Wisal Muhammad Khan

نئے صوبوں کی ضرورت

وصال محمدخان
وطن عزیزمیں آجکل نئے صوبے بنانے پربحث وتمحیص کاایک سلسلہ شروع ہوچکاہے۔کچھ ذرائع کادعویٰ ہے کہ اعلیٰ سطح پر ملک کوبارہ صوبوں میں تقسیم کرنے کامعاملہ زیرغورہے۔ملک میں نئے صوبے بنانے کامعاملہ کسی سطح پرزیرغورہے یایہ محض دعوے ہیں اس سے قطع نظرنئے صوبے بناناکوئی معیوب بات نہیں۔قیام پاکستان کو78برس کاعرصہ بیت چکاہے قیام کے وقت ملکی آبادی اورآج کی آبادی میں پانچ گنا فرق آچکاہے مگرصوبے وہی چلے آرہے ہیں۔نئے صوبوں کی جوسوچ جہاں بھی پنپ رہی ہے اسکی وجہ صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کواختیارات اورفنڈزتومنتقل ہوگئے مگرصوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں بااحسن پوری کرنے میں ناکام رہیں۔صوبائی خودمختاری کانعرہ اورصوبوں کوزیادہ رقم اوراختیارات ملنے کاتجربہ تقریباًناکام ہوچکاہے اس سے صوبائی حکومتیں ایک توسرکشی پرآمادہ نظرآئیں دوسرے یہ اپنی منصبی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی ناکام رہیں۔صوبائی حکومتیں اختیارات سمیٹ کرمطلق العنانیت کی راہ پرچل پڑی ہیں وہ بلدیاتی اداروں کاوجودبرداشت کرنے کیلئے تیارنہیں۔اول توبلدیاتی انتخابات سے فراراختیارکرنے کی روش اپنائی جاتی ہے، اعلیٰ عدلیہ باربارانتخابات کروانے کے احکامات جاری کرتی ہیں مگرانہیں پرکاہ برابراہمیت نہیں دی جاتی اورجب کوئی صوبائی حکومت مجبورہوکربلدیاتی انتخابات منعقدکرنے پرمجبورہوتی ہے توان اداروں کوفندزاوراختیارات نہیں دئے جاتے۔خیبرپختونخوامیں بلدیاتی ادارے موجودہیں جو2021میں بنے ہیں مگران اداروں کے منتخب نمائندوں نے اپنازیادہ تروقت سڑکوں پرفنڈزاوراختیارات کیلئے احتجاج کرتے گزارا۔ کبھی وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگاتے ہیں وزیراعلیٰ کادل پسیج جاتاہے اورانہیں مذاکرات کیلئے اندربلالیاجاتاہے انہیں تسلی دی جاتی ہے،وعدے کئے جاتے ہیں ”بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں ہیں،حکومت بلدیاتی اداروں کومضبوط دیکھناچاہتی ہے، آئندہ بجٹ میں بلدیاتی اداروں کواتنے فیصددینگے“کابیان جاری کیاجاتاہے۔مگرنہ ہی ان اداروں کوفندز فراہم کئے جاتے ہیں،نہ ہی انہیں بااختیاربنایاجاتاہے اوریہ ناروا سلوک پی ٹی آئی کی موجودہ اورگزشتہ دوحکومتوں نے روارکھا۔یہ ادارے محمودخان دورمیں بنے تھے انکے بنتے ہی بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم سے انکے اختیارات پرکلہاڑاچلادیاگیا جوکسررہ گئی تھی وہ گنڈاپورحکومت نے پوری کردی۔پنجاب کاحال بھی اس معاملے میں قابل رشک نہیں۔شہبازشریف حکومت میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے،ادارے قائم کئے گئے مگرانہیں بزدارحکومت نے معطل کیابعدمیں عدالت نے بحال کیا مگر حکومت نے انہیں عضوئے معطل بناکررکھ دیا۔اب ان دونوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کاانعقادآئینی ضرورت ہے۔خیبرپختونخوامیں بھوکے ننگے بلدیاتی ادارے موجودہیں جن کادورانیہ شائد آئندہ دسمبرمیں ختم ہورہاہے مگراس موجودگی سے بہترہوگاانہیں توڑکرنئے انتخابا ت کروائے جائیں۔جب صوبائی حکومتوں کی کارکرد گی ناقص ہواوراسکے باوجودوہ اختیارات تقسیم کرنے اورنچلی سطح تک منتقل کرنے پر تیار نہ ہوں تواس صورت میں نئے صوبے بنانے کی سوچ بھی جنم لے گی اورصوبوں کے اختیارات پرقدغن بارے غوروخوض بھی ہوگا۔ اب ایک نظام ڈیلیورکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، صوبے اختیارات کا درست استعمال کرنے سے قاصرہیں،فنڈزلیپس ہورہے ہیں، پورے سال میں ترقیاتی بجٹ کا40فیصداستعمال کرنے پر شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ ہم نے خسارے کے بجٹ کوسرپلس بجٹ میں تبدیل کردیا۔ایم پی ایزاورایم این ایز کھمبوں، ٹرانسفارمرز کی تنصیب اورگلیاں نالیاں پختہ کرنے میں مصروف ہیں جودرحقیقت بلدیاتی اداروں کا کام ہے۔سوات میں ویلیج کونسل کے پاس فنڈزاوراختیارات ہوتے تووہ اپنی ضرورت کے مطابق کشتیاں خریدتے اور18افرادکوباآسانی بچایاجاسکتا۔ان بدقسمت افرادکو بچانے کیلئے ہیلی کاپٹرکی نہیں ریسکیووالی کشتیوں کی ضرورت تھی جن کی قیمت بھی ہیلی کاپٹرسے بدرجہاکم ہے یعنی یہ کشتیاں کروڑوں لاکھوں میں نہیں چندہزارروپوں میں آسکتی ہیں ہیلی کاپٹرپروزیراعلیٰ کومطعون کیاگیامگریہ بات یادرکھنے کی ہے کہ خیبر پختونخواکاملکیتی ہیلی کاپٹر صرف آمدورفت کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے آپریشن میں اسکے استعمال کاانجام تباہی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔نجانے صوبائی حکومتو ں کوبلدیاتی اداروں سے کیاپرخاش ہے؟ان اداروں کی عدم فعالیت سے حکومتوں کی ناقص کارکردگی بھی آشکارا ہوتی ہے اگربلدیاتی ادار ے فعال ہونگے تووہ کام کرینگے انہیں گراؤنڈپرحقائق کاعلم ہوتاہے۔بھارت سمیت دنیاکے بیشترممالک میں حکومت تین حصوں وفاقی، صوبائی یاریاستی اوربلدیاتی اداروں پرمشتمل ہوتی ہے۔وفاق صوبائی حکومتوں کے ذریعے اورصوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے ذریعے ریاستی نظام چلاتے ہیں مگرہمارے ہاں وفاق اوربلدیاتی اداروں کوعضوئے معطل بناکررکھ دیاگیاہے اورتمام نظام حکومت صوبائی حکومت یاوزیراعلیٰ کے ہاتھ میں دیاگیاہے جواسے چلانے کی بجائے گھسیٹ رہے ہیں۔صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے 40ارب روپے ہڑپ کئے جاتے ہیں مگرحکومت کوکانوں کان خبرتک نہیں ہوتی اوربعدمیں نیب کی ریکوری پربغلیں بجائی جاتی ہیں کوئی بھی صوبائی حکومت تھی اسکی موجودگی میں اتنی بڑی رقم ہڑپ کی گئی مگروہ خواب خرگوش میں مگن تھی اس کاواضح مطلب یہی ہے کہ صوبائی حکومت کی رٹ پشاورسے کوہستا ن میں لاگوکرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔یہ امرباعث حیرت ہے کہ ہمیشہ جمہوری ادوارمیں بلدیاتی اداروں کا گلا گھونٹاگیاجبکہ ڈکٹیٹر شپ میں بلدیاتی ادارے قائم کئے گئے اوران سے کام لیاگیامگران ادوارمیں بھی توازن برقرارنہ رکھاجاسکااورصوبائی حکومتیں بائی پاس کی گئیں اب صوبائی حکومتیں مطلق العنان بن بیٹھی ہیں جووفاق اوربلدیاتی اداروں کے سینوں پرمونگ دل رہی ہے مسئلہ گھمبیرہے جس کاحل یاتوبلدیاتی ادارے فعال کرنااوریاپھرنئے صوبے بنانا ہے۔صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی میں جوہری تبدیلی لانے سے قاصرہیں۔ دنیاکے سو،سوممالک سے بڑے صوبوں کاانتظام وانصرام سنبھالنا اکیلے ایک وزیراعلیٰ کیلئے ناممکن ہے۔ نئے صوبے بنانا،اختیارات اورفنڈزکاکچھ حصہ وفاق کی جانب منتقل کرنا اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقدکرکے انہیں بااختیار بنانا وقت کی ضرورت ہے۔

