وصال محمدخان
خیبرپختونخواسے ایوان بالا کی 11خالی نشستوں پرسواسال کی تاخیرسے انتخابات منعقدہوئے۔اس تاخیرکاسبب مخصوص نشستوں پرارکان کے حوالے سے تنازعہ تھا۔جیساکہ بیشترقارئین بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخاابات میں پی ٹی آئی سے انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانے پر انتخابی نشان واپس لے لیاگیا۔یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیاگیاتھااسے کالعدم قرارنہیں دیاگیا مگرپی ٹی آئی کے پاس چونکہ سمجھ بوجھ کافقدان ہے اسلئے اس نے اپنے منتخب ارکان کیلئے سنی اتحادکونسل نامی جماعت کو ہائیرکیا ذرا واضح الفاظ میں اسے کرائے پرحاصل کیاگیااوراپنے منتخب ارکان کواس جماعت میں شامل کروادیاگیا۔جس کامقصدمخصوص نشستوں کا حصول تھامگر بدقسمتی سے سنی اتحادکونسل نے اپنے نشان پرانتخابات میں حصہ نہیں لیا،عام انتخابات میں کسی امیدوارکوٹکٹ جاری نہیں کیابلکہ اسکے سربراہ نے بھی آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا اورالیکشن کمیشن کے پاس مخصوص نشستوں کیلئے نامزدامیدواروں کے نام بھی جمع نہیں کروا ئے۔آئینی طور پرسنی اتحاد کونسل کومخصوص نشستیں الاٹ کرناممکن نہیں اس حوالے سے پہلے پشاورہائیکورٹ اوربعدازاں سپریم کورٹ آئینی بنچ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پرمہرتصدیق ثبت کردی۔مگرپی ٹی آئی مخصوص نشستوں پراپناحق جتارہی تھی اوریہ نشستیں دیگرجماعتوں کو الاٹ کرنے کی مخالفت کررہی تھی۔اس دوران الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخواسے خالی سینیٹ نشستوں پرانتخابات کاشیڈول جاری کردیا۔ پی ٹی آئی اپوزیشن کے نئے ارکان سے حلف لینے کے معاملے پرتاخیری حربے استعمال کرتی رہی۔18جولائی کواسمبلی ہال الیکشن کمیشن کے حوا لے ہوناتھامگراس دوران نئے ارکان سے حلف نہیں لیاگیاجس پرحکومت اوراپوزیشن کے درمیان اتوار20جولائی کواجلاس بلاکرنئے ارکان سے حلف لینے کا معاہدہ ہوا۔اس دوران حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سینیٹرزکے بلامقابلہ انتخاب کامعاہدہ بھی عمل میں آیا جس کے تحت 6نشستیں حکو مت جبکہ5اپوزیشن کے حصے میں آئیں مگرحکومت کے کورنگ امیدوارنظریاتی ہونے کانعرہ بلندکرکے دستبردار ہونے سے انکاری ہوگئے یہ ارکان حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ہونے والے بلامقابلہ انتخاب کی بھی مخالفت کرتے رہے مگروزیراعلیٰ سمیت پوری پارٹی قیادت بلا مقابلہ انتخاب پربضدتھی۔اسکے باوجودپانچ امیدواردستبردارہونے کیلئے تیارنہیں تھے اوران کادعویٰ تھاکہ وہ کم از کم ایک سینیٹرمنتخب کرواسکتے ہیں۔ان میں سے ایک امیدوار نے ہفتے کے روزایک انٹرویومیں دعویٰ کیاکہ کل ہونے والاحلف برداری کیلئے اسمبلی کااجلاس کورم کے سبب ملتوی ہوگااورنئے ارکان حلف نہیں اٹھاسکیں گے۔20جولائی کواجلاس مقررہ وقت سے اڑھائی گھنٹے تاخیر سے منعقدہواجس میں حکومتی ارکان شریک نہیں ہوئے اوروہی ہواکہ کورم کی نشاندہی ہوئی اورسپیکرنے اجلاس چاردن کیلئے ملتوی کردیا۔ حالانکہ اگلے ہی دن سینیٹ انتخابات کاانعقادہوناتھااوران ارکان کے حلف نہ لینے کی صورت میں یہ انتخابات ملتوی ہونے کے قوی امکانا ت تھے۔ مگرحکومتی حکمت عملی کے تحت نئے ارکان سے حلف نہیں لیاگیاحالانکہ اس سے ایک دن قبل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سینیٹ ممبران کے بلا مقابلہ انتخاب کامعاہدہ بھی عمل میں آیاتھاجس کے تحت اپوزیشن نے اپنے اضافی امیدوار دستبردار کروادئے مگرحکومتی اضافی امیدوارمیدان میں تھے یعنی اپوزیشن تومعاہدے پرعملدرآمدکیلئے پرعزم تھی مگرحکومت کی نیت میں کھوٹ واضح نظرآرہی تھی کہ وہ معاہدے کے باوجود اپوز یشن سے دومزیدنشستیں چھیننے کیلئے کوشاں تھی کیونکہ اجلاس ملتوی ہونے تک حکومتی اضافی امیدواردستبردارنہیں ہوئے تھے۔ اجلاس ملتوی ہونے کے خلاف اپوزیشن نے ہائیکورٹ سے رجوع کیاجہاں سے گورنرکوحلف لینے کاحکم دیاگیا۔حیرت انگیزطورپر گورنر ہاؤس میں حلف برداری کے خلاف سپیکراوروزیراعلیٰ نے ہائیکورٹ سے رجوع کرلیاہے حالانکہ حکومت کو اس پرچپ سادھ لینی چاہئے تھی۔ اسے گورنرکی جانب سے حلف لینے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگرشائدیہ اپنی سبکی مٹانے کیلئے ہائیکورٹ چلے گئے اوروہاں مؤقف اپنایاکہ ہم توحلف لیناچاہتے تھے مگرکورم پورانہیں تھا۔کورم توحکومتی سازش کے تحت پورانہیں ہونے دیاگیااسمبلی میں اپوزیشن ممبرا ن موجودتھے مگرحکومتی ارکان غیرحاضررہے۔اس معاملے پرسپیکرکوایکشن لیکرحکومتی ارکان پرجرمانہ عائدکرنے کی ضرورت تھی نجانے یہ کس مدمیں ہائیکورٹ سے ریلیف کے متقاضی ہیں؟پی ٹی آئی قائدین کاوطیرہ رہاہے کہ یہ ہمیشہ ان عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہیں جو انکے خلاف ہوں۔جب یہ اپنے خلاف ہونے والے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتے اوران پرعملدرآمدسے راہ فرار اختیارکر تے ہیں توکس منہ سے عدالتوں میں ریلیف کی توقع لیکرجاتے ہیں؟اس سے قبل سپیکراسدقیصراورڈپٹی سپیکرقاسم سوری بھی آئین کی دھجیاں بکھیر کرعدم اعتمادکی تحریک مستردکرچکے ہیں یعنی ان کاجہاں بس چلتاہے عدالتی فیصلوں اورآئین کوروندنے سے گریزنہیں کرتے مگر آئین و قانون کے چیمپئینزبھی بنے پھرتے ہیں۔ہائیکورٹ کوانکی درخواست نہ صرف مستردکردینی چاہئے بلکہ جن ارکان نے جان بوجھ کر کورم پورا نہیں ہونے دیا،نئے ارکان کی حلف برداری میں روڑے اٹکائے اوراجلاس سے غیرحاضررہے ان سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ عوام نے انہیں آئین کی دھجیاں بکھیرنے کیلئے ایوانوں میں نہیں بھیجابلکہ آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے ان کا انتخاب ہواہے اس جماعت نے اپنے ہی ہاتھوں انتخابی نشان گنوادیا،خودہی دوسری جماعت کرائے پرحاصل کی اوراپنے ارکان کوایسی جماعت میں شامل کروایا جس نے عام انتخابات میں نہ ہی حصہ لیااورنہ ہی مخصوص نشستوں کیلئے نام الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے مگر ان کامؤقف ہے کہ مخصوص نشستیں انکی جھولی میں ڈال دی جائیں حالانکہ یہ نشستیں اپنی بے وقوفی یاآئین وقانون سے لاعلمی کے نتیجے میں گنواچکے ہیں اب اخلاقیات کا درس دیکرکہاجارہاہے کہ نشستیں اخلاقی طورپرانکے حوالے کی جائیں اوراگرنہیں کی گئیں تویہ آئین قانون اور عدلیہ کے فیصلوں کوجوتے کی نوک پررکھیں گے۔یہ روئیے غیرجمہوری اورغیرآئینی ہیں دوسروں کوآئین وقانون پرعملدرآمدکادرس دینے والے خودکواس سے ماوارمخلوق سمجھتے ہیں۔خیبرپختونخواکے سینیٹ انتخابات توہوگئے مگرسواسال تاخیرکی ذمہ داری بلاشبہ تحریک انصاف پر عائد ہوگی۔یہ معمہ بھی تاحال حل طلب ہے کہ نومنتخب سینیٹرزکادورانیہ2024ء سے شمارہوگایاجولائی 2025ء سے؟
سانحہ سوات پر احتیاط کی ضرورت
عقیل یوسفزئی
