KPPRA

کیپرا نے دئیے گئے ہدف سے4.56 ارب زیادہ کے محاصل اکٹھے کرلئے

پشاور۔ خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی (کیپرا) نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالی سال 2024-25 میں دئیے گئے ہدف سے 4.56 ارب زیادہ محاصل اکٹھے کرلئے۔
تفصیلات کے مطابق کیپرا نے مالی سال 2024-25 کے دوران 51.56 ارب روپئے کے محاصل اکھٹے کرکے نہ صرف دئیے گئے ہدف کو حاصل کیا بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سےمالی سال 2024-25 کے لئے دیئے گئے 47 ارب روپے کے ہدف سے 4.56 ارب اضافی محاصل اکٹھے کر لیے۔
ترجمان کیپرا کے مطابق، سال 2023-24 کے مقابلے میں رواں برس کیپرا کے محاصل میں 37 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ مالی سال 2024-25 کے دوران سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں 41.3 ارب جبکہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سس کی مد میں 11.26 ارب روپے اکٹھے کئے گئے۔

خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی نے ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینے پر بھرپور توجہ دی، جس کے نتیجے میں مالی سال 2024-25 کے اختتام تک رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد 25,100 سے تجاوز کر گئی۔ ٹیکس نیٹ میں اس اضافے نے محصولات میں نمایاں اضافہ یقینی بنایا۔ ڈائریکٹر جنرل خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی (کیپرا) فوزیہ اقبال نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ دئیے گئے ہدف سے 4.3 ارب روپے زائد محصولات کا حصول کیپرا کی ٹیم کی انتھک محنت، لگن اور پیشہ ورانہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیپرا آئندہ مالی سال کے اہداف کے حصول کے لیے بھی اسی جذبے اور عزم کے ساتھ کام کرے گی۔ اگر ہم نے اسی لگن اور طریقہ کار کو جاری رکھا تو مجھے یقین ہے کہ ہم اگلے سال بھی اپنا ہدف حاصل کر لیں گے اور خیبر پختونخوا کو مالی خود کفالت کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کریں گے۔

فوزیہ اقبال نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جناب علی آمین گنڈاپور اور مشیر خزانہ جناب مزمل اسلم کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کیپرا کی اس کامیابی میں ان کی رہنمائی اور بھرپور تعاون کا کلیدی کردار ہے۔
انہوں نے ٹیکس دہندگان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم اپنے تمام ٹیکس دہندگان کے بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہم پر اعتماد کیا، بروقت ٹیکس ادا کیا اور ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا، ان کی شراکت کے بغیر یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔

ڈی جی کیپرا نے کہا کہ ان کے دفتر کے دروازے ہمیشہ ٹیکس دہندگان کے لیے کھلے ہیں اور کیپرا کی ٹیم ہر ممکن کوشش کرے گی کہ انہیں بہترین سہولیات فراہم کی جائیں اور ٹیکس کی ادائیگی سے متعلق تمام امور کو ان کے لیے آسان اور سہل بنایا جائے۔

Mardan Hosts First Shuhada Police Sports Competition

پہلا شہداء پولیس سپورٹس مقابلہ مردان میں اختتام پذیر

مردان – خیبرپختونخوا کے پہلے شہداء پولیس سپورٹس مقابلے کا انعقاد مردان میں ہوا، جس میں پانچ اضلاع مردان، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی اور مہمند کے پولیس کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں بھرپور شرکت کی۔

انسپکٹر جنرل پولیس زلفیقار حمید کی ہدایات پر شہداء کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان مقابلوں کا اہتمام کیا گیا۔ اختتامی تقریب پولیس لائنز مردان میں منعقد ہوئی، جس میں ریجنل پولیس آفیسر نجیب الرحمن، ڈی پی او مردان ظہور بابر آفریدی، ڈی ایس پیز، افسران، شہداء کے ورثاء اور کھلاڑیوں نے شرکت کی۔

Mardan Hosts First Shuhada Police Sports Competition

تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ فاتح کھلاڑیوں کو انعامات اور ٹرافیاں شہداء کے اہل خانہ نے دیں۔

فائنل مقابلوں کے نتائج:

فٹبال: مردان نے نوشہرہ کو شکست دی

کرکٹ: نوشہرہ نے مہمند کو ہرایا

بیڈمنٹن (مرد): مردان نے نوشہرہ کو شکست دی

بیڈمنٹن (خواتین): مردان نے نوشہرہ کو ہرایا

والی بال: مردان نے صوابی کو ہرایا

اس مقابلے کا مقصد نوجوان پولیس اہلکاروں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا، شہداء کی قربانیوں کو اجاگر کرنا، اور بین الاضلاعی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ افسران نے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔

Rickshaw Drivers Protest in Charsadda Against "Cruel" Road Tax

چارسدہ میں رکشہ ڈرائیورز کا ظالمانہ روڈ ٹیکس کے خلاف احتجاج

چارسدہ – فاروقِ اعظم چوک میں چنگ چی رکشہ ڈرائیورز نے ٹی ایم اے کے نئے روڈ ٹیکس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور چوک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے مکمل بند کر دیا۔

