عقیل یوسفزئی
29 اگست کو خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے نصف درجن سے زائد واقعات ہوئے جبکہ گلگت میں ایک پوسٹ پر حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سکاؤٹس کے تقریباً ایک درجن اہلکاروں کو شہید کیا گیا ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا کے علاقے تیراہ میں ایک پوسٹ پر خودکش حملہ کے نتیجے میں متعدد سیکورٹی اہلکار شہید اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے تو رات گئے دیر بالا کے علاقے شاہی کوٹ میں ایف سی کے ایک چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 6 اہلکاروں کی شہادت ہوئی تاہم حکام نے دعویٰ کیا کہ فورسز کی کارروائی میں ایک درجن دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے اور یہ کہ علاقے میں سرچ اینڈ کلیرنس آپریشن جاری ہے ۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ شاہی کوٹ میں ہونے والے حملے کے دوران مقامی لوگوں نے بھی فورسز کا ساتھ دیا ۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے دیر ہی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر عنایت اللّٰہ خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے اور یہ کہ دیر سمیت خیبر پختونخوا کے متعدد دیگر علاقوں میں بھی دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھایا ہے جس کے باعث عوام میں تشویش پائی جاتی ہے ۔
اسی روز بنوں میں ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار جبکہ لنڈی کوتل میں ایف سی کے جوان کو شہید کیا گیا ۔ دوسری جانب جہاں فورسز نے شاہی کوٹ دیر بالا میں متعدد دہشت گردوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا وہاں پولیس نے لکی مروت میں 2 جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 3 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ۔ متعدد دیگر کارروائیاں بھی کی گئیں ۔
تیراہ ضلع خیبر میں خودکش دھماکہ کرانے والے بمبار کی شناخت قاری عمر آفریدی کے نام سے ہوئی ہے ۔ جاری کردہ تصویر میں وہ بہت کم عمر لگتے ہیں جو اس جانب اشارہ ہے کہ کالعدم گروپ کی جانب سے تمام تر ریاستی کارروائیوں کے باوجود ری کروٹنگ کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ایک تشویش ناک آمر ہے ۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک طرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان مختلف ایشوز اور واقعات کے تناظر میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب جاری جنگ نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعد ایک اور حساس علاقے گلگت بلتستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جو اس جانب اشارہ ہے کہ پاک چین تعلقات کے تناظر میں بعض اہم ممالک اور ان کی پراکسیز کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ریاستی اداروں کو اس تمام صورتحال کے پس منظر میں موثر حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی ۔
ممتاز تجزیہ کار حسن خان کے مطابق پاکستان ، چین اور افغانستان کے درمیان سی پیک کی توسیع سمیت جن دیگر امور پر گزشتہ چند مہینوں سے جو پیشرفت دیکھنے کو ملتی آرہی تھی کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر افغان حکومت کے عدم تعاون کے باعث وہ پیشرفت رکتی دکھائی دے رہی ہے اور اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ تعاون نہ کرنے پر چین بھی افغانستان سے ناراض ہوگیا ہے ۔ ان کے بقول اس صورتحال نے خطے میں نئی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی سے دہشت گرد گروپ فایدہ اٹھانے لگے ہیں اور حملوں کی شدت میں حالیہ اضافے کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
اس تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے تجویز پیش کی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لازمی ہے کہ تمام سیاسی اور پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز تمام تر اسباب و عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے ایک مربوط حکمت عملی وضع کریں اور ضرورت پڑنے پر افغانستان کے ساتھ بھی دوٹوک بات کی جائے کیونکہ پورے پشتون اور بلوچ بیلٹ کو سیکورٹی کے چیلنجر کا سامنا ہے اور پراکسیز بھی اس تمام صورتحال کے اندر اپنا اپنا کردار ادا کرتی آرہی ہیں ۔
( 30 اگست 2025 )