وفاقی بجٹ کے بنیادی نکات اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا دعویٰ

وفاقی بجٹ کے بنیادی نکات اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا دعویٰ

عقیل یوسفزئی
وفاقی حکومت کی جانب سے 176 کھرب روپے کے وفاقی بجٹ کی تیاری اور متوقع منظوری کا مرحلہ طے پاچکا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ بجٹ گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوگا کیونکہ گزشتہ 6 مہینوں کے دوران پاکستان کے معاشی حالات بوجوہ کافی بہتر ہوگئے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مشیر خزانہ اورنگزیب صاحب نے گزشتہ روز کی اپنی میڈیا بریفنگ کے دوران بعض اہداف کی حصولی میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ اعتراف کرنے سے اس حکومت کی حقیقت پسندی کا تاثر ملا ہے اور یہ توقع بھی کہ اسی تسلسل میں اس برس کوشش کی جائے گی کہ متعین کردہ اہداف حاصل ہو۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اب کے وفاقی بجٹ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مخصوص حالات کے تناظرمیں ان صوبوں کو کی جانے والی فنڈنگ میں اضافہ ہوگا جو کہ وقت کی ضرورت ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان صوبوں کو درپیش بیڈ گورننس اور کرپشن کے ایشوز کا بھی نوٹس لیا جائے۔ دوسری ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں ممکنہ اضافے کا راستہ بھی ہموار کیا جائے کیونکہ 10 مئی کے بعد بھارت اعلانیہ طور پر اسلحہ کی خریداری پر ہم سے کئی گنا زیادہ بجٹ خرچ کرنے کا آغاز بھی کرچکا ہے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ” انکشاف” کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کی ریونیو اور آمدن میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ہم وفاقی حکومت کو قرضہ بھی دے سکتے ہیں۔ باخبر حلقے وزیر اعلیٰ کے اس بیان اور دعوے پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ حقیقتاً ایسا ہے نہیں۔

صوبے کے اقتصادی معاملات پر کمانڈ رکھنے والے صحافی عرفان خان نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس وقت بھی خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت مختلف اداروں کے تقریباً 700 ارب روپے کا مقروض ہے۔ ان کے بقول گزشتہ بجٹ کے دوران بہت کم ترقیاتی فنڈز خرچ کیے گئے ہیں اور صوبائی حکومت غلط بیانی سے کام لیتی آرہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے صوبائی بجٹ کی تیاری پر توجہ دیکر سیاسی بیان بازی کی بجائے صوبے سے کرپشن اور بیڈ گورننس جیسے ناسوروں کا خاتمہ کیا جائے۔

Proposals for a significant reduction in income tax rates

تنخواہ دار طبقے کے لیے خوشخبری: انکم ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی تجاویز

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف دینے کی تیاریاں، مختلف تنخواہوں پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجاویز زیر غور ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے ماہانہ 83 ہزار روپے تک تنخواہ لینے والے افراد کو ٹیکس سے مکمل استثنیٰ دینے کی تجویز دی ہے، جس کے بعد اس آمدنی کے حامل افراد کو کسی قسم کا انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

ماہانہ ایک لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ایک لاکھ 83 ہزار روپے ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی موجودہ شرح 15 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح دو لاکھ 67 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 22.5 فیصد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جب کہ تین لاکھ 33 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس کی موجودہ شرح 30 فیصد سے کم کر کے 27.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

حکومت نے تین لاکھ 33 ہزار روپے سے زائد ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی نئی شرح 32.5 فیصد مقرر کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔

یہ تجاویز آئندہ بجٹ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے، جن کا مقصد مہنگائی کے شکار تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

Shandur Polo Festival to be held from June 20

شندور پولو فیسٹیول 20 جون سے منعقد ہوگا

پاکستان کا سب سے بڑا شندور پولو فیسٹیول 20جون سے منعقد ہوگا۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے شندور پولو فیسٹیول کی تاریخ مقرر کردی۔ مشیر سیاحت زاہد چن زیب نے شندور پولو فیسٹیول کی تمام تیاریوں کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کردی۔ شندور پولو فیسٹیول 20 جون سے22جون2025 تک اپر چترال میں منعقد ہوگا۔ شندور پولو فیسٹیول کیلئے تمام تیاریوں کو فلفور حتمی شکل دی جائے۔ فیسٹیول میں آنے والے سیاحوں کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ شندور پولو فیسٹیول کا کامیابی سے انعقاد اور آگاہی مہم ابھی سے چلائیں گے۔ فیسٹیول میں چترال لوئر و چترال اپر کی ٹیمیں گلگت بلتستان کی ٹیموں سے مدمقابل ہونگی، شندورپولو فیسٹیول پاک فوج، خیبرپختونخواٹورازم اتھارٹی،ضلعی انتظامیہ چترال لوئر و اپر، پولیس اور چترال سکاؤٹس کے باہمی اشتراک سے منعقد ہوگا۔

