Pahalgam incident

بھارتی جارحیت کے خلاف قومی اتفاق رائے کے تقاضے

عقیل یوسفزئی
پاکستان کی ریاست ، سیاسی قیادت ، قومی میڈیا اور عوام نے بھارتی اقدامات اور مجوزہ جارحیت کے خلاف قومی بیانیہ کے تناظر میں جس یکجھتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش اور وقت کی ضرورت ہیں ۔ بھارت نے حسب روایت بلیم گیم کھیلتے ہوئے پہلگام حملے کی ذمے داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے جس طرح کے اقدامات کیے اور جنگی جنون کو بڑھاوا دینے کی پالیسی اختیار کی اس پر نہ صرف پاکستان نے سخت ترین ردعمل دیا بلکہ عالمی میڈیا اور پاور کاریڈورز میں بھی بھارتی بیانیہ اور طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ایک خالصتاً انٹلیجنس فیلیور یا اپنے پلان کردہ واقعے کو بھارت نے گھٹیا اور غیر سنجیدہ طریقے سے ڈیل کرنے کا جو طریقہ اپنایا وہ اس کے اپنے گلے کا ” پھندا ” ثابت ہونے لگا ہے اور اسی تناظر میں اہم ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مودی سرکار خود کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے پاکستان کے خلاف عسکری جارحیت کا اقدام اٹھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عسکری اداروں نے پہلے ہی سے اپنی تمام درکار اقدامات کیے ہوئے ہیں اور اس تمام صورتحال کے تناظر میں پوری قوم اپنی اندرونی تلخیاں اور اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آگئی ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس اور تجزیوں میں پاکستان کی میچور پالیسی اور موقف کو سراہا جارہا ہے تاہم بھارتی میڈیا نہ صرف یہ کہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈال کر باقاعدہ جنگ کی وکالت کرتا آرہا ہے بلکہ سابق فوجی افسران ، بیوروکریٹس اور ماہرین مین سٹریم میڈیا پر پاکستان اور اس کی شخصیات کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر بھی اتر آئے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے میڈیا نے ایک بار پھر میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ پاکستانی میڈیا بھارت سے بہت بہتر ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے قومی دفاع اور سلامتی کو درپیش چیلنجز کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے قومی اتحاد کو مزید تقویت دی جائے اور دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ تمام تر کمزوریوں اور باہمی اختلافات کے باوجود ہم نہ صرف یہ کہ چیلنجر کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ بیک آواز ہوکر لڑنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیں۔
( 25 اپریل 2025 )

کور کمانڈر پشاور بنوں کے ملک، مشران

کور کمانڈر پشاور کی بنوں کے ملک، مشران اور قبائلی عمائدین سے ملاقات

کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل عمر احمد بخاری نے بنوں کے ملک، مشران اور قبائلی عمائدین سے ملاقات کی ۔ کور کمانڈر نے امن و استحکام کے لئے مقامی عوام اور عمائدین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ عوام اور پاک فوج مل کر ہی دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کر سکتے ہیں ۔ جی او سی میران شاہ میجر جنرل عادل افتخار، سول انتظامیہ اور دیگر عسکری حکام بھی ملاقات میں موجود تھے ۔ شرکاء نے پاک فوج اور سول انتظامیہ کی امن کے لئے کوششوں کو سراہا اور امن کے قیام کے لیے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا ۔ شرکاء نے بنوں میں امن اور ترقی کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ ملاقات کے اختتام پر کور کمانڈر پشاور نے باری باری سب شرکاء سے ملاقات کی ۔ کور کمانڈر نے شرکاء کو مسائل کے حل کے لیے اپنی خصوصی کوشش کا یقین دلایا ۔

kpk mines and minerals bill 2025

خیبرپختونخوا راؤنڈاَپ

وصال محمد خان
26 اپریل 2025

مائنز اینڈ منرلز بل پر صوبائی سیاست کی صورتِ حال

گزشتہ دوہفتوں سے صوبے کی سیاست مائنزاینڈمنرلزبل کے گردگھوم رہی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعدیہ بل اسمبلی میں پیش کیاگیاتھا مگر اپوزیشن سمیت بیشتر حکومتی ارکان بھی اسکی مخالفت کررہے ہیں جس کے سبب بل کی منظوری مؤخرکردی گئی ہے۔ سپیکرصوبائی اسمبلی بابرسلیم سواتی نے 14اپریل کوصوبائی اسمبلی کے پرانے جرگہ ہال میں بل پرارکان اسمبلی کوبریفنگ کی غرض سے اجلاس منعقدکیا جس میں اپوز یشن ارکان نے تودل کھول کرتنقیدکی مگربیس کے قریب حکومتی ارکان نے اجلاس کابائیکاٹ کیا جس پراجلاس21اپریل کودوبارہ طلب کیاگیا۔ مگراس روزبھی حالات گزشتہ اجلاس سے مختلف نہیں تھے پندرہ سے بیس حکومتی ارکان جن میں سے بیشترکاتعلق ضم قبائلی اضلاع سے ہے بریفنگ اجلاس میں شرکت کی بجائے بائیکاٹ پررہے اورباہر محفل سجا کرخوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اس طرح بل پراتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے یہ دوسرااجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔اسی سبب بل پرمزیدکارروائی روکتے ہوئے سپیکر نے اسے بانی پی ٹی آئی کی منظوری سے مشروط کردیا۔