People's protest at Kohat Dhoda Chowk, demand to build flyover

کوہاٹ: ڈھوڈہ چوک پر عوام کا احتجاج، فلائی اوور بنانے کا مطالبہ

کوہاٹ کے علاقے ڈھوڈہ چوک پر مضافاتی علاقوں کے عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے مین ہائی وے کو ٹریفک کے لئے بند کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ڈھوڈہ چوک شہر کا مصروف ترین مقام ہے جہاں آئے روز حادثات ہوتے ہیں، مگر عوامی نمائندے وعدے کرنے کے باوجود مسائل حل نہیں کرتے۔ ان کے مطابق موجودہ ایم این اے اور ایم پی اے نے فلائی اوور کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا تاکہ عوام حادثات سے محفوظ رہ سکیں، لیکن یہ وعدہ اب تک پورا نہیں کیا گیا۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ عوامی نمائندے فوٹو سیشن تک محدود رہتے ہیں اور عملی اقدامات نہیں کرتے۔ اس موقع پر وزیر قانون خیبرپختونخوا آفتاب عالم اور ایم پی اے داود آفریدی مظاہرین سے مذاکرات کے لیے پہنچے اور فلائی اوور کی تعمیر کا وعدہ کیا۔ حکومتی یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے احتجاج ختم کرتے ہوئے روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا۔
bise-mardan-hssc-part-i-part-ii-annual-examination-result-2025-announced-techjuice-190712-170235-940x529

مردان بورڈ نتائج: مجموعی کامیابی 84.48 فیصد رہی

مردان بورڈ نتائج: مجموعی کامیابی 84.48 فیصد رہی

مردان تعلیمی بورڈ نے انٹر کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق مجموعی کامیابی 84.48 فیصد رہی۔
بورڈ کو ٹاپ کرنے والی طالبہ دی پیس سکول کی انشرح حیات (رول نمبر 607536) ہیں جنہوں نے 1150 مارکس حاصل کیے۔ دوسری پوزیشن دی قائد اعظم گروپ آف کالجز صوابی کی ماہین چاند (رول نمبر 605099) نے 1149 مارکس کے ساتھ حاصل کی۔ تیسری پوزیشن دی قائد اعظم گروپ کالج صوابی کے طالب علم کاشف خان (رول نمبر 623486) اور بریلینٹ سکول کاٹلنگ کی حناد نور (رول نمبر 620250) نے 1147 مارکس کے ساتھ مشترکہ طور پر حاصل کی۔
نتائج کا اعلان تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر جھانزیب نے کیا۔ تقریب میں سیکرٹری ایجوکیشن محمد خالد خان مہمان خصوصی تھے جبکہ کمشنر مردان ڈویژن نثار احمد، والدین اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد بھی شریک رہی۔ نمایاں پوزیشن ہولڈرز میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔

Khyber Pakhtunkhwa government's meeting regarding "anti-polio".

خیبر پختونخوا میں آج سے پولیو مہم کا آغاز

یہ مہم دو مرحلوں میں چلائی جارہی ہے۔  پہلا مرحلے میں آج سے 4 ستمبر تک بچوں کو پولیو سے بچاو کی ویکسین پلائی جائیگی  ۔ پہلے مرحلے میں مہم  پشاور، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ، سمیت 16 اضلاع میں مکمل اور 3 اضلاع میں جُزوی طور پر چلائی جارہی ہے  ۔  دوسرے مرحلے میں 15 تا 18 ستمبر کے دوران بنوں، باجوڑ،اور ڈی آئی خان ڈویژن کے سات اضلاع میں پولیو مہم چلائی جائیگی۔مہم کے دوران 5 سال سے کم عمر 57 لاکھ 50 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔مہم کو کامیاب بنانے کیلئے 27 ہزار پولیو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہے ۔ مہم کیلئے 40,000 سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ۔ پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لیے پولیس اور دیگر اداروں کی مدد سے سخت سیکیورٹی پلان تشکیل دیا گیا ہے  ۔ والدین سے اپیل ہے کہ پولیو ٹیموں سے تعاون کریں، بچوں کو قطرے ضرور پلائیں۔

Pak-Afghan Torkham border opened for traffic

صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے اقدامات جاری

صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اقدامات جاری۔ صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کوھاٹ جناب حامد اقبال نے گھمکول کیمپ میں افغان مہاجرین کے عمائدین و مشران سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ ریاستی پالیسی کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل باوقار اور باعزت طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل نے افغان عمائدین پر زور دیا کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ واپسی کے عمل کو سہل، منظم اور جلد از جلد مکمل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی تاکہ یہ عمل خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچے۔

Shahid Afridi's visit to Police Line Peshawar

شاہد آفریدی کا  پولیس لائن پشاور کا دورہ

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور سپر اسٹار آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے آج ملک سعد شہید پولیس لائن پشاور کا خصوصی دورہ کیا۔ سی سی پی او پشاور ڈاکٹر میاں سعید احمد اور ایس ایس پی آپریشنز مسعود احمد نے معزز مہمان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر پشاور پولیس کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ شاہد آفریدی نے یادگارِ شہداء پر حاضری دی، پھول چڑھائے اور خیبرپختونخوا پولیس کے شہداء کے بلند درجات کیلئے دعا کی۔ بعدازاں سی سی پی او پشاور ڈاکٹر میاں سعید احمد سے ملاقات کے دوران امن و امان کی صورتحال اور عوامی خدمات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

شاہد آفریدی نے حالیہ سیلاب متاثرین کیلئے عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقدہ میچ کے دوران پشاور پولیس کی مثالی اور پروفیشنل سکیورٹی انتظامات کو سراہا اور کہا کہ سکیورٹی کی بہترین انتظامات کی بدولت نیشنل اور انٹرنیشنل میچز کا انعقاد بھی پشاور میں کیا جا سکتا ہے جس پر سی سی پی او نے ان کو یقین دہانی دلائی کہ کسی بھی انٹرنیشنل اور نیشنل ایونٹس کی صورت میں پشاور پولیس سکیورٹی کو یقینی بنائیں گی۔

ملاقات کے دوران شاہد آفریدی نےخیبرپختونخوا پولیس کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پولیس نے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ہمیشہ فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔شاہد آفریدی نے مزید کہا کہ وہ خود کو پختون قوم کا فرد سمجھتے ہیں اور پشاور، خیبر اور خیبرپختونخوا کے عوام سے ان کا گہرا تعلق اور محبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر مشکل گھڑی میں اپنے غیور عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ آخر میں انہوں نے اپنی اور پشاور زلمی کی جانب سے پشاور پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پشاور پولیس کو ایک پروفیشنل اور بہترین فورس قرار دیا۔

