وصال محمدخان
گزشتہ ہفتے مسلسل بارشوں سے گرمی میں کچھ نرمی واقع ہوگئی ہے مگرسینیٹ انتخابات کاشیڈول آنے سے سیاسی درجہء حرارت خاصی حدتک بڑھ چکاہے۔اے این پی،،قومی وطن پارٹی اورجماعت اسلامی ماضی میں قابل ذکرپارلیمانی قوتیں رہ چکی ہیں مگرحالیہ سینیٹ انتخابات میں ان کاکوئی کردارموجودنہیں آخرالذکردونوں جماعتیں اسمبلی میں نمائندگی سے بھی محروم ہوچکی ہیں۔ جے یوآئی اورمسلم لیگ ن کے درمیا ن قانونی جنگ کے نتیجے میں جے یوآئی ایک خاتون نشست سے محروم ہوچکی ہے جومسلم لیگ ن کومل گئی۔ایک اقلیتی نشست پردونوں کے درمیان ٹاس کافیصلہ ہوامگرمفاہمت کے نتیجے میں ن لیگ مقابلے سے دستبردارہوئی۔جبکہ پیپلزپارٹی سے واپس لی گئی نشست پرپی ٹی آئی پی اوراے این پی کے درمیان ٹاس ہواجواے این پی نے جیت لیا۔اب145رکنی ایوان میں سنی اتحاد کونسل 58، آزاد 35(درحقیقت پی ٹی آئی 93ارکان)،جے یوآئی 18،مسلم لیگ ن 17،پیپلزپارٹی 10،اے این پی4جبکہ پی ٹی آئی پی کے 3ارکان ہیں۔حکومتی ممبران کی تعداد93جبکہ اپوزیشن کو 52ارکان کاساتھ حاصل ہے۔7جنرل،2خواتین جبکہ2 ٹیکنوکریٹس سمیت کل11 نشستوں پرانتخاب ہوناہے۔ جنرل نشست پرکامیابی کیلئے کم وبیش 20،جبکہ خواتین اورٹیکنوکریٹ ہرنشست پر کامیابی کے لئے 45 ووٹ درکارہونگے۔گزشتہ سینیٹ انتخابات میں 14ووٹوں سے بھی جنرل نشست پر سینیٹرکاانتخاب ہوچکاہے۔اسلئے حکومت اگر چہ 7میں سے5نشستیں جیتنے کادعویٰ توکرتی ہے مگردوچارووٹ ادھرادھرہوجانے سے اپوزیشن تین جنرل،ایک ایک ٹیکنو کریٹ اورویمن نشستوں سمیت 5نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ یعنی حکومت سے ایک نشست چھیننے کی بھرپورکوشش ہورہی ہے۔ جے یوآئی ایک جنرل اور ایک ٹیکنو کریٹ نشست حاصل کرنیکی خواہاں ہے،پیپلزپارٹی کے پاس 10ووٹ ہیں مگروہ ایک جنرل اورایک ویمن نشست پر نظریں جما ئے بیٹھی ہے۔جبکہ مسلم لیگ ن جنرل نشست پر امیرمقام کے بیٹے نیازاحمدکوسینیٹر بنوانے کی خواہاں ہے۔ صوبے سے سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پرپیر21جولائی کوصوبائی اسمبلی ہال میں پولنگ ہوگی۔ جنرل نشستوں پر مرزامحمدآفریدی،فیصل جاوید، مراد سعید اور نور الحق قادری،ٹیکنوکریٹ پراعظم سواتی جبکہ ویمن نشست پر روبینہ ناز حکمران جماعت کے امیدوارہیں۔ جے یوآئی نے جنرل نشست پر مولانا عطاء الحق درویش جبکہ ٹیکنوکریٹ نشست پردلاورخان کو نامزدکیاہے۔دلاورخان2018ء سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کی تعاون سے آزادکامیاب ہوئے تھے اس وقت ن لیگ سے نشان واپس لیاگیاتھااسلئے سینیٹ امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیادلاورخان نے کامیابی کے بعدن لیگ جوائن کرنیکی بجائے آزاد گروپ تشکیل دیا۔اس باروہ جے یوآئی کے امیدوار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے جنرل نشست پرجے یوآئی کے سابق سینیٹرطلحہ محمودجبکہ ویمن نشست پر روبینہ خالدکونامزدکیاہے۔پیپلز پار ٹی کے پاس اگر چہ دس ارکان ہیں مگراسے اے این پی اورپی ٹی آئی پی کاتعاون حاصل ہوسکتاہے۔ اس سے قبل مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعدصوبائی حکومت نئے ارکان سے حلف لینے میں تاخیری حربوں سے کام لے رہی تھی جس کے خلاف اپوزیشن نے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ہائیکورٹ گزشتہ برس بھی ارکان سے حلف لینے کاحکم جاری کرچکی ہے۔اس بارحلف نہ لینے کی صورت میں سینیٹ انتخابات ایک مرتبہ پھرملتوی ہونے کاخدشہ پیداہوگیاتھااپوزیشن لیڈرنے سپیکرصوبائی اسمبلی اورالیکشن کمیشن کوخط لکھ کراجلاس بلانے کی درخواست کی۔