وصال محمدخان
مون سون بارشوں سے 60 اموات، وزیراعلیٰ کا پی ڈی ایم اے کا دورہ
خیبرپختونخوامیں مون سون کاسیزن اپنے عروج پرہے۔گزشتہ ہفتے طوفانی بارشوں،دریاؤں میں سیلابی صورتحال اورندی نالوں میں طغیانی سے متعددجان لیواحادثات رونماہوئے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق اس سال مون سون سیزن کے دوران 60افرادجاں بحق جبکہ درجنو ں زخمی ہوگئے ہیں۔35مکانات مکمل تباہ ہوئے جبکہ 212 کوجزوی نقصان پہنچاہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوانے پی ڈی ایم اے کے ایمرجنسی آپریشن سینٹرکادورہ کیاجہاں انہیں پی ڈی ایم اے حکام کی جانب سے صوبہ بھرکے دریاؤں کی تازہ صورتحال،مون سون بارشوں سے ہونیوا لے نقصانات،ارلی وارننگ سسٹم،سیلاب اورکسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات پربریفنگ دی گئی اوربتایاگیاکہ ہنگامی صورتحا ل میں بروقت رسپانس کیلئے پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن ہمہ وقت کام کررہاہے،اضلاع کی سطح پرتمام محکموں کے درمیان کو آرڈ ینیشن کا مربوط نظام فعال ہے،دریاؤں میں پانی کی صورتحال کی مسلسل نگرانی کی جارہی ہے اورسیلابی صورتحال میں ارلی وارننگ سسٹم کے ذریعے متعلقہ ضلعی انتظامیہ کوبروقت اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔وزیراعلیٰ نے اداروں کی کارکردگی پراطمینان کااظہارکرتے ہوئے دریاؤں اورنہروں کے بہاؤمیں حائل رکاو ٹیں ہٹانے، دورافتادہ علاقوں میں ریسکیوسب سٹیشنزکے قیام اورمحکمہ آبپاشی ارلی وار ننگ سسٹم کومزیدبہتر بنانیکی ہدایت کی اورکہاکہ عوام کے جان مال کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے اوراس سلسلے میں کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔
استاد کے مبینہ تشدد سے 12 سالہ طالبعلم جاں بحق، غیررجسٹرڈ مدرسہ سیل، 10 گرفتار
سوات تحصیل خوازہ خیلہ کے علاقے چالیارمیں ایک دینی مدرسے کابارہ سالہ طالبعلم فرحان آیازمبینہ طورپراستادکے تشددسے دم توڑگیا۔ جس پرعلاقے میں شدیدغم غصہ پھیل گیااورلوگوں نے رات گئے تک احتجاجی مظاہرہ کیا۔پولیس نے تشددکرنیوالے ایک استادکوگرفتار کرلیا ہے جبکہ دوکی تلاش جاری ہے۔ڈی پی اوسوات محمدعمرخان کے مطابق چالیارمیں قائم غیررجسٹرڈمدرسہ میں کمسن طالبعلم کے بہیمانہ قتل پر مدرسہ ناظم سمیت10افرادکوگرفتارکیاگیاہے،جبکہ دومرکزی ملزمان کوقانون کے شکنجے میں لانے کیلئے کارروائی جاری ہے، پو لیس نے مدرسہ سے تشددکیلئے استعمال ہونے والی لاٹھیاں،زنجیریں اورچمڑے کی بیلٹس بھی برآمدکرلی ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنرخوازہ خیلہ نے سرکاری طورپرمدرسہ کو سیل کردیاہے اوروہاں پرموجودبچوں کوانکے والدین یاسرپرستوں کے حوالے کردیاگیاہے۔ڈی پی اوکے مطابق 21جولائی کوخوازہ خیلہ ہسپتال میں 12سالہ فرحان کی تشددزدہ لاش لائی گئی جس پرفوری کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے مقتول کے چچا کی مدعیت میں مدرسہ مہتمم قاری محمدعمر،اسکے بیٹے قاری احسان اللہ،ناظم مدرسہ عبداللہ اوربعدازاں بخت امین کے خلاف قتل اورچائلڈپرو ٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ مذکورہ مدرسہ میں بچوں کیساتھ تشدداورمارپیٹ کے شواہدملے جس پر9اساتذہ کے خلاف الگ مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتارکرلیاگیاہے۔ مدرسہ میں زیرتعلیم160بچے والدین کے حوالے کئے گئے ہیں جبکہ مدرسہ کوغیررجسٹرڈاور غیرقانونی ہونے کے سبب سیل کردیاگیاہے۔ڈی پی اوکے مطابق گلکدہ میں ایک اورطالبعلم پرتشددمیں ملوث ملزمان کوچائلڈپروٹیکشن ایکٹ کے تحت گرفتارکرلیاگیاہے۔ قانون سے کوئی بالاترنہیں بچوں پرظلم وتشددکسی صورت قابل برداشت نہیں اس مکروہ فعل میں ملوث سماج دشمن عناصرکوکیفرکردارتک پہنچایاجائیگا۔اسسٹنٹ کمشنرخوازہ خیلہ کے مطابق مقتول طالبعلم فرحان آیازکی ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ آگئی ہے جس میں بچے کی تشددسے موت واقع ہونیکی تصدیق ہوئی ہے لیکن جنسی تشددثابت نہیں ہوئی رپورٹ کے مطابق بچہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑگیاتھا۔