معدنیات پر سیاست

منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس: ایک مثبت پیش رفت

وفاقی حکومت اور ایس ایف آئی سی کے تحت اسلام آباد میں منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس کے نتائج حوصلہ افزا رہے۔ غیرملکی کمپنیوں نے درجنوں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے، جس کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان مفاہمتی یادداشتوں کو باقاعدہ معاہدوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے۔

پاکستان کا معاشی بحران اور وجوہات

اس امر سے کون انکار کرسکتا ہے کہ وطن عزیز گزشتہ چند برسوں سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک پر جب معاشی بحران کا دباؤ بڑھتا ہے تو عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ بات شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ عمران خان کی گزشتہ حکومت نے اپنے غلط سلط فیصلوں اور نااہلی سے ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچا دیا تھا، مگر پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر اس خطرے کو ٹال دیا۔

آمدن اور بیرونی ادائیگیوں کا توازن بگڑنے پر ہم جیسے ممالک کے پاس یہی آپشنز ہوتے ہیں کہ ہم اپنی صنعتی، زرعی پیداوار اور برآمدات بڑھا کر معاشی بحران پر قابو پا سکتے ہیں اور مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط سے بچ سکتے ہیں۔ مگر زرعی اور صنعتی پیداوار میں انقلاب کے بغیر یہ بھی ممکن نہیں۔

زرعی شعبے میں مسائل

ہمارے ہاں زراعت کے وہی پرانے اور متروک طریقے رائج ہیں اور اس سلسلے میں جدت لانے کے لیے کسان یا حکومتوں کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ ہمارا زرعی شعبہ ایک تو کاشت کے پرانے طریقوں کو سینے لگائے ہوئے ہے، دوسرے کس موسم میں کون سی جنس کاشت کی جائے، اس حوالے سے بھی بھیڑ چال کا شکار ہے۔

کسی برس گندم کی قیمت بڑھتی ہے تو اگلے سال تمام کسان گندم کاشت کر لیتے ہیں جس سے قیمت گر جاتی ہے اور کسان سمیت غلے سے وابستہ دیگر افراد بھی مالی نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی چیز کی قیمت ایک موسم میں سو روپے کلو ہوتی ہے تو اگلے سال کسان اسے اس قدر زیادہ مقدار میں کاشت کر لیتا ہے کہ گزشتہ برس سو روپے کلو والی جنس کی قیمت دس روپے کلو تک گر جاتی ہے۔

صنعتی شعبے کی کمزوری

صنعت تو ہماری اس قابل نہیں کہ وہ کوئی چیز برآمد کر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سامان کرے۔ ہمارے پاس معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں، اس لیے اس شعبے سے امید باندھی جا سکتی ہے کہ اس پر بھرپور توجہ دے کر ہم معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

منرلز کانفرنس کے بعد سیاسی تنازعات

مگر جب سے منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں صوبائی حکومتوں کو قانون سازی کی ہدایت دی گئی ہے، تب سے کچھ سیاسی عناصر نے اس کے خلاف میدان گرم رکھا ہے اور اس حساس معاملے پر سیاسی بیان بازی کا ایک بازار گرم ہو چکا ہے۔

اس سلسلے کا آغاز عمران خان کی بہن علیمہ خان کے اس بیان سے ہوا جس میں انہوں نے صوبائی حکومت کو منرلز بل عمران خان کی رہائی تک مؤخر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد صوبائی حکومت بل کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہی ہے مگر پی ٹی آئی کے دیگر راہنما اس حوالے سے یکسر مختلف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان بھی اس پر سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد معدنیات صوبائی معاملہ ہے اور اس پر وفاقی حکومت کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔

صوبائی استعداد اور معدنی وسائل کا ضیاع

اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبے خودمختار ہو چکے ہیں اور بہت سے معاملات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، مگر صوبے ان معاملات اور محکمہ جات کو ڈیل کرنے کی اہلیت سے عاری ہیں۔ یہاں معدنیات کے جو ٹھیکے مقامی افراد یا کمپنیوں کو دیے گئے ہیں وہ پرانے اور روایتی طریقوں سے کان کنی کر رہے ہیں، جس سے ایک تو معدنیات کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے، دوسرے اس سے صوبے کا فائدہ بہت ہی کم ہے۔

