Pakistan's stand against Indian aggression

بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی صف بندی

عقیل یوسفزئی
گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نیوی کے بعض افسران سمیت دو درجن کے لگ بھگ افراد ہلاک جبکہ 12 زخمی ہوئے ۔ حملے کی پوری تفصیلات ابھی سامنے آئی بھی نہیں تھیں کہ بھارتی میڈیا نے اس کی زمہ داری منٹوں کے اندر پاکستان پر ڈالتے ہوئے یکطرفہ پروپیگنڈا کی باقاعدہ مہم شروع کردی ۔ راء سے جڑی ایکس اکاؤنٹس نے پرانی اور ویڈیو شاپ ویڈیوز اور فوٹوز کے ذریعے بھارتی حکومت سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ کرنے کی مہم چلائی حالانکہ اپوزیشن لیڈر راھول گاندھی اور متعدد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس واقعے کو انٹلیجنس ایجنسیوں اور حکومت کی نااہلی ، ناکامی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ بیانات جاری کئے اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے ۔ حملے کے بعد جب عالمی میڈیا کے نمائندوں کی ٹیمیں پہلگام پہنچ گئیں تو حکام نہ ان کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اور عوام سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی ۔
حملے کے وقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے حالانکہ عین اسی دوران ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد دہلی میں موجود تھا ۔ مودی نے دورہ مختصر کرکے دہلی ایئر پورٹ ہی پر ہی ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جبکہ ایک اور اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ کسی تحقیق کے بغیر بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے متعدد ایسے فیصلے کئے جن پر عالمی ماہرین نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے متعدد سوالات اٹھائے ۔ ان اقدامات میں 1960 کو دریاؤں کی تقسیم کا ” سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ منسوخی بھی شامل ہے حالانکہ اس کی منسوخی کے لیے نہ صرف دونوں فریقین کی رضامندی لازمی ہے بلکہ ضامن کے طور پر ورلڈ بینک کی منظوری بھی ضروری ہے ۔ واہگہ بارڈر بند کرنے سمیت پاکستانی سفارتی عملے میں کمی اور پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی جیسے اقدامات بھی کئے گئے جس کے ردعمل میں پاکستان نے واضح کردیا کہ وہ کسی بھی قسم کے اقدام اور کارروائی کا بھرپور جواب دے گا اور یہ کہ بھارت اپنی سیکیورٹی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے روایتی طریقے پر عمل پیرا ہے ۔ بی بی سی سمیت متعدد اہم عالمی میڈیا ہاؤسز نے بھارتی طرزِ عمل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خدشات ظاہر کیے مگر دوسری جانب سے کوشش کی گئی کہ بھارتی حکومت کو کسی جنگی مہم جوئی پر مجبور کیا جائے ۔
پاکستان کے ریاستی اداروں ، اہم سیاسی قائدین اور قومی میڈیا نے اس جارحانہ طرزِ عمل پر ٹھوس دلائل کی بنیاد پر متفقہ آراء اپناتے ہوئے جذباتیت کی بجائے واقعات کے تناظر میں جینوئن سوالات اٹھائے اور ایک پیج پر رہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارتی پروپیگنڈا اور جارحانہ طرزِ عمل کے خلاف متحد رہ کر لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا ۔ اسی تناظر میں مشاورت کے لیے اسلام آباد میں اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کرلیا گیا جس میں بھارتی ردعمل اور متوقع حالات کے تناظر میں اہم فیصلوں کا جائزہ لیا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دو ممالک کے تعلقات کھبی بھی مثالی نہیں رہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاتے آرہے ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان مذکورہ واقعے میں ایک ایسے وقت میں کیونکر ملوث ہونے کا رسک لے گا جبکہ اسے خود نہ صرف یہ کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سامنا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی دہشت گردی کے معاملے پر اس کے تعلقات کشیدگی کی حد کو چھو رہے ہیں ؟ ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سات سے نو لاکھ تک کی بڑی فوج رکھنے کے باوجود بھارت سے معاملات کنٹرول نہیں ہونے پارہے اور اس قسم کے واقعات سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا فایدہ اٹھا کر بھارت اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔
کچھ عرصہ قبل راہول گاندھی نے اپنے ایک خطاب میں مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی ” جیل ” قرار دیتے ہوئے مودی سرکار کو جاری کشیدگی اور حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جس نے بھارت کے سیکولر امیج کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ متعدد دیگر مین سٹریم لیڈرز بھی حالات کی ذمہ داری مودی سرکار پر ڈالتے آرہے ہیں ۔
دوسری جانب واقعات اور ثبوتوں کے تناظر میں اس حقیقت کو بھی بھارت جھٹلا نہیں سکتا کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی ریاست مخالف سرگرمیوں کی نہ صرف فنڈنگ کرتا آرہا ہے بلکہ حملہ اور قوتوں کو تکنیکی مدد بھی فراہم کرتا ہے اور ان تمام اقدامات کا بھارتی حکام ، ماہرین اور میڈیا کے لوگ آن دی ریکارڈ کریڈٹ بھی لیتے ہیں ۔
حالیہ کشیدگی پر اہم علاقائی اور عالمی قوتیں تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ ان دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی سے پورے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے بعض رپورٹس کے مطابق بعض اہم ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کی بیک ڈور کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور خطے کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ایسے میں لازمی ہے کہ قومی میڈیا کی طرح پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اندرونی معاملات اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی سلامتی کے تقاضوں اور چیلنجز کا ادراک کریں تاکہ ایک قومی بیانیہ کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا جاسکے ۔
( 24 اپریل 2025 )