ذمہ دارذرائع کے مطابق 14اپریل کوطلب شدہ اجلاس کی ناکامی کے بعدحکومتی ارکان کوقائل کرنے کیلئے درپردہ کئی نشستو ں کاانعقادکیاگیاتاہم ضم اضلاع کے اراکین کومطمئن نہ کیاجاسکااوروہ بریفنگ اجلاس کے بائیکاٹ پر بضد رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بریفنگ اجلاس میں اپنامؤقف پیش کرنے کے بعداجلاس کابائیکاٹ کیاجبکہ دیگراپوزیشن جماعتوں نے بھی بل کو مسترد کرتے ہوئے بیشتر ارکان بائیکاٹ پرچلے گئے۔

اپوزیشن کا مؤقف اور حکومتی رویہ

اس موقع پراپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ‘‘ مائنزاینڈمنرلزبل اگرصوبے کے مفادمیں نہ ہواتووزیراعظم سے بات کرینگے، 2017ء ایکٹ بھی انسان کابنایاہوا قانون ہے جس میں خامیاں ہوسکتی ہیں آج بریفنگ کے دوسرے اجلاس میں بھی حکومتی ارکان رور ہے ہیں حیرت ہے اسے کابینہ نے کیونکرمنظورکرلیا؟ حکومت یہ بل بھی رات کی تاریکی میں پاس کرناچاہتی تھی، حکومتی ممبران مجوزہ قانون کوبانی کی رضامندی سے مشروط کررہے ہیں مجوزہ قانون کی مخالفت وزیراعلیٰ پراپنے ارکان کی جانب سے عدم اعتمادکے مترادف ہے، سپیکر نے اگر بل کی منظوری بانی پی ٹی آئی کی رضامندی سے مشروط کرنی تھی توبریفنگ اجلاس کی کیا ضرور ت تھی’’؟

باجوڑ سے اے این پی کے رکن اسمبلی نثاربازنے کہاکہ‘‘ جب سے مائنزاینڈمنرلزبل ٹیبل ہواہے اسمبلی کااجلاس نہیں بلایاجا رہا حالانکہ اس سے قبل کئی ماہ تک بلا وجہ اجلا س جاری رکھاگیاتھا آج دوسر ی بار بریفنگ اجلاس بلایاگیاجس کاہم بائیکاٹ کرتے ہیں اے این پی منرلزاینڈمائنزبل مستردکرتی ہے، مائنز اینڈ منرلز 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے صوبے میں مائنزاینڈمنرلزایکٹ 2017ء پہلے سے نافذہے’’۔

وزیرقانون آفتاب عالم کا کہناتھاکہ ‘‘پارلیمنٹرینز اور سول سوسائیٹی کومائنزاینڈمنرلزبل پربریفنگ دی گئی، آج تفصیلی بحث ہوئی، محکمہ معدنیات نے بھی بریفنگ دی سپیکرنے واضح کیاکہ بانی پی ٹی آئی کووزیراعلیٰ اورسیاسی کمیٹی بریف کرینگے انکی مرضی کے بغیر بل منظورنہیں ہوگاہررکن کی انفرادی سوچ ہے، بل 18ویں ترمیم سے متصادم نہیں وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت وفاق کے حق میں اختیارا ت سے کبھی دست بردار نہیں ہونگے’’۔ جبکہ وزیراعلیٰ کااس حوالے سے کہناہے کہ وہ اپنے اختیارات سے دستبردارنہیں ہوئے جولوگ مائنز اینڈ منرلزبل پرواویلاکر رہے ہیں انہیں بل پڑھنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ میں کیونکراپنے اختیارات وفاق کوسونپ سکتاہوں؟

آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ

عوامی نیشنل پارٹی کے زیراہتمام پارٹی کے مرکزی دفترباچاخان مرکزپشاورمیں آل پارٹیزکانفرنس منعقدہوئی۔ جس میں حکمران جماعت سمیت صوبے سے تعلق رکھنے والی تقریباًتمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اعلامئے میں متفقہ طورپرمجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل کومستردکرتے ہوئے اسے آئین کے منافی، اٹھارویں ترمیم، صوبائی خودمختاری اورصوبائی اسمبلی کی بالادستی پرحملہ قراردیا گیا۔ اعلامئے کے مطابق اگرمتنازعہ بل منظورکروانے کی کوشش ہوئی توقانونی جنگ کے علاوہ احتجاج کاراستہ بھی اپنایاجائیگا۔

