پی ٹی آئی، ڈھیل اور ڈیل

اقتدار کی بھول بھلیوں سے تحریک انصاف کی رخصتی عمل میں آنے کے بعد بقول عمران خان اور ان کے ہمنوا ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے جس کا خاتمہ ان کی اقتدار میں واپسی سے ممکن ہے۔ حالانکہ ملک میں کوئی سیاسی بحران یا عدم استحکام کی صورت موجود نہیں، ملکی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے، سٹاک ایکسچینج نت نئے ریکارڈز قائم کر رہی ہے اور پی ٹی آئی نے تمام شعبوں کا جو کباڑا کیا تھا وہ اب کچھوے کی چال بحال ہو رہے ہیں۔

عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کی سابقہ بدترین کارکردگی، نااہلی، کرپشن اور بدانتظامی کے پیش نظر اقتدار میں اس ٹولے کی واپسی اس سارے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ لوگ اقتدار میں واپسی کے شدید آرزومند ہیں مگر ان کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ یہ اقتدار میں واپسی کے لیے تمام جتن کر رہے ہیں۔

امریکہ پر الزامات اور تضادات

ابتدا میں امریکہ پر الزامات لگائے گئے کہ اس نے رجیم چینج میں کردار ادا کیا، بعد میں اسی امریکہ کے اندر فرمز ہائر کر کے انہیں اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں تاکہ وہ امریکہ میں ان کی مسخ شدہ ساکھ بحال کریں۔

پاک فوج کو روز اول سے ہی ہدف بنا کر اسے سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی گئی، آرمی قیادت کو عجیب و غریب القابات سے نوازا گیا، حکومت کی رخصتی کا الزام دیا گیا اور بعدازاں فوجی تنصیبات پر حملے کر کے وہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور تاریخی ورثہ نذر آتش کیا گیا۔ تحریک انصاف نے اس دوران جو رویے اپنائے وہ کسی صورت سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتے بلکہ اس نے خود کو پریشر گروپ یا پرتشدد تنظیم کے طور پر پیش کیا۔

فوج سے مذاکرات کی ناکام کوششیں

جب ان سب سے کام نہ بنا تو فوج کو مذاکرات کی دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ کئی بار دعوت دینے کے باوجود جب فوج کی جانب سے کہا گیا کہ اسے سیاست سے کوئی سروکار نہیں، اگر کسی سیاسی جماعت نے مذاکرات کرنے ہیں تو اس کے لیے سیاسی قوتیں اور حکومت موجود ہے، ان کے ساتھ اپنے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی قوتوں کے ساتھ پی ٹی آئی قیادت بیٹھنے کو تیار نہیں۔

یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ خود کو سیاسی جماعت کہلانے والی پارٹی ملک بھر کی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار نہیں بلکہ وہ مذاکرات فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔ 26 نومبر 2024ء کو اسلام آباد میں پرتشدد احتجاج کی کال دی گئی جس کی ناکامی پر حکومت سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ حکومت چونکہ سنجیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی ہے جو سمجھتے ہیں کہ سیاسی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی، مگر صرف ایک نشست کے بعد حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کا انتظار کرتی رہ گئی اور اس نے انہی مذاکرات سے انکار کر دیا جن کے لیے اس نے ازخود کمیٹی بنا دی تھی۔

علیمہ خان کا بیان اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ

اب ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی کی بہن محترمہ علیمہ خان یا خانم نے اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے بلکہ شوشہ چھوڑا ہے کہ وہ فوج سے کچھ لو اور کچھ دو کے تحت گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے خفیہ مذاکرات اور تین شرائط کا ذکر بھی کیا۔

علیمہ خان کا یہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ شرائط کس نے اور کب پیش کیں؟ رابطے کب ہوئے؟ اور ان میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کس نے حصہ لیا اور پی ٹی آئی کے کون سے راہنما شامل ہوئے؟ جیسا کہ پہلے درجنوں بار لغو دعوے کر کے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی گئی، یہ بھی اسی طرح کی ایک کوشش لگتی ہے۔

