فیصل کریم کنڈی نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ

خیبرپختونخوا کو دہشتگردی، بدعنوانی اور گورننس کے بحران کا سامنا ہے: گورنر فیصل کریم کنڈی

اسلام آباد، 7 اپریل 2025

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام “خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی اور گورننس کے چیلنجز” کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے افتتاحی سیشن میں شرکت کی اور خطاب کیا۔

اس موقع پر اپنے خطاب میں گورنر نے کہا کہ صوبہ اس وقت دہشتگردی، گورننس کے خلا، اور معاشی بدحالی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی اور سیاسی اونر شپ نہ لینا بھی خیبرپختونخوا کے مسائل میں شامل ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے زور دیا کہ صوبے میں گورننس کا معیار بہتر بنانے کے لیے فنڈز کا شفاف استعمال انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی قربانیاں دے کر امن بحال کیا ہے، لیکن خطرات اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔

گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد ضم اضلاع میں حکمرانی کا خلا، بارڈر پر جرائم کی سرگرمیاں، اور بدعنوانی جیسے عوامل اب بھی شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سرحدی علاقوں میں مؤثر انتظامات، بین الاداراہی ہم آہنگی، اور پائیدار پالیسی سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔ گورنر نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ دہائی میں خیبرپختونخوا میں ترقیاتی فنڈز کا غلط استعمال ہوا، جبکہ قانون سازی کے باوجود خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہترین گورننس کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو مزید مؤثر بنانا ہوگا، آڈٹ رپورٹس پر کھلی سماعتوں کا انعقاد کرنا ہوگا، اور حکومتی احتساب کے بہتر نظام کو اپنانا ہوگا۔ فیصل کریم کنڈی نے اختتام پر کہا کہ جب تک مالیاتی نظم و نسق اور شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، اچھی حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اٹلی کے سیاحوں کا 15 رکنی وفد

مردان: اٹلی کے سیاحوں کا 15 رکنی وفد تخت بھائی کے آثارِ قدیمہ کا دورہ

اٹلی کے سیاحوں کا 15 رکنی وفد

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مردان ظہور بابر آفریدی کی ہدایت پر اٹلی سے آئے 15 رکنی سیاحتی وفد کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل تخت بھائی کے تاریخی آثارِ قدیمہ کے دورے کے دوران فول پروف سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ ڈی ایس پی تخت بھائی شکیل خان اور ڈی ایس پی کوثر خان کی قیادت میں پولیس نے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے۔

اطالوی سیاحتی وفد نے مردان پولیس کی جانب سے فراہم کردہ سیکیورٹی انتظامات کو سراہا اور پولیس کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تخت بھائی کے آثارِ قدیمہ بدھ مت کے قدیم اور محفوظ ترین کھنڈرات میں شمار ہوتے ہیں، جو ہر سال بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

وفد نے اس تاریخی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ کے لیے جاری اقدامات پر خراج تحسین پیش کیا۔

PTI imran khan nobel prize

نوبل پرائز

وصال محمد خان
وطن عزیز میں ہمہ اقسام کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور وہ اپنی سیاست چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر جب سے پی ٹی آئی کو عوامی پذیرائی ملی ہے اور یہ جماعت ملکی سیاست میں متحرک ہوئی ہے تب سے پاکستانی سیاست یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے سیاسی جماعتیں اگر ایک جانب لسانی، مذہبی، فرقہ پرستی اور قوم پرستی کے نام پر سیاست میں سرگرم تھیں تو دوسری جانب بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کارکردگی کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ مگر پی ٹی آئی کی سیاست میں پذیرائی سے اب کارکردگی ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ بلکہ اوٹ پٹانگ نعروں، الٹے سیدھے دعوؤں، لغو الزامات اور ناقابل عمل وعدوں کو سیاست کا نام دیا گیا ہے۔

شخصیت پرستی اگرچہ پہلے بھی پاکستانی سیاست کا لازمی حصہ رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت ایک فرد یا خاندان کے گرد گھومتی آ رہی ہے مگر پی ٹی آئی نامی سیاسی جماعت شخصیت پرستی میں بھی تمام سیاسی جماعتوں پر بازی لے گئی ہے۔ یہ جماعت اپنے بانی کو دنیا کی عظیم ترین ہستی اور ماورائی مخلوق کا درجہ دیتی ہے اور اس رو میں انہیں دنیا کے ہر بڑے اعزاز کا حقدار بھی سمجھتی ہے۔

امریکہ میں صدارتی انتخاب کے دوران اس پارٹی کے پیڈ سوشل میڈیا ورکرز نے جو ٹرینڈز چلائے ان کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی عمران خان کی مرہون منت تھی۔ برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب ہو تو عمران خان کو چانسلر شپ کیلئے خود ساختہ طور پر امیدوار بنا لیا گیا بلکہ کامیاب بھی قرار دیدیا گیا۔ حالانکہ اس اہم عہدے کی اہلیت کیلئے جو معیار مقرر ہے بانی پی ٹی آئی اس سے کوسوں دور ہیں۔

