Iran-Israel war and the security situation in the region

ایران اسرائیل جنگ اور خطے کی سیکیورٹی صورتحال

عقیل یوسفزئی
اسرائیل نے حسب توقع ایران پر فضائی حملوں کا آغاز کردیا ہے جس کے باعث پورے خطے میں ایک بڑی اور شاید لمبی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اسرائیل نے ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی سے جمعہ کی شب تہران سمیت اس کے تقریباً 10 شہروں، علاقوں اور ملٹری تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ ان حملوں کے بارے میں عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران کے متعدد ایٹمی ریکٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ ٹارگٹڈ کارروائیوں میں ایرانی فوج کے بعض اہم عہدے داروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایران نے ان حملوں کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کا رسمی اعلان کرتے ہوئے سینکڑوں ڈرون اسرائیل روانہ کئے جو کہ آیندہ چند گھنٹوں میں وہاں پہنچیں گے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک لمبا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔ اسرائیل نے ان حملوں سے بچنے کے لیے انتظامات شروع کردیے ہیں جبکہ متعدد ایئرپورٹس اور عسکری تنصیبات پیشگی خالی کرایے گیے ہیں۔

تاحال خلاصے کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کا پلہ بھاری رہا ہے اور ایران اپنے اہم تنصیبات اور فوجی قیادت سمیت اپنی دارالحکومت تہران کے دفاع میں بھی ناکام رہا ہے ۔ ایران نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ اس تمام پیشرفت کو امریکہ کی آشیرباد حاصل ہے تاہم امریکی سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کا اس صورتحال میں کوئی کردار نہیں ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ایران اور امریکا ایک مذاکراتی عمل کے نتیجے میں جلد ایک معاہدے پر پہنچنے والے ہیں۔

پاکستان نے کھل کر اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی مخالفت اور مذمت کی ہے ۔ دوسری جانب پاکستان ائیر فورس نے پاک ایران بارڈر پر باقاعدہ پٹرولنگ کا آغاز کردیا ہے اور باقی سرحدوں پر ہائی الرٹ جاری کردی گئی ہے۔

ایران کے تمام پڑوسی ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کردی ہیں اور پورے علاقے میں انٹرنیشنل فلایٹس بھی بند ہیں۔

اس صورتحال نے جہاں پاکستان سمیت آدھی دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے وہاں اقوام متحدہ ، او آئی سی اور بعض دیگر عالمی فورمز کی اہمیت اور ساکھ کو بھی سوالیہ نشان بنادیا ہے کیونکہ یہ تمام فورمز نہ صرف یہ کہ اس جنگ کا راستہ روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں بلکہ یہ امریکہ کے دباؤ کے باعث غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر بھی خاموش ہیں۔

اس ضمن میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے لئے مضبوط دفاعی نظام اور قوت کی کتنی اہمیت ہے اور اسی تناظر میں 10 میء کو بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائیوں کی مثال دی جاسکتی ہے جس نے گھنٹوں کے اندر جنگ کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا اور پاکستان ایک بڑی عسکری قوت کے طور پر سامنے آیا۔

وس یوکرین جنگ کے بعد پاک بھارت جنگ اور اب ایران اسرائیل جنگ نے پورے خطے اور دنیا کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے اور ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ نے اس مرحلے پر مداخلت نہیں کی تو یہ جنگ مزید ممالک تک پھیل سکتی ہے۔

The Governor of Khyber Pakhtunkhwa strongly condemned the Israeli attack on Iran

گورنر خیبرپختونخواکی ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایران پر اسرائیلی حملہ کو افسوسناک و قابل مذمت قرار دیا۔ اسرائیل صرف خطہ ہی نہیں پوری دنیا کے لیئے مسائل پیدا کررہا ہے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی اور جارحیت کی روک تھام اور اسکا سدباب انتہائی ضروری ہے۔ اسرائیل کا ایران پر حملہ انتہائی قابل مذمت قدم ہے۔ پاکستانی عوام مشکل کی گھڑی میں ایران کے ساتھ ہیں۔ پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اسرائیلی حملہ میں شہید ایرانی قیادت اور دیگر شہریوں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

With the support of Khyber Pakhtunkhwa Tourism Authority, the caravan of Peshawar bikers left for Thandiani

خیبرپختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے تعاون سے پشاور بائیکرز کا قافلہ ٹھنڈیانی کیلئے روانہ

خیبرپختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے تعاون سے پشاور بائیکرز کا قافلہ ٹھنڈیانی کیلئے روانہ. پشاور بائیکرز کلب تین روزہ ٹورازم اتھارٹی کے کیمپنگ پاڈز میں کیمپنگ کرینگے۔ کیمپ کے دوران شجرکاری اور صفائی مہم میں حصہ لینگے۔ تین روزہ دورے میں 30 کے قریب بائیکرز شریک ہیں۔ بائیکرز ٹوور کا مقصد ایڈونچر ٹورازم کو فروغ دینا ہے۔ عنقریب بڑی سطح پر بھی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔ بائیکرز پشاور سے باراستہ صوابی، ایبٹ آباد اور پھر ٹھنڈیانی پہنچیں گے۔

Khyber Pakhtunkhwa: The budget for the next financial year will be presented today

خیبر پختونخوا: آئندہ مالی سال کا بجٹ آج پیش ہوگا

خیبرپختونخوا حکومت مالی سال 26-2025 کا 2070 ارب روپے کا بجٹ آج صوبائی اسمبلی میں پیش کرے گی۔ مجوزہ بجٹ ترقیاتی پروگرام کیلئے 195 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 44 ارب روپے کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ سرکاری ملازمین کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ بجٹ میں لوکل گورنمنٹ کیلئے45 ارب روپے مختص کئے جائیں گے۔ ضم شدہ اضلاع کے اے ڈی پی کیلئے 33 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔اینول ایکسلریٹڈ پروگرام کیلئے 50 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

بجٹ میں فارن پراجیکٹ اسسٹنس کی مد میں 175 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جبکہ پی ایس ڈی پی فنڈز کے لیے 29 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ خیبر پختونخوا کے بجٹ کا 90 فیصد سے زائد حصہ وفاقی وسائل پر منحصر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت 1148 ارب روپے، نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی مد میں 108 ارب، آئل و گیس رائلٹی سے 55 ارب اوروار آن ٹیرر کے تحت 138 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے ضم اضلاع کے ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیا این ایف سی ایوارڈ دیا جاتا تو صوبے کو 150 سے 200 ارب روپے اضافی حاصل ہو سکتے تھے۔ بجٹ اجلاس سے قبل وزیر اعلیٰ علی آمین گنڈا پور کے زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ صوبائی سالانہ بجٹ میں صوبے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15سے 20٪فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔

Wisal Muhammad Khan

عید کی خوشیاں اور ہماری زمینی حقیقتیں-خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

عید، اگرچہ خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ہر برس اس مبارک موقع پر جان لیوا حادثات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں حسبِ روایت عیدالاضحیٰ کے تین دنوں کے دوران مختلف حادثات میں 55 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہوئے۔ ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 کے مطابق ان تین دنوں میں 1999 ہنگامی واقعات میں امدادی خدمات فراہم کی گئیں، جبکہ 1897 افراد کو ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ 1400 میڈیکل ایمرجنسیز میں مریضوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا، 349 ٹریفک حادثات ہوئے، اور دریاؤں و نہروں میں ڈوبنے کے 6 واقعات رپورٹ ہوئے۔

عید کے موقع پر حکومتی دعوؤں کے باوجود، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا اذیت ناک سلسلہ جاری رہا۔ صوبائی دارالحکومت سمیت کئی اضلاع میں روزانہ 20 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی گئی، جس پر تنگ آئے شہریوں نے مردان، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں عید کے دنوں میں بھی احتجاج کیا۔ مہنگائی کے سبب اس بار قربانی میں 30 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی، جبکہ طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث گوشت خراب ہونے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزارتِ توانائی خیبرپختونخوا میں بجلی کی ظالمانہ بندش کا فوری نوٹس لیں۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کے حوالے سے صرف پیسکو کی رپورٹوں پر انحصار کرنے کے بجائے، وفاقی حکومت کو خود زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایمانداری سے بل ادا کرنے والے صارفین پیسکو کی نااہلی اور بجلی چوروں کے درمیان پس رہے ہیں، جس سے عوام میں وفاق کے خلاف بداعتمادی جنم لے رہی ہے۔

