دہشت گردی کے خلاف ٹھوس مؤقف

وصال محمد خان

معصوم شہریوں کو بم و بارود اور دھماکوں کا نشانہ بنانا یقیناً قبیح فعل ہے جسے عرف عام میں شدت پسندی یا دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے مگر اس سلسلے میں اب تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جب سے افغانستان میں طالبان عبوری حکومت برسر اقتدار آئی ہے تب سے پاکستان کے اندر ہونے والے حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اب یہاں چوبیس گھنٹوں میں درجنوں حملے ہو جاتے ہیں۔ مساجد، مدرسوں اور علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسافر گاڑیوں اور ٹرینوں کو یرغمال بنایا جا رہا ہے اور پولیس چوکیوں، تھانوں سمیت فوجی تنصیبات پر حملوں کا ایک ناروا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

جس کے خلاف حکومت نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرہ اجلاس طلب کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں سیاسی اور فوجی قیادت شریک ہوئی۔ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کا اعلامیہ وزیراعظم شہباز شریف نے پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ ‘‘کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹریٹیجک اور متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا، کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام پر فوری عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلانے، پیروکار بھرتی کرنے، حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات اور دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے طریقہ کار وضع کرنے پر زور دیا۔

افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کمیٹی نے ان کی قربانیوں اور ملکی دفاع کے غیر متزلزل عزم کا اعتراف کیا اور کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، ایف سی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا’’۔

اس اہم اور قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت عسکری حکام اور اہم سیاسی راہنماؤں نے شرکت کی۔ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں، جن میں محمود اچکزئی وغیرہ شامل ہیں، نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ایک روز قبل تک تحریک انصاف اجلاس میں شرکت کے لیے تیار تھی، اس کے زعماء تسلسل سے کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور اس حوالے سے منعقدہ اجلاس سیاست سے بالاتر ہے، اس میں تحریک انصاف کا چودہ رکنی وفد شرکت کرے گا مگر آخری لمحات میں شرکت سے انکار کر دیا گیا جس سے تحریک انصاف نامی نابالغ سیاسی جماعت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

یہ اجلاس جو کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں منعقد کیا گیا، اس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی خان سمیت کئی قابل ذکر راہنماؤں نے شرکت کی اور حکومت سمیت افواج کو بھی قومی سلامتی کے حوالے سے غیر مشروط تعاون کا اعادہ کیا، مگر ایک بدقسمت سیاسی جماعت تحریک انصاف رہی جس نے اس اہم قومی ایشو اور قومی سلامتی سے متعلق ضروری اجلاس کو بھی سیاست کی نذر کر دیا۔ اسی لیے تو وزیراعظم شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ ‘‘اپوزیشن کی اجلاس میں عدم شرکت قومی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے، دہشت گردی کسی جماعت یا فرد کا نہیں پوری قوم، ملک اور ریاست کا مسئلہ ہے، اس کے خلاف سب کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک و قوم کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کے اہلخانہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، اگر ہم ان کی امیدوں کو اپنی سیاست کی نذر کریں گے تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی؟ اس اہم اور حساس معاملے پر منعقدہ اجلاس میں عدم شرکت سے شہداء کے لواحقین کو اچھا پیغام نہیں دیا گیا جو افسوسناک ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 150 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، قوم، پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق افراد کی بیش بہا قربانیوں کے سبب امن بحال ہوا تھا مگر 2018ء میں قائم ہونے والی نااہل حکومت نے دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے ثمرات کو ضائع کر کے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد روک دیا جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں، آج کی فیصلہ کن گھڑی تقاضا کرتی ہے کہ ہم سوال کریں کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈے کے ذریعے عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں بلکہ دشمن کے آلہء کار ہیں’’۔

آرمی چیف نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے حوالے سے شرکاء کو اعتماد میں لیا، شرکاء نے انہیں ہر قسم کے تعاون کی غیر مشروط یقین دہانی کرائی۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی پی ٹی آئی کی عدم شرکت کو مایوس کن قرار دیا۔ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہو چکا ہے، اس اہم اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے نہ ہی اس ملک و قوم کے خیرخواہ ہیں اور نہ ہی انہیں یہاں بہنے والے خون سے کوئی سروکار ہے۔ مزید بدقسمتی کہ وزیراعلیٰ گنڈا پور نے اجلاس میں شرکت کے دوران کمیٹی کے فیصلوں سے اتفاق کیا جبکہ پشاور آ کر کسی بھی آپریشن کی اجازت نہ دینے کی بڑھک مار دی، جس سے واضح ہوا کہ اس جماعت کے پاس غیر ضروری بڑھکوں اور لایعنی نعروں کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک غیر سنجیدہ ٹولہ ہے۔

کمیٹی نے جو فیصلے کیے ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ان پر عمل درآمد ہو تاکہ دشمن کو منہ توڑ جواب ملے اور قوم کو خونریزی سے نجات حاصل ہو۔

