Orakzai: Organizing a function regarding Independence Day for laborers

اورکزئی: مزدور افراد کیلئے جشن آزادی کے حوالے  سے تقریب کا انعقاد

قبائلی ضلع اورکزئی میں پہلی بار ضلعی انتظامیہ اور سوشل ویلفیئر کے تعاون سے خصوصی افراد کی جانب سے جشن آزادی کے حوالے تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔تقریب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل یاسر سلیم ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف نعمت اللہ کنڈی سوشل ویلفیئر آفیسر مبشر سمیت کثیرتعداد خصوصی افراد نے شرکت کی اورکزئی ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف نعمت اللہ کنڈی و دیگر کا کہنا تھا کہ خصوصی افراد کی جانب سے ملک کی آزادی کا جشن منانااور تقریب کا انعقاد کرنا انتہائی خوشی کا لمحہ ہے یہ خصوصی افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہے وطن کیلئے ان خصوصی افراد کا جذبہ قابل دید ہے ہمارا عہد کہ خصوصی افراد کو ہر قسم کا تعاون فراہم کریں گے روزگار کے مواقع دیں گے تاکہ یہ لوگ معاشرے پر بوجھ نہ بن سکے اس موقع پرخصوصی افرادکے صدر نیک بادشاہ نے ڈپٹی کمشنر اورکزئی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ وطن ہم سب کا ہے اس میں خصوصی افراد کا اہم حصہ ہے ہمارے دلوں میں بھی اپنے وطن کی اتنی محبت ہے جتنا عام لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی افراد کو نوکری دی جائے اور ان  کو مکمل سپورٹ دیا جائے تاکہ یہ معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرے تقریب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل یاسر سلمان اے ڈی سی نعمت اللہ کنڈی پی ڈی ایم اے افیسر شاہ دراز وزیر سوشل ویلفیئر افیسر مبشر نے خصوصی افراد میں ویل چیئرز کرچز اور دیگر سامان تقسیم کیا۔

Takht Bhai: Conducting an awareness walk on the importance and benefits of breast milk

تخت بھائی: ماں کے دودھ کی اہمیت اور افادیت سے متعلق آگاہی واک کا اہتمام

ماں کے دودھ کی اہمیت اور افادیت سے متعلق آگاہی کا عالمی مہینہ تخت بھائی میں بھی منایا جا رہا ہے اس حوالے سے تحصیل ھیڈکوارٹر ھسپتال تخت بھائی میں محکمہ صحت خیبر پختونخواہ ،یونیسف، اور ڈبلیو ایف او کی جانب سے ماں کے دودھ کی اہمیت سے متعلق تقریب اور واک کا اہتمام کیا گیا جس میں “ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنےکیلئے عالمی مہینے کے موقع پر ٹی ایچ کیو ہسپتال تخت بھائی میں چلڈرن اسپیشلسٹ ڈاکٹر عاقل خان کی نگرانی میں واک کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عمران جوہر، دیگر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف، میڈیا نمائندگان اور عام شہریوں سمیت” لیڈی ہیلتھ ورکرز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کے شرکاء کا کہنا تھا بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے خود اعتمادی اور بچے کی شخصیت نکھر جاتی ہے جبکہ بچہ مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے، بچے کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے کی پیدائش کے پہلے چھ مہینے صرف ماں کا دودھ ہی بچے کو پلانا چاہئے جبکہ چھ مہینے کے بعد نرم غذا اور آہستہ آہستہ دیگر غذاؤں کا استعمال شروع کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ دو سال تک بچے کو ماں کو دودھ ضرور پلانا ہوگا، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پورا ہفتہ آگہی مہم چلائی جائے گی اور گھر گھر جاکر ماؤں کو دودھ کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے باخبر کیا جائے گا۔

Mardan: In order to solve the problems of police officers and jawans in the DPO office, an orderly room was held

مردان: ڈی پی او آفس میں پولیس افسران و جوانوں کے مسائل کے حل کے پیش نظر اردلی روم کا انعقاد

مردان: ڈی پی او آفس مردان میں پولیس افسران و جوانوں کے مسائل کے حل اور ان کی فلاح و بہبود کے پیش نظر اردلی روم کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر ڈی پی او مردان ظہور بابر آفریدی  نے خود پولیس اہلکاروں سے فرداً فرداً ملاقات کی اور ان کے مسائل و مشکلات بغور سنے۔ اردلی روم کے دوران اہلکاروں نے تبادلوں، ترقی، ڈیوٹی نظام، چھٹیوں اور دیگر انتظامی امور سے متعلق اپنے مسائل پیش کیے، جن پر ڈی پی او مردان نے موقع پر ہی متعدد درخواستوں پر احکامات جاری کیے جبکہ باقی درخواستوں کو جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ڈی پی او مردان نے کہا کہ، “پولیس فورس کی کارکردگی کا انحصار اس کے اہلکاروں کی ذہنی و پیشہ ورانہ آسودگی پر ہے، اور اسی مقصد کے تحت ہم اردلی روم کے ذریعے ان کے مسائل براہ راست سن کر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ایک مضبوط اور منظم فورس کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افسران اور جوانوں کو درپیش مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں تاکہ وہ مکمل اطمینان کے ساتھ عوام کی خدمت سرانجام دے سکیں۔