الیکشن کمیشن نے بھی ہائیکورٹ کوخط لکھا اس حوالے سے سپیکرکامؤقف تھاکہ وہ ازخوداجلاس بلانے کااختیارنہیں رکھتے۔اجلاس بلانے کے چونکہ دوطریقے ہیں یاتووزارت قانون وزیراعلیٰ کوسمری ارسال کرتی ہے جس کی منظوری دیکر اسے گورنر کو بھیجاجاتاہے دوسری صورت ارکان کی جانب سے ریکوزیشن کی ہے مگرجب تک نئے ارکان حلف نہیں لیتے تب تک اپوزیشن کے پاس ریکوز یشن کیلئے ارکان پورے نہیں۔اب وزارت قانون نے اجلاس بلانے کی سمری وزیراعلیٰ کوبھیج دی ہے جوانہیں منظورکرکے گورنر کوبھیجیں گے گورنر20جولائی بروزاتواراجلاس بلائیں گے جس میں نئے ارکان سے حلف لیاجائیگااسکے بعدپیر21جولائی کویہ ارکان سینیٹ انتخابا ت میں ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔حکمران جماعت کے کارکن عرفان سلیم،خرم ذیشان،وقاص اورکزئی،ارشادحسین اورعائشہ بانو کوسینیٹ کے ٹکٹس نہ ملنے پرناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔حکومت اوراپوزیشن کے درمیان بلامقابلہ انتخاب کے فارمولے پربھی اتفاق ہوچکاہے۔جس کے تحت 6نشستیں حکومت جبکہ 5اپوزیشن کوملنے کافارمولاطے پاچکاہے مگراسکی راہ میں حکمران جماعت کے ٹکٹ سے محروم امیدوار حائل ہیں جوکاغذات واپس لینے پرآمادہ نہیں ہورہے۔پارٹی کی مرکزی قیادت بھی سرگرم ہوچکی ہے اگریہ امیدوارکاغذات نامزدگی واپس لیتے ہیں توتمام سینیٹرزبلامقابلہ منتخب ہونیکے قوی امکانات ہیں۔ ثانیہ نشترکے استعفیٰ سے خالی ہونیوالی نشست پر31 جولائی کوپولنگ ہوگی اس نشست پرحکمران جماعت کی کامیابی یقینی ہے جس کیلئے مشال یوسفزئی کوامیدوارنامزدکیاگیاہے مشال یوسفزئی بشریٰ بی بی اورعمران خان دونوں کی منظورنظرہیں اسلئے شدیدمخالفت کے باوجود انہیں ٹکٹ دیا گیا اس سے قبل علی امین گنڈاپورانہیں دومرتبہ کابینہ سے فارغ کرچکے ہیں۔مشال یوسفزئی نے سینٹ میں عمران خان کی رہائی کیلئے آواز بلند کرنے کاعزم دہرایاہے۔
مولاناخان زیب کی شہادت اورثمربلورکی پارٹی چھوڑجانے سے اے این پی کودوہری پریشانی کاسامناہے۔پارٹی کے مرکزی سیکرٹر ی امور علماء مولاناخان زیب عالم دین، مصنف،دانشوراورکالم نگارکی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتے تھے۔ باجوڑ میں انکی رہائشگاہ پرتعزیت کرنیوا لو ں کاتانتابندھارہا۔اے این پی کے علاوہ دیگرجماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین اورکارکن بھی بڑی تعداد میں اہلخانہ سے اظہار تعز یت کیلئے حاضرہوئے۔اے این پی نے صوبے میں امن وامان کی ابترصورتحال،علماء،سیاسی راہنماؤں اورسیکیورٹی فورسز اہلکاروں کی ٹار گٹ کلنگ،مائنزاینڈمنرلزبل، صوبائی حقوق اور18ویں ترمیم کے ممکنہ خاتمے کے حوالے سے باچاخان مرکزپشاورمیں 26جولائی کو پختو ن قومی جرگہ جبکہ اسلام آبادمیں آل پارٹیزکانفرنس کااعلان کیاہے اے پی سی کی تاریخ کااعلان بعدمیں کیاجائیگا۔تھنک ٹینک اجلاس کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے مرکزی صدرایمل ولی خان کاکہنا تھا کہ مولاناخان زیب کی ٹارگٹ کلنگ پرچیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایاجائے جس میں مولانا کے خاندان سے بھی ایک فردشامل ہو۔ہمارے راہنمااورکارکن ٹارگٹ ہورہے ہیں مگرقاتلوں کاسراغ نہیں مل رہا۔