اگر کوئی فرد یا کمپنی ماربل کے لیے ایک کروڑ روپے کا پتھر نکالتے ہیں تو ان میں حکومت کے ہاتھ بمشکل دو چار لاکھ روپے آتے ہیں۔ مائننگ کے جو فرسودہ طریقے ہمارے ہاں رائج ہیں، اس سے ایک تو خام مال کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے، دوسرے اس سے ماحول پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری اور جدت کی اہمیت

اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری اور کمپنیاں آنے سے ایک تو خام مال کا ضیاع رک جائے گا، دوسرے اس شعبے میں جدت آنے کے قوی امکانات ہیں۔ بیرونی کمپنیاں ماحول دوست اور جدید طریقوں سے مائننگ کرتی ہیں، ان کے پاس جدید اور ضروری مشینری موجود ہوتی ہے، تربیت یافتہ افرادی قوت کا ساتھ میسر ہوتا ہے اور انہیں ہر اس کام میں مہارت ہوتی ہے جس میں وہ ہاتھ ڈالتے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے۔ تربیت یافتہ افراد، سرمائے اور مشینری کی عدم دستیابی کے باعث گزشتہ اٹھتر برسوں میں ہم اپنے قدرتی وسائل اور معدنیات سے وہ فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے جس سے معاشی بحران پر قابو پا کر ملکی دولت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

یعنی قدرت نے ہمیں جن بے پناہ وسائل سے نواز رکھا ہے، ہم اس کا مفید استعمال کرنے سے قاصر ہیں کہ قرض کی لعنت سے چھٹکارا پائیں اور خودانحصاری کی منزل حاصل کر سکیں۔

حکومتی اقدامات اور مستقبل کی امید

موجودہ حکومت نے زراعت اور صنعت پر توجہ دینے اور ان شعبوں میں جدت لانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح اب معدنیات پر بھی توجہ دی جا رہی ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، ہمارے ہاں ہونے والی مائننگ یا معدنیات کی تلاش کا کام فرسودہ طریقوں سے ہو رہا ہے جس سے قدرتی وسائل ضائع ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں موجودہ حکومت اور ایس آئی ایف سی کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ اس شعبے میں بیرونی کمپنیوں، سرمائے اور مہارت کے آجانے سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی یقینی ہے اور ہم مالی و معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں۔

قومی مفاد میں سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت

سیاسی قوتوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے یہ اہم معاملہ سیاست کی نذر کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ حکومت ان تمام سیاسی قوتوں کو بٹھا کر قائل کر سکتی ہے جو اس حساس معاملے پر سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور حقیقی صورتحال کی بجائے منرلز انویسٹمنٹ کانفرنس کی من پسند تشریح کر رہے ہیں۔

ہم اپنی قدموں کے نیچے بے پناہ دولت رکھنے کے باوجود مالیاتی اداروں کی ذلت آمیز شرائط قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ سیاسی قیادت معدنیات پر سیاست کی بجائے مثبت سوچ اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرے اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دے۔

وصال محمد خان

11 people, including 4 Pakistanis, die in Libyan boat sinking

لیبیا کشتی ڈوبنے سے 11 افراد جاں بحق، 4 پاکستانی بھی شامل

لیبیا میں تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی ہے، حادثے میں گیارہ نعشیں نکال لی گئی ہیں،جن میں سے چار کی پاکستانیوں کے طور پر شناخت کر لی گئی ہے۔ لیبیا میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لیبیا کے مشرقی علاقے میں سیریت شہر کے قریب ہراوا کوسٹ میں کشتی کو حادثہ12اپریل کو پیش آیا۔ حادثے کے مقام سے اب تک گیارہ نعشیں نکالی جاچکی ہیں جن میں سے چار پاکستانیوں کی ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کی ایک ٹیم نے سیریت شہر کا دورہ کر کے واقعہ کی معلومات حاصل کیں اور قومی دستاویزات سے چار نعشوں کی پاکستانیوں کے طور پر شناخت کر لی ہے۔ ان میں سے تین کا تعلق منڈی بہاؤالدین اور ایک کا گوجرانوالہ سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق زاہد محمود ولد لیاقت علی کا تعلق گوجرانوالہ جبکہ سمیر علی ولد راجہ عبدالقدیر،سید علی حسین ولد شفقت الحسنین اورآصف علی ولد نذرمحمد کا تعلق منڈی بہاوالدین سے ہے۔ اس کے علاوہ دو نعشوں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی،پانچ نعشیں مصری شہریوں کی ہیں۔ پاکستانی سفارتخانہ حادثے کے متعلق مزید معلومات کیلئے مقامی حکام سے رابطے میں ہے۔