Khyber Pakhtunkhwa Roundup

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

وصال محمدخان
خیبرپختونخواکے سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کاعمل شروع ہوچکاہے۔اس سلسلے میں وفاقی،صوبائی اورغیرسرکاری ادارے تندہی سے اپنا کام کررہے ہیں خدمت خلق کے اسی جذبے کومدنظررکھتے ہوئے امیدکی جاسکتی ہے کہ بہت جلد سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی بحال ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کو سیلاب کے حوالے سے آن لائن بریفنگ میں بتایاگیاکہ اب تک صوبے میں 406اموات اور247زخمیوں کی باقاعدہ تصدیق ہوئی ہے۔جن میں سے 332جاں بحق افرادکے لواحقین کو20لاکھ روپے جبکہ 35زخمیوں کو 5لاکھ روپے فی کس معاوضوں کی ادائیگی ہو چکی ہے۔ 28 افرادتاحال لاپتہ ہیں جنکی تلاش کاکام جاری ہے۔جاں بحق افرادمیں 305مرد،55 خواتین اور46بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں 179مرد،38خواتین اور30بچے شامل ہیں۔بونیرمیں سب سے زیادہ 238افرادجاں بحق اور128زخمی ہوئے۔صوابی میں دوسرے نمبرپر42افرادجاں بحق اور20زخمی،مانسہرہ 25،باجوڑ22،سوات 20اورڈی آئی خان میں 8افرادجاں بحق ہوئے۔ 5720خاندان متاثرہوئے ہیں جن میں 4398خاندانوں کوفوڈپیکیج کی مدمیں رقوم اداکی جاچکی ہیں،باجوڑکے نقل مکانی کرنیوالے 9698افرادکوبھی فوڈپیکیج فراہم کیاگیاہے،مجموعی طورپر3526مکانات کونقصان پہنچاجن میں 598مکانات مکمل طور پرتباہ ہوئے ہیں جبکہ2971مکانات کوجزوی نقصان پہنچاہے،43متاثرہ مکانات کے مالکان کومعاوضہ اداکیاگیاہے یہ عمل جاری ہے جسے بہت جلد پایہء تکمیل تک پہنچادیاجائیگا۔سیلاب کی تباہ کاریوں سے526رابطہ سڑکیں اور106پل متاثرہوئے ہیں،326تعلیمی مراکز، 38مراکز صحت اور67سرکاری دفاتربھی سمیت 2808دوکانات بھی متاثرہوئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کوبھی معاوضے اداکر نیکی ہدایت کردی ہے،جبکہ سیلاب متاثرین کوادائیگی کیلئے ایک ہفتے کی ڈیڈلائن بھی دی گئی ہے،وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ جاں بحق افراد کے وہ کمسن بچے جن کے شناختی کارڈزاوربینک اکاؤنٹس نہیں بن سکتے انہیں معاوضوں کی ادائیگی کیلئے کوئی قابل عمل طریقہء کاروضع کیا جائے۔ زخمیوں کے تصدیقی عمل کوبھی جلد مکمل کرنے کیلئے محکمہ صحت کی مزیدٹیموں کوذمہ داریاں سونپی جا ئیں،دوکانوں اورمکانوں کی تصدیقی عمل کوبھی تیزکیاجائے،آبی گزرگاہوں پرقائم تباہ شدہ گھروں کابھی ڈیٹااکھٹاکرکے مالکان کومحفوظ مقامات پرمکانوں کی تعمیرکیلئے قائل کیاجائے۔جن گھروں میں ریلے داخل ہوئے انہیں صفائی کیلئے 1لاکھ روپے فی گھر انہ اداکیاجائے۔وزیراعلیٰ نے سختی سے ہدایت کی کہ متاثرین کومعاوضوں کی ادائیگی کاعمل مقررہ وقت میں مکمل کیاجائے ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں فنڈزکے استعمال میں شفافیت یقینی بنائی جائے اورمانیٹرنگ کے عمل کومؤثربنایاجائے۔
محکمہ مواصلات نے صوبے میں سڑکوں اورپلوں کوپہنچنے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق 15سے22اگست تک صوبے میں بارشوں اورسیلاب سے331سڑکوں کو336مقامات پرنقصان پہنچا،493کلومیٹرپرمشتمل سڑکیں سیلاب اور لینڈ سلائیڈ نگ کی نذرہوئیں،57سڑکیں تاحال بندہیں ان تمام سڑکوں کی بحالی پراخراجات کاتخمینہ9ارب45کروڑروپے لگایاگیا ہے۔ 229 سڑکیں جزوی جبکہ50سڑکیں مکمل طورپربحال کی گئی ہیں۔32پل سیلاب میں بہہ چکے ہیں جن میں سے ایک پل مکمل،22 جزو ی طورپر ٹریفک کیلئے کھول دئے گئے ہیں جبکہ9پل تاحال بندہیں اورقابل استعمال نہیں۔ان پلوں کی مرمت اوربحالی پر1ارب 12 کروڑروپے اخراجات کاتخمینہ لگایاگیاہے۔سوات میں سب سے زیادہ79سڑکیں 80مقامات پرمتاثرہوئیں،43کلومیٹرسڑکیں سیلا ب میں بہہ گئیں، 3سڑکیں مکمل،75جزوی طورپرٹریفک کیلئے کھول دی گئی ہیں جبکہ 2سڑکیں تاحال بندہیں۔ان سڑکوں کی بحالی پر 45 کروڑروپے سے زائدرقم خرچ کی گئی۔بونیرمیں 43سڑکیں متاثرہوئیں،39سڑکیں مکمل بحال 4مکمل بندہیں ان سڑکوں کی بحالی پر ساڑھے4ارب روپے کی لاگت آئیگی۔جبکہ صوابی میں 41سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوئیں جن میں 32سڑکیں تاحال بندہیں۔