فرنٹیئرکانسٹبلری کووفاقی فورس میں تبدیل کردیاگیاہے جس پرصوبے کے متعددسیاسی راہنماؤں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیاہے۔ وزیرقانون آفتاب عالم کاکہناہے کہ ”فرنٹیئرکانسٹیبلری ری آرگنائزیشن آرڈیننس 2025“ صوبائی خودمختاری پرحملے کے مترادف ہے۔ ایف سی کوفیڈرل فورس میں تبدیل کرنا18ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے،ایف سی کے پاس ایف آئی آراندراج کا اختیا نہیں تھا اسے پولیس اختیارات سے لیس کرکے صوبے میں تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیاجائیگا۔سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ نے بھی اس فیصلے پرتحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ قبائلی اضلاع کے قیام امن میں فورس کاکلیدی کردارہے،اسے وفاقی فورس میں تبدیل کرناسمجھ سے بالاترہے، فیصلے کے منفی نتائج سامنے آئیں گے اورفورس کی کارکردگی پربھی برے اثرات مرتب ہونگے۔جبکہ وفاق کا کہناہے کہ فورس کووفاقی فورس میں تبدیل کرنے کے بہترین نتائج متوقع ہیں اس اقدام سے اہلکاروں کے معاوضے اورسروس سٹر کچر جیسے مسائل کاخاتمہ ہوگا۔یادرہے ایف سی فورس 1915ء میں قائم کی گئی تھی جس کی غالب اکثریت قبائلی نوجوانوں پرمشتمل ہے۔فاٹا اوربعد ازاں ضم شدہ اضلاع کے قیام امن میں فورس کاکلیدی کردار ہے۔اگرنئی تبدیلی ناگزیرہے توحکومت کویہ معاملہ پارلیمنٹ کے فلورپرلاناچاہئے۔
ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی کی صوبہ گیر ڈیٹا کلیکشن مہم کا آغاز
ہنگو: چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی ہدایات کی روشنی میں ایجوکیشن مانیٹرنگ اتھارٹی (EMA) نے 16 جولائی 2025 سے صوبہ بھر میں ڈیٹا کلیکشن ایکسرسائز کا آغاز کر دیا ہے، جس کا مقصد مختلف محکموں کی کارکردگی اور ضروریات کا جائزہ لینا ہے۔
اس سلسلے میں ضلع ہنگو میں ایک اہم اجلاس ڈپٹی کمشنر جناب گوہر زمان وزیر کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مقامی حکومت، سیاحت، لائیوسٹاک، زراعت اور سوشل ویلفیئر سمیت متعلقہ محکموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔
ڈپٹی کمشنر نے تمام محکموں کو ہدایت کی کہ EMA کی فیلڈ ٹیموں کو مکمل تعاون فراہم کیا جائے اور ان کی بلا رکاوٹ رسائی یقینی بنائی جائے تاکہ ڈیٹا کلیکشن کا عمل مؤثر اور بروقت مکمل کیا جا سکے۔
اجلاس میں طے پایا کہ ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن میٹنگز اور مانیٹرنگ کا عمل مسلسل جاری رکھا جائے گا تاکہ کسی بھی رکاوٹ یا مسئلے کی فوری نشاندہی اور حل ممکن ہو سکے۔
جی او سی نائن ڈویژن کی کرم اور ہنگو کے نوجوانوں سےملاقات
ہنگو کے علاقے ٹل میں واقع ڈویژنل ٹیکٹیکل ہیڈکوارٹرز میں جی او سی نائن ڈویژن میجر جنرل ذوالفقار علی بھٹی کی زیر صدارت لوئر کرم، سنٹرل کرم اور ہنگو کی نمائندہ یوتھ آرگنائزیشنز کے نوجوانوں کے ساتھ ایک اہم اور بامقصد نشست کا انعقاد کیا گیا۔
اس خصوصی ملاقات کا مقصد نوجوانوں کے خیالات سننا، ان کے مسائل کو براہِ راست جاننا اور کرم کی ترقی، امن و استحکام کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنا تھا۔
اجلاس میں شریک نوجوانوں نے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، امن و امان اور معاشرتی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی اسکول اور اسپتال غیر فعال ہیں، عملہ غیر حاضر رہتا ہے، زمینوں کے تنازعات تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں، خواتین کی تعلیم نظر انداز ہو رہی ہے، جبکہ نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
میجر جنرل ذوالفقار علی بھٹی نے نوجوانوں کے جذبے اور مسائل بیان کرنے کے انداز کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی سویلین اداروں کی ذمہ داری ہے، لیکن پاک فوج ان مسائل کے حل میں ہر ممکن تعاون کرے گی اور نوجوانوں کی آواز اعلیٰ حکام تک پہنچائے گی۔
جی او سی نے اس بات پر زور دیا کہ کرم میں دیرپا امن صرف انفراسٹرکچر سے ممکن نہیں، بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، باہمی رواداری اور مثبت سوچ اپنانا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ “معاہدہ کوہاٹ” کو سنہری موقع سمجھیں اور اس کے تحت جاری امن کوششوں میں بھرپور کردار ادا کریں۔
انہوں نے نوجوانوں کو آگاہ کیا کہ ان کے مطالبات، خصوصاً تعلیمی سیمینارز کے انعقاد اور خواتین کے لیے آرمی اسکول و کالجز کے قیام کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جلد مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا تاکہ علاقائی اتحاد کو فروغ دیا جا سکے۔
نشست کے اختتام پر تمام شرکاء نے کرم، ہنگو اور پاکستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے دعا کی۔
برفانی علاقوں میں فلیش فلڈز اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کا خدشہ
خیبر پختونخوا میں جاری موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے درجہ حرارت کے پیش نظر پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے صوبے کے برفانی علاقوں میں ممکنہ خطرات سے خبردار کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری مراسلے میں چترال اپر و لوئر، دیر اپر، سوات، اور کوہستان اپر کو حساس علاقے قرار دیتے ہوئے برفانی جھیلوں کے پھٹنے (Glacial Lake Outburst Floods – GLOFs) اور اچانک آنے والے سیلاب (فلیش فلڈز) کے خدشے کا اظہار کیا گیا ہے۔
اتھارٹی نے ان اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ انسانی جانوں، مال مویشی، فصلوں اور بنیادی انفراسٹرکچر کو ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے بروقت حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
جاری کردہ ہدایات میں گلیشیئرز اور برفانی جھیلوں کی مسلسل نگرانی پر زور دیا گیا ہے، تاکہ کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر بروقت وارننگ جاری کی جا سکے۔ علاوہ ازیں، مقامی آبادی کو خطرات سے آگاہ کرنا اور ریسکیو و ریلیف اداروں کے درمیان موثر رابطہ قائم رکھنا بھی پلان کا اہم حصہ ہے۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ متوقع خطرات سے بچاؤ کے لیے مقامی سطح پر آگاہی مہم، محفوظ مقامات کی نشاندہی اور بروقت انخلاء کی حکمت عملی تیار رکھی جائے۔
مانسہرہ، خواتین کی پہلی ادبی و ثقافتی تنظیم کا بھرپور آغاز
بفہ، ضلع مانسہرہ میں خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم “لکیوالے جینئی بفہ ہزارہ” کے زیرِ اہتمام ایک منفرد ادبی اور ثقافتی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت پروفیسر حفیفہ داؤد نے کی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی معروف ادیب و محقق پروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم تھے، جب کہ دیگر معزز مہمانوں میں برطانیہ سے آئی ہوئی مہمان خواتین مس عابدہ اور مس ممتاز، ڈاکٹر عطا اللہ خان، محمد اقبال خان اور مہر خلیل شامل تھے۔
