6368da11cf2af473091363

کے ایم یو کا ضلع بونیر میں سب کیمپس کے قیام کا اعلان

کے ایم یو کا ضلع بونیر میں سب کیمپس کے قیام کا اعلان

بونیر: خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے ضلع بونیر کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرہ علاقوں میں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کے لیے سب کیمپس کے قیام کا اعلان کیا۔

 

وائس چانسلر نے کہا کہ نئے کیمپس کا مقصد ضلع بونیر کے عوام کو ان کی دہلیز پر معیاری طبی تعلیم اور صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ابتدائی طور پر یہاں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی، نرسنگ، بی ایس آڈیالوجی، بی ایس آکوپیشنل تھراپی، بی ایس سپیچ اینڈ لینگویج پیتھالوجی، بی ایس ویژن سائنسز، بی ایس نیوٹریشن اور دیگر الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ کلاسز اکتوبر/نومبر 2025 سے باقاعدہ آغاز ہوں گی۔

وائس چانسلر نے بونیر میں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال پیر بابا اور قریبی سیلاب متاثرہ علاقوں کا بھی معائنہ کیا، جہاں کے ایم یو کی موبائل لیبارٹری اور بارہ رکنی کوالیفائیڈ سٹاف موجود تھا۔ اس لیبارٹری میں ہیضہ، ڈینگی، ملیریا، کووڈ-19، چکن گونیا، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، انفلوئنزا، جلدی امراض اور گلے کے انفیکشن سمیت تمام تشخیصی سہولیات موجود ہیں۔

اس کے علاوہ، کے ایم یو نے ضلع بونیر میں ایک فری میڈیکل کیمپ بھی قائم کیا، جہاں مستند ڈاکٹروں کی مشاورت، تشخیصی سہولیات اور ادویات بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہیں۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اس کیمپس کے قیام سے نہ صرف پسماندہ علاقوں کے طلباء اور والدین کے تعلیمی اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع اور بہتر طبی خدمات بھی دستیاب ہوں گی۔

اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے امبریلا ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن سسٹم کے تحت نور نرسنگ کالج کی گریجویشن تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت اور ظفر ثانی ہسپتال ڈگر کا دورہ بھی کیا۔

WhatsApp Image 2025-09-02 at 16.25.22_d22fdc31

طلباء کو دہشتگردی کے خلاف شعور اور قومی خدمت کی تلقین

طلباء کو دہشتگردی کے خلاف شعور اور قومی خدمت کی تلقین

سوات: طلباء قوم کا مستقبل اور معمار ہیں، اس جذبے کے تحت سیکیورٹی فورسز کے افسران نے لوکل انتظامیہ کے ہمراہ سوات کے مختلف سکولز اور کالجز کا دورہ کیا۔ اس موقع پر طلباء کو دہشتگردی سمیت ممکنہ خطرات سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات سے

متعلق مفید مشورے دیے گئے۔

سیکیورٹی فورسز نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلباء کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کی تلقین کی۔ طلباء نے بھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پاکستان کے تحفظ کا عزم دہرا یا۔

یہ اقدام طلباء میں شعور اور ملکی دفاع کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے، جس سے یہ پیغام دیا گیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ صرف ہتھیار سے نہیں بلکہ تعلیم، آگاہی اور شعور سے بھی ممکن ہے۔

1756799230-AFGANISTAN-6

پختونخوا حکومت کی افغان زلزلہ متاثرین کےلئے امداد کی پیشکش

پختونخوا حکومت کی افغان زلزلہ متاثرین کےلئے امداد کی پیشکش

افغانستان میں شدید زلزلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ افغان حکومت سے رابطہ کر کے ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کی فوری ضروریات کے لیے ریسکیو ٹیمیں، میڈیکل سہولیات اور امدادی سامان فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت متاثرین کی بحالی اور دیگر ضروریات میں بھی ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
علی امین گنڈاپور نے واضح کیا کہ مشکل کی اس گھڑی میں صوبائی حکومت افغان عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور زلزلہ متاثرین کے لیے ہر طرح کی امداد اور تعاون دینے کے لیے مکمل تیار ہے۔

faisal-kareem-kundi

گورنر خیبرپختونخوا نے افغان زلزلہ متاثرین کی امداد کی یقین دہانی

گورنر خیبرپختونخوا نے افغان زلزلہ متاثرین کی امداد کی یقین دہانی
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور افغانستان میں شدید زلزلے کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
گورنر نے کہا کہ سینکڑوں قیمتی جانوں کے ضیاع پر وہ اور خیبرپختونخوا کے عوام تعزیت پیش کرتے ہیں اور دکھ کی اس گھڑی میں افغان حکومت و افغان عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے افغان قونصل جنرل کو یقین دلایا کہ صوبائی حکومت