حکومت کی حیثیت اور فوج کا کردار

عمران خان سے کیوں یہ درخواست کی جائے گی کہ وہ حکومت کو تسلیم کر لے؟ کیا ان کی تسلیم نہ کرنے سے حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑا ہے؟ اور ان شرائط کے مقابلے میں عمران خان نے کون سی شرائط پیش کیں؟ عمران خان کے پاس حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو دینے کے لیے کیا ہے؟ عمران خان اگر جیل میں ہیں تو حکومت بہترین انداز میں چل رہی ہے بلکہ اس کے اقدامات اور پالیسیوں سے ملک مسائل کے گرداب سے نکل رہا ہے۔

فوج کو کیا مجبوری ہے کہ وہ عمران خان کی شرائط مان لے؟ کیونکہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران فوج نے اپنے فرائض بخوبی نبھائے اور دشمن کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ فوج کے پاس ایسی کوئی کمی نہیں جسے پورا کرنے کے لیے اسے عمران خان سے مذاکرات کی ضرورت پڑے یا ان کی کوئی شرط ماننی پڑ جائے۔

غیر سنجیدہ سیاست کا تسلسل

ان بیانات کی ایک تو کوئی حیثیت نہیں، دوسرے ان میں کوئی معقول بات موجود نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ علیمہ خان کا حالیہ بیان بھی محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے۔ فوج کو سیاسی بیانات کا محور بنا کر یہ لوگ محض اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور میڈیا میں اِن رہنا چاہتے ہیں جس سے ان کی سیاست زندہ ہے۔

درحقیقت یہ پوری پارٹی سیاسی جماعت کے نام پر ایک غیر سنجیدہ ٹولہ ہے جس نے اقتدار کے دوران پاکستان کے تمام شعبوں کا بیڑہ غرق کر دیا تھا اور اپوزیشن میں بھی یہی حرکات جاری رکھے گئے ہیں۔ ایک راہنما مذاکرات کا بیان داغ دیتا ہے تو دوسرا جیل میں ملاقات کرنے کے بعد تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔ صبح مذاکرات کی بات کی جاتی ہے تو شام کو تحریک کی دھمکی دی جاتی ہے۔

کوئی وژن یا منشور نہیں

سیاست کے نام پر اس غیر سیاسی ٹولے کے ہاں سیاسی رویوں کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوں کا جو اصل کام ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوئی روڈ میپ پیش کرتی ہیں، منصوبہ سازی کرتی ہیں اور قابل عمل منشور سامنے لاتی ہیں، ان میں اس جماعت نے آج تک کوئی کام انجام نہیں دیا۔

بس آج اس کے خلاف بیان، کل اُس کے خلاف بیان، آج امریکہ کو الزام، کل سعودی عرب پر کیچڑ اچھالنا اور ان سب کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا کر بغلیں بجانا کہ واہ واہ عمران خان نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔

یہ چونکہ سیاسی جماعت نہیں، اس کے پاس کوئی پروگرام نہیں، کوئی منشور یا منصوبہ نہیں اس لیے یہ پوری پارٹی ڈیل اور ڈھیل کے گرداب میں پھنس چکی ہے اور ان کے قائدین کا عقیدہ ہے کہ انہیں اقتدار ڈیل کے نتیجے میں ملا، اب مشکلات ڈھیل کے نتیجے میں ختم ہوں گی۔ اس لیے یہ گزشتہ چار سال سے ڈھیل اور ڈیل کی گردان جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ان کی سیاست ڈھیل اور ڈیل کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔

ہری پور میں کیپرا اور ورلڈ بینک کے اشتراک سے تربیتی ورکشاپ

خیبر پختونخواہ پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی کا ورلڈ بینک کے پراجیکٹ کے پی سپیڈ کے اشتراک سے ای پیڈز سافٹ ویئر اور کیپرا رولز سے آگاہی کے بارے میں ضلع ہری پور کے افسران کے لئے تربیتی ورکشاپ کا آغاز پاک آسٹریا فخشولے انسٹیوٹ ہری پور میں ہوگیا۔ تین روزہ ورکشاپ میں سی اینڈ ڈبلیو،اریگیشن، لوکل گورنمنٹ، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پی ایچ ای ڈی، لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ ایلیمنٹری ایجوکیشن، فوڈ، فشریزاور سپورٹس ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی کے متعلقہ افسران شرکت کر رہے ہیں۔

ورکشاپ کا مقصد کیپرا ایکٹ رولز، سوفٹ وئیر اور اس کے قواعد و ضوابط کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔تربیتی ورکشاپ کے افتتاحی سیشن میں ڈائریکٹر ڈاکٹر امان اللہ نے شرکاء کو ورکشاپ کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اس تربیتی ورکشاپ سے صوبے کے مختلف محکموں کے افسران کو کیپرا کے قوائد ضوابط سے آگاہی حاصل ہوگی جبکہ نئے لانچ کردہ سافٹ ویئر کے استعمال کے طریقہ کار سے بھی روشناس کروایا جائے گا جس سے سرکاری اداروں میں خریداری میں شفافیت اور افسران کی استعداد کار میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیپرا پروکیورمنٹ میں بہتری لانے کے لئے مزید اقدامات بھی اٹھائے گی۔تربیتی ورکشا پ میں شرکت کرنے والے افسران نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سافٹ ویئر آنے سے پروکیورمنٹ کے عمل میں آسانی کے ساتھ سرکاری اداروں میں خریداری کے عمل میں شفافیت پیدا ہوگی۔شرکاء نے تربیتی ورکشاپ کے انعقاد پر کیپرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا اور اس طرح کی ورکشاپ کے تسلسل سے انعقاد پر زور دیا۔ ورکشاپ مزید دو روز تک جاری رہے گا۔

Special meeting on "Pahle Salaam Phir Kalam" policy presided over by Chief Traffic Officer

چیف ٹریفک آفیسر کی زیر صدارت ٹریفک لائن میں خصوصی اجلاس کا انعقاد

پشاور چیف ٹریفک آفیسر ہارون رشید خان کی زیر صدارت ٹریفک لائن باچا خان چوک میں “پہلے سلام پھر کلام ” کی پالیسی سے متعلق خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایس پی ہیڈ کوارٹرز ارباب شفیع اللہ، ایس پی ٹاؤن زکاء اللہ، ایس پی کینٹ عبد الرحیم ، ایس پی سٹی نیاز محمد ،ڈی ایس پیز ، سٹی ٹریفک پولیس پشاور کے افسران اور وارڈنز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ چیف ٹریفک آفیسر ہارون رشید خان نے سلام کلام کی پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک وارڈنز اور اہلکار شہریوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور ٹریفک عملہ ڈسپلن پر خصوصی عمل پیرا رہے ٹرن آوٹ اور ٹائم کی پابندی کا خاص خیال رکھیں ۔
انہوں نے کہا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس ذوالفقار حمید اور چیف کیپیٹل پولیس قاسم علی خان کے ویژن کے مطابق سٹی ٹریفک پولیس پشاور کو پورے صوبے کیلئے رول ماڈل بنائینگے ۔ انہوں نے کہا کہ سٹی ٹریفک پولیس پشاور کے حکام اور اہلکار شہریوں اور تاجروں کو ٹریفک قوانین سے متعلق آگاہی دینے کا سلسلہ جاری رکھیں اور انہیں سفری سہولیات کی فراہمی سمیت ٹریفک قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانے پر آمادہ کریں ۔
کہ سٹی ٹریفک پولیس پشاور کے اہلکار تجاوزات کے خلاف کی جانیوالی کارروائیوں کے بعد کلیئر کردہ ایریا پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں تاکہ پھر کوئی تجاوزات قائم نہ کریں اور پلازوں میں پارکنگ کو یقینی بنائیں تاکہ شہری سڑک کنارے گاڑیاں نہ کھڑی کریں اور سڑکوں کی روانی متاثر نہ ہو ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد سٹی ٹریفک پولیس پشاور کی اولین ترجیح ہے جس کو ہر صورت میں عملی جامہ پہنایا جائیگا۔ انہوں نے ٹریفک وارڈنز کو بھی ہدایت کی کہ وہ دوران سفر ڈرائیونگ اصولوں پر کاربند رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے قانون سے کوئی بالاتر نہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں جائیگی ۔
Sahir Associates won the President's Trophy Grade Two tournament.