ہاتھیان یوتھ پارلیمنٹ کے وفد کی ڈپٹی کمشنر مردان سے ملاقات

ہاتھیان یوتھ پارلیمنٹ کے وفد کی ڈپٹی کمشنر مردان سے ملاقات

ہاتھیان یوتھ پارلیمنٹ کے ایک نمائندہ وفد نے آج ڈپٹی کمشنر مردان ڈاکٹر عظمت اللہ وزیر سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی۔ وفد کی قیادت چیئرمین عثمان شاہ مہمند نے کی، جبکہ دیگر اراکین میں وائس چیئرمین سید شوکت ایاز، جنرل سیکریٹری بابر خان، ڈپٹی جنرل سیکریٹری جنید بہادر، سید حبیب شاہ، عادل خان، ایاز خان اور مولانا مفتی محمد ارشاد شامل تھے۔

ملاقات میں وفد نے ریلوے کراسنگ پر عوام کو درپیش مشکلات اور علاقے میں بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ، خصوصاً ہاتھیان نیو فیڈر کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ ڈپٹی کمشنر مردان نے وفد کے مسائل کو نہایت غور سے سنا اور موقع پر ہی متعلقہ افسران سے ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے فوری اقدامات کی ہدایت جاری کی۔ انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ ہاتھیان نیو فیڈر کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا اور عوام کو جلد ریلیف ملے گا۔

ڈپٹی کمشنر مردان نے نوجوانوں کی عوامی خدمت سے وابستگی اور مثبت کردار کو سراہا اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

خیبرپختونخوا کا بجٹ 13 جون کو پیش کیا جائے گا،اعلامیہ جاری

خیبرپختونخوا بجٹ 2025-26 میں 6 فیصد اور 7 فیصد کا اضافہ تجویز

پشاور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بجٹ سال 2025-26 میں بالترتیب 6 فیصد اور 7 فیصد کا اضافہ تجویز کہا گیا ھے۔ تفصیلات کے مطابق اگلے سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6 فیصد اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنے والے ہزاروں ملازمین کی نمائندہ تنظیموں نے بجٹ تجاویز میں تنخواہوں اور پنشن میں تجویز کردہ قلیل اضافہ کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا ھے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ ہاوس سے صحافی برادری سے رابطہ کر کے موجودہ بجٹ تجاویز کو مسترد کرتے ھوئے کہا ھے کہ لوکل گورنمنٹ ایمپلائز فیڈریشن خیبرپختونخوا دیگر مزدور تنظیموں کے اشتراک سے تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ کے لئے احتجاجی تحریک کا اغاز کرے گی جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ھوگی۔ لوکل گورنمنٹ ایمپلائز فیڈریشن خیبرپختونخوا کے سینئر عہدیداران نے حکومت خیبرپختونخوا ، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی کابینہ سے صوبائی سرکاری ملازمین بشمول بلدیاتی ملازمین و پنشنرز کی تنخواہوں اور ہنشن میں مہنگائی کے تناسب سے خاطر خواہ اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتے ھوئے کہا ھے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے تنخواہوں اور پنشن میں کیا گیا قلیل اضافہ انصاف کے منافی اور ملازمیں کے بنیادی آئینی حقوق کے خلاف اقدام قرار دیا ھے۔

Indian Leadership’s Reckless Behavior: A Threat to Regional Stability

بھارتی قیادت کا احمقانہ طرز عمل

وصال محمد خان
موجودہ متمدن اور ترقی یافتہ دنیا میں برصغیر پاک و ہند کا خطہ ان گنت حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس خطے میں لگ بھگ دو ارب افراد بستے ہیں۔ ہندو مت کو ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ، اسلام دوسرے نمبر پر جبکہ عیسائیت، سکھ مت اور دیگر مذاہب کو ماننے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ 1940ء کی دہائی میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ انگریز سرکار کو اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں اور وہ جلد یا بدیر خطے سے بوریا بستر گول کرنے لگا ہے مگر اس کی ترجیح میں برصغیر کو ہندوؤں کے حوالے کرنا ہے۔ انگریز سرکار میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا اس سے مسلمانوں کی اکثریت نالاں تھی۔ ہندو اور مسلم ہر لحاظ سے الگ تھلگ قومیں ہیں۔ ان کا رہن سہن، بول چال، لباس، بود و باش کے طور طریقے اور مذہبی اطوار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔

مسلمان بڑا گوشت شوق سے کھاتے ہیں جبکہ ہندو اس سے پرہیز کرتا ہے اور گائے کو ‘‘ماتا’’ مانتے ہیں۔ مسلمان پیشاب کے قطرے کو بھی ناپاک سمجھتے ہیں، اس سے بچتے ہیں اور تین بڑی ناپاکیوں میں سے ایک سمجھتے ہیں جبکہ ہندو گائے کے پیشاب سے منہ ہاتھ بطور تبرک دھوتے ہیں اور اسے عقیدت سے پیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان حتنیہ کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ ہندو اس سے انکار کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق میرے جیسے عام فرد کو بھی معلوم ہیں اس کے علاوہ ان گنت معاملات ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ مسلمان کھلے دل رکھنے والے اور رواداری کے قائل ہیں جبکہ ہندو تنگ نظر اور متعصب ہیں۔ مستقبل میں انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں جانا مسلمانوں کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں تھا اس لئے انہوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ ہندوؤں نے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے عزم و ارادے اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی کہ پاکستان بن گیا۔

