Screenshot_10

اعظم سواتی کے انکشافات اور مخصوص پارٹی کا طرز عمل

عقیل یوسفزئی
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ وہ قرآن مجید پر حلف اٹھانے اور قسم کھانے کو تیار ہیں کہ ان کے لیڈر عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ان کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل یا مفاہمت کا ٹاسک دیا تھا اور دونوں کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات درست ہو۔ ان کے بقول مفاہمت کی ایسی کوششیں ان کے علاوہ متعدد دیگر نے بھی کی ہیں اور یہ سب کچھ عمران خان کی خواہش اور ہدایت کے مطابق ہوتا رہا ہے۔

اعظم سواتی کے اس موقف یا بیان کے بعد بیرون ملک بھیٹے یوٹیوبرز اور ریاست مخالف ” کی بورڈ واریئرز” نے حسب معمول اتنے سینئر رہنما کو ریاستی اداروں کا ” ایجنٹ” قرار دیتے ہوئے ان کی ٹرولنگ شروع کردی حالانکہ تمام باخبر حلقوں کو یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ عمران خان پہلے دن سے ڈیلنگ یا باالفاظ دیگر مفاہمت کی نہ صرف ہر سطح پر کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ اس تمام صورتحال کے تناظر میں سب سے بنیادی کردار خیبرپختونخوا کے ان کی اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ہی کرتے آرہے ہیں اور جب بھی ان کوششوں کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوئے خان صاحب ان پر مختلف اوقات میں غصہ اتارتے رہے ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے سربراہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بوجوہ کشیدگی موجود ہے تو اس کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر پشیمان ہونے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے ؟ مختلف ادوار میں ایسے مراحل آتے رہے ہیں اور مفاہمت کی کوششوں سے فریقین میں تلخیاں ختم ہونے کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔ اگر پی ٹی آئی ایسا کچھ کرتی آرہی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟

المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ابتداء ہی سے ریاست اور مخالفین کے خلاف مزاحمت یا مخالفت کی بجائے بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو سولی پر چڑھانے کی پالیسی اپناکر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماردی ہے اور عمران خان صاحب بھی اسی رویہ کی قیمت چکارہے ہیں۔

اب بھی وقت کی ذاتیات کی بجائے ” سیاسیات” کا راستہ اختیار کرتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے اور مسائل کے حل کے امکانات ڈھونڈے جائیں۔
( 7 اپریل 2024 )

Illegal supply of modern weapons to areas bordering Afghanistan

افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں جدید اسلحے کی غیر قانونی ترسیل

افغانستان میں برسوں سے جاری جنگوں کے دوران چھوڑے گئے سویت، امریکی اور نیٹو اسلحے کی رسائی اب بھی جاری ہے، نہ صرف افغان مشرقی صوبوں میں بلکہ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی۔ اگرچہ طالبان حکومت نے اسلحے کی ترسیل پر بظاہر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس غیر قانونی بہاؤ کو روکنے میں ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

اسمال آرمز سروے (Small Arms Survey) کی جانب سے جاری کردہ تازہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں سابقہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کو دیے گئے ہتھیاروں اور گولہ بارود اب غیر رسمی ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ تحقیق 2022 سے 2024 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں واقع غیر قانونی اسلحہ مارکیٹوں میں کی جانے والی فیلڈ ریسرچ پر مبنی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سابقہ حکومت کے ہتھیاروں کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، اور شہریوں کو اسلحے تک رسائی محدود کر دی گئی۔ تاہم، طالبان اہلکاروں کی مبینہ چشم پوشی سے اسمگلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دیے گئے شدت پسند گروہ، جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ شامل ہیں، نہ صرف اسلحے کے حصول میں سرگرم ہیں بلکہ انہیں افغان حکام کی طرف سے مسلسل اسلحہ فراہم بھی کیا جا رہا ہے۔

تحقیق کے مطابق، طالبان کے دہشتگرد نیٹ ورکس اور سرحد پار روابط نے اسمگلنگ کو روکنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سرحدی علاقوں میں قائم اسلحہ مارکیٹیں اس پیچیدگی کی واضح مثال ہیں۔ اس غیر قانونی تجارت میں مقامی طالبان عناصر، پرانے اسمگلنگ نیٹ ورکس اور سابقہ شورشوں کے دوران اسلحے کے خرید و فروخت میں سرگرم افراد شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے اختتام کے بعد سے افغانستان اور پاکستان میں اسلحے کی قیمتوں میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ افغان صوبوں میں قیمتوں میں خاصا اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جبکہ پاکستان میں قیمتیں نسبتاً مستحکم رہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان کے پکتیکا صوبے میں امریکی ساختہ ایم 4 رائفل کی قیمت 2,219 امریکی ڈالر جبکہ خوست میں یہی رائفل 4,817 ڈالر تک فروخت ہو رہی ہے۔ ننگرہار میں اسلحے کی قیمتیں خوست کے برابر ہیں جہاں ایم 4 کی کم از کم قیمت 4,379 ڈالر جبکہ کلاشنکوف طرز رائفل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1,386 ڈالر ریکارڈ کی گئی۔