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

وصال محمد خان
صوبے میں دہشت گردی کے ایک نئے لہرنے جنم لیاہے۔پہلے کی طرح اس خونریزی کوبھی افغانستان سے مانیٹرہونے کے ناقابل تردید شواہد موجودہیں ۔ جعفرایکسپریس حملے میں جوسٹیلائٹ فون استعمال ہوئے ان سے افغانستان میں راابطوں کاانکشاف ہوا۔اسی طرح خیبر پختونخوامیں دہشتگردی کے جتنے واقعات رونماہورہے ہیں ان کاسراافغانستان سے جاملتاہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت ان گنت دہشت گرد تنظیمیں اورافراد افغانستان میں پناہ گزیں ہیں جہاں انکی سرکاری سرپرستی میں سہولت کاری ہورہی ہے پاکستان کیساتھ 26 سو کلومیٹر بارڈر میں بیشترحصے پراگرچہ آہنی باڑلگایاگیاہے مگراسکے باوجودپورے بارڈرکااحاطہ کرناشائدممکن نہیں پھرجس نے دہشتگردی کے مصمم ارادے سے کسی ملک میں داخل ہوناہوتوامریکہ ،روس ،برطانیہ اوریورپ کے کئی ممالک میں لوگ داخل ہوچکے ہیں ہم تواس معاملے میں ان سے خاصے پیچھے ہیں۔

دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظروفاقی حکومت نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کااجلاس منعقد کیا جس میں سیاسی قیادت سمیت افواج پاکستان کی قیادت بھی شریک تھی ۔ صوبے سے قابل ذکراورقدآورسیاسی شخصیات مولانافضل الرحمان اورایمل ولی خان نے نہ صرف اجلاس میں شرکت کی بلکہ دہشت گردی کی سدباب کیلئے اپنااپنامؤقف بھی واضح اندازمیں پیش کیا ۔ پی ٹی آئی رات بارہ بجے تک اجلاس میں شرکت کے اشارے دے رہی تھی مگراچانک رات کے پچھلے پہر شیخ وقاص اکرم نے ٹویٹ کرکے بائیکاٹ کافیصلہ سنا دیا ۔ جس کیلئے وہی بانی سے ملاقات یاانکی رہائی کاروایتی بہانہ بنالیاگیا جو ایک بچگانہ مؤقف ہے۔

قومی سلامتی سے متعلق حساس امور پر جب حالات اتفاق رائے کے متقاضی ہوتے ہیں توپی ٹی آئی کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر شرکت سے پہلوتہی اختیارکرلیتی ہے جوایک ناروا طرز عمل ہے ۔ حساس قومی ایشوزپرغیرسنجیدگی کااندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ علی امین گنڈاپوراجلاس میں شریک ہوئے اوروہاں ہو نیوا لے فیصلوں سے اتفاق کیامگرپشاورآکرایک بارپھرپریس کانفرنس کے ذریعے کسی آپریشن کی اجازت دینے سے انکارکردیاگیا۔بانی پی ٹی آئی نے بھی جیل سے جاری بیان میں افغانستان کودوست قراردیدیا۔قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت کے فیصلے کوصوبے سمیت ملک کے طول وعرض میں ناپسندیدہ قراردیاگیا جس ملک سے پاکستان میں حملے ہو رہے ہیں دہشت گردوہاں پناہ گزیں ہیں اورانہیں اسلحہ اور وسا ئل بھی افغان حکومت فراہم کررہی ہے ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی کادعویٰ کیونکرکیاجاسکتاہے ؟ ‘‘دوست اور برادر اسلامی ملک ’’ گھسے پٹے بیانئے کے سواکچھ نہیں دنیامیں کونسے دوست اور ہمسایہ ملک کی مہربانی سے دوسرے ملک میں روزانہ لاشیں اٹھانی پڑ رہی ہیں اورکونسادوست ملک ہمسایہ ملک میں روزانہ کے حساب سے دہشت گردی کوفروغ دے رہاہے؟

پی ٹی آئی سے کسی دانشمندانہ فیصلے کی توقع تونہیں کی جاسکتی مگرکم از قومی سلامتی کے اس اہم ایشوپراگرسیاست کوایک طرف رکھاجاتااوردشمن کے خلاف اتفاق ویکجہتی کا پیغام دیاجاتاتویہ ملک وقوم کے بہترین مفادمیں ہوتا۔ دہشتگردی پرتوریاست نے بہرصورت قابوپاناہے مگراس کیلئے منصوبہ بندی کے وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونیکی دعویدارروٹھ کربیٹھ گئی ۔یہ روئیے سیاسی ،جمہوری اورحب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ۔اس اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت کے باوجودملک وقوم کی سلامتی کے حوالے سے جوفیصلے ہوناتھے وہ ہوچکے ہیں پی ٹی آئی کے نازنخرے اٹھانے کیلئے ریاست کے پاس وقت نہیں کیونکہ اب معاملہ قومی اورملکی سلامتی کاہے جس کیلئے کسی بھی اقدام سے گریزنہ کرنے کاصائب فیصلہ کیاگیاہے۔