ساتھی بچوں کے ویڈیوبیانات میں بتایاجارہاہے کہ فرحان کوغیرحاضری پربدترین تشددکانشانہ بنایاگیااوراس نے بچوں کے سامنے ہی دم توڑدیا۔ضرورت اس امرکی ہے کہ کوئی اندوہناک سانحہ رونماہونے سے قبل ہی حکومت اورمتعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں کوئی واقعہ رونماہونے پرپولیس اوردیگرادارے حرکت میں آجاتے ہیں مگر برسوں سے قائم غیررجسٹرڈمدرسہ حکومتی ادارو ں کی نظروں سے اوجھل رہتاہے۔بیشترمدرسے غیررجسٹرڈہیں جن کی چھان بین ضروری ہوچکی ہے عوام کوبھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں سے غافل نہ ہوں۔اس سلسلے میں حکومتی ادارے کماحقہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام چلی آرہی ہیں کوئی اندوہناک واقعہ رونماہونے پرحرکت میں آنیوالے ادارے پہلے خواب خرگوش میں کیوں مدہوش رہتے ہیں؟ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام مدارس کی رجسٹریشن اور ماہانہ بنیادوں پران کامعائنہ یقینی بنایاجائے۔
خرید و فروخت کے بغیر سینیٹ انتخابات، شفافیت پر حکومت کا اظہار اطمینان
سینیٹ انتخابات خیریت سے اختتام پذیرہوگئے یکطرفہ اورفکس میچ میں حسب توقع6 حکومتی جبکہ 5اپوزیشن امیدوارکامیاب قرارپائے ہیں۔ تحریک انصاف کے خرم ذیشان دستبرداری پرتیارنہیں تھے اسلئے الیکشن کمیشن کوانتخابات کروانے پڑے۔حکومتی امیدوارمرادسعیدنے سب سے زیادہ26،مرزاآفریدی نے22جبکہ نورالحق قادری اورفیصل جاویدنے21،21ووٹ حاصل کئے جومجموعی طورپر90ووٹ بنتے ہیں ایک ووٹ مستردہواجبکہ ایک رکن نے ووٹ کاسٹ نہیں کیاحکومتی ارکان کی مجموعی تعداد 93 سمجھی جارہی ہے۔ٹیکنوکریٹ نشست پراعظم سواتی کو89جبکہ جے یوآئی کے دلاورخان کو54ووٹ ملے اس کیٹگری میں دوحکومتی ووٹ دلاورخان کوملے ویمن سیٹوں پرحکومتی امید وا ر روبینہ نازکو89جبکہ پیپلزپارٹی کی روبینہ خالدکو52ووٹ ملے۔جنرل نشستوں پرجے یوآئی کے امیدوارمولاناعطاء الحق کو18،ن لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرامیرمقام کے صاحبزادے کوبھی 18جبکہ پیپلزپارٹی کے طلحہ محمودکو17ووٹ ملے۔ن لیگ کے امیدوار نیازاحمدکوایک اضافی ووٹ ملاجویقیناًحکومتی کیمپ سے تھاجبکہ پیپلزپارٹی کواے این پی اورپی ٹی آئی پی کے سات ووٹ ملے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران یہ چوتھے سینیٹ انتخابات تھے جبکہ اس دوران یہ واحد انتخابات ہیں جوکسی تنازعے کے بغیرانجام پائے۔ اس سے قبل ووٹوں کی خریدوفروخت اورپیسے کے استعمال سے سینیٹ انتخابات خاصے بدنام ہوچکے تھے۔ 2018کے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے22ایم پی ایزپرووٹ فروخت کے الزامات سامنے آئے تھے جنہیں بعدمیں پارٹی سے نکالاگیاتھا اس بارسینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کاراستہ روکنا علی امین گنڈا پور کی بڑی کامیابی ہے۔پی ٹی آئی کے بعض حلقوں میں ایک سیٹ اپوزیشن کودینے پرتنقیدہورہی ہے مگرحکومت کے پاس پانچویں نشست جیتنے کیلئے ووٹ موجودنہیں تھے۔جنرل نشستوں پرمحض ایک حکومتی ووٹ اپوزیشن کوملاجونہ بھی ملتاتو نیازاحمدکامیاب ہوجاتے۔
صوبے میں آل پارٹیزکانفرنسزاورجرگوں کاسیزن بھی عروج پرہے۔مولانافضل الرحمان کی قیادت میں قبائلی جرگہ نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں ضم اضلاع میں امن وامان تعلیم اورروزگارپرمشاورت ہوئی۔ اے این پی نے 26جولائی کواپنے مرکزی دفترباچاخان مرکز پشاورمیں پختون قومی جرگہ منعقدکیا جس میں تمام جماعتوں سمیت قبائلی راہنماؤں کوبھی دعوت دی گئی تھی جبکہ حکومت نے بھی اس سے دوروز قبل ایک آل پارٹیزکانفرنس منعقدکی جس میں جے یوآئی،پیپلزپارٹی اوراے این پی نے شرکت سے معذر ت کرلی جبکہ جماعت اسلامی شریک ہوئی۔شرکت سے انکارکرنیوالی جماعتوں کامؤقف تھاکہ وادی تیراہ میں آپریشن کافیصلہ ہو چکاہے۔ اے پی سی کے ذریعے اس پر مہرتصدیق ثبت کروانیکی کوشش میں ہم شامل نہیں ہونگے۔ سینیٹ انتخابات میں شیروشکرہونے سے یہ تاثر پیدا ہوگیاتھا کہ شائدتمام جماعتیں حکومتی اے پی سی میں شریک ہوں مگرانتخابات کے فوری بعدافہام وتفہیم کے غبارے سے ہوانکل چکی ہے۔