بارشوں اور سیلاب سے 4 ہزار 349 ٹیلی کام سائٹس متاثر، 4 ہزار 137 بحال
بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 4 ہزار 349 ٹیلی کام سائٹس متاثر ہوئیں، اب تک 4 ہزار 137 ٹیلی کام سائٹس کو بحال کر دیا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 4 ہزار 349 ٹیلی کام سائٹس متاثر ہونے کے بعد اب تک 4 ہزار 137 سائٹس کو بحال کیا جاچکا ہے جب کہ 212 سائٹس تاحال متاثر ہیں، جن کی بحالی کا کام جاری ہے۔ بارش سے متاثرہ تمام 212 ٹیلی کام سائٹس پنجاب میں ہیں، جن کی بحالی کے لیے ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔
پی ٹی اے کے ذرائع کے مطابق پانی زیادہ ہونے سے بجلی کی بندش اور سائٹس پر پاور سپلائی کے مسائل ہیں، اسی لیے بحالی میں تاخیر ہورہی ہے، پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیاں متاثرہ سائٹس کی بحالی کے لیے ٹیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بارش سے متاثرہ علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی، جلد ہی تمام متاثرہ سائٹس فعال ہوجائیں گی۔
گورنر خیبر پختونخوا کا سی ایم ایچ پشاورکا دورہ
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا سی ایم ایچ پشاورکا دورہ کیا۔ گورنر خیبر پختونخوا نے بنوں ایف سی ہیڈکوارٹر حملہ کے زخمی ایس ایچ او دمساز اور پولیس کانسٹیبل انعام اللہ کی عیادت کی۔ گورنر خیبر پختونخوا نے زخمی اہلکاروں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی۔ گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس کے بہادر جوانوں نے بنوں میں خوارج کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پوری قوم ان جوانوں کی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔
چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی زیرصدارت گڈ گورننس روڈ میپ کے تحت اجلاس
چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ نے گڈ گورننس روڈ میپ کے تحت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں اعلیٰ تعلیم، ابتدائی و ثانوی تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں مقررہ اہداف پر پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز اور دیگر افسران شریک تھے۔ اجلاس میں سکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے آغاز، 100 فیصد فرنیچر کی فراہمی، ’’ہر سکول چار اساتذہ پانچ کلاس رومز‘‘ کے فارمولے پر عمل درآمد، اساتذہ کی حاضری 90 فیصد تک بڑھانے، امتحانی نظام میں اصلاحات اور کمزور ترین کارکردگی والے سکولوں کو آؤٹ سورس کرنے جیسے امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔ چیف سیکرٹری نے ہدایت کی کہ متبادل امتحانی ماڈل آئندہ میٹرک امتحانات سے پہلے ہر صورت نافذ کیا جائے اور اس کے لئے تمام ہوم ورک وقت سے پہلے مکمل کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کمزور ترین کارکردگی والے کالجوں کو آؤٹ سورس کرنے، کامرس کالجوں کو اپلائیڈ سائنس سینٹرز میں بدلنے اور طلبہ کے لیے میرٹ پر وظائف فراہم کرنے جیسے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف سیکرٹری نے واضح کیا کہ کالج اور سکول بلڈنگز کو آؤٹ سورس کرنا نجکاری نہیں بلکہ ایک انتظامی اصلاح ہے جس کے ذریعے نجی شعبے کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے گا، جبکہ سرکاری ملکیت اور ملازمین کے حقوق محفوظ رہیں گے۔
اجلاس میں بیواؤں، یتیموں، بزرگ شہریوں اور خواجہ سرا کمیونٹی کی فلاح کے لئے جاری منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ان منصوبوں میں زَمونگ کور، دارالامانز، پشاور میں سینئر سٹیزن ہوم، بریل اکیڈمی اور سنٹر آف ایکسیلنس فار آٹزم کے قیام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کو تحفظ و بااختیار کرنے کی پالیسی اور صوبے بھر میں ہاؤس ہولڈ ڈیٹا کے ذریعے سوشیو اکنامک رجسٹری کے قیام پر بھی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ چیف سیکرٹری نے متعلقہ محکموں کے سیکرٹریز کو ہدایت کی کہ اہداف کے حصول میں تیزی لائی جائے اور مقررہ مدت میں تمام منصوبے مکمل کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی دستیابی، کلاس رومز اور بنیادی سہولیات کی فراہمی معیاری تعلیم کے لئے ناگزیر ہے جبکہ کمزور ترین کارکردگی والے سکولوں اور کالجوں کو آؤٹ سورس کرنا ان اداروں کی بہتری اور طلبہ کو بہتر تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔
افغانیوں کا انخلا: خیبر پختونخوا حکومت نے میڈیکل کیمپ قائم کردیا
مشیر صحت خیبرپختونخوا کی ہدایت پر افغان ہولڈنگ کیمپ لنڈی کوتل میں نیوٹریشن کیمپ قائم کردیا گیا ہے۔ لنڈی کوتل کیمپ میں بچوں اور حاملہ خواتین کیلئے مفت غذائی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ غذائی قلت کے شکار بچوں کو خصوصی سپلیمنٹس فراہم کی جارہی ہیں۔ حاملہ خواتین کو MMS سپلیمنٹس اور غذائی مشاورت دی جارہی ہیں۔ کیمپ میں IYCF کاؤنسلنگ اور صحت و صفائی سے متعلق آگاہی سیشنز بھی دی جارہی ہیں۔ ڈی جی ہیلتھ نیوٹریشن سیل اور ڈی ایچ او خیبر کی مشترکہ کاوش سے یہ سیل قائم کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کاخسرہ مہم چلانے کا فیصلہ
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کا رواں سال نومبر میں خسرہ کے خلاف خصوصی مہم چلانے کا فیصلہ۔ صوبے بھر میں خسرہ اور روبیلا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ویکسینیشن مہم چلائی جائےگی۔ خسرہ اور روبیلا سے بچاؤ کے ٹیکہ جات کی مہم 17 نومبر سے 29 نومبر تک جاری رہے گی۔ مہم کے دوران 60 لاکھ بچوں کو خسرہ اور روبیلا سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی. ایم آر کمپین کے لئے سٹیرنگ کمیٹی کا پہلا اجلاس سپیشل سیکرٹری ہیلتھ منصور ارشد کی صدارت میں منعقد ہوا. رواں سال 3 ہزار سے زائد خسرہ کیسز رپورٹ ہوئے. گزشتہ سال صوبہ بھر میں خسرہ کے 15 ہزار سے زائد مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کی خوراک بھی دی جائے گی۔ سکولوں اور مدارس میں بچوں تک رسائی کے لئے محکمہ تعلیم کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ۔ مہم میں 1ہزار 753 فکسڈ، 4ہزار 918 آؤٹ ریچ اور 300 موبائل ٹیمیں حصہ لیں گی۔ صوبے کے 37 اضلاع اور 146 تحصیلوں میں ویکسینیشن ٹیمیں فعال رہیں گی۔
وزیر اعلیٰ کی بنیادی ذمہ داریاں
عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا گزشتہ ایک ہفتے سے دہشت گردی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کاؤنٹر ٹیررازم کے تحت کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم صوبے کے وزیر اعلیٰ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لینے کی بجائے تنازعات سے بھرے بیانات دینے میں مصروف عمل ہیں اور ان کے دو تین حالیہ بیانات یا اعلانات پر دوسروں کے علاؤہ ان کی پارٹی کے اپنے سینئر رہنما اور عہدے داران بھی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ گزشتہ روز جہاں ایک طرف بنوں میں تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن سے متاثرہ سیکیورٹی اہلکاروں کی عیادت اور شہداء کی جنازوں کا سلسلہ جاری رہا وہاں سوات کے تحصیل مٹہ کے علاقے گوالیری میں فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ایک جھڑپ میں 4 سیکورٹی اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ نصف درجن دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی زیر گردش رہیں ۔ اسی روز ضلع کرک کے علاقے بانڈہ داؤد شاہ میں پولیس پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ایس ایچ او سمیت 3 اہل کار شہید کیے گئے تو دوسری جانب کرم میں ایک گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے 6 مسافروں کو شہید کیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف کشیدگی دوبارہ جنم لینے لگی بلکہ مین شاہراہ کو بھی بند کیا گیا ۔ اسی طرح پشاور اور طورخم کے راستے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل بھی جاری رہا جو کہ بذات خود صوبائی انتظامیہ کے لیے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے ۔
مگر ان تمام تر تشویشناک اور سنگین حالات میں بھی وزیر اعلیٰ متنازعہ بیانات دیکر اپنے اور اور اپنی حکومت ، پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے جس کا انہوں یہ کہہ کر خود اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی انتشار کا شکار ہوگئی ہے اور ان کے خلاف پارٹی کے اندر سے سازشیں ہورہی ہیں ۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیلاب پر پریس کانفرنس کے دوران اپنی حکومت کی کارکردگی بتانے کی بجائے بے وقت کی ” راگنی” چھیڑتے ہوئے تجویز پیش کی کہ وہ نہ صرف یہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت میں مہم چلائیں گے بلکہ اس کی تعمیر کے لیے صوبے کی جانب سے ” چندہ ” بھی دیں گے تاکہ سیلابی صورتحال پر قابو پایا جاسکے حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں صرف دریائے سندھ کے پانی کو مینیج کیا جاسکتا ہے اور اسے پہلے ہی سے غازی بھروتہ پراجیکٹ کے ذریعے پنجاب کی سائیڈ پر منتقل کیا گیا ہے ۔
