وصال محمد خان
خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت میں اختلافات
خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت آئے روز خبروں کی زینت بنی رہتی ہے۔ ‘‘کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں بھی جنوں کے آثار۔۔ اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں’’ کے مصداق کچھ تو پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کچھ خبروں میں نمایاں مقام پانے کیلئے ان اختلافات کو ہوا بھی دی جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عام انتخابات کے وقت شہرام ترکئی، اسد قیصر اور عاطف خان کو عمران خان کی منشا کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس جاری نہیں کئے گئے کیونکہ یہ لوگ سازشی ہیں اور انہوں نے صوبائی اسمبلی میں بھی سازشیں کرنی تھیں۔ جس سے ان کا واضح مقصد یہی تھا کہ انہیں بانی پی ٹی آئی کی حمایت انتخابات سے قبل ہی حاصل تھی اور ان کی وزارت اعلیٰ کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ویسے تو اس میں انکشاف یا چونکا دینے والی کوئی بات موجود نہیں تھی کیونکہ انتخابات سے قبل مذکورہ بالا افراد کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس جاری نہ کرنے کا یہی مقصد تھا کہ انہیں صوبائی اسمبلی سے باہر رکھنا تھا اور جب اسمبلی میں کوئی ہیوی ویٹ موجود نہیں ہوگا تو جس کے سر پر بانی ہاتھ رکھیں گے وہی وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگا۔ اور یہ بات شائد ان افراد کو بھی اچھی طرح معلوم تھی مگر ان کا غصہ سازشی قرار دینے پر ہے۔
اسی لئے ان تینوں نے ایک تو وزیراعلیٰ کے باتوں کی تردید کر دی دوسرے ان کا کہنا تھا کہ وہ بانی سے کہیں گے کہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے چھوڑے گئے نئے شوشے کی تحقیقات کروائی جائے حالانکہ اس میں تحقیقات والی کوئی بات نہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل جب عاطف خان نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ مانگا تو عمران خان نے ان سے کہا کہ قومی اسمبلی والی ٹکٹ بھی واپس لی جا سکتی ہے جس پر انہوں نے چپ سادھ لی۔ اس طرح جب جنید اکبر کو صوبائی صدارت سونپ دی گئی اس وقت بھی علی امین گنڈاپور کی رخصتی کی خبریں گرم ہوئیں بلکہ عاطف خان کو کوئی صوبائی نشست خالی کرکے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب کروانے کے بعد وزارت اعلیٰ سونپ دینے کی باتیں بھی گردش کرنے لگیں۔
بعدازاں سپیکر بابر سلیم سواتی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ سونپنے کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ جن کی تدارک کیلئے ان کے خلاف سازشوں کے ایسے جال بنے گئے کہ انہیں سپیکر کے عہدے سے بھی ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں اگر ان کا نام بطور وزیر اعلیٰ سامنے نہ آتا تو وہ آرام سے اپنے عہدے پر بدستور فائز رہتے۔
عید کے موقع پر اعظم سواتی کی عمران خان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد انہوں نے سپیکر کے استعفیٰ کی بات چھیڑ دی اور چند دن تک اس کی گردان کی گئی مگر سپیکر نے خاموشی اختیار کرکے تمام معاملات بانی کے علم میں لانے کا فیصلہ کیا۔
کچھ روز تک وزیراعلیٰ، اسد قیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی اور تیمور سلیم جھگڑا کے درمیان لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔ جس پر پارٹی قائدین سرگرم ہوئے اور چیئرمین گوہر خان نے فریقین کو بیان بازی سے روک کر ان کے درمیان راضی نامہ کروانے کا ڈول ڈالا۔ یہ راضی نامہ تاحال عمل میں نہیں آیا مگر شنید ہے کہ بہت جلد ان سب کو ایک ساتھ بٹھا کر گلے شکوے دور کر دئیے جائیں گے اس طرح چائے کی پیالی میں طوفان سے مشابہہ مبینہ اختلافات کا خاتمہ ہو جائے گا اور سب پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔
بین الاقوامی کانفرنس اور معدنیات سے متعلق قانون سازی
وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں بین الاقوامی منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس منعقد کی جس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو پاکستان میں معدنیات کی تلاش پر آمادہ کرنا اور سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا تھا۔