Aqeel yousafzai

بلوچستان ،  خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال اور ری الایمنٹ

عقیل یوسفزئی

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات اور حملوں میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے جبکہ فورسز کی کارروائیوں کا سلسلہ بھی کسی وقفے کے بغیر جاری ہے ۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک میجر سمیت 3 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ریفائنری پر ڈیوٹی دینے والے 4 ایف سی اہلکار شہید کیے گئے ۔ مستونگ حملے کے دوران فورسز کی گاڑی کو بارودی مواد یا آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا گیا جبکہ کرک کی کارروائی میں ایف سی پر فائرنگ کی گئی ۔ اسی روز جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر عصمت اللہ وزیر کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ٹانک سے لدھا جا رہے تھے ۔ وہ اس حملے میں معجزانہ طور پر بچ گئے تاہم متعدد سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے ۔

6 اگست ہی کے روز کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ اس نے مہمند میں فرنٹیئر کور کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا ہے تاہم آزاد ذرائع سے اس حملے کی تصدیق نہ ہوسکی ۔ اس سے ایک روز قبل مہمند کے تحصیل سالارزئی میں پولیس کی ایک عمارت کو تباہ کردیا گیا جو کچھ عرصہ قبل خالی کرائی گئی تھی اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔

ان چند ہے درپے واقعات سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ریاستی کارروائیوں اور اقدامات کے باوجود دونوں حساس صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی قوتیں پھر سے سرگرم عمل ہوگئی ہیں اور خطے میں جاری مجوزہ ری الایمنت کی علاقائی کوششوں کے تناظر میں ایسے دہشت گرد کارروائیوں کا راستہ روکنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔ اگر چہ فورسز نے مستونگ ہی میں اسی دن 4 دہشت گرد ہلاک کئے اور خیبرپختونخوا میں بھی دو تین کارروائیاں کی گئیں تاہم مجموعی صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ قبل ازیں 5 اگست کی شام کو پشاور کے علاقے دلہ زاک روڈ پر موٹر سائیکل سواروں نے ایک کار پر لوگوں کی موجودگی میں بدترین فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک پولیس آفیسر سمیت 3 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ اس سے قبل تین چار روز تک بنوں میں پولیس ، پیرا ملٹری فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان مسلسل جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں متعدد افراد نشانہ بنے ۔ یہ سب کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئیں جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور ان کی ٹیم نے  نہ صرف یہ کہ سی ایم ہاؤس میں مختلف علاقوں کے عوامی نمائندوں اور عمائدین کے ساتھ جرگوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے بلکہ خیبر اور باجوڑ میں بھی حکام اور کالعدم گروپوں کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ عوام اور مختلف طبقوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کی حمایت پر آمادہ کیا جائے ۔ دوسری جانب افغانستان کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں تاکہ کراس بارڈر ٹیررازم کا راستہ روکا جائے ۔ جاری جرگوں کے تناظر میں سی ایم ہاؤس سے جو بیانات جاری کئے جاتے ہیں ان میں ایک نکتہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت کو افغانستان کے ساتھ ” مذاکرات” کی اجازت دی جائے تاہم صوبائی حکومت کے عہدے داران یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس سے قبل عمران خان اور محمود خان کی حکومتوں کے دوران جب افغان عبوری حکومت کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی سے متعدد بار کابل میں مذاکرات کیے گئے تو اس پراسیس کا نتیجہ کیا نکلا ؟

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اس مطالبے کے تناظر میں 6 اگست کو پشاور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ افغانستان یا کسی بھی ملک سے اس قسم کے مذاکرات صوبائی حکومت کے دایرہ اختیار میں نہیں آتا کیونکہ یہ فیڈرل گورنمنٹ کا سبجیکٹ اور ڈومین ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہے جس کے باعث فورسز کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال پر قابو پانے کیلئے اب ایک بالکل واضح اور ٹھوس پلان ترتیب دینا ہوگا کیونکہ خطے میں جاری ری الایمنت اور ری انگیجمنٹ کے پس منظر میں اب ان ممالک اور قوتوں کے لیے بھی  ان دو صوبوں کا امن ناگزیر ہوگیا ہے جو کہ یہاں بہت بڑے پیمانے پر انویسٹمنٹ کرنے آگئے ہیں یا آرہے ہیں ۔