زلزلہ متاثرین کے لیے ہر ممکن امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے گورنر کی ہمدردی اور دکھ بانٹنے پر شکریہ ادا کیا اور تعاون پر اظہار اطمینان کیا۔

WhatsApp Image 2025-09-02 at 13.39.33_1075bd5b

قومی نعت خوانی مقابلوں میں اباسین آرٹس کونسل کی خواتین کی شاندار کارکردگی

قومی نعت خوانی مقابلوں میں اباسین آرٹس کونسل کی خواتین کی شاندار کارکردگی
ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے اشتراک اور وزارت مذہبی امور کی معاونت سے منعقدہ 41 ویں سالانہ قومی مقابلہ نعت خوانی میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی کرنے والی ہزارہ اباسین آرٹس کونسل کی خواتین نعت خوانوں نے شاندار

 

کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کی دونوں کٹیگری میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
15 سال سے کم عمر بچیوں میں ایبٹ آباد کی مدیحہ دلدار اور 15 سے 25 سال کی کٹیگری میں زینب نور نے اول پوزیشن حاصل کی جبکہ 15 سال سے کم عمر بچوں میں حافظ انعام القدوس نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ مقابلے کا انعقاد نیشنل کونسل آف دی آرٹس آڈیٹوریم اسلام آباد میں ہوا جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف مہمان خصوصی تھے۔ ججز کے فرائض نامور قومی ایوارڈ یافتہ نعت خوان الحاج نور محمد جلال، سید سلیمان الکونین اور سید زبیب مسعود شاہ نے انجام دیے۔
سالانہ مقابلے میں 15 سال سے کم عمر بچوں میں پہلی پوزیشن عبدالرحمن، دوسری طلحہ ہاشمی اور تیسری حافظ انعام القدوس نے حاصل کی۔ بچیوں میں مدیحہ دلدار نے اول، نور الہدی نے دوسری اور جویریہ جمشید نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 15 سے 25 سال کی کٹیگری میں مردوں میں غلام مصطفی نے اول، صادق علی نے دوسری اور عابد گلزار نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ خواتین میں زینب نور نے اول، عریبہ شفیق دوسری اور زرینہ بی بی تیسری پوزیشن حاصل کی۔
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اپنی کامیابی ہزارہ اباسین آرٹس کونسل کے روح رواں استاد حافظ جنید مصطفی، شعبہ نعت کے انچارج طاہر منیر اعوان، سکول کے اساتذہ اور والدین کی محنت کا نتیجہ قرار دیا۔ اس شاندار کارکردگی پر ہزارہ اور بالخصوص ایبٹ آباد کے عوام نے بھی ان طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ قومی سطح پر کامیاب پوزیشن حاصل کرنے والوں کو نقد انعامات اور تعریفی اسناد بھی دی گئیں۔

