باجوڑ میں آپریشن ؟
عقیل یوسفزئی
باجوڑ میں انتظامیہ اور کالعدم گروپ ٹی ٹی پی کے درمیان معاملات طے کرنے کے لیے ایک نمایندہ جرگے کی کوششوں کا سلسلہ ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے جس کا اعتراف جرگہ کے قائدین نے یہ کہہ کر خود کردیا ہے کہ ” متحارب فریقین” کے الگ الگ موقف کے باعث نہ صرف یہ کہ رکاوٹیں پیدا ہوئیں بلکہ مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں کیے جاسکے ۔ اب تک کی تمام پراسیس کا خلاصہ یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے علاقے سے نکلنے کی ریاستی آپشن کو مسترد کرتے ہوئے الٹا فورسز کے نکل جانے کا مطالبہ کیا جس نے ڈیڈ لاک کو جنم دیا اور جرگہ کی کوششیں ناکام ہوگئیں ۔
جرگے نے ایک سیشن کے دوران وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت کے سامنے بھی اپنی تجاویز پیش کیں مگر حکومت کی خواہش کے باوجود بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی کا مطالبہ ریاستی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور شاید اسی کے ردعمل میں سیکیورٹی ذرائع سے یہ واضح کرنے کی عملی کوشش کی گئی تھی کہ کسی کو بھی اس قسم کے مذاکرات یا مطالبات کی آڑ میں ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
ماہرین کو اس ” پراسیس” کے مذکورہ انجام کا پہلے سے ادراک تھا اس لیے اس انجام پر وہ حیرت کرتے دکھائی نہیں دیتے تاہم سیکیورٹی فورسز کو اس تمام پریکٹس سے یہ فایدہ ضرور پہنچا کہ جو لوگ مذاکرات وغیرہ کے حق میں دلائل دے رہے تھے وہ حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہوگئے اور شاید اسی کا ردعمل ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نے کسی زور زبردستی کے بغیر مجوزہ آپریشن سے قبل اپنے علاقوں سے نقل مکانی شروع کردی ۔
سیکیورٹی ذرائع اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اب ایک آپریشن لانچ کیا جائے گا کیونکہ ریاست کے پاس اس کے بغیر دوسرا کوئی آپشن باقی رہا ہی نہیں ہے ۔ جرگہ کی مذکورہ پراسیس کے ذریعے یہ بیانیہ تو دم توڑ گیا ہے کہ باجوڑ یا دیگر علاقوں میں طالبان وغیرہ نہیں ہیں کیونکہ جرگہ ارکان خود کش جیکٹس پہنے جدید ہتھیاروں سے لیس طالبان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی تصویریں خود شئیر کرتے رہے ہیں ۔
اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ چند گھنٹوں یا ایک دو دنوں میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز کیا جائے گا کیونکہ اس کی پلاننگ اور تیاری پہلے ہی کی جاچکی ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ” سوات آپریشن” کا ماڈل اپناکر متاثرین کے قیام کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں اور ریکارڈ وقت میں کارروائی کرتے ہوئے عوام کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس بھیجنے کا پلان تشکیل دیا جائے ۔ کوئی بھی بڑا آپریشن کوئی آسان کام اور خوشگوار تجربہ نہیں سمجھا جاتا اسی وجہ سے ریاست مختلف طریقوں سے کوشش کرتی ہے کہ آپریشن کی نوبت نہ آنے دی جائے مگر جب ایسی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو مجبوراً یہ انتہائی اقدام اٹھایا جاتا ہے ۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے میڈیا سیل نے 10 اگست کی شام کو تفصیلات پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان حملوں کی تفصیل شامل ہے جو کہ صرف اسی روز یعنی 10 اگست کو کرایے گیے ہیں ۔ ان تفصیلات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ہی روز 21 حملوں کا دعویٰ کیا گیا ہے جن میں 3 حملے ضلع خیبر کے بھی شامل ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کی سیکیورٹی صورتحال کس قدر ابتر ہوگئی ہے اور اس تناظر میں ریاستی اداروں پر کس نوعیت کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مذکورہ رپورٹ یا دعوے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگر تیراہ اور خیبر کے دیگر علاقوں میں واقعتاً حملے کئے گئے ہیں تو اس معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا جو کہ وادی تیراہ میں کالعدم ٹی ٹی پی اور عوامی جرگہ کے درمیان چند روز قبل کیا گیا ہے ؟ حالات کافی پیچیدہ ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ صوبے کی سیکیورٹی معاملات کے پیش نظر آیندہ چند روز اور ہفتے بہت اہم ہیں ۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے کیونکہ اب ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔
( 11 اگست 2025 )