سوات کاافسوسناک واقعہ

وصال محمد خان
پنجاب سے آئے ہوئے 18 افراد کے دریائے سوات میں ڈوبنے کا افسوسناک واقعہ جمعہ 27 جون کو اس وقت پیش آیا جب یہ سیاح دریا کے قریب ناشتہ کر رہے تھے کہ اس دوران سیلابی ریلے نے انہیں گھیر لیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ افراد تقریباً دو گھنٹے تک پانی میں پھنسے امداد کا انتظار کرتے رہے، اس دوران لمحہ بہ لمحہ موت ان کے قریب آتی رہی اور آخرکار بپھرا ہوا سیلابی ریلا انہیں بہا کر لے گیا۔ اس افسوسناک واقعے پر کئی پہلو سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ایک جانب حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ڈھنڈورے تو پیٹتی رہتی ہے، عیدین کے موقع پر محکمہ سیاحت فخریہ ہزاروں سیاحوں کے اعداد و شمار جاری کرتا ہے اور معیشت پر مثبت اثرات کا راگ الاپا جاتا ہے۔ مگر دوسری جانب محکمہ سیاحت سیاحوں کو سہولیات کیا فراہم کرے گی، اس کے پاس ان کی زندگی بچانے کی اہلیت بھی موجود نہیں۔ ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ثبت ہو چکے ہیں کیونکہ وہ دو گھنٹے تک پانی میں پھنسے افراد تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ محکمہ سیاحت، محکمہ ریلیف اور ریسکیو 1122 کی نااہلی اپنی جگہ، مگر اس سلسلے میں حکومت پر بھی برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

وزیر اعلیٰ کے بیانات اور حقیقت

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنداپور کا کہنا کہ “میں نے متاثرین کو تمبو نہیں دینے ہوتے، نظام اپنی جگہ موجود ہے” بالکل غلط ہے۔ یہ فرانس کی اس ملکہ کی تقلید ہے جس نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں مل رہی تو لوگ ڈبل روٹی اور کیک کھائیں۔ وزیراعلیٰ نے واقعی کسی کو تمبو نہیں دینے ہوتے اور وہ کوئی سپرمین بھی نہیں جو ہر جگہ موجود ہوں، مگر وزیراعلیٰ اور حکومت نے متعلقہ اداروں کو مطلوبہ ساز و سامان فراہم کرنا ہوتا ہے اور ان اداروں یا افراد پر چیک رکھنا ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام ایمانداری سے انجام دے رہے ہیں یا شہری اجتماعی طور پر پانی کی نذر ہو رہے ہیں۔

دو دو گھنٹے تک لوگ اپنی موت کا نظارہ کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ حکومت آ کر انہیں موت کے بے رحم منہ سے نکالے گی، مگر حکومتی اداروں کو اول تو بروقت اطلاع نہیں ملتی اور اطلاع ملنے پر انہیں مطلوبہ ساز و سامان اور آلات دستیاب نہیں ہوتے۔ اس لیے اٹھارہ افراد دیکھتے دیکھتے موت کے بے رحم منہ میں چلے جاتے ہیں اور حکومتی ادارے بعد میں یا تو لاشیں نکالنے پر داد سمیٹتے ہیں یا اعلیٰ کارکردگی پر انعامات وصول کرتے ہیں۔

ریسکیو نظام اور بجٹ کا تضاد

سانحہ سوات حکومت اور ریاست کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ اس جدید دور میں ایٹمی ملک کے حکومتی اداروں کے پاس یہ اہلیت موجود نہیں جو سیلاب میں پھنسے اٹھارہ افراد کی جان بچا سکیں۔ یہ بدقسمت افراد کسی دور دراز یا ناقابل رسائی مقام پر نہیں بلکہ مرکزی شاہراہ کے بالکل قریب تھے۔ وزیراعلیٰ نے تمبو فراہم نہیں کرنے ہوتے مگر وزیراعلیٰ اور حکومت سیلاب والے علاقوں کے ریسکیو اداروں کو جان بچانے والے آلات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

سوات ریسکیو کے پاس لائف جیکٹس، بوٹس اور سیلاب جیسی افتاد میں پھنسے افراد کو نکالنے کی صلاحیت کیوں موجود نہیں؟ یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ سوات جیسے علاقے کے ریسکیو ادارے کے پاس ماہر تیراک، غوطہ خوروں کی ٹیم اور کشتیاں موجود نہیں جو سیلاب میں پھنسے افراد تک بروقت پہنچ سکیں۔ چترال، سوات اور چارسدہ جیسے اضلاع میں یہ تمام سامان موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان اضلاع کو مطلوبہ سامان کی فراہمی پر دس بارہ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ نہیں آئے گا۔ 2119 ارب روپے کے بجٹ میں سے دس بارہ کروڑ روپے ان علاقوں کیلئے مختص کرنا مشکل نہیں۔

ناقص پالیسی اور بدعنوانی

زیر تبصرہ دلخراش واقعہ جس میں جیتے جاگتے انسان موت کے بے رحم جبڑے میں جا رہے ہیں مگر نہ ہی وہ خود کو بچا سکتے ہیں نہ ہی اپنے پیاروں کو بچانے کی طاقت رکھتے ہیں، اس پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ صوبے میں سیلاب کوئی پہلی بار نہیں آیا، یہاں ہر سال مون سون سیزن میں بارشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، جس کیلئے محکمہ ریلیف کو کمبل اور خیمے تو فراہم کر دیے جاتے ہیں مگر تاحال کسی کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ خطرناک دریاؤں کے ارد گرد پشتے تعمیر کیے جائیں، لوگوں کو بروقت آگاہ کیا جائے یا سیکیورٹی کا کوئی بندوبست ہو جو انجان سیاحوں کو دریا کے خطرناک حصے تک جانے سے روکے۔