ساحر ایسوسی ایٹس نے پریذیڈنٹ ٹرافی گریڈ ٹو ٹورنامنٹ جیت لیا۔

ساحر ایسوسی ایٹس نے پریذیڈنٹ ٹرافی گریڈ ٹو ٹورنامنٹ جیت لیا۔ فائنل میں ایم آئی ٹی سلیوشنز کو 355 رنز سے شکست۔ ایبٹ آباد۔ساحر ایسوسی ایٹس نے پریذیڈنٹ ٹرافی گریڈ ٹو ٹورنامنٹ جیت لیا۔اس نے فائنل میں ایم آئی ٹی سلیوشنز کو 355 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دے دی ۔ اس جیت کے ساتھ ہی ساحر ایسوسی ایٹس نے آئندہ سیزن میں پریذیڈنٹ ٹرافی گریڈ ون کے لیے بھی کوالیفائی کرلیا۔ایبٹ آباد اسٹیڈیم میں چار روزہ فائنل کے آخری دن ساحر ایسوسی ایٹس اپنی دوسری اننگز میں449 رنز بناکر آؤٹ ہوگئ ۔محسن خان 68 رنز بناکر آؤٹ ہوئے ۔کلیم اللہ نے83 رنز دے کر5 وکٹیں حاصل کیں۔ایم آئی ٹی سلیوشنز کو جیتنے کے لیے 75 اوورز میں 587 رنز کا ہدف ملا تھا لیکن پوری ٹیم 231 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ محمد بلال 70 اور حسنین ندیم 54 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ خان زیب نے 73 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ ساحر ایسوسی ایٹس کے فہد عثمان پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔پی اے ایف کے عتیق الرحمن ( 741 رنز اور 17 وکٹیں ) پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے۔ٹورنامنٹ کے بہترین بیٹر اور وکٹ کیپر کا ایوارڈ ساحر ایسوسی ایٹس کے عاصم علی ناصر( 786 رنز ) اور ( 28 کیچز اسٹمپڈ ) جبکہ بہترین بولر کا ایوارڈ ونگ 999 اسپورٹس کے محمد طارق خان نے ( 47 وکٹیں ) حاصل کیا۔ان کرکٹرز کو پچاس پچاس ہزار روپے کا کیش ایوارڈ دیا گیا۔