پاکستان اورافغانستان کے مشترکہ جرگہ کے درمیان طورخم سرحدی گزرگاہ پرکشیدگی خاتمہ کیلئے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں جرگہ نے فائربندی اورتجارتی گزرگاہ فوری کھولنے کافیصلہ کیاہے ،پاکستانی جرگہ مشرسیدجوادحسین کاظمی کے مطابق دونوں ممالک کے جرگہ ممبران نے فائربندی اورتجارتی گزرگاہ فوری کھولنے پراتفاق کیاہے ،متنازعہ تعمیرات معاملے کو آئندہ جوائنٹ چیمبرآف کامرس اجلاس میں متفقہ حل پراتفاق کیاگیا،جوائنٹ چیمبرآف کامرس کوماضی کی طرح فعال کیاجائیگاجسکے اجلاس باقاعدگی سے منعقدہونگے ، افغانستان نے فوری طورپرمتازعہ تعمیرات بندکردی ہیں جس کے بعدطورخم گزرگاہ سے آمدورفت شروع ہوگئی ہے۔

طورخم سرحدی گزرگاہ سے پاکستان کوروزانہ تین ملین ڈالرزکی محصولات ملتی ہیں گزشتہ24روزسے بندرہنے کے سبب 72ملین ڈالرزکانقصان ہوچکاہے ۔امیگریشن حکام کے مطابق روزانہ تقریباًدس ہزارافرادیہ گزرگاہ آمدورفت کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ عیدکی آمدکے سبب دوملین سے زائد افراد گزر گاہ کھلنے کے منتظرتھے ،25ویں روزگزرگاہ کھلنے پردونوں جانب سے مال بردارگاڑیوں کی آمدورفت شروع ہوگئی بارڈرکی بندش سے دونوں جانب 12ہزارمال بردارگاڑیاں کھڑی تھیں ۔یادرہے کشیدگی کا آغاز افغانستان کی جانب سے متنازعہ مقامات پرچوکیوں کی تعمیرسے ہوا ۔ دونو ں ممالک سے تعلق رکھنے والے چیمبرآف کامرس کے نمائندوں پرمشتمل جرگہ نے بھی پاکستانی مؤقف کودرست تسلیم کیااسی لئے تو افغانستا ن کوتعمیرات روکناپڑی۔

نوشہرہ اضاخیل کے غلہ گودام سے 30ہزارگندم کی بوریاں غائب ہونے کامعاملہ دوافسران کے سرڈال دیاگیاہے ۔اس سلسلے میں اینٹی کرپشن کورٹ نے گودام میں تعینات دوافسران کی درخواست ضمانت خارج کرکے انہیں جیل بھیج دیاہے ۔دونوں پرالزام ہے کہ انہوں نے دیگرملزمان کی ملی بھگت سے19کروڑروپے مالیت کی گندم غبن کی ۔کرپشن کایہ سکینڈل دوماہ قبل منظرعام پرآیاہے جس کی سماعت اورطریقہ کارسے لگ رہاہے کہ اتنی بڑی خردبردمحض دوافسران کے سرڈالی جارہی جبکہ اصل ملزمان منظرعام پرنہیں لائے جا رہے اس سلسلے میں عمران خان کی جانب سے بنائی گئی گڈگورننس کمیٹی بھی کوئی جواب دینے گریزاں ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ احتساب کاکوئی ادارہ یاعدالت ایکشن لیکرکرپشن کی اس بہتی گنگامیں اشنان کرنے والوں کامحاسبہ کرے۔

مسلسل 8ماہ تک جاری رہنے والاصوبائی اسمبلی کااجلاس غیرمعینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیاگیاہے ۔19جولائی 2024ء سے جاری اجلاس اسمبلی ،وزیراعلیٰ کی معطلی اور گورنرراج کے خوف سے جاری رکھاگیاتھا۔آئین پاکستان کے مطابق جاری اجلاس کے دوران گورنر راج یااسمبلی معطل نہیں کی جاسکتی ۔مسلسل آٹھ ماہ تک جاری رہنے والااجلاس وقفے وقفے سے ملتوی ہوتارہا ۔طویل اجلاس کے سبب اس میں ارکان کی دلچسپی بھی ختم ہوکررہ گئی تھی سرکاری ارکان کی اجلاس میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ درجنوں باراجلاس کورم کی نشاندہی پرملتوی کرناپڑا۔بہرحال اس دوران پارلیمانی سال کے100دنوں کی لازمی کارروائی مکمل ہوگئی بلکہ دوسرے سال میں بھی خاصے دن کارروائی ہوئی ۔طویل اجلاس کے دوران متعدداہم نوعیت کے بلزاوردرجنوں قراردادیں منظورکی گئیں ،کئی تحاریک التوا واستحقاق کے علاوہ توجہ دلاؤنوٹسزکوبھی نمٹایاگیا۔