پاکستان اور افغانستان کی مخالفت میں بھارت اور امریکہ کی فلم انڈسٹریز کا کردار
عقیل یوسفزئی
سال 1980 کے دوران جب افغانستان کی سرزمین پر اندرونی خلفشار اور عالمی پراکسیز کی لڑائیوں کے باعث ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا گیا تو عالمی طاقتوں کے علاوہ پاکستان ، ایران ، چین ، بھارت ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، ترکی اور متعدد دیگر اہم ممالک بھی کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا حصہ بننے لگے اور یوں یہ خطہ پراکسیز کے تناظر میں نہ صرف یہ کہ تقریباً چالیس ، پینتالیس برسوں تک مسلسل حالت جنگ میں رہا بلکہ میڈیا وار سمیت عالمی ، علاقائی انٹلی جینس ایجنسیوں کے ذریعے بھی ایک خوفناک اور لامتناہی قسم کی کشیدگی اور کشمکش کا سلسلہ بھی چل نکلا ۔ ایک عالمی ادارے کی سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 1979 کے بعد سال 2015 کے درمیان افغانستان میں عالمی طاقتوں نے اسلحہ ، انٹلیجنس ، امداد اور میڈیا کے شعبوں میں تقریباً 40 ٹریلین ڈالرز خرچ کیے جو کہ دنیا کی دستیاب تاریخ میں جنگ یا جنگوں پر خرچ ہونے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ پاکستان چونکہ ابتداء ہی سے اس جنگ میں نہ صرف یہ کہ امریکی بلاک کا اتحادی تھا بلکہ فریق بھی تھا اس لیے تین مرحلوں پر مشتمل اس طویل ترین جنگ سے پاکستان نے فایدے بھی اٹھائے اور اس کے نقصانات سے بھی بری طرح متاثر ہوا جس میں بدامنی سرفہرت رہی۔
اسی تناظر میں بھارت کا کردار بھی بہت اہم مگر مبہم رہا اور اس کو افغان جنگ کے باعث بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تاہم بھارت نے میڈیا کے مختلف شعبوں کے ذریعے پاکستان اور جہادی قوتوں کے خلاف مسلسل ایک مؤثر پروپیگنڈا کیا اور اس مد میں اس نے بہت بڑی سرمایہ کاری کی۔ اس مسلسل مہم کے دوران بھارت نے ریاستی سطح پر بالی ووڈ کی اپنی فلم انڈسٹری کو جس انداز میں استعمال کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چونکہ یہ انڈسٹری ہالی ووڈ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری سمجھی جاتی ہے اس لیے راء نے ایک پراجیکٹ کے تحت اس پلیٹ فارم کو اربوں کی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان ، جہادی تنظیموں ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موثر طریقے سے استعمال کیا اور دوسرے مرحلے میں جب ناین الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں جمہوری حکومتیں قائم ہوگئیں تو بھارت اور ایران نے میڈیا کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی بہت محفوظ پالیسی اختیار کرلی۔ ایران نہ صرف افغانستان میں مسلسل مداخلت کرتا رہا اور مختلف سیاسی جہادی تنظیموں کو استعمال کرتا رہا بلکہ اس منظم ریاست نے میڈیا کے ذریعے بھارت کے ذریعے افغانستان کے امیج کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس مہم جوئی میں ایران نے ماضی کی تلخ تاریخی واقعات کے تناظر میں پشتون لسانی بالادستی کو وحشت ناک اور خوفناک قرار دینے کے وہ طریقے استعمال کیے جو کہ کسی کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھے ۔ ایران نے 90 کی دہائی میں جہاں ایک طرف ریڈیو تہران کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی وہاں اس نے بعد میں ” قربان ” اور “اسامہ ” جیسی ڈاکومنٹریز بھی تیار کیں ۔ ان ڈاکومنٹریز کو نہ صرف اس خطے میں ایک خوفناک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا بلکہ بعض کو آسکر ایوارڈز جیسے اعزازات بھی ملے۔