Another false flag operation by India

بھارت کاایک اورفالس فلیگ آپریشن

پہلگام حملہ: بھارت کا ایک اور فالس فلیگ آپریشن؟

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملے نے ایک بار پھر بھارتی انتہاپسندی اور پاکستان دشمنی کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس دلخراش واقعے میں 27 سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں دو غیر ملکی بھی شامل تھے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حملے کے چند منٹ بعد ہی بھارتی میڈیا اور انتہاپسند سیاستدانوں نے بغیر کسی تحقیق کے روایتی روش اختیار کرتے ہوئے الزام پاکستان پر دھر دیا۔

یہ بھارت کا پرانا وطیرہ ہے کہ جب بھی وہاں کسی قسم کا دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے، تو بغیر کسی ثبوت کے اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جاتی ہے۔ حالانکہ خود پاکستان اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے اور بھارتی حمایت یافتہ گروہ اس کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے پیچھے بھی بھارت اور افغانستان کے روابط کے شواہد موجود ہیں۔ متعدد بین الاقوامی رپورٹس اور تھنک ٹینکس اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ بھارت دہشت گرد گروہوں کو مالی و عسکری مدد فراہم کر رہا ہے۔

داعش جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ حتیٰ کہ کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے کردار پر کھل کر انگلیاں اٹھائی جا چکی ہیں۔

پہلگام واقعے کے محض تین منٹ بعد بھارتی میڈیا، ریٹائرڈ فوجی افسران اور سیاستدانوں نے بیک زبان پاکستان پر الزام عائد کیا، حالانکہ یہ سوچنا بھی حیران کن ہے کہ آٹھ لاکھ فوج کی موجودگی میں چند افراد چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اتنی بڑی کارروائی کیسے کر سکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی پذیرائی، دہشت گردی کے خلاف مؤقف کی قبولیت اور معاشی بہتری کو ہضم نہیں کر پا رہا۔ ایسے میں اس کے انتہاپسند عناصر فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کی یہ پالیسی کوئی نئی نہیں۔ ماضی میں بھی کئی بار ایسے واقعات میں بھارت کی بدنیتی سامنے آ چکی ہے، جیسے ابھی نندن کی گرفتاری اور منہ کی کھانے والا واقعہ، جو انتہاپسند بھارتی قیادت کیلئے ایک واضح سبق ہونا چاہیے تھا۔

بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر نہ صرف پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دی گئیں بلکہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے، واہگہ-اٹاری بارڈر بند کرنے، پاکستانیوں کو دو دن میں بھارت چھوڑنے اور سفارتی عملے کی واپسی جیسے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پاکستان کی طرف سے دی گئی مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کو قبول کرے تاکہ حقائق منظر عام پر آ سکیں۔ محض الزامات لگانے سے سچ چھپایا نہیں جا سکتا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کی انتہاپسند قیادت نہ صرف پاکستان کو نیچا دکھانے کی خواہاں ہے بلکہ خطے میں امن و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ جنگ و جدل سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، اور نہ ہی ہمسائے بدلے جا سکتے ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اور پاکستان سے دیرینہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔

پہلگام واقعہ ایک اور فالس فلیگ آپریشن ہے جس کا مقصد دنیا کو گمراہ کرنا اور پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرنا ہے۔ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے۔ ایسے خود ساختہ ڈرامے اب مزید کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اس حقیقت کو تسلیم کرے اور نفرت و دشمنی کی بجائے امن و ترقی کے سفر میں پاکستان کا ساتھ دے۔

Screenshot_2

سیاست کے نرالے انداز

سیاست، جمہوریت اور قومی ترقی

دنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت رائج ہے، وہاں سیاستدان بھی موجود ہوتے ہیں، سیاست بھی ہوتی ہے اور سیاست چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ جہاں سیاستدان دانشمندی، تدبر اور حب الوطنی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں، وہاں نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوتی ہے بلکہ وہ ممالک ترقی اور خوشحالی کی منازل بھی طے کرتے ہیں۔ وہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات میسر آتی ہیں اور ان کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جہاں سیاستدان ذاتی انا کے خول میں قید، عقل و شعور سے عاری اور حب الوطنی کے مفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں، وہاں نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ ترقی بھی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے ممالک کے عوام نہ صرف سہولیات سے محروم رہتے ہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، قرضوں تلے دبے ہوتے ہیں اور آمدن کا بڑا حصہ سود کی نذر ہو جاتا ہے۔

جمہوریت کو انتقال اقتدار کا بہترین ذریعہ اسی لیے سمجھا گیا کہ ہوش و حواس کے ساتھ کیے گئے فیصلے عوام کی فلاح کا باعث بنتے ہیں، مگر افسوس کہ ہمارے وطن عزیز میں اب تک سیاستدان وہ بالغ نظری نہیں دکھا سکے جو قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے درکار ہے۔

آبی وسائل اور سیاسی رویے

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں گلیشیئرز اور دریا قدرت کا عطیہ ہیں، وہاں پانی کی بچت اور استعمال کے لیے ڈیمز اور بیراج جیسے منصوبوں پر سیاستدان متفق نہیں ہو پاتے۔ جب کبھی حکومت کسی ڈیم کی تعمیر کا ارادہ کرتی ہے، تو اس کے سامنے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

بارشوں کے موسم میں بے شمار پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے، حالانکہ اگر اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیمز اور دیگر انتظامات کیے جائیں تو کئی سالوں کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ گلیشیئرز سے پگھلنے والا پانی بھی ضائع ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم اس سے استفادہ کرنے کے لیے کوئی مؤثر نظام نہیں بنا سکے۔

حال ہی میں وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا جس کی قوم پرست جماعتوں نے مخالفت شروع کر دی۔ اس منصوبے کا مقصد ضائع ہوتے پانی کو کارآمد بنانا تھا مگر ہم شاید وہ قوم ہیں جسے پانی کو ضائع کرنے میں سکون ملتا ہے۔

ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر

جب حکومت کوئی بڑی شاہراہ بنانے کا منصوبہ بناتی ہے، تو سیاستدان اس کی مخالفت میں سامنے آ جاتے ہیں۔ نہری نظام ہو یا مائنز اینڈ منرلز بل، ہر ترقیاتی منصوبے کو سیاست زدہ کر کے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے بیانات اور حرکات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قومی ترقی ان کا مقصد نہیں بلکہ صرف اپنی سیاست چمکانا ہی اصل ترجیح ہے۔

ہم بلند آواز میں کہتے ہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ان وسائل کو بروئے کار لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے تو خوشحالی ممکن ہے، مگر ہم ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

زراعت، معدنیات اور خودساختہ دشمنی

اگر ہم پانی کو مؤثر انداز میں استعمال نہیں کریں گے تو زراعت کس طرح ممکن ہو سکے گی؟ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی ترقی کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر رہے۔ ہماری زمینوں کے نیچے جو معدنیات چھپی ہوئی ہیں، اگر انہیں نکالنے کے لیے بیرونی کمپنیوں کی مدد نہ لی گئی تو وہ نعمتیں ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی۔

دوسری طرف، ہمارے سیاستدان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو خطوط لکھ کر مدد سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، نہری منصوبوں پر شور مچاتے ہیں اور ڈیمز کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ بعض سیاستدان تو دہشت گردوں کی حمایت میں بھی بیانات دیتے نظر آتے ہیں تاکہ اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھ سکیں۔