کانفرنس میں چونکہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجود تھے، خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ جب تک عمران خان رہا نہیں ہو جاتے تب تک صوبائی اسمبلی سے معدنیات کے حوالے سے قانون سازی مؤخر کی جائے جس پر صوبے کے فہمیدہ حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی کانفرنس میں ہونے والی مفاہمتی یادداشتوں پر عملدرآمد کیلئے قانونسازی درکار ہے۔
صوبے میں چونکہ ایک منتخب صوبائی اسمبلی اور حکومت موجود ہے اس لئے قومی مفاد سے وابستہ معاملے کو مؤخر کیا جانا صوبے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ حکومتی امور کو کسی سیاستدان کی رہائی سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔
امتحانات کا آغاز، چیلنجز اور انتظامی اقدامات
صوبے کے 8 تعلیمی بورڈز کے تحت نویں اور دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات کا آغاز ہو چکا ہے۔ جس میں 9 لاکھ 20 ہزار طلبہ و طالبات حصہ لے رہے ہیں۔
صوبے کی تاریخ میں پہلی بار نجی سکولوں کے طلبہ و طالبات کو بھی سرکاری سکولوں کے امتحانی مراکز میں امتحان دینا پڑ رہا ہے۔ امتحانی ہالز کے قریبی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے اور پاکٹ گائیڈز پر مکمل پابندی ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ نجی اور سرکاری سکولوں کے بچوں میں تفریق کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، نجی سکولوں کی جانب سے امتحان ہالز کی خریدوفروخت کا راستہ بھی روک دیا گیا ہے۔ نجی سکولوں کے بچوں کو سرکاری ہالز میں کھپانے کا تجربہ مشکلات کا سبب بنے گا تاہم اگر یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہا تو بتدریج مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔
دوسری جانب نقل اور بوٹی مافیا کے خاتمے کیلئے بورڈز کی جانب سے بنائی گئی چھاپہ مار ٹیموں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ بھی سرگرم ہے۔ اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنرز چھاپوں کے دوران اپنے مسلح گارڈز کے ساتھ سکولز اور ہالز میں گھس جاتے ہیں جس سے نہ صرف بچوں پر دباؤ پڑتا ہے بلکہ ان چھاپہ مار ٹیموں کے باعث وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔
کسی بچے سے نقل برآمد ہونے کی صورت میں اس کی تصویر یا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جاتی ہے جس سے بچے ذہنی اذیت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بجلی لوڈشیڈنگ اور گرمی کے سبب بھی طلبہ و طالبات شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
بلدیاتی نمائندوں کی توسیع کیلئے عدالت سے رجوع
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں نے تین سالہ توسیع کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے صدر حمایت اللہ مایار اور 29 ناظمین نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ عوام نے بلدیاتی انتخابات کے دوران براہ راست ووٹ سے منتخب کیا۔
صوبائی حکومت نے فنڈز اور اختیارات دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم ان کے اختیارات اور فنڈز چھین لئے گئے۔ حکومت بار بار لوکل کونسلز ایکٹ کے شقوں کی خلاف ورزی کر چکی ہے، بہت سے ناظمین کو تین سال میں کوئی فنڈز فراہم نہیں کیا گیا، گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر بھی معطل کیا گیا۔
اس لئے عدالت سے استدعا ہے کہ انہیں تین سال کی توسیع دی جائے اور حکومت کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز فراہم کرے۔ ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے ایڈوکیٹ جنرل کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل پیش کرنے کے احکامات دیتے ہوئے سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی۔
افغان مہاجرین کی بے دخلی
یکم اپریل سے طورخم کے راستے افغان مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 11 ہزار تین سو 71 افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کی 30 جون تک زبردستی بے دخلی روک دی ہے۔ اور اس حوالے سے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ‘‘ وہ وفاقی حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے یقینی بنائیں کہ کسی بھی پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندے کو بے دخل نہ کیا جائے، وفاقی حکومت گزشتہ سال پی او آر کارڈ رکھنے والوں کو 30 جون 2025ء تک رہنے کی اجازت دے چکی ہے، ضلعی انتظامیہ اور پولیس انہیں ہراساں اور بیجا تنگ نہ کریں’’۔