KP launch new education program “ILMpact” benefiting 80,000 students

آؤٹ آف سکول بچوں کے لیے علم پیکٹ پروگرام کا اجراء

خیبر پختونخوا حکومت نے آؤٹ آف سکول بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے اور تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لیے برطانوی حکومت کے ترقیاتی ادارے ایف سی ڈی او کے تعاون سے “علم پیکٹ” پروگرام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی افتتاحی تقریب وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں منعقد ہوئی جس کے مہمانِ خصوصی وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈاپور تھے۔

تقریب میں صوبائی وزیر برائے ابتدائی تعلیم فیصل ترکئی، برٹش کونسل کے کنٹری ڈائریکٹر جیمز ہیمپسن، محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام اور شراکت دار اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔

علم پیکٹ پروگرام پر ایف سی ڈی او کے تعاون سے برٹش کونسل کے ذریعے عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس منصوبے سے خیبرپختونخوا کے آٹھ اضلاع — بٹگرام، مانسہرہ، صوابی، بونیر، شانگلہ، خیبر، مہمند اور ڈیرہ اسماعیل خان — میں 80 ہزار آؤٹ آف سکول بچے مستفید ہوں گے۔ پروگرام کے تحت ان اضلاع میں بچوں کے اسکولوں میں داخلے، تعلیمی معیار کی بہتری، اساتذہ کی جدید تربیت، اور پیرنٹس و سکول مینجمنٹ کمیٹیوں کی صلاحیت سازی شامل ہے۔

پروگرام میں خصوصی توجہ بچیوں، نادار، معذور اور اقلیتی بچوں کی تعلیم پر دی جائے گی، جبکہ عوامی آگہی مہمات کے ذریعے بچیوں کی تعلیم کو فروغ دیا جائے گا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے کہا کہ “ہماری حکومت کا مشن صرف تعلیم نہیں بلکہ معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔” اُنہوں نے کہا کہ حکومت قائم کرتے ہی اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا آغاز کیا گیا ہے اور رواں سال ہر بچے کے لیے میز اور کرسی کی دستیابی کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے بتایا کہ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں اور علم پیکٹ پروگرام انہی کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ “باشعور قومیں تعلیم ہی سے پروان چڑھتی ہیں اور ہم خاص طور پر بچیوں کی تعلیم پر فوکس کر رہے ہیں، کیونکہ ایک پڑھی لکھی ماں ہی تعلیم یافتہ قوم کی بنیاد رکھتی ہے۔”

وزیراعلیٰ نے مزید بتایا کہ رواں سال کے بجٹ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ابتدائی و ثانوی تعلیم کے بجٹ کو نمایاں حد تک بڑھایا گیا ہے، جو کہ کل بجٹ کا 21 فیصد ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 13 لاکھ آؤٹ آف سکول بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا گیا جبکہ مزید 10 لاکھ بچوں کو رواں تعلیمی سال میں اسکولوں میں داخل کرانے کا ہدف ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ بچوں کو مفت کتابوں کے ساتھ اسٹیشنری اور اسکول بیگز بھی فراہم کیے جائیں گے، جبکہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت اور 18 ہزار میرٹ پر اساتذہ کی بھرتی کا عمل بھی جاری ہے۔

Abbottabad Qaiser Khan Memorial Squash Championship concludes

ایبٹ آباد قیصر خان میموریل سکواش چیمپئن شپ کا اختتام

ایبٹ آباد: جان شیر خان سکواش کمپلیکس میں جاری قیصر خان میموریل سکواش چیمپئن شپ اختتام پذیر ہو گئی۔ اوپن فائنل میں مطیب نے ابراہیم قدر کو 1-3 سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ ویٹرنز فائنل میں سردار عارف نے شہزاد خان کو ہرایا جبکہ انڈر 10 بوائز فائنل میں شاہ میر نے عبیداللہ کو شکست دی۔

اختتامی تقریب میں ڈی جی جی ڈی اے شارخ علی خان مہمان خصوصی اور ملک غلام مرتضیٰ اعوان گیسٹ آف آنر تھے۔ ڈائریکٹر ٹورنامنٹ طارق محمود اور سیکریٹری سید ابرار شاہ نے رپورٹ پیش کی۔ مہمانوں کو شیلڈز اور خوبصورت ٹرافیاں دی گئیں۔

xr:d:DAFKbVS6COI:2,j:33781993630,t:22082613

سوات میں ہوٹلوں کی رجسٹریشن مہم، 30 سے زائد نوٹسز جاری

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ کی ہدایت پر خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ٹورسٹ سروسز ونگ نے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی رجسٹریشن مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں فضا گٹ کے مقام پر 30 سے زائد ہوٹلوں کو نوٹسز جاری کیے گئے۔ یہ مہم تین روز تک جاری رہے گی۔

Unesco Deligation with Secratory Culture

پختونخوا کے تاریخی مقامات کو عالمی فہرست میں شامل کرنے پر یونیسکو سے مشاورت

یونیسکو کے وفد نے سیکریٹری محکمہ سیاحت، ثقافت اور آثار قدیمہ خیبرپختونخوا ڈاکٹر عبدالصمد سے ملاقات کی جس میں تخت بھائی، جمال گڑھی، بریکوٹ اور رانی گٹ جیسے تاریخی مقامات کو یونیسکو کی عالمی ورثہ فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔

ڈاکٹر عبدالصمد نے بریفنگ دی کہ تخت بھائی کا ٹوپوگرافیکل سروے مکمل ہو چکا ہے، بفر زون کے لیے 2000 کنال زمین حاصل کر لی گئی ہے، چار دیواری، میوزیم اور ٹک شاپ کی تعمیر کی منصوبہ بندی مکمل ہے۔ یونیسکو کے وفد نے ان اقدامات کو سراہا اور یقین دلایا کہ ان کوششوں کو آئندہ عالمی سیمینار میں اجاگر کیا جائے گا۔

PDMA's Glacier Alert, advising the public to be alert

خیبرپختونخوا میں گلیشیائی جھیلیں پھٹنے کا خدشہ، پی ڈی ایم اے

پی ڈی ایم اے نے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع خصوصاً چترال اپر و لوئر، دیر، سوات اور کوہستان اپر میں شدید بارشوں کے باعث گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے امکانات کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا ہے۔

پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ کو حساس مقامات کی نگرانی، بروقت وارننگ، انخلا کی مشقیں، ایمرجنسی سامان کی تیاری، اور 1700 ہیلپ لائن کو فعال رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ عوام کو ندی نالوں کے قریب نہ جانے اور پانی کے بہاؤ میں گاڑیاں نہ لے جانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

The federal cabinet has formally approved

وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2026 کی منظوری دے دی

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں حج پالیسی 2026 کی منظوری دی گئی۔ پالیسی کے مطابق پاکستان کے لیے حج کوٹہ 179,210 مختص کیا گیا ہے، جس میں 70 فیصد یعنی 119,210 نشستیں سرکاری حج اسکیم کے لیے اور 30 فیصد یعنی 60,000 نشستیں پرائیویٹ اسکیم کے لیے مختص کی گئی ہیں۔

سرکاری حج اسکیم کے تحت روایتی طویل (38-42 دن) اور مختصر (20-25 دن) پیکجز فراہم کیے جائیں گے، جن کی لاگت ساڑھے گیارہ لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ روپے کے درمیان ہوگی۔ حج درخواستیں 4 اگست سے جمع کی جائیں گی اور پہلی قسط، طویل پیکج کے لیے 5 لاکھ روپے جبکہ مختصر پیکج کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ روپے، کسی بھی نامزد بینک میں جمع کروائی جا سکے گی۔

عازمینِ حج کے لیے سعودی عرب سے منظور شدہ ویکسین، قربانی کی ادائیگی اور پاسپورٹ کی میعاد 26 نومبر 2026 تک لازمی ہوگی۔ عازمین کا انتخاب “پہلے آئیے، پہلے پائیے” کی بنیاد پر ہوگا اور بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی سرکاری اسکیم کے تحت شرکت کر سکیں گے۔

پالیسی میں مالیاتی شفافیت، ڈیجیٹل نگرانی، حج ایپ، ایمرجنسی رسپانس، تربیتی پروگرامز، شکایات کے شفاف نظام، اور تیسرے فریق سے کارکردگی کے جائزے جیسے نکات بھی شامل ہیں۔ پرائیویٹ حج اسکیم کے لیے ڈی ایچ سیز کو سعودی اصولوں کے مطابق کوٹہ دیا جائے گا اور انہیں وزارت مذہبی امور کے آئی ٹی پورٹل سے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔


 

Apex Comiitte Meeting

اپیکس کمیٹی کا اجلاس اور درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی
پشاور میں خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس طویل عرصے کے بعد منعقد ہوا جس میں متعدد وزراء ، مشیروں اور اعلیٰ سول ، ملٹری حکام کے علاؤہ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری نے بھی شرکت کی ۔ خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اجلاس میں نظر نہیں آئے جن کی موجودگی وفاقی حکومت کی نمائندگی کے تناظر میں اس اہم فورم کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے ۔ ان کو دعوت نہیں دی گئی تھی یا انہوں نے شرکت نہیں کی اس بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم ان کی غیر موجودگی نے اس فورم کی نمایندہ حیثیت کو کافی متاثر کیا اور اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا ہے ۔ غالباً یہ دوسری یا تیسری دفعہ مشاہدے میں آیا کہ گورنر اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔ یاد رہے کہ ابتدائی ادوار میں صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں کی صدارت گورنر صاحبان کیا کرتے تھے مگر بعد میں خیبرپختونخوا کے اندر یہ ” ذمہ داری” وزیر اعلیٰ نے اپنے سر لی حالانکہ پہلے والا طریقہ کار زیادہ مناسب لگتا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیکیورٹی کے معاملات میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار ہے ( جو کہ یقیناً ہے ) تو اپیکس کمیٹی میں ہونے والے فیصلوں اور اقدامات سے متعلق امور وفاقی حکومت کو کون پہنچائے گا اس کے لیے آئین میں گورنر ہی مجاز اتھارٹی ہیں مگر ان کو شاید حالیہ اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔ اجلاس سے متعلق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ نہ صرف ناکافی اور نامکمل ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے اتنے اہم ایونٹ کو اپنی پبلسٹی کے لیے استعمال کرتے ہوئے اسے ” ون مین شو ” بنانے کا فارمولا اختیار کیا جس کو کسی طور ایک سنجیدہ طرزِ عمل نہیں کہا جاسکتا کیونکہ صوبے کو درپیش سیکیورٹی صورتحال ، قبائلی علاقوں کے معاملات اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان موجود بداعتمادی کے تناظر میں ماہرین اور عوام اس اجلاس کے تناظر میں ایک جامع پلان یا پالیسی کی توقع کررہے تھے مگر ایسا نہیں ہوا جس سے ایک بار پھر یہ تاثر لیا گیا کہ شاید صوبے میں سکیورٹی اور انتظامی معاملات کے بارے میں سرے سے کوئی جامع پالیسی ہے ہی نہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے ویڈیو پیغام میں وہی روایتی باتیں دہرائی ہیں جو کہ وہ کرتے آرہے ہیں ۔ انہوں نے ایک عجیب بات یہ کی کہ بعض عناصر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں حالانکہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد موصوف ہی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران گڈ طالبان کا الزام لگا کر ایک ایسی بداعتمادی کی بنیاد رکھی تھی جس کو سیکیورٹی اداروں پر ” خودکش حملہ” سے تعبیر کیا گیا تھا اور اس بیان یا الزام نے ریاست مخالف پروپیگنڈا اور حملہ اور قوتوں کے لیے آکسیجن فراہم کرنے کا راستہ ہموار کردیا تھا ۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ون مین شو والی ویڈیو میں اگر چہ وزیر اعلیٰ پچھلے بیانات سے کافی مختلف پوائنٹس کے ساتھ نظر آئے تاہم اس ایونٹ سے ایک روز قبل سیکورٹی سے متعلق ایک اہم اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے کرفیو اور آرٹیکل 245 سے متعلق جو احکامات جاری کیے تھے وہ ریاست خصوصاً ملٹری اسٹبلشمنٹ کے خلاف کسی چارج شیٹ سے کم نہیں تھے ۔ اب یہ وزیر اعلیٰ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ان کے پہلے والے بیانات ( بلکہ الزامات) درست تھے یا اپیکس کمیٹی والی باتیں درست ہیں ؟
دوسری جانب اسی روز ہی یعنی 30 جولائی کو پشاور میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایک نمایندہ ، منظم اور پر ہجوم ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس کو ” د امن غگ جرگہ” کا نام دیا گیا تھا ۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قبائلی عمائدین کے علاؤہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس جرگہ میں مختلف شکایات ، معلومات اور تجاویز کا تبادلہ کیا گیا اور ایک باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں ریاستی اداروں سے امن کے قیام کے لیے مختلف جینوئن قسم کے مطالبات کیے گئے ۔ اس سے قبل اسی مہینے اے این پی نے بھی ایسے ہی ایک جرگے کا اہتمام کیا تھا جبکہ جے یو آئی نے بھی ایک قبائلی جرگہ بلایا تھا ۔ ان تمام جرگوں میں کی جانے والی بات چیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام میں خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے عملی اقدامات اٹھانے کے مطالبات کیے گئے ۔
اس ضمن میں گزشتہ تین چار روز کے دوران باجوڑ ، تیراہ ، کرم ، بنوں اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مقامی جرگوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ بعض علاقوں میں مختلف واقعات کے باعث ان جرگوں یا مذاکرات کی ضرورت محسوس کی گئی تو بعض میں فورسز کی کارروائیوں کے تناظر میں بات چیت کی گئی ۔
اس تمام منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے روایتی حربوں اور الگ الگ ایونٹس کے انعقاد کی بجائے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ پالیسی اور فارمولے کے تحت صوبے کی سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کا کوئی قابل عمل پلان تشکیل دیں ورنہ ہر دوسرے تیسرے دن اس قسم کی سرگرمیوں کے انعقاد سے نہ صرف یہ کہ لوگ تنگ آجائیں گے بلکہ ان ایونٹس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نہیں نکلے گا ۔
( 31 جولائی 2025 )