تقریب کا ایک نمایاں پہلو خواتین کی ہاتھ سے تیار کردہ کشیدہ کاریوں کی ثقافتی نمائش تھی، جس میں تکیوں اور سرہانوں کے غلاف، میز پوش، چادریں اور سجاوٹی اشیاء شامل تھیں۔ اس نمائش کا مقصد نئی نسل، خصوصاً نوجوان خواتین کو اپنی روایتی ثقافت اور مقامی دستکاریوں سے روشناس کرانا تھا۔ تنظیم کی صدر رمشاہ خان سواتی کے مطابق یہ اس تنظیم کی پہلی کاوش ہے، جسے آگے چل کر پورے ہزارہ ڈویژن تک وسعت دی جائے گی تاکہ خواتین کی تخلیقات کو محفوظ اور فروغ دیا جا سکے۔
تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں تنظیم کے مقاصد اور اہمیت پر مقررین عین الریاض، مقدس اور ڈاکٹر اسماعیل گوہر نے اظہارِ خیال کیا۔ دوسرا حصہ رمشاہ خان سواتی کی کتاب “فرہنگِ حسین ملک پوری” کی تقریبِ رونمائی پر مبنی تھا، جس میں عین الریاض، پروفیسر عطا اللہ شاہ (چیئرمین اردو ڈیپارٹمنٹ، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسہرہ)، محمد اقبال خان، مہر خلیل (ڈپٹی ڈائریکٹر، ہزارہ یونیورسٹی میوزیم)، اور ڈاکٹر عطا اللہ خان (پرنسپل ہائیر سیکنڈری اسکول بفہ) نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مقررین نے اس امر کو سراہا کہ رمشاہ خان نے ہزارہ کے کلاسیکی پشتو شاعر حسین ملک پوری کے دیوان پر مبنی یہ فرہنگ شائع کی، جو ان کے بی ایس پشتو کا تحقیقی مقالہ بھی ہے۔ 400 سال قبل پیدا ہونے والے حسین ملک پوری کے دیوان میں کئی قدیم اور مشکل الفاظ شامل ہیں، جنہیں سمجھنے میں یہ لغت قاری کی معاون ثابت ہوگی۔
مہمان خواتین مس عابدہ اور مس ممتاز نے خواتین کی اس سرگرمی کو “ادب و ثقافت کی بحالی کا سفر” قرار دیا اور مالی و اخلاقی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ادارہ علم و ادب بفہ کے صدر سہیل خان نے بھی تنظیم کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین کی علمی ترقی کی جانب ایک عملی قدم ہے۔
آخر میں رمشاہ خان سواتی نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پہلی کتاب پشتو ادبی اصطلاحات کو ادباء کی جانب سے خوب سراہا گیا، اور اب فرہنگ حسین ملک پوری کو جو پذیرائی ملی ہے، وہ ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نہ صرف ادب بلکہ ہزارہ کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ “لکیوالے جینئی بفہ ہزارہ” ہزارہ ڈویژن میں خواتین کی پہلی ادبی و ثقافتی تنظیم ہے، جو علاقائی روایات اور علمی شعور کو فروغ دینے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
وادیٔ کاغان میں مون سون شجرکاری مہم کا آغاز
مانسہرہ: وادی کاغان کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے مون سون شجرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
ڈائریکٹر جنرل کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (KDA) شبیر خان نے ناراں میں دیودار کا پودا لگا کر مہم کا افتتاح کیا۔
اس موقع پر شبیر خان نے KDA کے عملے کو ہدایت دی کہ شجرکاری مہم کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب وسائل اور تدابیر اختیار کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی کاغان قدرتی مناظر اور حسن سے مالامال ہے، جس کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وادی کی فضا کو صاف رکھنے اور اسے ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
شبیر خان کا مزید کہنا تھا کہ شجرکاری کے اس عمل کو سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے اشتراک سے وسعت دی جائے گی تاکہ وادی میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ اس سے نہ صرف سرسبز میدانوں میں اضافہ ہوگا بلکہ سیاحوں کے لیے وادی مزید دلکش اور پرکشش بن سکے گی۔