Pre-Shandur Polo Matches

 پری شندور پولو میچز؛ چترال میں جوش و خروش عروج پر

چترال پولو گراؤنڈ میں جاری پری شندور پولو میچز نے شائقین کا جوش و خروش عروج پر پہنچا دیا ہے۔ تمام ٹیمیں اپنا ابتدائی مرحلہ مکمل کر چکی ہیں، اور اب مقابلے کوارٹر فائنل مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں چترال کی نامور اور روایتی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ خاص طور پر چترال لیویز اور چترال سکاؤٹس کے درمیان متوقع مقابلہ شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، جو اپنی مہارت اور روایات کی بدولت ہمیشہ سنسنی خیز مقابلہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چترال کی کئی ممتاز سول ٹیمیں بھی بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔ گزشتہ روز ایک تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ایک اہم میچ منسوخ کرنا پڑا۔ تاہم، چترال لیویز اور سکاؤٹس کے درمیان باہمی مشاورت سے مسئلے کا خوش اسلوبی سے حل نکالا گیا ہے۔ آج سے میچز دوبارہ اپنے شیڈول کے مطابق جاری رہیں گے، جس پر شائقین نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، شندور پولو فیسٹیول 2025 کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں، جو 20 سے 22 جون تک اپر چترال میں منعقد ہوگا۔ چترال کی ٹیمیں بھرپور تربیت اور جذبے کے ساتھ شریک ہوں گی، جہاں شائقین کو ایکشن، ثقافت، اور تفریح سے بھرپور ماحول ملے گا۔ “تو تیار رہیے، اور جوڑ لیجیے اپنا وقت ‘پولو’ کے نام! ” – شہزادہ سکندرالملک، صدر پولو ایسوسیشن چترال

وزیراعظم یوتھ ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت خواتین باکسنگ ٹرائلز کا کامیاب انعقاد

وزیراعظم یوتھ ٹیلنٹ ہنٹ یوتھ سپورٹس لیگ کے تحت خیبرپختونخوا کے دو بڑے شہروں، پشاور اور مردان میں خواتین باکسنگ ٹرائلز کا کامیاب انعقاد کیا گیا. جسے صوبے میں خواتین باکسنگ کے فروغ کے لیے ایک تاریخی اور انقلابی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹرائلز مستقبل میں گراس روٹس لیول پر چھپے ہوئے بے پناہ ٹیلنٹ کو منظرِ عام پر لانے کا ذریعہ بنیں گے۔مردان سپورٹس کمپلیکس میں منعقدہ ٹرائلز کے چوتھے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مردان سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین باکسرز سویرا اور ندا نے کہا کہ باکسنگ جیسے سخت اور تکنیکی کھیل میں خواتین کے لیے مواقع پیدا کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔

مردان جیسے شہر میں خواتین باکسرز کیلئے اس سطح پر ٹرائلز ہوں گے۔ یہ ہمارے لئے نہ صرف اعتماد کی علامت ہے بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے ہم قومی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ وزیراعظم ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت ہری پور،سوات، پشاوراورمردان ہونیوالے ان ٹرائلز میں خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے نوجوان خواتین نے شرکت کی، جنہیں پروفیشنل کوچز نےانکی۔ سلیکشن کی۔ کوچنگ ٹیم کا کہنا تھا کہ صوبے میں خواتین باکسنگ کا رجحان بتدریج بڑھ رہا ہے اور کئی کھلاڑیوں نےتوان ٹرائلزمیں حیران کن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ٹرائلزکی ارگنائزرشبانہ خٹلک جوخودبھی سابق انٹرنیشلاتھلیٹ رہی ہیں اور باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میںڈائریکٹرسپورٹس ہیں کا کہنا ہے کہ انہوں نے صوبے بھرمیں خواتین کھلاڑیوں کوایک بہترین ماحول فراہم کیا اور یہی وجہ ہے کہ خواتین باکسرزنے بہترین۔پرفارمس دکھاکرسب کو حیران کردیا۔ انہوں نے کہاکہ انشاء اللہ منتخب کھلاڑیوں کو مزید تربیت فراہم کی جائے گی۔

اس اقدام کا مقصد صرف مقابلہ بازی نہیں بلکہ خواتین میں خوداعتمادی، خودانحصاری اور جسمانی صحت کو فروغ دینا بھی ہے۔ اس سے قبل صوبے میں خواتین باکسنگ کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو مردوں کے مقابلےمیں دی جاتی رہی ہے، تاہم حالیہ ٹرائلز اور وفاقی حکومتی سرپرستی سے خیبرپختونخوا میں اس کھیل میں خواتین کی شمولیت کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ مقامی سپورٹس حلقوں، کوچز، اور والدین نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ باکسنگ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی خیبر پختونخوا میں خواتین کے لیے اسی طرح کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ خیبر پختونخوا کی باصلاحیت بیٹیاں کھیلوں کےمیدان میں ملک کا نام روشن کر سکیں۔