سپیکر کے خلاف احتساب کمیٹی کی کارروائی

قاضی انورایڈوکیٹ، شاہ فرمان اورمصدق عباسی پرمشتمل پی ٹی آئی احتساب کمیٹی میں سے قاضی انورنے سپیکر بابرسلیم سواتی کواسمبلی میں بھرتیوں سے متعلق بدعنوانی کے الزامات سے کلین چٹ دے دی ہے۔ قاضی انورکی تحریرکردہ رپورٹ منظرعام پرآئی ہے جس میں انہیں بد عنوانی الزامات سے کلیئرقراردیاگیاہے جبکہ دیگردوارکان کی رپورٹ تاحال سامنے نہ آسکی۔ ایک رکن کی رپورٹ منظرعام پرآنے سے باقی دوارکان نے تحفظات کااظہارکیاہے۔ سپیکرکامستقبل اب بقیہ دوارکان کی رپورٹ سے وابستہ قراردیاجارہاہے۔

عیدکے فوری بعداعظم سواتی کی بانی چیئرمین سے ملاقات کے بعدانہوں نے شدومدکیساتھ سپیکرکی رخصتی کااعلان کیاتھامگربعدازاں سپیکر کامعاملہ احتساب یاگڈگورننس کمیٹی کے سپردکیاگیا۔ اس کمیٹی نے اگرچہ بدعنوانی کے الزامات پرکئی وزراکوطلب کیااوران سے سوالات کئے مگرشکیل خان کے علاوہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی۔ عام تاثریہ ہے کہ مذکورہ کمیٹی کابینہ ارکان اورممبران اسمبلی پرلٹکتی ہوئی تلوارہے مگراسکی کارکرد گی تا حال محض شکیل خان کی برطرفی تک محدودہے۔

پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات اور قانونی جنگ

ذمہ دارذرائع کے مطابق قاضی انورکی رپورٹ پبلش ہونے پر دیگردو ارکان نے رپورٹ سے اتفاق نہیں کیااورکہاکہ مذکورہ رپورٹ کمیٹی نے نہیں بلکہ ایک رکن نے جاری کی ہے جوقو ا عد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ رپورٹ شائع کرنے کی بجائے بانی چیئرمین کوپیش کیاجاناتھا۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات دن بدن بڑھ رہے ہیں قائدین، ممبران پارلیمنٹ، وزراحتیٰ کہ وزیراعلیٰ ایکدوسرے پرکرپشن اوربدعنوانی کے سنگین الزامات لگاتے ہیں، معاملے کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، جس کی رپورٹ میں انہیں کلین چٹ تھمادی جاتی ہے۔ مدعی، وکیل اورجج یہ خودہوتے ہیں اسلئے آج تک سنجیدہ الزامات کے باوجودکسی کوقرارواقعی سزانہ مل سکی۔

اسی سلسلے میں قاضی انورایڈوکیٹ اور پارٹی راہنمامعظم بٹ ایڈوکیٹ کے درمیان لڑائی شدت اختیارکرچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے معظم بٹ نے قاضی انورپرمتعددالزامات لگائے جس کے ردعمل میں قاضی انورنے معظم بٹ کو 500 ملین ہرجانے کانوٹس بھجوادیاہے۔ ڈسٹرکٹ جج پشاورکی عدالت میں دعویٰ دائرکرتے ہوئے قاضی انورنے مؤقف اختیارکیا کہ معظم بٹ ایڈوکیٹ نے بے بنیادالزامات لگا کرانکی ساکھ کونقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، مجھ پرایڈوکیٹ جنرل آفس سے بھتہ وصولی کیساتھ صوبائی حکومت سے بھی پیسے لینے اور حکومتی معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے ہیں جوسراسرغلط اوربے بنیادہیں معظم بٹ اپنے الزامات ثابت کریں بصورت دیگر 500 ملین روپے ہرجانہ اداکریں۔ جس کے جواب میں معظم بٹ نے مزیدالزامات لگائے ہیں۔

اس طر ح مرکزی سطح پرپی ٹی آئی کے دووکلا چیئرمین گوہرخان اورجنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا کے درمیان اختلافات کے بعد صو بائی سطح پر بھی دووکلاء اورپارٹی راہنماآپس میں دست وگریباں ہوچکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کسی کی چونچ توکسی کی دُم گم ہونے کاخدشہ نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