خودکشی پر مبنی طرز سیاست

یہ طرز سیاست نہ صرف ملکی مفاد کے خلاف ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ جب سیاست اس حد تک خود غرضی کا شکار ہو جائے تو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ دشمنی ہم خود اپنے ہی وطن سے کر رہے ہوتے ہیں۔

ایسی سیاست کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے، اور جب وہ مداخلت کرتی ہیں تو یہی سیاستدان ان کے آلہ کار بن کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ اس طرز سیاست سے نہ تو جمہوریت کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی عوام کو۔

اگر ہم واقعی اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نرالے طرز سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔

"Transplant and Implant" Health Card Scheme Launched at Hayatabad Medical Complex

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ’’ٹرانسپلانٹ اینڈ ایمپلانٹ” صحت کارڈ اسکیم کا آغاز

مشیر صحت احتشام علی نے ایم ٹی آئی حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں نیا صحت کارڈ “ٹرانسپلانٹ اینڈ ایمپلانٹ” کا افتتاح کیا. حیات آباد انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں اس سروس کے تحت کڈنی ٹرانسپلانٹ کا آغاز کردیا گیا ہے. اس سروس کے تحت آج دو مریضوں کا گردوں کا ٹرانسپلانٹ بھی ہوگیا ہے. مشیر صحت نے کڈنی ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کی عیادت کی. کڈنی ٹرانسپلانٹ کے مریضوں نے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کا شکریہ ادا کیااور بتایا کہ نیا صحت کارڈ “ ٹرانسپلانٹ اینڈ ایمپلانٹ” سکیم اپنی نوعیت کی واحد سکیم ہے. مشیر صحت احتشام علی کی موجودگی میں سننے بولنے سے قاصر بچوں کو کوائکولر ایمپلانٹ مشینیں لگائی گئیں۔ بچوں میں پہلی دفعہ اردگرد کی آوازیں سن کر قوت سماعت بحال ہوئی۔ آج میری خوشی کی انتہا نہیں، جو بچہ پہلے سن نہیں سکتا تھا آج اس نے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی بدولت آج پہلی دفعہ سن لیا۔ آج سے ان بچوں کی سپیچ تھراپی بھی شروع ہوجائے گی۔ قوت سماعت بہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے بولنے سے بھی قاصر تھے۔ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کا توجہ اس وقت عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ نیا صحت کارڈ “ ٹرانسپلانٹ اینڈ ایمپلانٹ “ سکیم عام آدمی کیلئے نئی زندگی ہے۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ای این ٹی شعبے میں اب تک 15 کوائکولر ایمپلانٹ ہوچکے ہیں۔ کوائکولور ایمپلانٹ نیا صحت کارڈ “ ٹرانسپلانٹ اینڈ ایمپلانٹ” سکیم کا باقاعدہ فیچر بن گیا ہے۔ وہ بچے جو کبھی زندگی بھر سن نہیں سکتے تھے، آج سن اور بول سکتے ہیں۔

Corps Commander Peshawar holds special meeting with elders and youth in Khyber District

ضلع خیبر: کور کمانڈر پشاور کی مشران اور نوجوانوں کے ساتھ خصوصی نشست

ضلع خیبر کے علاقہ باڑہ میں فرنٹیئر کور نارتھ کی جانب سے منعقدہ نشست میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ تقریب میں انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور نارتھ میجر جنرل انجم ریاض، ڈپٹی کمشنر باڑہ، ڈی پی او خیبر اور دیگر اعلی سول و فوجی حکام کے ساتھ بڑی تعداد میں ضلع خیبر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے علاقہ مشران اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ خصوصی نشست میں علاقہ مشران نے امن و امان کے لئے پاک فوج، فرنٹیئر کور نارتھ اور دیگر سیکیورٹی کے اداروں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ امن کے قیام کے لئے قبائلی بھی ان کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

 کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر احمد بخاری نے قبائلی عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام کی قربانیوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے ۔ پاک فوج اور دیگر قانوں نافذ کرنے والے ادارے قبائلی اضلاع میں امن اور ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ اس موقع پر قبائلی مشران اور نوجوانوں نے امن اور ترقی کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کیں۔ قبائلی شرکاء نے نشست کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی نشستوں کے باقاعدہ انعقاد سے قبائلی عوام اور سیکیورٹی اداروں کے مابین ہم آہنگی کو مزید فروغ مل رہا ہے۔