Pashtun Belt face grave challenges

پشتون بیلٹ کو درپیش سنگین مسائل

عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مختلف علاقوں پر مشتمل پشتون بیلٹ کو بیک وقت متعدد ایسے مسایل اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کو حل کئے بغیر عوام کے بنیادی حقوق اور سماجی ، معاشی مشکلات کے خاتمے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ سب سے بڑا مسئلہ اس پورے بیلٹ میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کا ہے ۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے پوری شدت کے ساتھ مختلف شکلوں میں چلا آرہا ہے اور بے شمار دو طرفہ کارروائیوں کے باوجود خیبرپختونخوا ، بلوچستان اور افغانستان کے سرحدی صوبوں میں امن قائم نہیں ہو پارہا بلکہ وقتاً فوقتاً دہشت گردی بوجوہ بڑھتی دکھائی دی جس نے نہ صرف انفراسٹرکچر اور گورننس کے ایشوز میں پیچیدگیاں اور کمزوریاں پیدا کیں بلکہ ہزاروں افراد کی جانیں بھی چلی گئیں ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے پشتون علاقے ہی اس تمام صورتحال سے بری طرح متاثر ہوتے آرہے ہیں ۔کالعدم ٹی ٹی پی نے گزشتہ روز ماہ اگست کے دوران خیبرپختونخوا کے اندر ہونے والے حملوں کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق صوبے کے تقریباً 24 اضلاع میں حملے کیے گئے ہیں جن میں رپورٹ کے دعوے کے مطابق 800 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے ایک خصوصی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ اگست 2024 کے مقابلے میں اگست 2025 تک کے عرصے کے دوران خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کی شرح میں 15 فی صد کمی واقع ہوئی ہے ۔ ان کے بقول رواں برس نہ صرف یہ کہ پولیس نے تقریباً 600 دہشت گردوں کو نشانہ بنایا بلکہ سینکڑوں کو زخمی اور گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا ہے جن میں اہم شخصیات کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد بھی شامل ہیں ۔ ان کے بقول قبائلی علاقوں میں پولیس کی انفراسٹرکچر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی تاہم اب جہاں ایک طرف اس مسئلے کے حل پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں بلکہ جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور ریکروٹنگ پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے ۔
اگر چہ خیبرپختونخوا میں پاک فوج امن کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرتی آرہی ہے اور ساتھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے میں بھی سیکورٹی فورسز کا اہم اور فعال کردار رہا ہے تاہم صوبے کے معاملات اور مسائل اتنے زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ گورننس کے ایشوز پر بار بار سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور سب حلقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صوبائی حکومت ڈیلیور نہیں کرپارہی اور اس کی توجہ وفاقی حکومت اور مقتدرہ کے ساتھ تصادم پر مرکوز ہے ۔
اس ضمن میں حال ہی میں خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں انیوالے سیلاب اور کراؤڈ برسٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور تباہی کی صورت میں صوبائی حکومت کی کمزور حکمت عملی ایک تازہ مثال ہے جس نے سینکڑوں جانیں لیں اور صوبائی حکومت نے ماضی کی کمزوریوں سے کوئی سبق نہیں سیکھی ۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے بہتر پیشگی اقدامات کے ذریعے جانی اور مالی نقصان کو کم ترین سطح پر رکھنے میں کامیابی حاصل کی ۔ یہاں تک کہ انتہائی پسماندہ سمجھنے والے افغانستان کے جن دو تین صوبوں میں گزشتہ شب تباہ کن زلزلہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی افغان عبوری حکومت کے اداروں نے ریسکیو اور ریلیف کی مد میں خلاف توقع اس سرمے نمٹنے میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے زیادہ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا ۔
خیبرپختونخوا کی بیڈ گورننس اور روزانہ کی بنیاد پر کرپشن اور اقربا پروری کے واقعات ، اطلاعات نے پورے حکومتی نظام کو سوالیہ نشان بناکر رکھ دیا ہے اپر سے سیاسی کشیدگی کے باعث وفاقی حکومت بھی درکار تعاون فراہم کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔
اب ایک نیا چیلنج افغان مہاجرین کی واپسی کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ اگر چہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے افغانستان کے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے سرحدی رعایتیں دینے کی قرارداد منظور کی ہے اور عوام بھی زلزلہ متاثرین کی مدد کے خواہاں ہیں تاہم تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت دیگر اقدامات تو درکنار ازاخیل نوشہرہ میں مہاجرین کی واپسی کے لیے قائم کئے گئے رجسٹریشن مرکز میں دیگر سہولیات تو دور کی بات پانی جیسی ضرورت کی فراہمی کو بھی ممکن نہ بناسکی اور وہاں بچوں ، خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ ایسی ہی مشکلات کا مہاجرین کو افغانستان کے اندر بھی سامنا ہے
اپر سے چیف منسٹر علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز ایک بیان میں متنازعہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کے غیر ضروری اعلان کی صورت میں ایک نئی بحث کو جنم دینے کا ” کارڈ ” پھینک دیا ہے جو کہ جاری حالات کے تناظر میں ” پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ” سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی سمیت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی متعدد بار اس مجوزہ منصوبے کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں ۔ اس اعلان سے بہتر یہ تھا کہ وزیر اعلیٰ ان چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کی تفصیلات فراہم کرتے جن کی تعمیر کی بنیاد پر ان کی پارٹی دو تین انتخابی مہمات کے دوران دعوے کرتی رہی ہیں ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی اور بیڈ گورننس کے خاتمے کے امکانات کو عملی شکل دیتے ہوئے قدرتی آفات کی بار بار کی تباہ کاریوں کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور صوبائی حکومت اپنی موجودگی ثابت کرنے پر توجہ مرکوز کرے ۔
( 2 ستمبر 2025 )