فلم انڈسٹری کے ذریعے اس جنگ کو بطور پروپیگنڈا مشینری امریکہ نے بھی بہت مؤثر طریقے سے ہالی ووڈ کے پلیٹ فارم سے استعمال کیا ۔ 80 کی دہائی میں مشہور زمانہ مووی ” ریمبو” کے ذریعے سی آئی اے نے فنڈنگ کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ اربوں ڈالرز کی لاگت سے اب بھی جاری ہے ۔ 1980 سے لیکر سال 2022 تک سی آئی اے نے ہالی ووڈ کی تقریباً 77 فلموں کی فنڈنگ کی۔ اس میں بعض موویز نہ صرف آسکرز ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں بلکہ وقت کے مختلف سپر اسٹارز نے بھی ان فلموں میں کام کرتے ہوئے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔ امریکہ نے ہالی ووڈ کے ذریعے افغانستان پر جہاں ریمبو اور وار مشین جیسی جنگی فلمیں بنائیں وہاں اس نے سی آئی اے کی فراہم کردہ دستاویزات کی روشنی میں ” چارلی ولسن ” جیسی قابل ذکر فلموں پر بھی توجہ دی ۔ اس فلم کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والی جنگ کا کریڈٹ سینیٹر چارلی ولسن کو جاتا ہے جس نے فلم کی کہانی کے مطابق نہ صرف امریکی حکمرانوں کو اس جنگ کی اہمیت پر قائل کیا بلکہ پاکستان کے کردار کی اہمیت کے تناظر میں جنرل ضیاء الحق اور امریکی حکومت کے درمیان رابطہ کاری کو بھی ممکن بنایا ۔ ہالی ووڈ کی ان فلموں کو سکرپٹ کے لحاظ سے دو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایک وہ سیریز جو کہ سال 2000 سے قبل پر مشتمل رہی جس میں افغان مہاجرین اور پاکستان کو بطور ہیرو پیش کیا جاتا رہا کیونکہ یہ دو فریقین سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے اور تینوں کا دشمن مشترکہ تھا ۔ دوسری سیریز ان فلموں پر مشتمل رہی جو کہ ناین الیون کے واقعے یا حملے کے بعد سامنے آنی شروع ہوگئیں۔
دوسرے والے سلسلہ میں ہالی ووڈ کی ان فلموں کے ذریعے مجاہدین ، طالبان اور القاعدہ کے علاوہ پاکستان خصوصاً اس کی انٹلیجنس ایجنسیوں کو بطور ویلن پیش کیا گیا اور تمام فلموں ، ڈاکومنٹریز کے دوران عالمی رائے عامہ اور فیصلہ سازوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تمام فریقین امریکہ اور عالمی امن کے دشمن ہیں ۔ بعض فلموں میں پاکستان کے کردار کی زبردست تعریف بھی دیکھنے کو ملتی رہی تاہم مجموعی بیانیہ پاکستان کی انٹلیجنس ایجنسیوں کے خلاف رہا ۔ اس دوران ہالی ووڈ نے ” وار مشین ” جیسی مہنگی اور سنجیدہ فلمیں بھی بنائیں جن کے ذریعے افغانستان ، عراق ، شام اور پاکستان میں انسداد دہشتگری کے ایشوز پر امریکی پالیسیوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے امریکہ پر سخت تنقید کی گئی اور وار مشین کے علاوہ متعد د دیگر بڑی ہالی ووڈ فلموں میں بھی امریکی پالیسیوں کو ناکام اور نقصان دہ ثابت کرنے کی کامیاب پریکٹس اور کوشش کی گئی ۔ تاہم بڑے بجٹ اور کاسٹ پر مشتمل ان فلموں کی تعداد پروپیگنڈا موویز کے مقابلے میں کم رہی۔
اس تمام میڈیا وار میں ہالی ووڈ کے بعد تعداد اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے بھارت دوسرے نمبر پر رہا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی فلم انڈسٹری بالی ووڈ نے افغانستان ، پاکستان اور جہادی تنظیموں کے موضوع اور ایشوز پر گزشتہ 20 برسوں کے دوران تقریباً 110 فلمیں بنائی ہیں جو کہ ایک منفرد ریکارڈ ہے ۔ ان میں سے 50 فی صد کو سکرپٹ بھارتی انٹلیجنس ایجنسی راء مہیا کرتی رہی جبکہ فنڈنگ بھی سی آئی اے کے طرز پر راء کے ذریعے حکومت کرتی رہی ۔ اس کی فنڈنگ اور پلاننگ اس بڑی لیول پر ہوتی رہی کہ عالمی سطح پر مارکیٹ ویلیو رکھنے والے متعدد سپر سٹارز اور ان کے نجی پروڈکشن ادارے بھی اس مہم کا حصہ رہے جن میں شاہ رخ خان ، سلمان خان ، عامر خان ، سنجے دت ، سنی دیول ، نصیر الدین شاہ ، ہریتک روشن اور امیتابھ بچن جیسے اسٹارز شامل ہیں۔