حال ہی میں نوبل پرائز کے حوالے سے ایک شوشہ چھوڑا گیا کہ امن کا نوبل پرائز بانی پی ٹی آئی کو ملنے والا ہے اور اس سلسلے کی اتنی تشہیر کی گئی کہ نوبل پرائز کمیٹی کے بغیر انہیں اس اعزاز کیلئے نہ صرف نامزد کیا گیا بلکہ نوبل پرائز دلوا بھی دیا گیا۔ حالانکہ نوبل پرائز کی نامزدگی کیلئے انتظامیہ نے جو معیار مقرر کر رکھا ہے عمران خان اس پر پورے نہیں اترتے ان کے پاس نوبل پرائز کی نامزدگی کیلئے بھی اہلیت موجود نہیں مگر یہاں یہ تاثر قائم کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی گئی جیسے نوبل پرائز انسٹی ٹیوٹ اور کمیٹی نے یہ اعزاز عمران خان کی قدموں میں ڈھیر کر دیا ہو۔

حالانکہ ایسا کوئی معاملہ نوبل انتظامیہ کے زیر غور نہیں تھا بلکہ یہ در فطنی ایک تو ناروے سے چھوڑی گئی جو مبالغہ آرائی اور ایک غیر حقیقت پسندانہ شوشے کے سوا کچھ نہیں۔ دوسرے بیرون ملک بیٹھے ہوئے تحریک انصاف کے کچھ ورکرز جن کی روزی روٹی بانی پی ٹی آئی کی مدح سرائی سے وابستہ ہے ان لوگوں نے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جیسے نوبل پرائز ملنے کا فیصلہ ہو چکا ہو بس رسمی کارروائی کا انتظار ہو۔ پیسے کے ان پجاریوں کو اس بات کا احساس نہیں مگر ان حرکتوں سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔

عمران خان نے نہ ہی تو اپنے دورِ حکومت میں اور نہ ہی اپوزیشن کے دوران ایسا کوئی کارنامہ انجام دیا ہے جس سے متاثر ہو کر انہیں نوبل جیسے بڑے اور تاریخی انعام سے نوازا جائے۔ دنیا میں اب تک جن افراد کو نوبل پرائز کا مستحق سمجھا گیا ہے انہوں نے ملک و قوم یا دکھی انسانیت کی کوئی ایسی خدمت انجام دی ہے جو دوسروں کیلئے مثال ہے نوبل انعام یافتہ جتنے بھی لوگ ہیں انہوں نے اپنے اپنے شعبہ جات میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی تیاگ دی ہے تب جا کر کہیں انہیں اس بڑے انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔

یہاں عمران خان نے اپنی دورِ حکومت میں ملک پر قرضوں کا بوجھ دوگنا کر دیا ہے، ایک صوبے میں گیارہ سال سے ان کے ایما اور آشیرباد سے کرپشن کا بازار گرم ہے، دہشت گردی کی جو جنگ پاکستان لڑ رہا ہے اس میں عمران خان کا میلان مرنے والے فوجی جوانوں، معصوم اور پرامن شہریوں کی بجائے مارنے والے دہشتگردوں کی جانب زیادہ رہا۔ بلکہ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران دہشت گردوں کو لا کر یہاں آباد کیا جو اب تخریبی کارروائیوں اور معصوم و بیگناہ شہریوں کی قتل و غارتگری میں ملوث ہو کر خونریزی کا سبب بن رہے ہیں۔

پاکستان میں نوبل انعام کے حقدار وہ لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے دہشت گردی کیخلاف ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ نوبل یا کسی بھی اعزاز و انعام کے حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے دہشتگردوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر انہیں للکارا اور اپنی جانیں قربان کر دیں۔

حال ہی میں ریاست پاکستان اور فوج نے شدت پسند خوارج کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کسی بھی دہشت گرد کیساتھ مذاکرات کا باب بند کر دیا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نجی، سرکاری اور فوجی تنصیبات و املاک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی پی ٹی آئی اور اسکے بانی مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔ نہ ہی یہ مذاکرات کی کوئی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی فریق دوم کو معاہدوں کا پاس رکھنے کی عادت ہے بلکہ مذاکرات کا بیانیہ خوارج کو حق بجانب ثابت کرنے اور ان کی جانب سے کی گئی خونریزی سے توجہ ہٹانی کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
نوبل پرائز انسٹی ٹیوٹ اور کمیٹی اتنے لاعلم تو نہیں ہونگے کہ وہ شدت پسندوں کے حامی کو اس بڑے اعزاز سے نوازے یا اس کیلئے نامزد کرے آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر شپ اور صدر ٹرمپ کے انتخاب پر اثر انداز ہونے جیسے بے بنیاد دعوؤں اور شوشوں کے بعد نوبل انعام کا غبارہ بھی خالی ہو چکا ہے۔ اب کوئی نیا شوشہ تلاش کیا جائیگا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں اِن رہنے کیلئے کوئی نیا حربہ آزمایا جائیگا۔ عین ممکن ہے کہ حج کے ایام میں سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ دیکھنے کو ملے کہ عمران خان کو خطبہء حج دینے کی دعوت دی گئی ہے۔