پاکستان بنتے ہی ہندو نے سدا کی عداوت کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیر، جوناگڑھ، دکن حیدر آباد اور دیگر کئی علاقوں پر زبردستی قبضہ کیا۔ بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب پہلے ہی سال نوزائیدہ ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ حالانکہ دونوں ممالک ہجرت اور مہاجرین کے گھمبیر مسئلے سے دوچار تھے مگر اس کے باوجود بھارت نے جنگ چھیڑ دی جس میں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے پاس چونکہ باقاعدہ فوج موجود نہیں تھی اس لئے قبائلی عوام نے بھارتی فوج کے خلاف جنگ لڑی اور اسے پسپائی پر مجبور کیا۔ اس دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا قبضہ بھارت سے چھڑا لیا گیا اور اگر بھارت بھاگ کر اقوام متحدہ میں نہ پہنچتا اور اس وعدے پر جنگ بندی نہ ہوتی کہ مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے بعد کشمیریوں کو حق خود ارادیت دی جائے گی تو پورے کشمیر کو بھارتی قبضے سے چھڑانا مشکل نہیں تھا۔

اس کے بعد بھارت نے حیلے بہانوں سے کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کیا، وہاں سات لاکھ فوج تعینات کر دی، نسل کشی پالیسی کے تحت کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر مارا گیا، سیاسی لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈالا گیا یا مار دیا گیا اور آخر میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اپنے اندر ضم کر لیا۔ اس دوران پاکستان پر جنگ مسلط کر کے اور اس کے اندرونی معاملات میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جسے آج بھی بھارت اپنا کارنامہ قرار دیتا ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار ملک کو فوجی مداخلت کے ذریعے تقسیم کرنا اور اپنے اس مکروہ فعل پر بغلیں بجانا اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔

اس کے علاوہ سالہا سال سے بھارتی سیاستدان اپنی تقریروں میں پاکستان کو نیست و نابود کرنے، تباہ کرنے، اس پر قبضہ کرنے اور کھنڈر بنانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اس ناروا طرز عمل سے بھارتی عوام کا جنگی جنون ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ بھارتی سیاستدانوں کی تقریریں پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ختم ہوتی ہیں جبکہ پاکستانی سیاستدان کہیں بھولے بسرے ہی بھارت کا ذکر کرتے ہیں۔ بلا شبہ بھارت پاکستان کا ایسا دشمن ہے جو اس کے وجود کو ہی ختم کرنے کے درپے ہے اسی سبب پاکستان نے سلامتی کو بھارت سے درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی دفاع پر بھرپور توجہ دی اور خود کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ اگر بھارت اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں نہ دیتا تو شاید پاکستانی قیادت کو بھی اپنی دفاع پر اس قدر توجہ نہ دینی پڑتی۔ بھارتی عداوت نے پاکستان کو لوہے کا چنا بنا دیا ہے۔

اب جبکہ پاکستان دفاعی طور پر ایک مضبوط قوت بن چکا ہے، بھارت نے اسے للکارا اور اسے نیست و نابود کرنے کے اپنے مذموم عزائم کا برملا اظہار کیا تو پاکستان نے بھی ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ بھارت کو دن میں تارے دکھا دیے اور اگر نریندر مودی صدر ٹرمپ کے در پر جنگ بندی کیلئے سجدہ ریز نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ بھارت کی دفاعی صلاحیت کا خاتمہ ہو جاتا۔ 1948ء میں اس نے جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کے در پر دستک دی تھی، حالیہ بھارتی سرینڈر نے پون صدی پرانی تاریخ دہرا دی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی قیادت اس ذلت آمیز شکست کے بعد اپنے رویوں پر نظرثانی کرتی اور پاکستان چونکہ اس کا ہمسایہ ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاتے، اسی لئے بھارتی قیادت پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے تحت تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرتی مگر اس نے اس کے برعکس احمقانہ رویہ اپناتے ہوئے ملک کے اندر جنگی جنون کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور پاکستان کو دھمکی آمیز زبان میں مخاطب کیا جا رہا ہے۔

حالانکہ بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ پاکستان کو مغلوب کرنے سے قاصر ہے مگر وہ جنگی جنون ابھارنے سے باز نہیں آ رہی۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار نے ثابت کیا کہ قیام پاکستان کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو آج خطے کے مسلمانوں کا جینا حرام ہوتا اور وہ ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کا شکار ہوتے۔ بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمیوں کے سبب آج بھارت دنیا میں تنہا کھڑا ہے اور کوئی ملک اس کی بات سننے پر آمادہ نہیں جبکہ پاکستان کے ذمہ دارانہ کردار اور مثبت رویوں کے باعث اس کے وقار میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور برصغیر کے اہم خطے سمیت پوری دنیا میں امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارتی قیادت کی پہچان ہی احمقانہ طرز عمل ہے جس کی انتہا پسندانہ سوچ سے موجودہ متمدن دنیا کا یہ اہم خطہ کسی بڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جس کی تمام تر ذمہ داری بھارتی قیادت پر عائد ہوگی۔