سیاسی محاذپردیکھاجائے توپی ٹی آئی خودکوہرصورت خبروں میں اِن رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ہفتہء گزشتہ کے دوران بانی کے حکم پر جنید اکبر نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیدیاہے جبکہ دواراکین فیصل امین گنڈاپورممبرقائمہ کمیٹی اقتصادی امور اورنیشنل فوڈسیکیورٹی جبکہ علی اصغرقائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ اورنجکاری،پلاننگ اینڈڈویلپمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوئے ہیں۔ جنیداکبر جو خیبرپختونخواکیلئے تحریک انصاف کے صوبائی صدربھی ہیں نے اپنے استعفے کی باضابطہ تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ یہ فیصلہ بانی کی ہدایت پر کیاگیاہے،میں نے پی اے سی کی چیئرمین شپ سمیت انرجی کمیٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیاہے،بانی کے حکم پربلاتاخیراستعفے دئے، قیادت کے فیصلوں پرعملدرآمدہم سب کی ذمہ داری ہے،بانی کومکمل معلومات فراہم نہیں گئیں گوہرخان نے بغیرتصدیق رائے قائم کی کہ میں استعفیٰ نہیں دے رہاحالانکہ میں نے انہیں بتادیاتھاکہ بانی سے ملتے وقت میرااستعفیٰ ساتھ لیتے جائیں،لیکن وہ میرااستعفیٰ لیکرنہیں گئے اسلئے میں نے استعفیٰ انہیں واٹس ایپ کردیا۔ پارٹی چیئرمین گوہرخان بھی چارقائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی تمام قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دینے کافیصلہ کیاہے جوکسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ایک جانب پارٹی قائدین ایکدوسرے کی تانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں تودوسری جانب استعفوں اوربیان بازی پرزیادہ توجہ مرکوزکی جاچکی ہے۔استعفوں کی سیاست کامقصدملک میں سیاسی عدم استحکام پیداکرنے کے سواکچھ نہیں مگراس قسم کی سیاست کاپہلے کوئی فائدہ ہواہے اورنہ ہی آئندہ ایسے کوئی امکانات ہیں۔اس سے قبل2022میں بھی قومی اسمبلی سے استعفے دئے گئے اوردوصوبائی اسمبلیاں بے وقت توڑدی گئیں مگربعدمیں برملاا عتراف کیاگیاکہ یہ دونوں فیصلے درست نہیں تھے اوران کاسیاسی نقصان ہوا۔اب ایک بار پھر استعفو ں کاکھیل شروع کردیاگیاہے جس پر مستقبل قریب میں خودہی پشیمانی کااظہارمتوقع ہے۔
سیلاب کی صورتحال پربحث کیلئے بلایاگیااسمبلی کااجلاس الزامات اورجوابی الزامات کی نذرہورہاہے۔اجلاس میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بجائے اپوزیشن اورحکومتی اراکین ایک دوسرے پرکرپشن،بدعنوانی اورطالبان کوبھتہ دینے کے الزامات میں مصروف ہیں۔رواں اجلاس میں حکومتی رکن شفیع جان نے اے این پی کے رہبرتحریک اسفندیارولی خان پرپختونوں کومارنے کے بدلے ڈالرزلینے کاالزام لگایاجس پرنہ صرف اسمبلی میں گرماگرمی ہوئی بلکہ اسفندیارولی خان نے انہیں 100ملین روپے ہرجانے کانوٹس بھی جاری کردیاہے۔اس سے قبل اسی طرح کاایک مقدمہ اسفندیارولی شوکت یوسفزئی کے خلاف بھی جیت چکے ہیں۔شوکت یوسفزئی کے علاج کیلئے صوبائی کابینہ نے 2کروڑ روپے کی رقم منظورکی ہے جس پرانہیں کڑی تنقیدکاسامناہے کیونکہ وہ نوازشریف کے اپنے خرچ پربیرون ملک علاج کوتنقیدکانشانہ بناتے رہے ہیں آج وہ خودبیرون ملک سرکاری خرچ پرعلاج کروارہے ہیں جس پرتنقیدکی جارہی ہے کہ 12سالہ دورِحکومت میں پی ٹی آئی کوئی ایساہسپتال نہ بنواسکی جس میں شوکت یوسفزئی کاعلاج ہو۔یہی تنقیدیہ پہلے شریف خاندان پرکرتے تھے۔