اگر ایک طرف سپر سٹار شاہ رخ خان نے ” مائی نیم از خان” جیسی انتہائی معیاری فلم بنائی جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب میں پائی جانے والی آندھی نفرت کو موضوع بحث بنایا اور اس فلم نے عالمی سطح پر شاندار توجہ حاصل کی تو چند برسوں بعد اسی سٹار نے ” پٹھان” جیسی بڑے بجٹ کی وہ فلم بھی پیش کی جس نے نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ سمیت دنیا کے 55 ممالک میں پاکستان کے بیانیہ اور پوزیشن کو بہت نقصان پہنچایا ۔ شاہ رخ خان نے اس فلم کے ذریعے پشتون یا پشتونوں کو افغانستان کے تناظر میں تو بہت مؤثر انداز میں ہیرو کے طور پر پیش کیا تاہم انہوں نے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ سال 2023 کو دنیا بھر کے تقریباً ایک لاکھ سنیما گھروں کی زینت بننے والی اس فلم نے اس موضوع پر متعدد دیگر بڑی فلموں کی بنیاد بھی رکھی ۔ اس ضمن میں اس کے فوراً بعد تیار اور ریلیز ہونے والی سنی دیول کی فلم ” غدر 2 ” کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں تقسیم ہند کے بعد کے تناظر میں جنم لینے والی ایک کہانی پیش کی گئی ۔ اس فلم میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا جس گھٹیا انداز میں مذاق اڑایا گیا اس کا موازنہ پھٹان کے سکرپٹ اور معیار سے تو بلکل نہیں کیا جاسکتا تاہم اس فلم نے بھی پاکستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں بہت منفی کردار ادا کیا اور اس کو دیکھتے ہوئے سپر سٹار عامر خان نے سنی دیول ہی کو لیکر سال 2024 کے دوران اپنی ایسی ہی ایک بڑے بجٹ کی فلم ” لاہور 47 ” کی شوٹنگ کا آغاز کردیا۔
اس تمام مہم جوئی میں دوسروں کے برعکس بھارتی حکومتوں کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنانے والے نامور سٹار سلمان خان بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے بھی ان موضوعات پر ” ٹائیگر ” سیریز پر مشتمل بڑی بجٹ کی تین فلمیں بنائیں جو کہ ان کی شاہ رخ خان کی طرح ان کی اپنی پروڈکشن کمپنی نے پیش کیں۔ اگر چہ سلمان خان کی ان بڑی فلموں میں پاکستان کے خلاف دوسروں کی طرح کوئی منفی پروپیگنڈا اور طرزِ عمل نہیں ہے اور پاکستان کی پرایم انٹلیجنس ایجنسی کو ان فلموں میں عالمی اور مقامی پراکسیز سے لڑتے ہوئے مثبت انداز میں دکھایا گیا ہے تاہم یہ تمام فلمیں ریاستی سرپرستی اور فنڈنگ پر مشتمل رہی ۔ سلمان خان اس سے قبل کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر ” بجرنگی بھائی جان” جیسی سپر ہٹ فلم بھی پیش کرتے ہوئے عالمی سطح پر بہت پذیرائی حاصل کرچکے ہیں تاہم بھارت کے انتہا پسند حلقوں کی نظر میں ان سمیت تینوں خانوں کو ان کی بے پناہ شہرت ، دولت اور طاقت کے باوجود شدید نوعیت کے دباؤ کا سامنا ہے اور ان کو وقتاً فوقتاً بھارت چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔
پاکستان مخالف پروپیگنڈا فلموں کی بڑے پیمانے پر تیاری کے سلسلے میں کرونا لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد ” پھٹان” کی شاندار کامیابی کے بعد بہت تیزی واقع ہوگئی اور سال 2023 کے دوران پھٹان ، ٹائیگر کی واپسی اور غدر 2 کی ریلیز ، کامیابی کے بعد سال 2024 کے اوائل میں ایک اور مہنگے سٹار ہریتک روشن کی ایک بڑی بجٹ کی فلم ” فائٹر” ریلیز ہوئی ۔ اس فلم میں چند ہی برس قبل پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالاکوٹ کو انڈین ایر فورس کے ذریعے ایک فیک آپریشن کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اس کی فنڈنگ کے بارے میں بھی اخبار انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ راء نے مہیا کی ہے ۔ اس فلم میں اتنے مبالغے سے کام لیا گیا ہے کہ خود بھارتی میڈیا یہ کہتے اور لکھتے ہوئے چیخ اٹھا کہ پروپیگنڈا کی بھی کوئی شرائط ہوتی ہیں ۔ اس تصادم کے دوران پاکستان کے ہاتھوں گراۓ گئے بھارتی طیارے کے پائلٹ سکواڈرن لیڈر آبی نندن کی گرفتاری اور واپسی کا ذکر نہ کرنے پر بھی بھارتی ناقدین نے سخت سوالات کھڑے کردیے۔
اس تمام عرصے کے دوران بالی ووڈ میں ” ترنگا ” جیسی نسبتاً معیاری فلمیں بھی بنائی گئیں تاہم ان فلموں کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی ۔ ترنگا میں فلم کی ہیروئن راء کی اپنی ٹیم کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ایک نیٹ ورک کے علاوہ افغان طالبان اور القاعدہ کا بھی پیچھا کرتے ہوئے بعض اسلامی ممالک میں کارروائی کرتی ہیں تاہم عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب پاکستان کی پرایم انٹلیجنس ایجنسی کے سربراہ کو ایک تین فریقی جھڑپ کے دوران زندگی سے محروم کیا جاتا ہے ۔ اس اہم مووی میں بھی بہت مبالغہ اور پروپیگنڈا سے کام لیا گیا ہے۔
اس تمام عرصے کے دوران اگر ایک طرف بالی ووڈ نے پاکستان کو بھارت ، افغانستان اور پورے خطے کے لئے ایک خطرناک ملک ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور پاکستان کے بارے میں بہت مؤثر طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ یہ تمام جہادی یا ان کے بقول دہشت گرد قوتوں ، گروپوں کی سرپرستی کررہاہے تو دوسری جانب ایک منظم طریقے سے بہت سی فلموں میں افغانستان کے طالبان کی نہ صرف کردار کشی کی گئی بلکہ تمام افغانوں کو جاہل ، مداخلت کار اور ظالم قرار دینے کی مہم بھی چلائی گئی اور متعدد فلموں میں ہندوستان پر حکومتیں کرنے والے افغان حکمرانوں کو تاریخی واقعات کے برعکس بطور ولن پیش کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
مثال کے طور پر سپر ہٹ فلم ” پدماوت” میں ہندوستان کو متحد کرنے والے افغان حکمران علاؤ الدین خلجی کی بلا وجہ کردار کشی کی گئی اور ان کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے جیسے انہیں ایک شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی کھانا کھانے کا سلیقہ معلوم نہیں ہوتا۔ ایک اور فلم ” پانی پت” میں اداکار سنجے دت کو احمد شاہ ابدالی کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور اس فلم میں بھی وہی رویہ اختیار کیا گیا ہے جو کہ علاؤ الدین خلجی سے متعلق اپنایا گیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلموں میں مبالغے اور ڈرامے سے کام لینے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا اور بعض چیزیں ویسے ہی ڈال دی جاتی ہیں تاہم تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت فلموں کے تناظر میں بھی نہیں دی جاتی اور اس ضمن میں دنیا بھر میں ایک سٹینڈرڈ موجود ہے جس کی خلاف ورزی کرنے پر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں نہ صرف متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جاتا ہے بلکہ ایسی لاتعداد مثالیں بھی موجود ہیں جب امریکہ، بھارت اور برطانیہ میں متعدد بڑی فلموں کی عدالتوں کی جانب سے نمائش بھی روک دی گئی تاہم بھارت میں اس تمام پروپیگنڈا گیم کے دوران فلم سازوں کو کھلی چھوٹ حاصل رہی۔ اس میں بھی دو سے زائد آراء موجود ہیں کہ علاؤالدین خلجی اور احمد شاہ ابدالی کے ادوار اور طرزِ حکمرانی کو ہندوستان کے تناظر میں ان کے ہم قوم اور ہم نسل بھی بعض اوقات تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تاہم جس انداز میں ان دو حکمرانوں اور افغانوں کی متعدد فلموں میں کردار کشی کی گئی اس کو محض نسل پرستی کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں ماہرین ہالی ووڈ کی ان فلموں کے طرز عمل کی مثال دیتے ہیں جن میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی کھل کر مخالفت تو نظر آتی ہیں مگر جرمن قوم کے جذبات اور احساسات کو ٹھیس پہنچانے والا مواد شامل ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ یہاں نسل پرستی کے تناظر میں ہندوستان کے ایک اور افغان حکمران شیرشاہ سوری (فرید خان) کی مثال دی جاسکتی ہے جن کے بارے میں موجودہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب ” ڈسکوری آف انڈیا ” میں لکھا ہے کہ اگر شیرشاہ سوری نے ہندوستان پر حکومت نہیں کی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ ہندوستان موجودہ شکل میں موجود نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشی ، مذہبی انفراسٹرکچر اور رواداری میں بھی بہت پیچھے ہوتا۔ جواہر لال نہرو نے کچھ ایسی باتیں علاؤالدین خلجی کے بارے میں بھی لکھی ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا اور فلموں میں ان تمام تاریخی حقائق کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان حقائق کے برعکس نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کے میڈیا اور فلموں میں مغل حکمرانوں کو بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی غیر مقامی تھے۔