سوات کے علاقے چالیار ( خوازہ خیلہ) میں واقع ایک مدرسے میں 12 سالہ کم عمر بچے پر ایک استاد اور ان کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے ہونے والے سفاکانہ تشدد اور اس کے نتیجے میں بچے کی شہادت کے واقعے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے تاہم اس معاملے پر بھی بعض حلقوں کی جانب سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ جاری ہے جو کہ افسوس ناک بات ہے ۔ اس واقعے نے خیبر پختونخوا کے سافٹ امیج اور پورے سماجی ڈھانچے کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ گزشتہ مہینے اسی سوات میں فضا گٹ کے مقام پر 15 سے زائد سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے کے اثرات سے سوات اور پورا خیبرپختونخوا نکلا ہی نہیں تھا کہ یہ افسوسناک واقعہ سامنے آیا ۔
اس سے ایک سال قبل مدین میں ایک سیاح کو توہین قرآن کے الزام میں عوامی ہجوم نے نہ صرف بے دردی سے قتل کیا تھا بلکہ اس کے جسم کو نذرِ آتش بھی کردیا تھا ۔ اس واقعے کی حکومتی انکوائری پر کتنا عمل درآمد ہوا اس بارے کسی کو کوئی علم نہیں ہے ۔ اس قسم کے رویوں ہی کا نتیجہ ہے کہ جرائم پیشہ اور پرتشدد عناصر کسی قانون یا خوف کو خاطر میں نہیں لاتے اور پورا صوبہ عملاً ” شہر ناپرسان” کا نقشہ پیش کررہا ہے ۔
وفاق المدارس اور خیبرپختونخوا کے چیف خطیب مولانا طیب قریشی سمیت جید علماء نے اس واقعے کی کھل کر مذمت کی ہے جبکہ پولیس نے قاتل استاد کے ایک بیٹے سمیت متعدد دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس واقعے کی آڑ میں نہ صرف مدارس کو ٹارگٹ کرنے کا رویہ اختیار کیا گیا ہے بلکہ مذہب کو بھی غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کی کوشش بھی جاری ہے حالانکہ اس قسم کے سفاکانہ واقعات جدید تعلیمی اداروں میں بھی ہوتے آرہے ہیں ، اس ضمن میں خیبرپختونخوا کے مختلف جدید تعلیمی اداروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جہاں بچے تو ایک طرف بچیوں کو اساتذہ اور دیگر کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین ، اساتذہ ، مدارس ، تعلیمی ادارے اور حکومتی ادارے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور معاشرے میں جاری تشدد کا ہر سطح پر نوٹس لیا جائے ۔
ایبٹ آباد: مون سون شجرکاری مہم کے حوالے سےاجلاس منعقد
کمشنر ہزارہ ڈویژن فیاض علی شاہ کی زیر صدارت مون سون شجرکاری مہم کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ، ڈپٹی کمشنرز اور متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ مون سون شجرکاری مہم کے تحت ہزارہ ڈویژن میں 66,174 پھل دار پودے عوام میں تقسیم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ جن میں سے 9,929 پودے مختلف تقریبات کے دوران پہلے ہی تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ پودے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے مرحلہ وار تقسیم کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ محکمہ جنگلات نے ہزارہ ڈویژن میں مجموعی طور پر 5لاکھ درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جس پر عمل درآمد جاری ہے۔
اجلاس میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اپنے اضلاع میں شجرکاری کے جاری اور آئندہ منصوبوں سے آگاہ کیا۔ کمشنر ہزارہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام تعلیمی اداروں کے سربراہان سے ان طلبہ کی فہرستیں حاصل کی جائیں جو شجرکاری میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ ان طلبہ کے ذریعے درخت لگوائے جائیں، اور ہر درخت کے ساتھ طالب علم کا نام درج کتبہ (پلیٹ) بھی نصب کیا جائے تاکہ وہ اس درخت کی ذاتی طور پر نگہداشت کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ مقامی کمیونٹی، خاص طور پر نوجوانوں کو شجرکاری مہم میں فعال طور پر شامل کیا جائے تاکہ یہ عمل پائیدار اور مؤثر ثابت ہو۔