مظاہرین نے 100 روپے روڈ ٹیکس کو مہنگائی کے دور میں ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ایک طرف مہنگائی، دوسری طرف ٹی ایم اے کا ظالمانہ ٹیکس، ہم کہاں جائیں؟”

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم بمشکل ایک وقت کی روٹی کما سکتے ہیں، ٹیکس کہاں سے دیں؟ ٹریفک پولیس پر بھی سخت نعرے بازی کی گئی۔ “720 روپے کے چالان دیے جاتے ہیں، ہم یہ کیسے ادا کریں؟”

رکشہ ڈرائیورز نے منتخب نمائندوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، کہ وہ صرف ووٹ لینے کے دن نظر آتے ہیں، بعد میں غائب ہو جاتے ہیں۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ٹی ایم اے یہ ظالمانہ روڈ ٹیکس فوری واپس لے، ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔

خیبرپختونخوا کو بیک وقت دہشت گردی اور بیڈ گورننس کا سامنا

عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقے رواں ماہ بدترین دہشت گرد حملوں کی ذد میں رہے جبکہ دوسری جانب بیڈ گورننس کے شاخسانے اپنے عروج پر رہے اور کرپشن کی ” دوڑ ” بھی جاری رہی جس کے باعث صوبے کے تمام معاملات بدتر ہوتے گئے ۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں فورسز کی گاڑی پر کالعدم ٹی ٹی پی کے حافظ گل بہادر گروپ نے خودکش حملہ کرکے 13 سیکورٹی اہلکاروں کو شہید جبکہ بچوں اور خاتون سمیت متعدد سویلین کو زخمی کردیا ۔ فورسز کی کارروائی میں 14 دہشت گردوں کو ہلاک اور متعدد دیگر کو زخمی کردیا گیا تاہم اتوار کے روز ایک بار پھر لکی مروت میں فورسز کی گاڑی پر حملہ کردیا گیا جس کے نتیجے میں 3 اہلکاروں کی شہادت اور 2 کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ لکی مروت میں امن کمیٹی یا لشکر پر بھی حملے کی اطلاع زیر گردش رہی ۔ اتوار ہی کے روز کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ اس نے سوات کے علاقے بریکوٹ میں ایک پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے۔

آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر شمالی وزیرستان حملے کے بعد ہنگامی طور پر کراچی سے بنوں پہنچے جہاں انہوں نے شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کی۔

دریں اثناء انہوں نے کور ہیڈکوارٹر پشاور میں ایک اہم سیکیورٹی بریفنگ میں شرکت کی ۔ کور کمانڈر پشاور نے ان کو صوبے کی سیکیورٹی صورتحال اور فورسز کی کارروائیوں سے آگاہ کیا ۔ میڈیا رپورٹس اور فوج کے ترجمان ادارے کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واضح کیا کہ دہشت گردوں ، ان کے اسپانسرز اور سہولت کاروں کو سخت ترین سزائیں دیکر ان کا خاتمہ کیا جائے گا اور بدامنی میں ملوث تمام عناصر کی بیخ کنی کی جائے گی۔ تاہم اس تمام سنگین صورتحال سے صوبائی حکومت حسب معمول لاتعلق ہی رہی ۔ یہاں تک کہ سوات میں ہونے والے افسوس ناک واقعے اور سیاحوں کی اموات سے بھی اہم ذمہ داران اور نام نہاد عوامی نمائندے لاتعلق ہی رہے۔ چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ نے سوات کا دورہ کرتے ہوئے بعض اہم احکامات جاری کیے جن میں تقریباً 50 ان ہوٹلوں کی بندش اور مسماری بھی شامل ہے جو کہ غیر قانونی طور پر دریائے سوات کے کنارے یا اس کی حدود میں تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ بعض ضروری سہولیات کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی میں جن ” عناصر” نے کروڑوں لیکر این او سیز جاری کیں یا تعمیرات کی اجازت دی ان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں کیونکہ ان میں سے اکثر اس وقت بھی اہم ” کرسیوں” پر براجمان ہیں اور بہت سے حلقوں کو ان کے نام اور عہدے تک معلوم ہیں۔ محض چند چھوٹے افسران اور ڈپٹی کمشنر کو ہٹانے سے بات نہیں بنے گی۔

صوبے کے حکمرانوں کو اپنی زمہ داریوں کا کوئی ادراک نہیں ہو رہا اور وہ بدترین کرپشن، لابنگ اور دوسری سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ سینئر صحافی شمیم شاہد کے مطابق یہ اس جنگ زدہ صوبے کی بدقسمتی ہے کہ محمود خان کا دور پرویز خٹک اور علی امین گنڈا پور کا دور حکومت محمود خان کے دور سے برا ہے ۔ ان کے بقول صوبائی حکومت کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ان کی تمام توجہ اپنے بانی کی رہائی کے ڈراموں اور کرپشن پر مرکوز ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اگر ایک طرف دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب روزانہ کی بنیاد پر سوات جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں ۔ سابق ہوم سیکرٹری ڈاکٹر اختر علی شاہ کے مطابق سوات سانحہ کا درکار پلاننگ کے تحت راستہ روکا جاسکتا تھا مگر انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کیا جس کے باعث نہ صرف بہت سی جانیں چلی گئیں بلکہ سوات سمیت صوبے کی سیاحت اور ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