ان کے اس بیان پر نہ صرف سندھ حکومت ، پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی نے شدید مخالفانہ ردعمل کا اظہار کیا بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے علاؤہ تین اہم قائدین اسد قیصر ، سلمان اکرم راجہ اور جنید اکبر خان نے رسمی طور پر موقف اختیار کیا کہ کالاباغ ڈیم سے متعلق وزیر اعلیٰ کا بیان پارٹی پالیسی نہیں ہے اور یہ کہ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس قسم کے کسی متنازعہ منصوبے کو شروع نہیں کیا جاسکتا تاہم وزیر اعلیٰ نے گزشتہ روز پھر سے اپنے ” عزم” کو دہرایا اور ساتھ میں وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار بھی کیا حالانکہ وہ پہلے دن سے وفاقی حکومت کو فارم 47 کا ” نتیجہ” قرار دیتے رہے ہیں ۔ اس پر بھی ان کو اپنی پارٹی کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے ” کھلاڑی” ہیں ۔
قبل ازیں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا میں تین چار ڈیمز زیر تعمیر ہیں مگر ان کے نام نہیں بتائے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعلیٰ ایک جنگ زدہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے متنازعہ ایشوز پر بات کرنے کی بجائے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال ، بیڈ گورننس ، جاری کرپشن ، مہاجرین کی واپسی اور سیاسی کشیدگی جیسے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں اور پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور نئے تنازعات پیدا کرنے کی اپنی عادت ترک کرکے ذمہ داری کا رویہ اختیار کریں تاکہ عوام کو تحفظ اور ریلیف دینے کا راستہ ہموار ہو ۔
( 4 ستمبر 2025 )
کرم میں پاک فوج کے زیر اہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس
پاک فوج کے زیر اہتمام ضلع کرم میں دیرپا امن کے قیام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس کوہاٹ میں منعقد ہوئی جس میں جی او سی 9 ڈویژن اور معروف مذہبی اسکالر علامہ ڈاکٹر مفتی راغب حسین نعیمی مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس میں علمائے کرام، سول انتظامیہ، قبائلی مشران، طلباء اور 120 سے زائد معززین نے شرکت کی۔
اہل سنت اور اہل تشیع کے علمائے کرام نے اپنے خطابات میں اتحاد، امن، رواداری، معافی اور محبت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی باہمی اتفاق و یکجہتی میں مضمر ہے۔
جی او سی نے اپنے خطاب میں کرم میں امن کے قیام میں قبائلی عمائدین کے کردار کو سراہا اور کہا کہ بھائی چارے اور امن معاہدوں پر عمل درآمد سے ہی پائیدار استحکام ممکن ہے۔ کمشنر کوہاٹ نے کانفرنس سے خطاب میں اسلحہ اور بنکروں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ امن معاہدے کے مؤثر نفاذ پر زور دیا۔
اجلاس کے اختتام پر علما کرام اور شرکاء نے مشترکہ “اعلامیہ برائے بین المسالک ہم آہنگی” جاری کیا جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ضلع کرم میں ہم آہنگی، بھائی چارے اور امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے سب طبقے مل کر کردار ادا کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اسلام باہمی محبت، اخوت اور احترام کا درس دیتا ہے اور اختلافِ رائے کو دشمنی کا ذریعہ بنانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
اعلامیے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بطور مسلمان ہر قسم کی شدت پسندی اور بدامنی کی مذمت سب پر لازم ہے، ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون دینی فریضہ ہے، شہری امن معاہدے کی پاسداری کریں، غیر قانونی ہتھیار جمع کرانے اور مورچوں کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔ مزید کہا گیا کہ شرپسند عناصر کے خلاف قانونی کارروائی میں ریاست کی مدد اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہمات سے گریز سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
شرکاء نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر پاک فوج کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ اقدام خطے میں پائیدار امن کے قیام میں سنگ میل ثابت ہوگا۔