اس مجموعی رویہ پر بھارت میں نہ صرف مسلمان اسکالرز اور فلم میکرز وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں بلکہ ہندو فلم میکرز اور رائٹرز بھی اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ نامور ڈائریکٹر، شاعر اور فلم میکر گلزار نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس رویے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف مسمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ یہ بھارت کے امیج کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ایسی ہی ایک دوسری شخصیت جاوید اختر نے سال 2024 کے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسلمانوں، پاکستان، افغانستان اور اردو زبان کے ساتھ بھارت کے بعض اہم حلقوں کا رویہ انتہائی یکطرفہ اور منفی ہے اور اس سے بھارت میں عدم تحفظ کو فروغ مل رہا ہے۔ سپر اسٹار شاہ رخ خان نے بھی سال 2024 کے ماہ جنوری میں ایک نشست کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان ، پشتونوں اور مسلمانوں کے خلاف بعض قوتوں اور حلقوں کے منفی طرزِ عمل سے وہ ذاتی طور پر بہت پریشان ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کے بچے کسی امتیازی سلوک کا نشانہ بنے ۔ انہوں نے اس موقع پر ایک اور سوال کے جواب میں کچھ یوں کہا؛
” میری شدید خواہش اور کوشش ہے کہ میں اپنے بچوں اور فیملی کو اپنے آبائی شہر پشاور اور سوات لے جاؤں تاکہ ان کو معلوم ہوسکے کہ ہمارے پھٹان مہمانوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔ میں اپنے بچوں کو پشاور اور سوات اس لیے لیکر جانا چاہتا ہوں کہ میرے والدین نے مجھے بھی اسی جذبے کے تحت یہاں بھیج دیا تھا ۔”
شاہ رخ خان کی یہ بات چیت جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تو بھارت کے لاکھوں صارفین نے ان پر شدید تنقید کرتے ہوئے دھمکیاں دیں کہ اگر انہوں نے یہ رویہ ترک نہیں کیا تو بھارتی ان کو زبردستی پاکستان کی سرحد پھینک دیں گے ۔ اس مہم میں جب بعض ہندو فلم اسٹارز نے بھی حصہ لینا شروع کیا تو سلمان خان حسب سابق حرکت میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ کسی کا باپ بھی ہمیں ہندوستان سے باہر نہیں نکال سکتا۔ انہوں نے دیگر اسٹارز کو چیلنج کرتے ہوئے مخاطب کیا کہ اگر ان میں دم ہے تو اس طرح کی دھمکیوں کی بجائے فلم انڈسٹری میں خانز کا مقابلہ کریں ۔ اس بحث سے صورت حال چند دنوں تک اتنی بگڑ گئی کہ شاہ رخ خان اور سلمان خان کی سیکورٹی بڑھا دی گئی۔
اس بحث کا ایک اور پہلو بھی کافی دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ افغانستان کے حکمرانوں اور ایلیٹ کلاس کے علاوہ عام لوگوں کی اکثریت بھی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ پسند کرتے ہیں تاہم بھارت ان کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھتا اور اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی میڈیا اور فلموں کے ذریعے گزشتہ کئی سالوں سے جو کردار کشی افغانیوں کی ہورہی ہے وہ بھارتی پاکستانیوں کی بھی نہیں کررہے تاہم لبرل اور نیشنلسٹ افغان اس مہم اور پروپیگنڈا کے باوجود خاموش بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ پاکستان کا بھی مشاہدے میں آتا رہا ہے ۔ پاکستان بہت سے وسائل کے باوجود بھارت ، امریکہ اور ایران کی مذکورہ بالا پروپیگنڈا مشینری کا جواب دینے سے ہمیشہ لاتعلق رہا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس لاتعلقی کا پاکستان کو بطورِ ریاست جاری جنگ اور دہشت گردی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