وصال محمد خان
موجودہ متمدن اور ترقی یافتہ دنیا میں برصغیر پاک و ہند کا خطہ ان گنت حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس خطے میں لگ بھگ دو ارب افراد بستے ہیں۔ ہندو مت کو ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ، اسلام دوسرے نمبر پر جبکہ عیسائیت، سکھ مت اور دیگر مذاہب کو ماننے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ 1940ء کی دہائی میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ انگریز سرکار کو اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں اور وہ جلد یا بدیر خطے سے بوریا بستر گول کرنے لگا ہے مگر اس کی ترجیح میں برصغیر کو ہندوؤں کے حوالے کرنا ہے۔ انگریز سرکار میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا اس سے مسلمانوں کی اکثریت نالاں تھی۔ ہندو اور مسلم ہر لحاظ سے الگ تھلگ قومیں ہیں۔ ان کا رہن سہن، بول چال، لباس، بود و باش کے طور طریقے اور مذہبی اطوار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
مسلمان بڑا گوشت شوق سے کھاتے ہیں جبکہ ہندو اس سے پرہیز کرتا ہے اور گائے کو ‘‘ماتا’’ مانتے ہیں۔ مسلمان پیشاب کے قطرے کو بھی ناپاک سمجھتے ہیں، اس سے بچتے ہیں اور تین بڑی ناپاکیوں میں سے ایک سمجھتے ہیں جبکہ ہندو گائے کے پیشاب سے منہ ہاتھ بطور تبرک دھوتے ہیں اور اسے عقیدت سے پیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان حتنیہ کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ ہندو اس سے انکار کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق میرے جیسے عام فرد کو بھی معلوم ہیں اس کے علاوہ ان گنت معاملات ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔ مسلمان کھلے دل رکھنے والے اور رواداری کے قائل ہیں جبکہ ہندو تنگ نظر اور متعصب ہیں۔ مستقبل میں انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو کی غلامی میں جانا مسلمانوں کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں تھا اس لئے انہوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ ہندوؤں نے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے عزم و ارادے اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی کہ پاکستان بن گیا۔
پاکستان بنتے ہی ہندو نے سدا کی عداوت کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیر، جوناگڑھ، دکن حیدر آباد اور دیگر کئی علاقوں پر زبردستی قبضہ کیا۔ بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب پہلے ہی سال نوزائیدہ ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ حالانکہ دونوں ممالک ہجرت اور مہاجرین کے گھمبیر مسئلے سے دوچار تھے مگر اس کے باوجود بھارت نے جنگ چھیڑ دی جس میں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے پاس چونکہ باقاعدہ فوج موجود نہیں تھی اس لئے قبائلی عوام نے بھارتی فوج کے خلاف جنگ لڑی اور اسے پسپائی پر مجبور کیا۔ اس دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا قبضہ بھارت سے چھڑا لیا گیا اور اگر بھارت بھاگ کر اقوام متحدہ میں نہ پہنچتا اور اس وعدے پر جنگ بندی نہ ہوتی کہ مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے بعد کشمیریوں کو حق خود ارادیت دی جائے گی تو پورے کشمیر کو بھارتی قبضے سے چھڑانا مشکل نہیں تھا۔
اس کے بعد بھارت نے حیلے بہانوں سے کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کیا، وہاں سات لاکھ فوج تعینات کر دی، نسل کشی پالیسی کے تحت کشمیری نوجوانوں کو چن چن کر مارا گیا، سیاسی لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈالا گیا یا مار دیا گیا اور آخر میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اپنے اندر ضم کر لیا۔ اس دوران پاکستان پر جنگ مسلط کر کے اور اس کے اندرونی معاملات میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جسے آج بھی بھارت اپنا کارنامہ قرار دیتا ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار ملک کو فوجی مداخلت کے ذریعے تقسیم کرنا اور اپنے اس مکروہ فعل پر بغلیں بجانا اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔
اس کے علاوہ سالہا سال سے بھارتی سیاستدان اپنی تقریروں میں پاکستان کو نیست و نابود کرنے، تباہ کرنے، اس پر قبضہ کرنے اور کھنڈر بنانے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اس ناروا طرز عمل سے بھارتی عوام کا جنگی جنون ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ بھارتی سیاستدانوں کی تقریریں پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ختم ہوتی ہیں جبکہ پاکستانی سیاستدان کہیں بھولے بسرے ہی بھارت کا ذکر کرتے ہیں۔ بلا شبہ بھارت پاکستان کا ایسا دشمن ہے جو اس کے وجود کو ہی ختم کرنے کے درپے ہے اسی سبب پاکستان نے سلامتی کو بھارت سے درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی دفاع پر بھرپور توجہ دی اور خود کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ اگر بھارت اٹھتے بیٹھتے پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں نہ دیتا تو شاید پاکستانی قیادت کو بھی اپنی دفاع پر اس قدر توجہ نہ دینی پڑتی۔ بھارتی عداوت نے پاکستان کو لوہے کا چنا بنا دیا ہے۔
اب جبکہ پاکستان دفاعی طور پر ایک مضبوط قوت بن چکا ہے، بھارت نے اسے للکارا اور اسے نیست و نابود کرنے کے اپنے مذموم عزائم کا برملا اظہار کیا تو پاکستان نے بھی ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ بھارت کو دن میں تارے دکھا دیے اور اگر نریندر مودی صدر ٹرمپ کے در پر جنگ بندی کیلئے سجدہ ریز نہ ہوتے تو عین ممکن تھا کہ بھارت کی دفاعی صلاحیت کا خاتمہ ہو جاتا۔ 1948ء میں اس نے جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کے در پر دستک دی تھی، حالیہ بھارتی سرینڈر نے پون صدی پرانی تاریخ دہرا دی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی قیادت اس ذلت آمیز شکست کے بعد اپنے رویوں پر نظرثانی کرتی اور پاکستان چونکہ اس کا ہمسایہ ہے اور ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاتے، اسی لئے بھارتی قیادت پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے تحت تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات سے حل کرتی مگر اس نے اس کے برعکس احمقانہ رویہ اپناتے ہوئے ملک کے اندر جنگی جنون کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور پاکستان کو دھمکی آمیز زبان میں مخاطب کیا جا رہا ہے۔
حالانکہ بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ پاکستان کو مغلوب کرنے سے قاصر ہے مگر وہ جنگی جنون ابھارنے سے باز نہیں آ رہی۔ بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار نے ثابت کیا کہ قیام پاکستان کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو آج خطے کے مسلمانوں کا جینا حرام ہوتا اور وہ ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کا شکار ہوتے۔ بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمیوں کے سبب آج بھارت دنیا میں تنہا کھڑا ہے اور کوئی ملک اس کی بات سننے پر آمادہ نہیں جبکہ پاکستان کے ذمہ دارانہ کردار اور مثبت رویوں کے باعث اس کے وقار میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور برصغیر کے اہم خطے سمیت پوری دنیا میں امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارتی قیادت کی پہچان ہی احمقانہ طرز عمل ہے جس کی انتہا پسندانہ سوچ سے موجودہ متمدن دنیا کا یہ اہم خطہ کسی بڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جس کی تمام تر ذمہ داری بھارتی قیادت پر عائد ہوگی۔