The death toll from the earthquake in eastern Afghanistan has reached 500

مشرقی افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 500 تک پہنچ گئی

افغانستان میں گزشتہ رات آنے والے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر اب 500 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 1000 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ گزشتہ شب افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 11 بجکر 47 منٹ پر 6.0 شدت کا زلزلہ آیا تھا اور تقریباً 20 منٹ بعد ہی اسی صوبے میں 4.5 شدت کا ایک اور جھٹکا محسوس کیا گیا۔ جس کی گہرائی 10 کلو میٹر تھی۔ افغان حکام کا بتانا ہے کہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان صوبہ کنڑ میں ہوا جہاں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں جب کہ ہزاروں لوگ زخمی ہیں۔ حکام کا کہنا ہےکہ متعدد لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں جنہیں نکالنے کا عمل جاری ہے۔ یاد رہےکہ گزشتہ رات پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے تاہم کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق 12 بج کر 38 منٹ پر ہنگو، مالاکنڈ، سوات، مانسہرہ، ایبٹ آباد ، اسلام آباد، راولپنڈی، چترال اور پشاور میں 4.6 شدت کے آفٹر شاکس بھی محسوس کیے گئے۔زلزلے کی گہرائی 15 کلو میٹر ریکارڈ کی گئی جب کہ زلزلے کا مرکز جنوب مشرقی افغانستان میں تھا۔.