مگر مقام شکر ہے کہ قوم اب ان جھوٹے دعوؤں، بے بنیاد پروپیگنڈوں اور شوشہ بازی کو سمجھ چکی ہے اور اس سے عاجز بھی آ چکی ہے۔ پے در پے غلط بیانیوں سے اس جماعت کا پول کھل رہا ہے کہ اس کے پاس ملک و قوم کی بھلائی یا فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ عام آدمی جان چکا ہے کہ نااہلیوں کی تاریخ رقم کرنے والے سیاسی، معاشی، انتظامی، آئینی اور قانونی تمام محاذوں پر ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ خفت مٹانے کیلئے روز نت نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔

District Bajaur climate change

باجوڑ میں ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات: پانی کی قلت، گرمی کی لہریں اور زرعی زوال

باجوڑ، جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار بنتا جا رہا ہے۔ یہاں پانی کی شدید قلت، بڑھتی ہوئی گرمی کی لہریں، اور زراعت کی گرتی ہوئی پیداوار مقامی لوگوں کے لیے بڑے چیلنج بن چکے ہیں۔ دریا رود اور ماموند، جو کبھی مقامی زندگی کی روانی کی علامت تھے، اب خشک ہونے کے دہانے پر ہیں۔

یہ بحران صرف بارشوں کی کمی کا نتیجہ نہیں بلکہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور قدرتی چشموں کے خشک ہونے نے بھی حالات کو بدترین بنا دیا ہے۔ مقامی بزرگ، عجب خان کاکا، جن کی عمر ستر سال ہے، اپنے علاقے کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں:
“ہمارے کنووں کا پانی 32 فٹ نیچے جا چکا ہے، اور دریا رود و ماموند میں پانی کا بہاؤ 70 فیصد تک کم ہو گیا ہے۔ درخت کٹ چکے ہیں، اور زمین میں نمی باقی نہیں رہی۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ دس سال میں ہمارے کنویں بھی خشک ہو جائیں گے۔ کبھی جو دریا ہماری شان ہوا کرتے تھے، اب زندگی کی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔”

اسی طرح، اشنا باجوری، جو ایک تجربہ کار زمیندار ہیں، زرعی زوال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
“صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ پانی کی کمی اور شدید گرمی کی وجہ سے فصلیں اگانا مشکل ہو چکا ہے۔ اوپر سے زرخیز زرعی زمین پر مکان بن رہے ہیں۔ اگر یہ روش نہ روکی گئی تو باجوڑ کی زرعی پہچان ختم ہو جائے گی۔ حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہماری زمینیں اور روزگار بچ سکیں۔”

گرمی کی لہروں میں اضافہ ایک اور تشویشناک مسئلہ ہے۔ موسم کی شدت اور بے وقت بارشوں نے کسانوں کو پریشان کر دیا ہے، کئی لوگ تو زراعت چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کا پھیلاؤ زرخیز زمین کو نگلتا جا رہا ہے، جس سے زراعت کے لیے جگہ مزید کم ہو رہی ہے۔

ماہرین اور مقامی افراد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اب تاخیر کی گنجائش نہیں۔ فوری طور پر بڑے پیمانے پر شجر کاری مہم کی ضرورت ہے تاکہ زمین میں نمی برقرار رہے، کٹاؤ رُکے، اور موسم میں توازن پیدا ہو۔ ساتھ ہی حکومت کو سخت پالیسیز لاگو کرنی چاہییں تاکہ زرعی زمین کو رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔

ایک اور تجویز یہ ہے کہ رہائش کے لیے پہاڑی علاقوں کو ترجیح دی جائے، تاکہ میدانی زرعی زمین بچائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ازحد ضروری ہے تاکہ آبپاشی کے لیے پانی کا ذخیرہ کیا جا سکے اور فصلیں سیراب رہیں۔

عجب خان کاکا اور اشنا باجوری جیسے لوگوں کی آوازیں ہمیں جھنجھوڑتی ہیں کہ اگر اب بھی اقدامات نہ کیے گئے، تو باجوڑ اپنے دریا، اپنی زراعت، اور ماحولیاتی طاقت کھو دے گا۔ حکومت کو فوراً اقدامات اُٹھانے ہوں گے تاکہ اس علاقے کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