اس کی بجائے کمبلوں اور خیموں پر ہر سال اربوں روپے ضائع کیے جاتے ہیں، جن میں متاثرین کو بمشکل دس فیصد امداد ملتی ہے، باقی رقم ہڑپ کر لی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کو بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اس صوبے میں گزشتہ بارہ سال سے مسلسل حکمران ہے، مگر اسے صوبے کی سیلابی صورتحال کا اندازہ بھی نہیں۔ ہر سال چارسدہ، نوشہرہ، مردان، سوات، چترال اور دیر وغیرہ میں اربوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے، قیمتی جانیں سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں، املاک بہہ جاتی ہیں۔ حکومت ریلیف کے نام پر کمبل اور خیمے فراہم کر دیتی ہے اور اگلے سال کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہے کہ سیلاب آئے گا اور حکومت ریلیف کے نام پر کمبل اور خیمے فراہم کرے گی۔

مستقل حل کی ضرورت

تمبو اور کمبل فراہم کرنے کی بجائے سیلاب کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا؟ دریاؤں کے کنارے پشتے تعمیر کرنا دیوار چین تعمیر کرنا تو نہیں۔ پورے صوبے میں دو چار دریا ہی ہیں جو جانی و مالی نقصانات کا باعث بن رہے ہیں۔ ان دریاؤں کیلئے فول پروف انتظامات ناممکن تو نہیں۔ 21 سو ارب روپے کے بجٹ میں سے اگر ہر سال دس پندرہ ارب روپے مختص کیے جائیں تو صوبے کے تمام خونی دریاؤں کا انتظام ہو سکتا ہے۔

نوشہرہ میں ہر سال سیلاب سے تباہی پھیل جاتی تھی، دریا کا رخ موڑنا اگرچہ ممکن نہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ دریا آبادی میں بھی گھر جاتے ہیں، یہ ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوا کہ آبادیاں دریاؤں کے کنارے تک پہنچ گئی ہیں، مگر اول تو اسے روکنا حکومت کا کام تھا اور اگر وہ روکنے میں ناکام ہے تو عوام کے جان و مال کی حفاظت کیلئے اقدامات اس کی ذمہ داری ہے۔

نوشہرہ میں دریائے کابل کے کنارے پشتوں کی تعمیر میں ایک بڑی رقم کرپشن کی نذر ہونے کے باوجود اس منصوبے پر 36 ارب روپے کا خرچہ آیا جو ورلڈ بینک کے تعاون سے مکمل کیا گیا، جس سے نوشہرہ اور اردگرد کے علاقے خاصی حد تک محفوظ ہو گئے۔ ورنہ اس سے قبل ہر سال مون سون کے دوران قیمتی املاک اور جانیں سیلاب کی نذر ہو جاتی تھیں۔ اسی قسم کے انتظامات دریائے سوات اور دیگر دریاؤں کیلئے بھی ممکن ہیں، مگر اس کیلئے حکومت کی توجہ درکار ہے۔

ریسکیو کا محکمہ بھی توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا۔ یہ شعبہ 2010ء میں قائم کیا گیا تھا، پندرہ سال بعد تو اسے اپنے ہیلی کاپٹرز کا مالک ہونا چاہئے تھا، مگر اس کے پاس گاڑیوں کی بھی کمی ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ حکومت نے اس کی گاڑیوں کو پارٹی احتجاجوں کیلئے استعمال کیا جو ابھی تک اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے، سیلاب کی پیشگی آگاہی کا میکنزم قائم کیا جائے، دریاؤں کے پشتے تعمیر کئے جائیں اور سیاحوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ دو گھنٹے پر محیط سوات کے افسوسناک واقعے سے سیاحت کے شعبے کو جو نقصان ہوا ہے، اس کی تلافی عشروں میں بھی ممکن نہیں۔

فیلڈ مارشل کا دوٹوک موقف

فیلڈ مارشل کا دوٹوک موقف

عقیل یوسفزئی
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے واضح انداز میں پیغام دیا ہے کہ پاکستان نے نہ پہلے بھارت کی اجارہ داری قبول کی تھی نہ ہی آئندہ کرےگا، افغانستان ہمارا برادر پڑوسی ملک ہے اس کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں تاہم افغان حکومت فتنہ الخوارج کو اپنی سرزمین پر پناہ نہ دے۔ افسران کی ٹریننگ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک اہم اور طاقت ور ملک ہے اور خدا نے اسے بے پناہ قدرتی، افرادی قوت سے نوازا ہے ضرورت اس بات کی علاقائی یا لسانی وابستگی اور پہچان کی بجائے پاکستان کی شناخت اپناکر اپنے ملک کو مزید آگے لیکر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا جائے اور نظام میں موجود کمزوریوں کو دور کیا جائے حالانکہ ہر ملک اور نظام میں نقائص موجود ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکری اداروں ، قائدین اور عوام نے بھارت کو ہر سطح پر شکست دیکر یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم بھارت کی اجارہ داری قبول نہیں کریں گے اور اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو ہر قیمت پر یقینی بنائیں گے ۔ پہلے اور اب کی طرح آیندہ بھی بھارت کی جارحیت اور اجارہ داری قبول نہیں کریں گے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ بہتر اور پائیدار تعلقات کا خواہاں رہا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور افغان حکومت پاکستان پر حملے کرنے والے فتنہ الخوارج کو پناہ نہ دیا کرے۔

دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک اہم علاقائی طاقت ہے ہم پُرامن رہ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں مگر کسی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور سیاسی مسائل اور ایشوز سیاسی قائدین نے ڈیل اور طے کرنے ہوتے ہیں۔