کمشنر ہزارہ نے ڈپٹی کمشنر نے محکمہ جنگلات کو ہدایت کی کہ وہ باہمی مشاورت سے قراقرم ہائی وے (سپلائی منڈیاں روڈ) پر شجرکاری کا جامع منصوبہ تیار کریں تاکہ نہ صرف شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو بلکہ ماحول دوست اقدامات کو فروغ بھی دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں تمام سڑکوں اور گلیوں کے کناروں پر، جہاں جگہ میسر ہو، درخت لگانے کے اقدامات کریں۔ مزید برآں، کوہستان کے تینوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے اضلاع میں شجرکاری کے لیے موزوں مقامات مختص کریں، جہاں محکمہ جنگلات، ضلعی انتظامیہ اور مقامی نوجوانوں کے باہمی اشتراک سے شجرکاری کی جائے اور لگائے گئے درختوں کی باقاعدہ دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے۔
مانسہرہ: شہدائے پولیس کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش
شہدائے پولیس کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنےکےلئیے ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈا پور کی زیر صدارت ڈی پی او آفس میں شہدائے پولیس کی فیملیز سے ملاقات۔ یوم شہدائے پولیس کی مناسبت سے ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈا پور کی زیرِ صدارت ڈی پی او آفس مانسہرہ میں شہداء کی فیملیز کے ساتھ ایک پُر خلوص ملاقات کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈائریکٹر پولیس ٹریننگ سکول مانسہرہ نیاز گل خان اور شہدائے پولیس کی فیملیز نے شرکت کی۔ تقریب کا مقصد شہدائے پولیس کی لازوال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا اور ان کے اہلِ خانہ سے اظہارِ یکجہتی کرنا تھا۔ ڈی پی او مانسہرہ نے شہداء کے بچوں میں تحائف اور کھلونے تقسیم کیے جبکہ شہداء کی فیملیز کو بھی خصوصی گفٹس پیش کیے گئے۔
انسپکٹر ٹریفک پولیس مانسہرہ انس خان نے شہدائے پولیس کے بچوں اور فمیلیز اور حاضر سروس پولیس ملازمان اور انکی فیملیز کی ویلفئیر کے لئیے ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈا پور کی جانب سے کئیے گئے اقدامات کےبارے میں تفصیلا آگاہ کیا گیا کہ پورے صوبہ کی سطع پر مانسہرہ پولیس نے سب سے زیادہ 83 ایم او یوز سائن کئیے جن میں 75 پرائیویٹ سکولز ، 6 پرائیویٹ ہسپتالوں ، 1 لاء فرم اور 1 فلور مل ایسوسیشن کے ساتھ ایم او یو سائن کئیے گئے ہیں جن کے تمام بروشر اور پمفلٹس شہداء کی فیملیز میں تقسیم کئیے گئے۔ تقریب کے دوران شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے اجتماعی دعا بھی کی گئی۔ ڈی پی او مانسہرہ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پولیس شہداء ہمارا فخر ہیں، ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کے اہلِ خانہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا جائے گا”۔انھوں نے شہدائے پولیس کی فیملیز کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لئیے دفتری سٹاف کو ہدایات جاری کی۔
ہری پور: یوم شہداء پولیس 4 اگست کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا
