مون سون سیزن اور سوات سانحہ
خیبرپختونخوا میں مون سون سیزن کے آغاز سے گرمی کی شدت قدرے کم ہو چکی ہے مگر اس سے حسب سابق سیلابوں اور طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 18 سیاحوں کے دریائے سوات میں ڈوبنے کی خبر سے صوبے سمیت پورے ملک میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی جس پر تاحال تبصروں اور صوبائی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر صوبائی حکومت بروقت اقدامات کرتی تو یقیناً شہریوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ سوات واقعہ کسی المیے سے کم نہیں کہ اٹھارہ افراد جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شہری بھی شامل تھے، ایک ایک کر کے سیلاب کی نذر ہوتے رہے مگر حکومت کو اول تو اس کی خبر نہیں تھی اور جب خبر ملی تو یہ بدقسمت جیتے جاگتے انسان لاشوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔
عدالتی کارروائی اور محکمانہ اقدامات
سانحہ سوات پر پشاور ہائیکورٹ نے بھی ازخود نوٹس لیا ہے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “کمشنر ملاکنڈ کہاں ہیں، انکوائری آفیسر کون ہیں؟ انکوائری مکمل ہے یا تاحال جاری ہے؟” انہوں نے انکوائری کمیشن کے چیئرمین کو فوری طلب کیا اور ان سے استفسار کیا تو جواب ملا کہ “میں نے سوات کا دورہ کیا ہے، رپورٹ تیار ہو رہی ہے جس میں سات دن کا وقت لگے گا، کچھ محکموں کی جانب سے سنگین کوتاہیاں سامنے آئی ہیں، رپورٹ میں تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے گا”۔ عدالت نے متعلقہ محکموں سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
ریلیف اقدامات اور عوامی ردعمل
5 سے 11 جولائی کے دوران صوبے میں مزید طوفانی بارشوں اور سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ پراوِنشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے نشیبی علاقوں، دریا کنارے آباد شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے اور سیاحوں کو دریاؤں سے دور رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سوات واقعے کے بعد چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کے حکم پر سوات، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں بھی دریاؤں کے کنارے قائم ناجائز تجاوزات مسمار کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوات اور نوشہرہ میں دریاؤں کی اراضی پر قائم نامی گرامی ہوٹلوں کی ناجائز تجاوزات مسمار کر دی گئی ہیں۔ متاثرین کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن ناانصافی پر مبنی ہے۔ این او سی کے حامل اور قانونی تعمیرات بھی گرائی جا رہی ہیں، غریبوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے مگر بااثر افراد کی تعمیرات سے پہلوتہی کی جا رہی ہے۔ صوبے کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں نے تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
باجوڑ حملہ اور سیکیورٹی صورتحال
گزشتہ بدھ کو باجوڑ میں دہشت گردوں نے سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ حملے کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار سمیت پانچ افراد جام شہادت نوش کر گئے۔ دن دو بجے کے قریب تحصیل خار کے علاقے صدیق آباد پھاٹک میں ناواگئی روڈ پر اسسٹنٹ کمشنر ناواگئی فیصل اسماعیل کی گاڑی کو اس وقت موٹر سائیکل میں نصب بم سے نشانہ بنایا گیا جب وہ ناواگئی سے ہیڈکوارٹر خار جا رہے تھے۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنر ناواگئی فیصل اسماعیل، تحصیلدار عبدالوکیل خان، پولیس اہلکار زاہد اور ایک راہگیر فضل منان شہید ہو گئے جبکہ شدید زخمی سب انسپکٹر فضل حکیم پشاور منتقلی کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے۔ پولیس کے مطابق بارودی مواد موٹر سائیکل میں نصب تھا، ٹائم ڈیوائس یا ریموٹ کنٹرول کا تعین ہونا باقی ہے، بم کا وزن سات سے 10 کلو گرام تھا۔ اس سے چند روز قبل شمالی وزیرستان میں بھی ایک چیک پوسٹ پر حملے کے دوران 14 سیکیورٹی اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
سیاسی بحران اور مخصوص نشستوں کا فیصلہ
صوبے کو بارشوں، سیلاب کی تباہ کاریوں اور امن و امان کی خرابی جیسے سنگین حالات کا سامنا ہے مگر صوبائی حکومت کی ترجیحات عمران خان کی رہائی کے بیانات، سیاسی بیان بازی اور محرم کے بعد احتجاجی تحریک کے اعلانات ہیں۔ سپریم کورٹ آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کا حق تسلیم نہیں کیا۔ اب یہ نشستیں پارلیمان میں موجود دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں خواتین کی 21 جبکہ اقلیتوں کی 4 نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کر دی گئی ہیں جن میں جے یو آئی کے حصے میں دس، مسلم ن 9، پیپلز پارٹی 6، اے این پی اور پی ٹی آئی پی کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ نئی صورتحال سے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کسی حد تک مستحکم ہو گئی ہے۔ آئینی بنچ فیصلے سے قبل اپوزیشن کے پاس مجموعی طور پر 27 نشستیں تھیں جو اجلاس ریکوزیشن کے لیے بھی ناکافی تھیں مگر اب اپوزیشن کو 52 ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
وزیر اعلیٰ کا ردعمل اور سیاسی موومنٹ
کچھ حلقے اسمبلی میں آزاد 35 ارکان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ ان کی تعاون سے صوبائی حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے مگر یہ بے وقت کی راگنی لگتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے جو ارکان آزاد رہ گئے ہیں ان میں بیشتر یا تو پارٹی کے دیرینہ ساتھی ہیں یا پھر وہ موجودہ حکومت میں بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں جن میں سابق سپیکر مشتاق غنی، صوبائی وزرا خلیق الرحمان، مینا خان، فضل حکیم، ڈاکٹر امجد اور ڈپٹی سپیکر ثریا بی بی سمیت خود علی امین گنڈاپور بھی شامل ہیں۔ مگر سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور پھر پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ شاید خطرے کی بو سونگھ کر وزیر اعلیٰ کا لہجہ مزید تلخ ہو چکا ہے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کسی میں ان کی حکومت ختم کرنے کا دم نہیں، اگر ان کی حکومت ختم ہوئی تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے محرم کے بعد ایک بار پھر بانی کی رہائی کے لیے تحریک چلانے اور گولی کا جواب گولی سے دینے کا اعلان کیا۔ مذکورہ پریس کانفرنس میں پارٹی چیئرمین کا رویہ قدرے نرم تھا، انہوں نے مذاکرات سے مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا جبکہ علی امین گنڈاپور اس موقع پر بھی ڈینگیں مارنے اور بڑھکیں لگانے کی روایت پر قائم رہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کا الزام بھی لگایا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر مقتدرہ اور وفاق صوبائی حکومت کو ختم کرنا چاہیں تو پی ٹی آئی یا گنڈاپور روکنے کی اہلیت نہیں رکھتے مگر وفاق کو صوبائی حکومت گرانے میں زیادہ دلچسپی نہیں ورنہ اسے ختم کرنے کے کئی یقینی مواقع ضائع نہ کیے جاتے۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی بانی پی ٹی آئی کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ “ان کی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، انہیں ‘منافع بخش’ وزارتوں اور اہم عہدوں کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے ٹھکرا دی”۔
اگر مولانا واقعی صوبائی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو حکومت کے سر سے بڑا بوجھ اتر جانا چاہئے کیونکہ مولانا کے پاس صوبائی اسمبلی میں 19 ووٹ ہیں جن کے بغیر حکومت گرانا ممکن نہیں۔ ایمل ولی خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اے این پی نے بھی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حکومت گرانے کے عمل کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی پی اور اے این پی نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کر کے ایک ایک نشست ملنے پر اعتراض اٹھایا ہے۔ ان دونوں کا مؤقف ہے کہ ان کی دو دو نشستوں پر انہیں مزید ایک ایک نشست ملنی چاہئے۔
اس سے قبل صوبائی اسمبلی کا اجلاس یکم جولائی تک ملتوی کیا گیا تھا مگر مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے پر اجلاس اسی خدشے کے پیش نظر غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا کہ اجلاس منعقد ہونے پر نئے ارکان سے حلف لینا آئینی تقاضا ہے۔ صوبائی حکومت نے پہلے بھی نئے ارکان کے حلف اٹھانے میں اجلاس ملتوی کر کے روڑے اٹکائے تھے۔ دیکھتے ہیں آئندہ کیا لائحہء عمل اختیار کیا جاتا ہے۔
وصال محمد خان