اسی دوران، عید کے دن سے ہی صوبے کو شدید گرمی کی لہر نے لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور درجہ حرارت دن کے اوقات میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ محکمہ موسمیات نے رواں ہفتے بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جو کسی حد تک راحت کا باعث بن سکتی ہے۔

گورنر فیصل کریم کنڈی نے عید اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں منائی اور پیسکو کو وہاں پانچ روز تک لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت جاری کی، جس پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی گئی۔ بعد ازاں، محسود قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر نے صوبائی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے ضم شدہ اضلاع کے سات سو ارب روپے پر شب خون مارا ہے۔ ان کے بقول، انضمام کے وقت وفاق نے ہر سال سات سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن سرتاج عزیز کمیشن کی سفارشات کے باوجود یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔

دوسری طرف وزیراعلیٰ نے عید کے تیسرے روز اپنے حلقے میں عوامی ملاقاتیں کیں اور مختلف شکایات پر موقع پر احکامات بھی جاری کیے۔ ان کا بیان کہ “ہماری حکومت اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ اب ہم وفاق کو قرض دینے کے قابل ہیں”، زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبے کا سالانہ بجٹ تقریباً 2070 ارب روپے (یعنی ساڑھے چھ ارب ڈالرز) ہے، اور اگر اس میں سے دو ارب ڈالر وفاق کو قرض دیے جائیں تو صوبہ کیسے چلے گا؟ خود وزیراعلیٰ چند ہفتے قبل ہی وفاق سے واجبات کی عدم ادائیگی پر گلہ شکوہ کر رہے تھے۔

خیبرپختونخوا کی مالی حالت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ صوبہ اپنے وسائل سے صرف سات فیصد ریونیو اکٹھا کرتا ہے، جبکہ باقی 93 فیصد انحصار وفاقی مدد پر ہے۔ ایک سال سے صوبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے، کئی جامعات دیوالیہ ہو چکی ہیں یا قریب ہیں، سرکاری سکولوں کے بچوں کو مفت کتب کی فراہمی بھی معطل ہے، اور والدین اساتذہ کمیٹیوں کو ڈیڑھ سال سے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔

صوبائی حکومت کی “خود کفالت” کی باتیں اس پس منظر میں بے بنیاد دکھائی دیتی ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری نے اداروں کو مفلوج کر دیا ہے۔ خود حکومتی پارٹی کے وزراء ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگا رہے ہیں، یہاں تک کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی بھی اس دائرے میں آ چکے ہیں، جنہیں پارٹی کی “گڈ گورننس کمیٹی” نے کلین چٹ دی ہے—حالانکہ الزامات خود پارٹی رہنماؤں نے عائد کیے تھے۔

ترقیاتی منصوبے، خصوصاً پشاور-ڈی آئی خان موٹروے، تعطل کا شکار ہیں۔ اگر واقعی صوبائی حکومت کے پاس قارون کا خزانہ آ چکا ہے تو اسے عوام پر خرچ کیا جانا چاہیے، نہ کہ سیاسی بڑھکوں اور وفاق سے حساب چکانے میں۔

جہاں تک اسلام آباد میں “گولی کا جواب گولی” دینے کی دھمکی کا تعلق ہے، وزیراعلیٰ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ماضی میں بھی ڈی چوک کے مظاہرے کے دوران کسی “گولی” کی خبر نہ ملی، اور PTI قیادت محض لاٹھی چارج دیکھ کر راہ فرار اختیار کر گئی۔ ایک وزیراعلیٰ سے تدبر، سنجیدگی اور بالغ نظری کی توقع رکھی جاتی ہے۔

رہا افغانستان سے تعلقات کا معاملہ، تو یہ ریاستوں کے درمیان طے پاتے ہیں، کسی صوبے اور غیر ملکی ریاست کے درمیان نہیں۔ البتہ اگر وفاق کی سطح پر تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو خیبرپختونخوا سمیت دیگر سرحدی علاقوں کو اس کا فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے—بشرطیکہ صوبائی حکومت سنجیدگی سے حکمرانی کرے، نہ کہ ہر وقت سیاسی محاذ آرائی میں الجھی رہے۔

جے یو آئی کی جانب سے صوبائی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک کی باتوں سے لگتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ایک نئی سیاسی کشمکش سر اٹھا رہی ہے، جو ممکنہ طور پر عوامی مسائل کے حل کے بجائے سیاسی مفادات کے گرد گھومے گی۔