسمتی سے افغانستان میں طالبان کی دوبارہ برسراقتدار آنے پر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جو ملک وقوم کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ پولیس، فوج، سیکیورٹی اداروں، بازاروں، مساجد، مدرسوں، سکولوں اور مسافر گاڑیوں پر حملے معمول بن چکے تھے مگر اب علماء پر حملوں کے ایک نئے اور نارو ا سلسلے نے جنم لیا ہے۔
مولانا سمیع الحق کے فرزند مولانا حامدالحق کو ان کے مدرسے میں نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی کئی مقامات پر علماء کو ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا مگر پشاور میں ممتاز عالم دین مفتی منیر شاکر پر حملے اور اس کے نتیجے میں ان کی شہادت نے صوبے کے طول و عرض میں سنسنی پھیلا دی۔
مفتی منیر شاکر ایک صاحب الرائے عالم دین تھے، پُر مغز اور مدلل گفتگو کے ماہر تھے، اندازِ بیان میں سادگی اور منطقی دلائل شامل ہوتے تھے جس کے سبب وہ سوشل میڈیا پر ازحد مقبول تھے، انہوں نے دین کو پیش کرنے کا جو طریقہ کار اپنایا اس پر بیشتر علماء معترض تھے۔ ان کے دین پیش کرنے کے لبرل انداز کو روایتی علماء ناپسند کرتے تھے کیونکہ یہ ان کی نقطہ نظر سے ہٹ کر تھا، بعض علماء کے مطابق مفتی منیر شاکر نے دین کو جدید انداز میں پیش کرنے کی کوشش کے دوران دین سے انحراف کیا، ناقدین ان کے بیانات کو غیر متوازن قرار دے کر درست کرنے کی تلقین کرتے رہے، نمازِ تراویح کی عدم فرضیت کے حوالے سے ان کے بیانات سوشل میڈیا پر خاصے مقبول ہوئے، انہوں نے اپنی مقبولیت کو کیش کراتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کا منفرد طریقہ اپنایا، اندازِ بیاں میں سادگی اور منطقی دلائل نے نوجوان نسل کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔
نقادوں کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دین اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی ضرورت ہے، نوجوان نسل کو دین کی جانب راغب کرنے کیلئے جدید ذرائع اور طریقہء کار سے استفادہ کرنا چاہئے، انہوں نے ہمیشہ قرآن و سنت کو بنیاد اور معیار بنا کر پیش کیا مگر ان کا انداز روایتی علماء سے مختلف تھا جس پر بیشتر مذہبی حلقے ان سے اختلاف رکھتے تھے۔
2004ء سے 2011ء کے دوران مفتی منیر شاکر ضلع خیبر میں مقیم اور منگل باغ کے اتحادی تھے جہاں پیر سیف الرحمان اور ان کے درمیان اختلافِ رائے نے جنگ و جدل کی صورت اختیار کرلی تھی، اس تنازعے کا آغاز نظریاتی اور مذہبی تشریح کے فرق سے ہوا تھا، دونوں کو ایف ایم ریڈیوز کی سہولت حاصل تھی جس پر وہ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے۔
مفتی منیر شاکر سخت گیر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے داعی تھے، وہ ماضی میں سپاہ صحابہ نامی شدت پسند تنظیم سے بھی وابستہ رہ چکے تھے، وہ پیری مریدی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے جبکہ پیر سیف الرحمان صوفی ازم اور روحانی تعلیمات کے پیروکار تھے، دونوں کے حامی متحارب فریق بن چکے تھے، مفتی منیر شاکر کے حامی پیر سیف الرحمان کی رہائشگاہ پر حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں 16 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں کچھ افغانی باشندے بھی شامل تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان ہونے والے پرتشدد واقعات میں پانچ سو افراد مارے گئے تھے، مقامی عمائدین اور حکومتی اداروں نے کئی بار مداخلت کرکے دونوں کے درمیان صلح صفائی کی کوششیں کیں لیکن معاملات پیچیدہ اور کشیدہ رہے، جس سے خیبر میں امن و امان کے شدید بحران نے جنم لیا تھا۔
کشیدگی بڑھنے پر پیر سیف الرحمان پنجاب جاکر آباد ہوئے جبکہ مفتی منیر شاکر کچھ عرصہ روپوش رہنے کے بعد پشاور کے نواحی علاقے ارمڑ میں رہائش پذیر ہوگئے تھے، جہاں ان کا مدرسہ بھی تھا جس میں وہ رمضان کے دوران نمازِ عصر کے بعد درسِ قرآن دیا کرتے تھے۔
وقوعے کے روز وہ نمازِ عصر کی ادائیگی کیلئے مسجد کے دروازے پر ہی حملے کا نشانہ بنے، ابتدائی طور پر ان کی ایک ٹانگ شدید متاثر ہوئی، انہیں صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا مگر خون زیادہ بہہ جانے کے سبب وہ جانبر نہ ہوسکے۔
مفتی منیر شاکر اور دیگر علماء کی پے در پے شہادتوں سے صوبے میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے، صوبے میں امن و امان کی بدترین صورتحال اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ملک و قوم کیلئے تشویش کا باعث ہے۔
مذہبی، مسلکی یا فقہی اختلاف کی آڑ میں تشدد اور قتل و غارت گری خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے اور پرسے بیرونی دشمن قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں، بھارت “را” کی صورت میں دراندازی کررہا ہے۔ پہلے نامور سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا تھا مگر اب علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا واضح مقصد وطن عزیز کو انتشار سے دوچار کرنا ہے۔
دہشت گردی کی صورت میں پاکستان پر نادیدہ قوتوں نے ایک جنگ مسلط کی ہے، پاکستان اس جنگ کو لڑنے اور اس میں فتح یابی کی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ورنہ کوئی مسلمان کسی مسجد، مدرسہ یا عالم دین پر حملے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے؟ دین اور مذہب کے نام پر اس خونریزی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
معصوم اور بے گناہ شہریوں، سیکیورٹی فورسز اور علماء کا خون بہانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ریاست اور حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس معاملے پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کسی کو من مانی اور قتل و غارتگری کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اگر کوئی تنظیم یا افراد قانون ہاتھ میں لے کر ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں تو ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے، موجودہ حالات سخت اور فوری ایکشن کے متقاضی ہیں۔
مفتی منیر شاکر، مولانا حامدالحق اور دیگر علماء کی ٹارگٹ کلنگ ناقابل برداشت ہے، ان کے قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لانا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر ان حالات کو سخت اور نظر آنے والے اقدامات سے کنٹرول نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ آج پھیلنے والی سراسیمگی انارکی میں بدلنے کا خدشہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی، مذہبی، فوجی قیادتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ لائحہ عمل کے تحت حالات پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کریں۔ قوم اپنی بہادر افواج اور سیکیورٹی فورسز کی پشت پر کھڑی ہے، قیام امن کیلئے ہر اقدام کی حمایت کرتی ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