پاکستانی سرحد کے قریب واقع ننگرہار کے ضلع دربابا میں ایک ایم 4 رائفل 3,722 ڈالر میں جبکہ مقامی ساختہ کلاشنکوف محض 218 ڈالر میں دستیاب ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں نیٹو اور سوویت طرز کے ہتھیاروں کی قیمتیں کافی حد تک مستحکم ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن ’عزمِ استحکام‘ کا ان قیمتوں پر براہِ راست کوئی اثر نظر نہیں آتا، لیکن مقامی ذرائع کے مطابق اسلحہ ڈیلر ممکنہ گرفتاریوں اور ضبطی کے خطرے کے باعث نیٹو ساختہ اسلحے کی کھلے عام نمائش سے گریز کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کچھ رجحانات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مثلاً 2022 کے آخر سے 2024 کے وسط تک ننگرہار اور کنڑ میں ایم 4 رائفل کی قیمت میں 13 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کی اوسط قیمت 1,787 ڈالر سے بڑھ کر 3,813 ڈالر ہو گئی۔ اسی عرصے میں ایم 16 رائفلز کی فروخت میں 38 فیصد اضافہ ہوا، جس کی قیمت 1,020 سے بڑھ کر 2,434 ڈالر تک جا پہنچی۔ اس رجحان کو محدود رسد اور بڑھتی ہوئی طلب کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

اس کے برعکس، اے کے پیٹرن رائفلز اور آر پی جی لانچرز کی قیمتوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا جبکہ چینی ساختہ ٹائپ 56 رائفلز کی قیمتیں کم ہوئیں۔ رپورٹ میں نائٹ ویژن ڈیوائسز کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، جو 2,575 ڈالر سے گھٹ کر محض 781 ڈالر رہ گئی ہیں، یعنی تقریباً 70 فیصد کمی۔

رپورٹ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ اسلحے کی غیر قانونی دستیابی نہ صرف سکیورٹی اداروں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سنگین چیلنج بنی ہوئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغانستان میں سیاسی غیر یقینی اور سرحدی کشیدگی بدستور قائم ہے۔

Screenshot_13

خیبر پختونخوا میں پائیدار امن کے لیے قومی حکمت عملی ضروری ہے، آئی پی آر آئی سیمینار

اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کے زیر اہتمام خیبر پختونخوا میں سلامتی، حکمرانی اور سماجی و سیاسی چیلنجز پر ایک اہم سیمینار منعقد ہوا، جس میں ممتاز ماہرین، سابق سرکاری افسران، صحافیوں، دانشوروں اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔

سیمینار کا افتتاح آئی پی آر آئی کے صدر، سفیر ڈاکٹر رضا محمد نے کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے پیچیدہ حالات ایک جامع اور مربوط قومی حکمت عملی کے متقاضی ہیں۔

تقریب کے مہمان خصوصی، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دیں اور ہمیشہ ریاست کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا۔

سیمینار کے پہلے سیشن کی صدارت آئی پی آر آئی کے ڈائریکٹر ریسرچ بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ نے کی۔ مشیر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، ایڈووکیٹ محمد علی سیف نے اپنے خطاب میں مؤثر حکمرانی، سیاسی استحکام، قانون سازی اور مقامی حکومتوں کے نظام کو دہشت گردی کے خلاف اہم ہتھیار قرار دیا۔

سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا، امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ صوبے کے عوام نے ہمیشہ شدت پسندی کو مسترد کیا ہے، اور قومی سلامتی کی ذمہ داری وفاق اور صوبوں کو مشترکہ طور پر نبھانی چاہیے۔

یونیورسٹی آف ملاکنڈ کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین، ڈاکٹر مراد علی نے سکیورٹی اور ترقی کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غربت، بے روزگاری اور محرومی شدت پسندی کو جنم دیتی ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سوال و جواب کے سیشن میں شرکا نے مقررین سے کھل کر سوالات کیے۔

سیمینار کے دوسرے سیشن میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات، دہشت گردی کے اثرات اور ریاست و میڈیا کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

سابق سفیر محمد ساجد نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی حالیہ سرگرمیاں ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں، اور اس کے مقابلے کے لیے افغانستان کے ساتھ مسلسل روابط اور قومی سلامتی پالیسی میں واضح حکمت عملی ناگزیر ہے۔

سینئر صحافی سلیم صافی نے طالبان کے بیانیے کی تشکیل میں ایف ایم ریڈیوز اور غیر ملکی میڈیا کے کردار کو اہم قرار دیا۔ سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنما عرفان نے شدت پسندی کے نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات پر روشنی ڈالی۔

مولانا طیب قریشی نے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف مؤثر بیانیہ صرف ریاستی سطح پر نہیں بلکہ مذہبی قیادت کی شراکت سے ہی ممکن ہے، اور دینی مدارس کو اس بیانیے کی قیادت کرنی چاہیے۔

انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا پولیس نے سکیورٹی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو قانونی، انتظامی اور عدالتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد، پولیس اصلاحات اور دینی مدارس کے ساتھ مؤثر شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا۔

تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خیبر پختونخوا میں پائیدار امن اور ترقی کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات، مؤثر پالیسی سازی اور تمام فریقین کی مشترکہ شمولیت ضروری ہے۔