PTI's new statement based on misrepresentation

غلط بیانی پر مبنی پی ٹی آئی کا نیا بیانیہ

عقیل یوسفزئی
پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی دو تفصیلی ٹویٹس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے متعلق بعض ایسی باتیں کی ہیں جو کہ ان کے سابق ان دی ریکارڈ بیانات اور موقف سے بلکل الگ بلکہ متضاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ان کے وزارت عظمیٰ کے دوران ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ذریعے ایک ادارہ جاتی مسئلے پر ان سے رابطے کاری کی کوشش کی مگر بشریٰ بی بی نے خود ” غیر سیاسی” قرار دیتے ہوئے بات کرنے سے گریز کیا۔ عمران خان کے بقول اسی ” اصولی موقف” کے باعث بشریٰ بی بی سمیت پوری پارٹی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہ بات بہت عجیب ہے کہ ان دو حالیہ ٹویٹس سے چند روز قبل اسی عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور بات کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔ اسی دوران ان کی بہن علیمہ خان نے بھی اسی نوعیت کا ایک ” مؤدبانہ” بیان دیا تھا تاہم جب ان کی غیر حقیقت پسندانہ بیانات اور توقعات کے برعکس سپریم کورٹ کی ایک سماعت کے نتیجے میں کوئی ” رعایت” نہیں ملی تو فرسٹریشن میں سابق وزیراعظم نے نہ صرف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا اور اپنے لیڈروں کو ناکارہ قرار دیکر کھلے عام دھمکیاں دیں بلکہ پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پر ماضی کے بعد واقعات کے تناظر میں براہ راست الزامات بھی لگائے۔

اس سے قبل وہ اور ان کے لیڈر دو تین برسوں سے یہ بیانیہ تشکیل دیتے رہے کہ بحیثیت وزیر اعظم انہوں نے جنرل سید عاصم منیر کو ایک پریمئر انٹلیجنس ادارے کی سربراہی سے اس لیے الگ کیا تھا کہ انہوں نے براہ راست عمران خان سے ان کی اہلیہ کی حکومتی امور میں مداخلت اور مبینہ کرپشن کی شکایت کی تھی ۔ میڈیا رپورٹس میں بھی یہی بیانیہ برسوں سے سامنے آتا رہا ہے تاہم اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ موصوفہ نے اتنی طاقتور عسکری شخصیت سے بات کرنے سے بھی ” معذرت ” کی تھی۔ وغیرہ وغیرہ

فرسٹریشن میں ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں فیلڈ مارشل چھائے ہوئے ہیں اس قسم کے سطحی بیانات دینے کے دو مقاصد نظر آتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ بلیک میلنگ کا ایک اور کارڈ استعمال کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کی ساکھ اور شہرت کو متنازعہ بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ ایسا کہنے سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرتے ہوئے کسی مجوزہ ڈیلنگ کا راستہ ہموار کیا جاسکے ۔ فی الحال تو یہ دونوں مقاصد پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ 10 میء کے بعد پاکستان کی ریاست اور حکومت لوگوں کی توقعات اور اندازوں سے بھی طاقتور ہوگئی ہیں اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی میں بھی پہلے والا دم خم باقی نہیں رہا ہے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے یہ سب کہہ کر خود پر ریاست کے دروازے مزید بند کردیے ہیں اور رہی سہی کسر ان کے وہ ” کی بورڈ واریئرز ” پوری کررہے ہیں جنہوں نے بقول پی ٹی آئی کے اہم لیڈروں کے باہر بیٹھ کر پوری پارٹی کو یرغمال بنادیا ہے۔
( 3 جون 2025 )